Jasarat News:
2025-11-03@19:20:37 GMT

مزمت کیوں نہیں کرتے

اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT

مزمت کیوں نہیں کرتے

حکومت اور عمران خان کی مذاکراتی ٹیمیں اپنا ہنر آزما رہی ہیں۔ ایک کی زمامِ کار مقتدرہ کے ہاتھ میں ہے تو دوسری کی عمران خان کے پیچھے، جو نیت پیش امام کی وہی نیت ہماری، کی محتاج ہے۔ حکومتی ٹیم کو عمران خان کی ٹیم کی زبانی کلامی باتوں پر اعتبار، نہیں وہ تحریراً مذاکرات کے مطالبات طلب کررہی ہے تو عمران خان کے ساتھی تقریر میں مدعا بیان کررہے ہیں دونوں یوں ناک اونچی رکھنے کے لیے وقت گزارنے والے ہتھکنڈوں میں مصروف ہیں۔ عمران خان کی ٹیم کو 20 جنوری کا انتظار ہے جب ٹرمپ امریکا کا حکمران بن کر جلوہ افروز ہوں گے اسی امریکا کی خوشنودی کی خاطر عمران خان کی تحریک انصاف نے غزہ کانفرنس میں یہ کہہ کر انکار کیا تھا کہ ہم حکومت کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے ہماری کمر میں چُک پڑ جائے گی اور اب اسی حکومت کی ٹیم سے مذاکرات کے لیے حاضر ہیں۔ بس سمجھ لیں ’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں‘ کا گورکھ دھندہ ہے۔ ریاست مدینہ کے دعویدار عمران خان، قرآن کے اس فرمان کو یاد فرمالیں ’’مومن مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست اور مددگار نہ بنائیں جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہ ہوگا‘‘۔ (آل عمران) دراصل عمران خان اپنے ماضی سے دامن نہیں چھڑا رہے ہیں کہ جب انہوں نے کرکٹ کے دلدادہ نوجوانوں میں ورلڈ کپ جیت کر مقبولیت حاصل کی۔ پھر حکیم محمد سعید اور ڈاکٹر اسرار احمد کی زبانی عالم کفر نے ان کو ہتھیانے اور پاکستان کا حکمران بنانے کا پروگرام بنالیا۔

سیاست کا کھیل دولت کا ہے سو گولڈ اسمتھ کی بیٹی سے شادی کرادی گئی اور شوق اقتدار جاگا تو امریکا کے یار پرویر مشرف کی گود میں لا بٹھایا۔ مگر مروجہ انتخابی طریقہ کار میں وہ فٹ نہ بیٹھ سکے۔ پرویز مشرف مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی اقتداری الٹ پلٹ سے تنگ تھے مگر عمران خان بھی اناڑی سیاست دان تھے سو ان کو سمجھایا گیا کہ ان دو پارٹیوں کی مخالفت کرو، اور فٹ بال کا گیم کرکٹ کے کھلاڑیوں سے ہرگز نہیں جیتا جاسکتا۔ فٹ بال بنے بغیر اقتدار خیال است ومحال است سو یہ فٹ بال بن گئے تا کہ مقتدرہ کی کک سے گول میں داخل ہو کر حکمران بن جائیں۔ اور اقتدار کی ہوس ان کو بشریٰ نامی بی بی کی چوکھٹ پر لے گئی اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ اس بشریٰ بی بی کے کہنے پر عمران خان ایک مزار کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوگئے اور ربّ کی بارگاہ سے دور ہو کر شرک کا ارتکاب کر بیٹھے۔ اقتداری فٹ بال کے مقتدرہ نے ایک کک کے ذریعے عمران خان کو اقتدار کے گول میں لا پھینکا۔ مقتدرہ تیسری سیاسی قوت کے اجرا کے شوق میں تیسری دنیا بسا بیٹھی اور وہ کچھ حاصل نہ کرسکے جو مدعا تھا تو پھر اُن ہی گاجروں کا حلوہ مولانا فضل الرحمن کی امامت میں تیار کیا اور پھر جس نے اقتدار عمران کو دلایا، انہوں نے جیل کی راہ دکھادی اور جعلی انتخابی عمل کے حکمران بنادیے، کیا ہوگا اب عمران خان کاجنہوں نے اقتدار کی خاطر غیر اللہ کو سجدہ کرکے اسلامی غیرت کا قلاوہ اتار پھینکا۔

