Jasarat News:
2025-12-15@02:24:04 GMT

یقین سے شک تک

اشاعت کی تاریخ: 15th, December 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ہماری فکری اور تہذیبی شکست کا آغاز کسی بیرونی حملے یا فوجی یلغار سے نہیں ہوا تھا۔ یہ شکست اْس دن شروع ہوئی جب ہم نے یہ فرض کر لیا کہ کائنات کا اصل مرکز انسان ہے اور خدا محض ایک اخلاقی حوالہ یا روحانی سہارا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب علم کا محور بدل گیا، یقین سے وابستہ دنیا تحلیل ہونے لگی اور شک کے دروازے کھل گئے۔ کبھی علم کا مقصد معرفت تھا، کائنات کے پردوں کے پیچھے موجود حکمت کو سمجھنا، زندگی کے رموز کو جاننا اور اپنے وجود کے اسرار تک پہنچنا۔ مگر آج علم کا مقصد صرف سہولت ہے، آسائش ہے اور انسان کے ظاہری جسم کی ضروریات پوری کرنا ہے۔ علم کا رشتہ روح سے نہیں رہا، جیب سے رہ گیا ہے۔ جب سے انسان نے یہ تصور اپنا لیا کہ جو دکھائی نہ دے وہ حقیقت نہیں، جو ماپا نہ جائے وہ علمی نہیں، جو تجربے میں نہ آئے وہ معتبر نہیں اسی دن سے غیب غیر علمی ٹھیرا، روح مشکوک ہو گئی، اور خدا کا ذکر انفرادی عقیدے کی حد تک محدود کر دیا گیا۔ یقین کو دقیانوسی کہا گیا اور وحی کو غیر سائنسی قرار دے دیا گیا۔ یہ چھوٹی سی فکری سرکشی آگے چل کر پوری تہذیب کی بنیادیں ہلا گئی۔ انسان نے خود کو عقل ِ کل سمجھ کر کائنات میں وہ مقام حاصل کرنا چاہا جو کبھی صرف خالق کے لیے مخصوص تھا، اور اسی جدوجہد میں وہ اپنی حقیقت سے بہت دور نکل گیا۔

جب علم کو لذت کا خادم بنا دیا جائے تو علم اپنی روح کھو دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جدید یونیورسٹیاں دانش گاہیں نہیں رہیں، مہارت فیکٹریاں بن گئی ہیں۔ اب طالب علم اس لیے نہیں پڑھتا کہ اسے دنیا کی حقیقت سمجھنی ہے، بلکہ اس لیے پڑھتا ہے کہ اسے ایک اچھی نوکری چاہیے، زیادہ کمائی چاہیے، بہتر سہولتیں چاہئیں۔ اس سوچ نے علم کو سطحی بنا دیا ہے۔ پہلے فلسفہ انسان کے باطن میں اُترا کرتا تھا، اب انسان لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھ کے اپنے ہی وجود پر سوال اٹھانے سے ڈرتا ہے۔ پہلے مطالعہ انسان کو وسعت دیتا تھا، اب زیادہ تر لوگ وہی پڑھتے ہیں جو اْن کی خواہشات کو تقویت دے۔ پہلے علم انسان کو آسمان تک لے جاتا تھا، آج علم انسان کو زمین سے باندھ کر رکھتا ہے، جہاں وہ اپنے جسم کو تندرست رکھنے، اپنی خواہشات کو پورا کرنے اور اپنی دولت بڑھانے میں ہی الجھا رہتا ہے۔ یہ تبدیلی صرف ذہن تک محدود نہیں رہی، ہمارے رشتوں، تعلقات اور معاشرت تک بھی اُتر آئی۔ جو نکاح کبھی روحانی میثاق تھا، دو انسانوں کا خدا کی رضا کے تحت باہم جڑ جانا تھا، آج وہ ایک سماجی کنٹریکٹ بن کر رہ گیا ہے۔ ایسا کنٹریکٹ جس کا مقصد اخلاقی ذمے داری نہیں بلکہ باہمی سہولت ہے۔ جب دو لوگ ایک دوسرے سے سہولت لینا شروع کر دیتے ہیں، تو محبت پیچھے رہ جاتی ہے اور خود غرضی آگے آ جاتی ہے۔ اسی لیے جدید دور میں رشتے مضبوط نہیں رہے۔ ازدواجی تعلق کا درجہ گھٹ کر ’’partnership‘‘ رہ گیا ہے، اور partnership کا اصول ہی یہ ہے کہ جہاں فائدہ ختم، وہاں تعلق ختم۔

