وفاقی اردو یونیورسٹی کے ریٹائرڈ اساتذہ اور ملازمین نے گذشتہ ماہ سے پینشن کی عدم ادائیگی اور 80 سے زائد ریٹائرڈ ملازمین کے بقایاجات کی عدم ادائیگی کے خلاف کراچی پریس کلب کے باہر مظاہرہ کیا۔ 

مظاہرے میں انجمن اساتذہ وفاقی اردو یونیورسٹی (عبدالحق کیمپس) کے عہدیداران نے بھی شرکت کی اور موجودہ اساتذہ کی تنخواہوں اور ہاؤس سیلنگ کی ادائیگی کا مطالبہ کیا، ریٹائرڈ ملازمین میں سے 5 ملازمین انتقال کرچکے ہیں اور ان کے اہل خانہ مالی مشکلات کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔

مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے ریٹائرڈ اساتذہ اور ملازمین کی کمیٹی کے کنوینر ڈاکٹر توصیف احمد خان نے کہا کہ یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری وفاقی محتسب کی عدالت میں قبول کر چکے ہیں کہ یونیورسٹی کے پاس 60 کروڑ روپے سے زائد کے فنڈز موجود ہیں جنہیں سرمایہ کاری کی غرض سے مختلف بینکوں میں محفوظ کیا گیا ہے، ان فنڈز کی موجودہ مالیات 100 کروڑ روپے تک پہچ چکی ہے۔

انہوں نے کہا وائس چانسلر ریٹائرڈ اساتذہ اور ملازمین کو ماہانہ پینشن ادا نہیں کر رہے اور بقایاجات کی ادائیگی کےلیے بھی کوئی منصوبہ تیار نہیں کیا گیا۔ 

ڈاکٹر توصیف احمد خان نے کہا وائس چانسلر وفاقی محتسب کے فیصلے پر عمل درآمد نہ کرکے توہین عدالت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ 

انھوں نے کہا کہ اگر رواں ماہ پینش ادا نہ کی گئی اور ریٹائرڈ اساتذہ و ملازمین کے بقایاجات کی ادائیگی کےلیے کوئی حکمت عملی ترتیب نہ دی گئی تو وہ ماہ فروری سے وائس چانسلر کے دفتر کے باہر بھوک ہڑتال کا آغاز کریں گے۔ 

انجمن اساتذہ وفاقی اردو یونیورسٹی (عبدالحق کیمپس) کے جنرل سیکریٹری روشن علی سومرو نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا اساتذہ کو گذشتہ دو ماہ سے تنخواہیں ادا نہیں کی گئی ہیں، ہاؤس سیلنگ کی مد میں گذشتہ 9 ماہ سے ادائیگیاں نہیں کی گئیں۔ 

جبکہ یونیورسٹی میں میڈیکل اور دیگر سہولیات مکمل طور پر بندش کا شکار ہیں۔ وائس چانسلر کے پاس مالی بحران سے نمٹنے کے لیے کوئی عملی منصوبہ موجود نہیں ہیں۔ 

انہوں نے مطالبہ کیا کہ یونیورسٹی کے مالی بحران کے حل کے لیے فوری طور پر بیل آؤٹ پیکیج کا اعلان کیا جائے اور ریٹائرڈ اساتذہ اور ملازمین کی پینشن اور بقایاجات فوراً ادا کیے جائیں۔ 

انہوں نے کہا یونیورسٹی میں کیمیپس کی بنیاد پر تقسیم پیدا کر کے انتظامی بحران پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اساتذہ اس کوشش کو ناکام بنائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ریٹائرڈ اساتذہ اور ملازمین کی جانب سے بھوک ہڑتال کی حمایت کرتے ہیں اور اس میں شرکت بھی کریں گے۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: انہوں نے

پڑھیں:

غزہ: یو این امدادی اہلکار بھی بھوک اور تھکن سے بے ہوش ہونے لگے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 23 جولائی 2025ء) غزہ میں خوراک کے حصول کی کوشش بمباری جیسی جان لیوا ہو گئی ہے جہاں اقوام متحدہ کے عملے کی بھوک اور تھکن سے بے ہوش ہونے کی اطلاعات نے شہریوں کی بقا کے حوالے سے خدشات میں اضافہ کر دیا ہے۔

فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) کی ڈائریکٹر اطلاعات جولیٹ ٹوما نے بتایا ہے کہ غزہ میں طبی عملے، صحافیوں اور امدادی کارکنوں سمیت سبھی بھوک اور تھکاوٹ سے نڈھال ہیں۔

خوراک کی تقسیم کے لیے غزہ امدادی فاؤںڈیشن کے قائم کردہ مراکز گویا موت کا پھندا بن گئے ہیں جہاں نشانہ باز لوگوں پر اس طرح اندھا دھند فائرنگ کرتے ہیں جیسے انہیں ہلاک کرنے کا لائسنس ملا ہو۔ Tweet URL

ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کی مدد سے اسرائیل کا قائم کردہ یہ متبادل امدادی نظام دراصل بڑے پیمانے پر لوگوں کو شکار کرنے کا مںصوبہ ہے جس پر کسی سے بازپرس نہیں ہوتی۔

(جاری ہے)

اس صورتحال کو نیا معمول بننے نہیں دیا جا سکتا۔ امداد کی تقسیم کرائے کے فوجیوں کا کام نہیں۔حصول خوراک میں 1,054 ہلاک

اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے بتایا ہے کہ 27 مئی کو غزہ امدادی فاؤنڈیشن کے مراکز پر امداد کی تقسیم شروع ہونے کے بعد وہاں اسرائیلی فوج کی فائرنگ کے نتیجے میں 1,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔

ادارے کے ترجمان ثمین الخیطان کے مطابق، 21 جولائی تک خوراک کے حصول کی کوشش میں 1,054 لوگوں کی ہلاکتیں ہو چکی تھیں۔ ان میں 766 غزہ امدادی فاؤنڈیشن کے مراکز پر ہلاک ہوئے جبکہ 288 شہری اقوام متحدہ کے امدادی قافلوں سے خوراک اتارنے کی کوشش میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے اور دیگر واقعات میں مارے گئے۔

غزہ میں رہن سہن کے حالات بدترین صورت اختیار کر چکے ہیں جہاں بنیادی ضرورت کی اشیا 4,000 فیصد تک مہنگی ہو گئی ہیں۔

گھربار کھونے اور کئی مرتبہ نقل مکانی پر مجبور ہونے والے لوگوں کے پاس آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں۔ علاقے کی تقریباً تمام آبادی کا انحصار امدادی خوراک پر ہے جس کا حصول زندگی کا خطرہ مول لیے بغیر ممکن نہیں۔اونچے درجے کی غذائی قلت

گزشتہ روز عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے اطلاع دی تھی کہ غزہ کی ایک چوتھائی آبادی کو قحط جیسے حالات کا سامنا ہے جہاں تقریباً ایک لاکھ خواتین اور بچے انتہائی شدید درجے کی غذائی قلت کا شکار ہیں جنہیں فوری علاج معالجے کی ضرورت ہے۔

جولیٹ ٹوما نے بتایا ہے کہ علاقے میں بچوں کے ڈائپر کی قیمت بھی تین ڈالر تک جا پہنچی ہے۔ ان حالات میں بیشتر مائیں پولیتھین کے بیگ استعمال کرنے پر مجبور ہیں جبکہ ایک شخص نے بتایا کہ اس نے اپنی آخری قمیض بھی پھاڑ کر بیٹی کو سینیٹری پیڈ کے طور پر استعمال کے لیے دے دی ہے۔

'انروا' نے بچوں اور بڑوں کے لیے بڑی تعداد میں ڈائپر سمیت صحت و صفائی کے سامان کی بڑی مقدار غزہ کے سرحدی راستوں پر تیار کر رکھی ہے۔

علاوہ ازیں ادارے کے 6,000 ٹرک خوراک، ادویات اور دیگر امدادی سامان لے کر مصر اور اردن میں کھڑے ہیں جنہیں غزہ میں داخلے کی اجازت درکار ہے۔ UN News شدید غذائی قلت کا شکار ایک بچہ غزہ کے جزوی طور پر فعال ایک ہسپتال میں زیر علاج ہے۔

