وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف سے بات کر رہے ہیں، بجلی 10 سے 12 روپے فی یونٹ سستی کر سکتے ہیں۔

پارلیمنٹ ہاوس میں میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات کا اثر عام آدمی تک پہنچ چکا ہے، بجلی صارفین کے لیے قیمتیں کم ہوئی ہیں، گیارہ سو ارب روپے کی بچت کر چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات میں اب حکومتی پاور پلانٹس کی باری ہے، تمام آئی پی پیز کے معاہدوں پر نظر ثانی ہو گی، نظر ثانی کے بعد عوام کو بہت اچھی بچت ہو گی، مزید پندرہ آئی پی پیز کے معاہدوں کو کابینہ میں لے کر جا رہے ہیں۔

اویس لغاری نے کہا کہ کے الیکٹرک ملٹی ایئر ٹیرف کی مد میں بہت بڑی رقم مانگی ہے، ہمارے خیال میں یہ ملٹی ایئر ٹیرف اتنا نہیں بنتا، کم ہونا چاہئے، نیپرا پاکستان کی عوام کا مفاد مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرے گا۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ وزیر اعلی کے پی کے سے کنڈا کلچر خاتمے پر ملاقات ہوئی تھی، کنڈا کلچر پر وزیر اعلی کی پی کے کی کارکردگی ٹھیک نہی تھی۔

قبل ازیں قومی اسمبلی کی پاور کمیٹی کے اجلاس میں اویس لغاری نے کہا کہ بجلی کی کل قمیت کا 75فیصد کیپسٹی چارجز ہیں، وزیر اعلی کے پی کے ساتھ چار ملاقاتیں ہوئی ہیں، ان کی خواہش کے مطابق سب سے زیادہ چوری ہونے والے فیڈرز پر بجلی کھلی چھوڑی، معاہدہ کیا ہوا تھا آج چیئرمین کمیٹی کو دے دیں گے، شرط یہ تھے کہ پہلے بجلی کھولیں پھر عوام سے کنڈے اترواؤں گا۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ 75 دن اس پر عمل کیا، کتنے فیڈرز کو کتنی بجلی کھلی چھوڑی گئی تفصیل دوں گا ، انتظامیہ نے ہماری مدد نہیں کی، کنڈے نہیں اتروائے، چھ ارب کا اضافی نقصان ہماری کمپنی کو ہوا، کئی فیڈرز پر دو گھنٹے بجلی موجود ہے، کے پی کے کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں۔

اویس لغاری نے کہا کہ کیپٹو کی گیس کے حوالے سے ایک ماہ میں فیصلہ ہوگا، رہائشی صارفین کو بھی بجلی ٹیرف میں چار روپے کا ریلیف مل چکا، بجلی کی قیمت 10 سے 12 روپے فی یونٹ کم کرسکتے ہیں، پانچ أئی پی پیز کے ساتھ معاہدے ختم ہوچکا ، آٹھ بیگاس کے ٹیرف نظرثانی کی کابینہ منظوری دے چکی، سولہ آئی پی پیز کے ساتھ بات چیت جاری ہے اس کے بعد حکومتی آئی پی پیز کی باری ہے۔

وفاقی وزیر نے بتایا کہ اس کے بعد حکومتی پلانٹس کے ریٹرن آن ایکوئٹی کی باری آئے گی، آئندہ پانچ سے سات سال میں کے الیکڑک کا 500 ارب روپے منافع مانگا جارہا ہے،
ہمارےخیال میں یہ ناجائز ہے، فیصلہ نیپرا نے کرنا ہے، اس سے خیبر پختونخواہ کا صارف بھی متاثر ہوگا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: آئی پی پیز کے

پڑھیں:

حکومتی یوٹرن، گرڈ کی کمزوریوں سے صاف توانائی منتقلی مشکلات کا شکار

اسلام آباد:

پاکستان میں توانائی کا شعبہ ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے، جہاں پالیسی سمت اور اس کے عملی نفاذکے درمیان بڑھتا ہوا تضاد ملک کی صاف توانائی کی منتقلی کو شدید خطرے میں ڈال رہا ہے۔ 

حکومت، جو ایک وقت میں گھریلو اور تجارتی سطح پر شمسی توانائی کو بجلی کے بڑھتے نرخوں اور توانائی کی عدم تحفظ کا دیرپا حل قرار دیتی تھی، اب نیٹ میٹرنگ پالیسی میں یوٹرن لے رہی ہے، اس فیصلے نے عوام اور کاروباری طبقے کو حکومت کی قابلِ تجدید توانائی کے عزم پر سوالات اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ 

ملک میں گرمیوں کے دوران بجلی کی طلب 29  ہزارمیگاواٹ تک پہنچ جاتی ہے جبکہ نصب شدہ پیداواری صلاحیت  46 ہزار میگاواٹ سے تجاوزکر چکی ہے، اس کے باوجود ناقص گرڈ ڈھانچے، درآمدی ایندھن پر بڑھتے انحصار اور پیداواری صلاحیت کے ناکافی استعمال کی وجہ سے بجلی کی ترسیل غیر مؤثر ہو چکی ہے۔