مجھے تاریخ کا قصہ یاد آرہا ہے جو اس سے ملتا جلتا ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک عبادت گزار شخص غار میں ریاضیت کرتا تھا اس کی نیک نامی روز بروز مقبولیت پارہی تھی اور شیطان تائو کھا رہا تھا۔ شیطان نے اُسے بھٹکانے اور کوڑا دان کا راستہ دکھانے کے لیے ایک خوبرو عورت کو اُس کے پاس بھیجا جس کی گود میں ایک معصوم بچہ، ہاتھ میں شراب کی بوتل اور اپنا خوب صورتی کا ہتھیار تھا۔ وہ اس کے پاس آئی اور کہا کہ تین کاموں میں سے ایک کام کر مجھ سے زنا، بچہ کا قتل یا پھر شراب کا شغل۔ ورنہ میں شو مچا کر تجھے رسوا کروں گی۔ جنسی حراسگی کا الزام لگا کر تیری ساری عزت و توقیر خاک میں ملادوں گی، وہ شخص گھبرا گیا اور شراب کو گلو خلاصی کا آسان راستہ جانا۔ شراب نے مدہوش کیا تو پھر بچہ کا قتل اور عورت سے زنا کا فعل بھی سرزد ہوگیا۔ فاحشہ عورت اپنے مقصد میں کامیاب ٹھیری۔ بات عدالت تک گئی، جرم پر پھانسی کا حکم ہوا، شیطان پھانسی کے مرحلہ میں آموجود ہوا۔ اُس نے بتایا کہ میں نے ہی تجھے اس عورت کے ذریعے پھنسایا اب راہ نجات بھی میں ہی ہوں۔ مجھے سجدہ کر جان بخشی ہوجائے۔ اُس نے آئو دیکھا نہ تائو سجدہ شیطان کو کر ڈالا۔ شیطان نے زور دار قہقہہ لگایا کہ دنیا ہی سے نہیں تو آخرت کی مغفرت سے بھی گیا۔ میں تو دشمن اولاد آدم ہوں۔

عمران خان کا غیراللہ کو سجدہ تباہی کا نکتہ آغاز تھا۔ اور وہ شیطان امریکا کے چنگل میں پھنس گیا اور ربّ کی خوشنودی اور توبہ تائب ہی اس کی بقا دنیا و اُخروی کا راستہ ہے۔ پلٹ آئو صراط مستقیم کی طرف امریکا کیا ہے۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن کا خوب جملہ ہے امریکا دنیا کا سب سے بڑا طاغوت ہے جو اس کے ساتھ چلے گا وہ اسلام اور پاکستان کے خلاف چلے، عمران خان اس طاغوت کی مذمت کیوں نہیں کرتے یہ سوال اب گردش ایام ہے۔
’’تو جھکا جب غیر کے آگے، نہ من تیرا نہ تن‘‘

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: عمران خان کی

پڑھیں:

فلمی ٹرمپ اور امریکا کا زوال

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-03-7

 

امیر محمد کلوڑ

فلم میں ننھا کیوین (Kevin) نیویارک کے ایک شاندار ہوٹل (Plaza Hotel) میں داخل ہوتا ہے وہ ایک شخص سے راستہ پوچھتا ہے وہ شخص ڈونلڈ ٹرمپ ہوتا ہے، ٹرمپ فخریہ انداز میں گردن سیدھی رکھ کر، غرور سے مسکرا کر کہتا ہے: ’’Down the hall and to the left‘‘ یہ سین چند سیکنڈ کا ہے مگر اس میں ہی ٹرمپ کا غرور، خود اعتمادی اور طاقت کا اظہار واضح نظر آتا ہے۔ یہ ان کی ’’ریئل لائف پالیسی‘‘ کا چھوٹا نمونہ ہے۔ سیاست میں بھی ’’ہوٹل پلازہ‘‘ والا رویہ صدر بننے کے بعد بھی ٹرمپ نے برقرار رکھا، ہمیشہ خود کو مرکز ِ توجہ رکھا۔ جیسے فلم میں ہوٹل ان کا تھا، ویسے ہی صدر کے طور پر وہ اکثر ملک کو اپنی ذاتی سلطنت سمجھتے ہیں ان کے فیصلے اور انداز کچھ اس طرح کے لگتے ہیں کہ جیسے وہ کہہ رہے ہوں: ’’یہ سب کچھ میرے کنٹرول میں ہے‘‘۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے Home Alone 2 کے صرف چند سیکنڈز درحقیقت ان کی پوری شخصیت کا ٹریلر ہیں ایک خوداعتماد، خودپسند، طاقتور، اور ڈرامائی انسان۔ وہ چاہے بزنس ہو، ٹی وی ہو یا سیاست ہر جگہ وہ ہیرو اور اسٹیج کے مالک بن کر رہتے ہیں۔