فوری جنگ بندی کا مطالبہ

جولیٹ ٹوما نے جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی اور اقوام متحدہ بشمول 'انروا' کے زیرانتظام بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی بلارکاوٹ فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ترجمان طارق جاساروک نے کہا ہے کہ غزہ میں امدادی کارروائیاں مزید سکڑ گئی ہیں۔ سوموار کو دیرالبلح میں ادارے کی عمارتوں پر تین حملے کیے گئے جبکہ وہاں پناہ لیے لوگوں سے بدسلوکی کی گئی اور ایک بڑے گودام کو تباہ کر دیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ اسرائیل کی فوج 'ڈبلیو ایچ او' کی عمارت میں بھی داخل ہو گئی جس سے عملے اور بچوں سمیت ان کے خاندانوں کو سنگین خطرے کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں ساحلی شہر المواصی کی جانب پیدل نقل مکانی پر مجبور کیا گیا۔ عملے کے ارکان کو برہنہ کر کے اور آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر ان کی تلاشی لی گئی اور ایک رکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر تاحال زیر حراست ہے۔

ترجمان نے بتایا ہے کہ 21 ماہ سے جاری جنگ میں تقریباً ڈیڑھ ہزار طبی کارکن ہلاک ہو چکے ہیں اور 94 فیصد طبی سہولیات کو نقصان پہنچا ہے جبکہ نصف ہسپتال غیرفعال ہو گئے ہیں۔

طبی عملے کو ویزے سے انکار

18 مارچ کے بعد اسرائیلی حکام کی جانب سے ہنگامی طبی مدد پہنچانے والی بیشتر ٹیموں کو غزہ میں آنے کے لیے ویزے جاری نہیں کیے جا رہے۔ جن لوگوں کے ویزے مسترد کیے گئے ان میں 58 غیرملکی معالجین شامل ہیں۔

جولیٹ ٹوما نے بتایا ہے کہ 'انروا' کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی کو مارچ 2024 میں غزہ آنے سے روک دیا گیا تھا جس کے بعد انہیں نہ تو دوبارہ علاقے میں آنے کی اجازت دی گئی ہے اور نہ ہی انہیں مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کے لیے ویزا جاری کیا گیا ہے۔

انہوں نے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو غزہ میں داخلے کی اجازت نہ ملنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حقائق سے آگاہی کے لیے صحافیوں کو غزہ میں رسائی ملنی چاہیے تاکہ علاقے کی ہولناک صورتحال دنیا کے سامنے آ سکے۔

متعلقہ مضامین

  • داؤد انجینئرنگ یونیورسٹی کی وی سی ڈاکٹر ثمرین حسین نے وزیر اعلیٰ سندھ کو استعفیٰ پیش کردیا
  • داؤد انجینئرنگ یونیورسٹی کی وائس چانسلر نے استعفی دے دیا
  • نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی کے مابین اشتراک پاکستان کی اعلیٰ تعلیم میں ایک سنگ میل ثابت ہو گا، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی
  • غزہ: یو این امدادی اہلکار بھی بھوک اور تھکن سے بے ہوش ہونے لگے
  • دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی 10 زبانوں میں اردو کا نمبر کونسا ہے؟
  • ڈاکٹر عدنان حیدر کی بوسٹن یونیورسٹی میں بطور ڈین تقرری، عالمی سطح پر خدمات کا اعتراف
  • اساتذہ کا وقار
  • اسلام آباد: 11 گھنٹے گزر گئے، سیلابی ریلے میں بہنے والے کرنل اور ڈاکٹر بیٹی کا پتہ نہ چل سکا
  • سی ڈی اے ملازمین کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ کا معاملہ، اسلام آباد ہائیکورٹ کا تفصیلی فیصلہ جاری
  • لاہور: پاکستان ریلویز کے رہائشی کوارٹرز موت کے کنویں لگنے لگے