بچوں کی پرورش بھی ایک روحانی ذمے داری کے بجائے تکنیکی مسئلہ بن گئی ہے۔ پہلے ماں باپ کی قربانیوں میں عظمت تھی، آج انہیں غیر ضروری مشقت سمجھا جاتا ہے۔ پہلے والدین کی خدمت زندگی کا امتحان تھی، آج یہ ایک جذباتی بوجھ محسوس ہونے لگی ہے۔ والدین اولڈ ہومز میں منتقل کر دیے جاتے ہیں اور بچوں کو ڈے کیئرز میں۔ کبھی گھر ایک روحانی دائرہ تھا، آج وہ چار دیواری ہے جس میں لوگ ایک ساتھ رہتے تو ہیں مگر دل ایک نہیں ہوتا۔

اخلاقیات کا بحران بھی اسی فکری تبدیلی کی پیداوار ہے۔ جب انسان خیر و شر کے پیمانے وحی کے بجائے عقل کے سپرد کر دیتا ہے تو ہر فرد اپنی اخلاقیات خود بنانے لگتا ہے۔ ایک انسان کہتا ہے کہ لذت سب سے بڑی خیر ہے، دوسرا کہتا ہے آزادی خیر ہے، تیسرا کہتا ہے خواہش خیر ہے، اور چوتھا کہتا ہے کوئی خیر سرے سے موجود ہی نہیں۔ اس افراتفری میں ایسے اعمال جنہیں کبھی انسانیت کی تاریخ میں بدترین جرم سمجھا گیا؛ مثلاً ہم جنس پرستی، جنسی انارکی، خاندانی ڈھانچے کی توڑ پھوڑ، اور حتیٰ کہ حیاء کے بنیادی تصور کی بے حرمتی انہیں ’’حق‘‘ اور ’’انسانی آزادی‘‘ کا نام دے دیا گیا۔ جب خیر کا تصور مسخ ہو جائے تو برائی اپنے چہرے پر میک اپ کر لیتی ہے اور معاشرہ اسے حسن سمجھنے لگتا ہے۔

سیاست اور ریاست بھی اسی فکری تحلیل کی زد میں آئیں۔ پہلے ریاست کا مقصد انسانوں میں عدل قائم کرنا، اخلاقیات کو مضبوط کرنا اور معاشرے کو اعلیٰ اقدار کی طرف لے جانا تھا۔ مگر جدید ریاست کا مقصد عوام کی خواہشات پوری کرنا ہے، خواہ وہ خواہشات کتنی ہی ناپختہ، سطحی یا انسانیت دشمن کیوں نہ ہوں۔ پہلے قانون وحی سے پھوٹتا تھا، اب قانون بازار سے نکلتا ہے۔ پہلے اخلاقیات ریاست سے بالاتر اصول تھی، اب اخلاقیات کو ریاست کی ضرورتوں کے مطابق ڈھالا جاتا ہے۔ عوام اگر کل کو یہ فیصلہ کر لیں کہ نکاح کی کوئی ضرورت نہیں، خاندان غیر ضروری ہے، لذت انسانی حق ہے اور مادہ زندگی کا مقصد ہے، تو جدید ریاست ان خواہشات کو قانون بنا دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج قانون کا سرچشمہ اخلاقیات نہیں بلکہ معاشی مفادات ہیں۔