2022 سے 2024 کے درمیان شمسی توانائی، خاص طور پر چھتوں پر لگے سولر سسٹمز میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ نیٹ میٹرنگ اسکیم کے تحت رجسٹرڈ صارفین کی تعداد 2.8 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور مجموعی صلاحیت 2813 میگاواٹ تک پہنچ گئی ہے۔

تاہم حالیہ حکومتی فیصلے کے تحت نیٹ میٹرنگ کے نرخ کو 27 روپے فی یونٹ سے گھٹاکر 10 روپے کرنے سے شمسی توانائی میں سرمایہ کاری کرنے والوں میں شدید مایوسی پھیل گئی ہے۔

پاکستان انڈسٹریل اینڈ ٹریڈرز ایسوسی ایشنز فرنٹ کے سرپرست اعلیٰ میاں سہیل نثار نے کہاکہ شمسی توانائی کی منتقلی، جسے ایک وقت میں پاکستان کے توانائی کے مستقبل کی بنیاد سمجھا جاتا تھا، اب حکومت کی نظر میں بوجھ بن چکی ہے، یہ پالیسیاں عوامی اعتماد اور سرمایہ کاروں کے حوصلے کو تباہ کر رہی ہیں۔

توانائی ماہرین کاکہنا ہے کہ نیٹ میٹرنگ پالیسی میں تبدیلی کی اصل وجہ مالیاتی دباؤ ہے، شمسی صارفین کے گرڈ پر کم انحصار اور زائد بجلی کی فروخت کے باعث بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں اپنے بنیادی اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہو گئی ہیں، صرف 2024 میں ہی گرڈ پر انحصار کرنیوالے صارفین پر 159 ارب روپے کا اضافی بوجھ منتقل ہوا، اگر یہی صورتحال جاری رہی تو آئندہ دہائی میں یہ عدم توازن 4000 ارب روپے تک جا سکتا ہے۔

سابق پاور سیکٹر افسر کے مطابق مسئلہ شمسی توانائی نہیں، بلکہ ناقص منصوبہ بندی ہے، حکومت نے گرڈ کو اپ گریڈ کرنے میں کوتاہی کی، اب وہ اپنی ناکامی کا ملبہ سولر صارفین پر ڈال رہی ہے۔

ماہرین کاکہنا ہے کہ نئے 'گراس میٹرنگ' ماڈل کو مرحلہ وار متعارف کرانا چاہیے تھا ، اس تبدیلی نے ان صارفین کو بھی مایوس کیا ہے جنہوں نے حکومت کی ترغیب پر بھاری سرمایہ کاری کی تھی اور اب وہ اپنے مالی نقصان، غیر یقینی بلنگ اور ممکنہ طور پر اسمارٹ میٹرزکی خفیہ تبدیلی جیسے خدشات کا سامنا کر رہے ہیں۔

توانائی تجزیہ کار فرید حسین کا کہنا تھا کہ ہماری سب سے بڑی ناکامی جامع اور مربوط توانائی روڈ میپ کی عدم موجودگی ہے، وقتی پالیسیوں سے دیرپا تبدیلی ممکن نہیں، توانائی شعبے کا گردشی قرضہ 2.6 ٹریلین روپے سے تجاوزکر چکااور حکومت نے ناقص نظام کو درست کرنے کے بجائے بوجھ صارفین پر ڈالنا شروع کر دیا ہے۔

ماہرین اور صنعت کاروں کا متفقہ مطالبہ ہے کہ پاکستان کو واضح اور مستقل توانائی حکمت عملی کی ضرورت ہے، بصورت دیگر ملک ان ہی متبادل توانائی حلوں سے ہاتھ دھو بیٹھے گا جو اس کے مستقبل کو روشن بنا سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • نیپرا نے جو ریٹ کے الیکٹرک کیلئے منظور کیا ہے، وہ جائز نہیں، وفاقی وزیر اویس لغاری کا اعتراف
  • عمران کے بیٹے مہم چلا سکتے ہیں، مگر 190ملین پاونڈ کیس کا ذکر بھی کریں، عطا تارڑ
  • حکومتی یوٹرن، گرڈ کی کمزوریوں سے صاف توانائی منتقلی مشکلات کا شکار
  • سوتیلی ماں سے بڑھ کر ظالم
  • نہ کہیں جہاں میں اماں ملی !
  • پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا 200 یونٹ کے بعد سلیب بڑھنے پر اہم فیصلہ 
  • ماہانہ 200 یونٹ بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے لیے بُری خبر آگئی
  • بجلی کمپنیاں اربوں روپے کی اوور بلنگ میں ملوث نکلیں
  • اوور بلنگ کے نام پر بجلی صارفین سے 244 ارب روپے وصول کیے گئے ، آڈٹ رپورٹ میں انکشاف
  •  بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی جانب سے اووربلنگ کے ذریعے 244 ارب بٹورنے کا انکشاف