صحافیوں کے حقوق کیلئے موثر اقدامات کرینگے، گلبر خان
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
وزیر اعلیٰ حاجی گلبر خان نے مذید کہا کہ میڈیا ریاست کا چوتھا ستون ہے، اور اس کے مسائل حل کرنا ہماری حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ اسلام ٹائمز۔ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان، حاجی گلبر خان نے گلگت بلتستان نیوز پیپر سوسائٹی کی نئی منتخب کابینہ سے ان کے عہدوں کا حلف لیا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لئے صحافیوں کی کوششیں قابل تحسین ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے میڈیا انڈسٹری کی اہمیت کو اجاگر کیا اور اس بات پر زور دیا کہ آزاد اور مستحکم میڈیا کسی بھی جمہوری معاشرے کی بنیاد ہوتا ہے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ ان کی حکومت گلگت بلتستان کے میڈیا سے وابستہ مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرے گی۔ وزیر اعلیٰ حاجی گلبر خان نے مذید کہا کہ میڈیا ریاست کا چوتھا ستون ہے، اور اس کے مسائل حل کرنا ہماری حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم میڈیا انڈسٹری کی ترقی، صحافیوں کے حقوق اور علاقائی اخبارات کو درپیش مالی مشکلات کے خاتمے کے لیے مؤثر اقدامات کریں گے۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی برائے اطلاعات، ایمان شاہ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ انہوں نے میڈیا انڈسٹری کی ترقی کے لیے وزیراعلیٰ کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات پر روشنی ڈالی اور کہا کہ حکومت گلگت بلتستان کے تمام صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ اس موقع پر گلگت بلتستان نیوز پیپر سوسائٹی کی نو منتخب کابینہ نے وزیراعلیٰ کے اس اقدام کو سراہا اور امید ظاہر کی کہ یہ حکومت اور میڈیا کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہوگا۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: گلگت بلتستان وزیر اعلی گلبر خان انہوں نے
پڑھیں:
تحقیقاتی ادارے کارڈیک ہسپتال گلگت میں ہونی والی کرپشن پر خاموش کیوں ہیں؟ نعیم الدین
نجمن امامیہ گلگت بلتستان کے مرکزی نائب صدر نعیم الدین سلیمان نے ایک بیان میں کہا اہم ریاستی ادارے، اینٹی کرپشن اور FIA جیسے اداروں کو کارڈیک ہسپتال گلگت میں ہونے والی کرپشن کی تحقیقات پر مکمل خاموشی سوالیہ نشان ہے اور اسی ادارے میں میرٹ کے خلاف یکطرفہ طور پر ملازمین کی تقرری اقربا پروری میں سابقہ سیکریٹری صحت اور سابق وزیر صحت ملوث ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ انجمن امامیہ گلگت بلتستان کے مرکزی نائب صدر نعیم الدین سلیمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انسانی سماج میں حکومت اور اپوزیشن کا تصور ایک حقیقت ہے لیکن اس کے باوجود حکومت کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں، اس لئے کہ وہ اقتدار میں ہوتی ہے، ایسے میں اپوزیشن اور عوام کو تنقید کا موقع نہ دینا حکومت کی کامیاب حکمت عملی سمجھی جاتی ہے۔ گلگت بلتستان میں منرلز کے معاملہ پر حکومت سے گلہ شکوہ ہونا فطری امر ہے اور حکومت کو ایسے مواقع میں صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ لیکن پاکستان منرل انویسٹمنٹ فورم کے بعد صوبائی حکومت کی جانب سے واضح موقف سامنے نہ آنے کے نتیجہ میں عوام کی بے چینی بڑھ گئی، جس کا ازالہ کرنا بھی حکومت کے فرائض میں شامل تھا، جس کی کمی اب بھی محسوس کی جا رہی ہے اور آغا سید راحت حسین الحسینی جو کہ پورے گلگت بلتستان کے عوامی نمائندہ اور قائد ہیں نے جمعہ خطبے میں بھرپور عوامی ترجمانی کی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کی جماعتی اور انفرادی حیثیت کے اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاسی و سماجی شخصیات اس کا بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ حکومتی مشنری بالخصوص میڈیا ایڈوائزر کی جانب سے بے چینی کے ازالہ کے بجائے مزید خلفشار پیدا کرنے کے بیان سے بے چینی جنگل کے آگ کی طرح پھیل گئی جس کے بعد ایک صوبائی معاون خصوصی کی جانب سے مذکورہ ایڈوائزر کے خلفشار کا بیان واپس لینے کے اعلان کو سمجھداری سے تعبیر کیا جاتا ہے اور مرکزی انجمن امامیہ کے جانب سے عوام الناس اور سوشل میڈیا صارفین کو ہدایت کی جاتی ہے کہ اس بیان بازی کا سلسلہ کو روک دیا جائے۔ اہم ریاستی ادارے، اینٹی کرپشن اور FIA جیسے اداروں کو کارڈیک ہسپتال گلگت میں ہونے والی کرپشن کی تحقیقات پر مکمل خاموشی سوالیہ نشان ہے اور اسی ادارے میں میرٹ کے خلاف یکطرفہ طور پر ملازمین کی تقرری اقربا پروری میں سابقہ سیکریٹری صحت اور سابق وزیر صحت ملوث ہیں۔
اسی طرح کئی انکوائریاں سرد خانے کی نذر کی گئی ہیں۔ یہ وہ سوالیہ نشانات ہیں جن کا اظہار تو سیاسی مصلحت کاروں کی طرف سے خاموشی اور علماء کرام کی طرف سے نشاندہی پر آگ بگولہ ہونا ہے۔ تاہم اس کا جواب یہ مشیران اور وزاء سمیت پوری ریاست کو دینا پڑے گا۔ اگر آغا صاحب کی طرف لگایا گیا الزام درست نہیں تو اوپر بیان کئے گئے کریشن کی انکوائریاں کیوں پنڈنگ میں رکھی گئی ہیں۔ اس میں براہ راست سیکریٹری صحت اور سابقہ وزیر صحت کے ملوث ہونے کے شبہات کا جنم لینا اور اس پر حکومتی اور انتظامی خاموشی ان کے ملوث ہونے کی واضح دلیل ہے۔