انسانی نفسیات پر اس تہذیبی بگاڑ کے اثرات سب سے زیادہ واضح ہیں۔ روح کو بھوک لگے تو جسم کبھی سیر نہیں ہو سکتا، مگر جدید انسان نے پوری توجہ جسم کو دے دی ہے اور روح کو بھول گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر میں بے چینی، ڈپریشن، تنہائی، ذہنی خلفشار اور بے مقصدیت کی شرح تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔ انسان کے پاس دولت ہے، آسائشیں ہیں، ٹیکنالوجی ہے، علاج ہیں مگر دل میں سکون نہیں۔ کبھی عبادت روحانی بالیدگی کا ذریعہ تھی، اب لوگ روح کے خلا کو meditational apps, motivational videos اور self-help کتابوں سے بھرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر یہ عارضی مرہم ہیں، زخم جوں کا توں رہتا ہے کیونکہ زخم کا تعلق جسم سے نہیں روح سے ہے۔

اسلام کے نزدیک دنیا ایک عارضی پڑاؤ ہے۔ انسان یہاں اپنی صلاحیتوں کو آزمانے بھیجا گیا ہے، امتحان دینے کے لیے، اور اپنے اندر چھپی ہوئی اخلاقی توانائی کو بیدار کرنے کے لیے۔ مگر جدیدیت نے دنیا کو دائمی حقیقت بنا دیا ہے، جس کے نتیجے میں انسان نے اپنی تمام توانائیاں صرف اس مختصر زندگی کے گرد مرکوز کر لیں۔ پہلے انسان دنیا کو ایک ذریعہ سمجھتا تھا، آج اسے مقصد سمجھ بیٹھا ہے۔ اسی لیے جدید انسان دنیا کو جتنا حاصل کرتا ہے، دنیا اتنی ہی اس کے اندر خلا پیدا کرتی ہے۔ وہ چیزیں بڑھاتا ہے مگر خود کم ہوتا جاتا ہے۔ یہی وہ بنیادی تہذیبی ٹکراؤ ہے جس نے آج انسانیت کو دو راستوں پر کھڑا کر دیا ہے۔ ایک راستہ وہ ہے جو انسان کو اس کی اصل طرف لے جاتا ہے اپنے خالق کی طرف، اپنے مقصد ِ وجود کی طرف، اپنے باطن کی روشنی کی طرف۔ دوسرا راستہ وہ ہے جو انسان کو خواہشات کی غلامی میں گرفتار کرتا ہے، جہاں سب کچھ ہے مگر سکون نہیں، کامیابی ہے مگر مقصد نہیں، علم ہے مگر بصیرت نہیں۔

آخر میں اصل سوال یہی ہے کہ ہم کس راستے کے مسافر ہیں؟ وہ راستہ جو انسان کو بلند کرتا ہے، یا وہ جو انسان کو اس کے اپنے نفس کا غلام بنا دیتا ہے؟ ہم اس دنیا کی ظاہری روشنی میں کھو رہے ہیں یا اندر کی تاریکی کو دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ ہماری دوڑ ترقی کے نام پر ہے یا بھاگنے کے نام پر؟ ہم اپنی روح کو جگانا چاہتے ہیں یا اسے نیند میں رکھ کر دنیا کی جھوٹی چمک پر تکیہ کرنا چاہتے ہیں؟ یہ وہ فیصلے ہیں جو قوموں کو مراتب دیتے ہیں یا زوال۔ اور آج انسانیت اس دوراہے پر کھڑی ہے جہاں ہر قدم یا تو اسے اوپر لے جا سکتا ہے یا سیدھا اندھیرے میں دھکیل سکتا ہے۔ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم اپنی اگلی نسل کو کون سی دنیا دے کر جانا چاہتے ہیں وہ دنیا جس میں انسان اپنے ربّ، اپنی فطرت اور اپنی حقیقت سے جڑا ہوا ہو، یا وہ دنیا جس میں انسان خواہشات کا غلام ہو کر خود کو بھی بھول جائے اور خدا کو بھی۔

محمد ادریس لاشاری سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جو انسان کو جاتا ہے کہتا ہے کا مقصد ہے اور کی طرف ہے مگر علم کا گیا ہے

پڑھیں:

گراما کی عظمت: ایک کچھوے کو الوداع، اور ایک گرم ہوتی دنیا کے لیے بیداری کا پیغام

گراما کی عظمت: ایک کچھوے کو الوداع، اور ایک گرم ہوتی دنیا کے لیے بیداری کا پیغام WhatsAppFacebookTwitter 0 13 December, 2025 سب نیوز