آئیے ان کا موازنہ موجودہ دور میں کرتے ہیں یعنی ان کی سیاست (2025) میں بھی وہ ’’فلمی اسکرپٹ‘‘ والا انداز استعمال کر رہے ہیں؟ یعنی ان کی ریلیاں اور بیانات بھی کسی ’’شو‘‘ کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ ٹرمپ کے جلسے روایتی سیاست نہیں، بلکہ ڈرامائی تقریبات ہوتے ہیں۔ روشنیوں، موسیقی، اور بڑے بڑے اسکرینوں کے ساتھ وہ داخل ہوتے ہیں۔ ان کی تقریریں پہلے سے طے شدہ ’’مکالموں‘‘ جیسی لگتی ہیں۔ ہر جملے پر سامعین سے ’’ریہرسل شدہ‘‘ نعرے لگتے ہیں: ’’USA! USA! یا Build the wall‘‘ وہ اکثر ہاتھ کے اشارے، چہرے کے تاثرات، اور وقفوں کا استعمال ایسے کرتے ہیں جیسے ایک اداکار سامعین کو قابو میں رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی میڈیا ان کے جلسوں کو ’’Trump Show‘‘ کہتا ہے۔

حال ہی میں کولا لمپور ائرپورٹ پر ٹرمپ کو ملائیشین روایتی رقاص گروپ کے ساتھ دیکھا گیا جہاں انہوں نے ڈھول کی تھاپ پر ہلچل بھری حرکات کیں۔ سوشل میڈیا پر اس ویڈیو تیزی سے وائرل ہوئی، جہاں لوگوں نے اس کو ’’توانائی کا مظاہرہ‘‘ کہا تو کچھ نے اسے ’’ذاتی زیاد اعتماد (over confidence)‘‘ کا اظہار قرار دیا۔ ایک ملائیشیا نیوز پورٹل نے کہا کہ ٹرمپ کا یہ رویہ ’’صدر کے وقار‘‘ کے مطابق نہیں تھا۔ یعنی وہ خود کو نہ صرف سیاسی رہنما بلکہ پرفارمنر کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ٹرمپ ہمیشہ میڈیا کو اپنا سب سے بڑا دشمن (Villain) بنا کر پیش کرتے ہیں۔ وہ بار بار کہتے ہیں: ’’Fake News Media!‘‘ ہر سوال کو ذاتی حملہ بنا کر ڈرامائی ردعمل دیتے ہیں۔ ان کی باڈی لینگویج، لہجہ اور غصہ فلم کے سین جیسا لگتا ہے جس کا ٹریلر آپ نے وہائٹ ہائوس میں یوکرین کے صدر زیلنسکی کے ساتھ دیکھ لیا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے: (ٹرمپ میڈیا کے سوالوں کا جواب نہیں دیتے، بلکہ ان کے لیے ’’پرفارم‘‘ کرتے ہیں۔) 2024-2025 میں ٹرمپ پر کئی مقدمات چلے، مگر انہوں نے ان سب کو سیاسی مظلومیت کے ڈرامے میں بدل دیا۔ ارمانی اور بربری کے کپڑے اور ایریزونا کے جوتے (اپنے برانڈ کے) ٹرمپ مارک کے گالف شوز اور ’’ٹرمپ سگنیچر‘‘ ان کا اپنا برانڈ کولون پرفیوم استعمال اور رولیکس اور پاٹیک فلپ گھڑیوں کے شوقین 79 سالہ ٹرمپ جنہوں نے تین شادیاں کیں جن سے ان کو پانچ بچے ہیں اور اس وقت صدر ٹرمپ ذاتی طور پر 2.5 بلین ڈالر کے مالک ہیں۔