ایسل الہام


موسمیاتی گورننس تجزیہ کار

ایک ایسی دنیا میں جہاں ہر چیز تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے، گراما نامی کچھوا اپنی ہی رفتار سے چلتی رہی آہستہ، پُرسکون، اور وقار کے ساتھ۔ 1884 میں پیدا ہونے والی گراما نے 2025 میں وفات پائی، اور یوں تین صدیوں پر محیط زندگی گزار کر وہ نہ صرف ایک جاندار بلکہ ایک زندہ تاریخ بن گئی۔ اس نے سلطنتوں کے عروج و زوال، ہوائی جہاز اور انٹرنیٹ کی ایجاد، اور زمین کے بدلتے موسموں کو خاموشی سے دیکھا۔ اس کی زندگی صرف طویل نہیں تھی، بلکہ زمین کے بدلتے ہوئے مزاج کی ایک خاموش گواہی بھی تھی۔

جب سان ڈیاگو چڑیا گھر نے اپنی سب سے معمر رہائشی کو الوداع کہا، تو دنیا نے ایک لمحے کو رک کر سوچا۔ گراما صرف ایک کچھوا نہیں تھی وہ استقامت، پُرامن بڑھاپے، اور اس خاموش حکمت کی علامت تھی جو صرف وقت کے ساتھ آتی ہے۔ اس کی موت صرف ماہرینِ حیوانات یا جانوروں سے محبت کرنے والوں کے لیے نقصان نہیں، بلکہ ہم سب کے لیے ایک اجتماعی لمحۂ فکریہ ہے جو اس نازک سیارے پر سانس لیتے ہیں۔

گراما کا تعلق گیلاپیگوس کچھووں کی نسل سے تھا، جو کبھی ہزاروں کی تعداد میں ایکواڈور کے آتش فشانی جزیروں پر پائے جاتے تھے۔ مگر انسانی مداخلت، غیر ملکی انواع، اور موسمیاتی تبدیلی نے ان کے وجود کو خطرے میں ڈال دیا۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت، بارشوں کے غیر متوقع پیٹرن، اور سمندر کی سطح میں اضافہ اب ان نازک ماحولیاتی نظاموں کو متاثر کر رہے ہیں جنہوں نے گراما جیسے جانداروں کو صدیوں تک پناہ دی۔ اس کی موت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ حتیٰ کہ سب سے زیادہ پائیدار مخلوقات بھی ایک ایسی دنیا میں غیر محفوظ ہو سکتی ہیں جو توازن کھو چکی ہو۔

پاکستان میں بھی ہم اسی بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ 2022 کے تباہ کن سیلاب ہوں یا حالیہ برسوں کی شدید گرمی کی لہریں موسمیاتی تبدیلی اب کوئی دور کا خطرہ نہیں بلکہ ایک روزمرہ حقیقت بن چکی ہے۔ ہمارے گلیشیئرز پگھل رہے ہیں، دریا سکڑ رہے ہیں، اور حیاتیاتی تنوع خطرے میں ہے۔ سندھ ڈیلٹا، جو کبھی زندگی کا گہوارہ تھا، اب سمندر کی چڑھتی سطح اور اوپر کی سطح پر پانی کی غیر منصفانہ تقسیم کے باعث پیچھے ہٹ رہا ہے۔ کئی بستیاں صرف جنگ یا سیاست نہیں بلکہ پانی کی زیادتی یا قلت کے باعث اجڑ رہی ہیں۔ ایسے میں گراما کی یاد ہمیں ایک اور سبق دیتی ہے: کہ بقا کی کنجی تیز رفتاری میں نہیں بلکہ ہم آہنگی میں ہے۔