یہ تو ہوا اس کا فلمی کردار اور اب آتے ہیں کہ وہ کس طرح امریکا کو زوال کی جانب لے جارہے ہیں۔ ٹرمپ نے ’’America First‘‘ کا نعرہ دے کر کئی بین الاقوامی معاہدوں سے علٰیحدگی اختیار کی، جیسے پیرس ماحولیاتی معاہدہ، ایران نیوکلیئر ڈیل، اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے فنڈز روکنا۔ اس سے امریکا کی ’’عالمی قیادت‘‘ والی ساکھ کمزور ہوئی، اور چین و یورپ نے خلا پْر کرنا شروع کیا۔ اور اس کے علاؤہ صدر ٹرمپ نے اتحادی ممالک سے تعلقات میں تناؤ پیدا کیا اور ناٹو ممالک سے کہا کہ ’’زیادہ پیسہ دو ورنہ ہم دفاع نہیں کریں گے‘‘ اس سے اتحادی ممالک (جرمنی، فرانس وغیرہ) ناراض ہوئے۔ دنیا کے کئی ممالک کی طرح چین پر بھی ٹیکس اور ٹیرف لگانے سے امریکی کمپنیوں کی لاگت بڑھی۔ کئی امریکی کسانوں اور صنعتوں کو نقصان ہوا۔ ان کی سیاست نے ملک کو اندرونی طور پر بھی نقصان پہچایا اور نسلی اور سیاسی لحاظ سے زیادہ منقسم کیا۔

’’کیپٹل ہل حملہ (2021)‘‘ کو بہت سے سیاسی ماہرین ’’جمہوری اداروں پر حملہ‘‘ کہتے ہیں۔ امریکی معاشرہ اس وقت انتہائی منقسم ہے۔ ریپبلکنز اور ڈیموکریٹس کے درمیان شہری اور دیہی علاقوں میں سفید فام اور غیر سفید فام آبادی کے درمیان۔ ٹیکساس اور کیلی فورنیا میں کچھ گروپوں نے عوامی سطح پر کہا ہے کہ اگر وفاقی حکومت ان کے مفادات کے خلاف گئی تو وہ ’’الگ ملک‘‘ بننے کی مہم شروع کریں گے۔ سول نافرمانی اور تشدد کے ایک تازہ سروے میں تقریباً 58 فی صد امریکیوں نے کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ اگر حالات اسی طرح رہے تو ’’کسی نہ کسی درجے کی خانہ جنگی‘‘ ہو سکتی ہے۔ لیکن ماہرین جیسے Prof. Francis Fukuyama اور Thomas Friedman کا کہنا ہے کہ: ’’امریکا اداروں کا ملک ہے۔ اتنی آسانی سے ٹوٹ نہیں سکتا، مگر اندرونی کمزوری خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے‘‘۔ دنیا کے مؤقر جریدوں نے ان حالات پر مندرجہ ذیل تبصرے کیے ہیں۔

دی اکنامسٹ (2025)؛ ٹرمپ کا دور ’’جمہوری نظام کے لیے سب سے بڑا امتحان‘‘ ہے، مگر ٹوٹنے کا امکان نہیں۔ بروکنگز انسٹی ٹیوشن؛ ’’اگر ادارے (عدلیہ، کانگریس، میڈیا) اپنی آزادی برقرار رکھیں، تو امریکا متحد رہے گا۔ ’’الجزیرہ انگلش‘‘ امریکا میں سماجی بگاڑ بڑھ رہا ہے، مگر ملک کے ٹوٹنے سے زیادہ خانہ جنگی جیسے تنازعات کا خطرہ ہے‘‘۔

 

امیر محمد خان کلوڑ

متعلقہ مضامین

  • بی جے پی نے اقتدار میں رہتے ہوئے غریبوں کیلئے ایک بھی گھر نہیں بنایا، ضمیر احمد خان
  • بلیاں بھی انسانوں کی طرح مختلف مزاج رکھتی ہیں، ہر بلی دوست کیوں نہیں بنتی؟
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • فلمی ٹرمپ اور امریکا کا زوال
  • ہم پی ٹی آئی میں کسی ’مائنس فارمولے‘ کے مشن پر نہیں،عمران اسمٰعیل
  • پی ٹی آئی کی اصل قیادت جیل میں ہے، باہر موجود لوگ متعلقہ نہیں: فواد چوہدری
  • شاہ محمود قریشی نے عمران خان کی رہائی مہم میں شمولیت کی مبینہ پیشکش مسترد کر دی
  • شاہ رخ خان کی سالگرہ: 60 کی عمر میں بھی جین زی کے پسندیدہ ’لَور بوائے‘ کیوں ہیں؟
  •  عمران خان کی رہائی کےلیے تحریک چلانے کا اعلان
  • نریندر مودی اور موہن بھاگوت میں اَن بن کیوں؟