گراما کی زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ہمیں بھی اپنے فیصلوں میں ٹھہراؤ اور دور اندیشی اپنانی ہوگی۔ ایک ایسے ملک میں جہاں ترقی اکثر پائیداری سے آگے نکل جاتی ہے، ہمیں سست روی میں حکمت تلاش کرنی ہوگی۔ ہمیں اگلے انتخابات نہیں بلکہ اگلی صدی کے لیے منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ پاکستان نے کچھ اہم اقدامات کیے ہیں جیسے بلین ٹری سونامی، لیونگ انڈس انیشی ایٹو، اور موسمیاتی لحاظ سے مضبوط انفراسٹرکچر کی کوششیں۔ یہ صرف پالیسی نہیں بلکہ امید کے بیج ہیں۔ مگر ہمیں مزید آگے بڑھنا ہوگا۔

ہمیں ہر شہر میں شہری جنگلات اور سبز راہداریاں درکار ہیں صرف خوبصورتی کے لیے نہیں بلکہ ماحولیاتی تحفظ کے لیے۔ ہمیں قدرتی حل اپنانے ہوں گے جیسے دلدلی علاقوں کی بحالی، بارش کے پانی کو محفوظ کرنا، اور ایسے جنگلی حیات کے راستے بنانا جو بدلتے موسموں میں جانوروں کو نقل مکانی کی سہولت دیں۔ ہمیں ایسی ماحولیاتی تعلیم کی ضرورت ہے جو صرف سائنسی معلومات نہ دے بلکہ فطرت کے لیے احترام بھی سکھائے خاص طور پر ان جانداروں کے لیے جو آہستہ چلتے ہیں، طویل جیتے ہیں، اور خاموشی سے ہمیں زندگی کے گہرے سبق سکھاتے ہیں۔

گراما کی موت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ سب سے طاقتور وجود ہمیشہ شور مچانے والے نہیں ہوتے۔ اس کی خاموشی میں ایک ٹھنڈی، پُرسکون زمین کی یاد تھی۔ اس کی مضبوطی میں یہ پیغام تھا کہ اصل طاقت غلبے میں نہیں بلکہ بقائے باہمی میں ہے۔ اس کی زندگی صدیوں کو جوڑنے والا ایک پل تھی زمین کی برداشت کی زندہ علامت اور ایک انتباہ کہ اگر ہم نے احتیاط نہ کی تو یہ طویل زندگیاں بھی وقت سے پہلے ختم ہو سکتی ہیں۔

آئیے ہم اسے صرف الفاظ سے نہیں بلکہ عمل سے خراجِ تحسین پیش کریں۔ آئیے ایسا پاکستان بنائیں جہاں آنے والی نسلیں انسان ہوں یا دیگر مخلوقات سکون، حکمت، اور ہم آہنگی سے جی سکیں۔ آئیے یاد رکھیں کہ موسمیاتی تبدیلی کی دوڑ میں شاید جیت اب بھی کچھوے کی ہو۔ گراما کی یاد میں، ہمیں چاہیے کہ ہم رکیں، سنیں، اور عمل کریں نہ کہ جلد بازی میں، بلکہ اس دانائی کے ساتھ جو صرف وقت اور زمین سے محبت کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرانتہا پسندانہ نظریات اور تقسیم پسند قوتوں سے نمٹنے کےلیے مکمل تیار ہیں، فیلڈ مارشل میدان کے ہیرو میاں جی اور موبائل فون بھارتی طیاروں کا بحران: جنگ سے ایئر شو تک بت شکنوں کا بت پرستوں سے سودا نظام بدلنا ہوگا۔ صدارتی استثنیٰ: اختیار اور جواب دہی کے درمیان نازک توازن TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • 10 دسمبر ، انسانی حقوق کا عالمی دن اور مزدور طبقہ
  • امریکہ کی ناکامی اور دلدل میں دھنستا عالمی سامراج(3)
  • دنیا ایک اور جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی
  • ایک عام سی بات
  • گراما کی عظمت: ایک کچھوے کو الوداع، اور ایک گرم ہوتی دنیا کے لیے بیداری کا پیغام
  • غزہ، امن کا منظر نامہ دھندلا رہا ہے
  • یورپ کی سڑکوں پر فلسطین کی پکار؛ عالمی ضمیر کی بیداری
  • اللہ میاں کی Fan Following
  • افغان وزیر خارجہ کی اپنی سرزمین دوسرے ملک کیخلاف استعمال نہ کرنیکی یقین دہانی