Express News:
2025-06-09@20:05:05 GMT

خارجہ پالیسی اور چیلنجز

اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT

ڈونلڈٹرمپ ابھی امریکا کے صدر نہیں بنے لیکن ایلون مسک اور ان کے ٹویٹ ساتھ متنازعہ بنتے جا رہے ہیں۔پہلی مر تبہ شاید ایسا ہوگا کہ امریکا کی سیاست میں ایک ایسا شخص جس کی با ضابطہ طور پر کوئی سرکاری حیثیت تو نہیں لیکن ہوگا انتہائی طاقتور۔

وہ ہے ٹوئیٹر، ٹیسلا اور خلاء میں راکٹ بھیجنے والا ایلون مسک۔اکنامسٹ جریدہ لکھتا ہے کہ یہ قیاس آرائیاں منطقی اعتبار سے درست ہیں کہ اس بات کا اندازہ ٹرمپ کے سابقہ دور حکومت میں ہی ہو گیا تھا کہ اس دفعہ امریکا میں انڈر ٹیبل کاروبار کے لیے لین دین ہوگا۔یعنی کچھ انفرادی لوگ اربوں ڈالر بنائیں گے،crony capitalization کے طریقہ کار سے ۔

حال ہی میں ٹرمپ نے ایک ٹویٹ کیا اور اس ٹویٹ میں انھوں نے کینیڈا کو امریکا کی 51 ویں ریاست ظاہر کیا ہے اور ایلون مسک نے اپنے ایک ٹویٹ میں برطانیہ حکومت اسکینڈل کو کھولنے کو کوشش کی ہے۔
ہمارے لیے نئی امریکی حکومت کا طریقہ کار کیا ہوگا، یہ کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن حکومتی مخالفین کی رائے بھی اس حوالے سے حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ اس کے برعکس جو حکومت کی رائے ہے، وہ بھی حقیقت پسندانہ نہیں۔اس وقت پاکستان کے لیے خوش آیند بات یہ ہے کہ وہ دنیا میں اپنا امیج اچھا بنانے جا رہا ہے۔

یہ ملک اس وقت نہ ہی دہشت گردی کی آماجگاہ ہے اور نہ ہی شدید معاشی بحران کی لپیٹ میں ہے۔ایسا ہونا بھی پہلی بار ہے کہ افغانستان اور پاکستان آمنے سامنے ہیں۔پاکستان کا یہ امیج کہ افغانستان کی سرحدوں سے ہونے والی دہشت گردی میں پاکستان ملوث ہے، اب نہیں رہا۔

اس پس منظر میں امریکا پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوگا یا پھرافغانستان کے ساتھ؟ٹرمپ حکومت میں پاکستان مخالف سوچ حاوی نظر آئے گی اور زلمے خلیل زاد جیسے لوگ پاکستان کے خلاف پہلی صف میںنظر آئیں گے۔

امریکا کے اندر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پاکستان نے چین کے ساتھ مل کر ایک الگ بلاک بنا لیا ہے۔افغانستان کے لیے بہرحال ان کی رائے تبدیل نہ ہوگی لیکن وہ پاکستان اور افغانستان کے بڑھتے ہو ئے تنازعے پر خوش ہوںگے کہ پاکستان ان سرحدوں پر مصروف رہے۔

ٹرمپ کی حکومت میں ہندوستان سے تعلق رکھنے والے لوگ کان بھرائی کا کام خوش اسلوبی سے انجام دیں گے۔ بنگلہ دیش میں موجودہ تبدیلی کے باعث ہندوستان اس وقت حیران کن حد تک پریشان ہے کیونکہ اس تبدیلی کی وجہ سے پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں مثبت ٹھہراؤ آیا ہے۔ ان تبدیلیوں کی وجہ سے ہمیں اپنے بین الاقوامی تعلقات اور خارجی پالیسی کو متحرک کرنے کی انتہائی ضرورت ہے۔

امریکا سے اپنے تعلقات کو خوشگوار رکھنے کے لیے ہمیں امریکا کو یہ باور کرانا ہو گا کہ پاکستان نے اپنی سرزمین کو کبھی امریکی مفاد کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا اور یہ بات شاید ان کو سمجھ بھی آجائے کیونکہ ہم خود ان قوتوں سے لڑ رہے ہیں جو افغانستان کی زمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔
یہ خوش آیند بات ہے نواز شریف صاحب دوبارہ سیاست میں متحرک ہو رہے ہیں،اگر وزارتِ خارجہ کے فرائض دوبارہ بلاول بھٹو کو سونپ دیے جائیں تو یہ بات ہماری خارجہ پالیسی کے لیے مثبت ثابت ہوگی۔ پاکستان واحد مسلم ملک ہے جو ایک ایٹمی طاقت ہے۔

دوسرے اسلامی ممالک پاکستان کے ایٹمی طاقت ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے پاکستان کے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ان کے تعلقات ہندوستان سے بھی خوشگوار ہیں لہٰذا ایسے دوست ممالک سے ضرور مدد لینی چاہیے کہ وہ پاکستان اور ہندوستان کے مابین تعلقات کو بہتر بنائیں، ان دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان جو بھی غلط فہمیاں ہیں ان کو دور کیا جائے تاکہ ان دونوں ممالک کے درمیان تجارت کی راہیں ہموار ہوں۔

ان کے تجارتی تعلقات استوار ہو سکیں کیونکہ تجارت سے بڑا امن کا سفیر کوئی نہیں۔ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش اگر تجارت کے میدان میں ایک ساتھ کھڑے ہو جائیں، ویزا کی پالیسی میں ایک دوسرے کے لیے نرمی لائیں ، تجارت ٹیکس فری کردیںتو یہ خطہ دنیا کے نقشے پر بہترین خطہ بن کر ابھرے گا۔بلکہ ایسا کہیے کہ چین بھی ان کی تجارت سے مستفید ہوگا۔

پاکستان کا سیاسی ڈھانچہ اب بھی بہت کمزور ہے۔نہ سیاسی پارٹیاں مضبوط ہیں اور نہ ہی لیڈر شپ مضبوط ہے۔ پون صدی کی آزادی میں ہم آج تک صاف اور شفاف انتخابات کرانے میںناکام ہیں۔یہ کہنا کہ اسٹبلشمنٹ ، سیاست میں مداخلت نہ کرے یہ بات اخلاقی طور پر تو درست ہے مگرلیکن زمینی حقائق سے بہت دور ہے۔میاں صاحب اور بے نظیر بھٹو، ان حقائق پر بہت کام کیا لیکن آگے جاکر جب بھی ان میں سے ایک سے بھی اسٹبلشمنٹ نے تعلقات بنائے اور اقتدار ملا تو مزید پیش رفت تو ویسے ہی رک جاتی ہے اور یہ بات اسٹبلشمنٹ نے کیوںکر محسوس کرے کہ جب ہم پر بیرونی دباؤ پڑتے ہیں تو سیاستدانوں کا کردا ر بڑھ جاتا ہے اور وہ ہی بہتر طریقے ثالثی انجام دے سکتے ہیں۔

کمزور سیاسی قیادت ہی ہم پر بیرونی دباؤ بڑھنے کا ایک سبب ہے۔وہ صرف ذوالفقار علی بھٹو تھے جنھوں نے امریکی وزیر خارجہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہا تھا کہ ہم ایٹمی طاقت ضرور بنیں گے اور یقینا اگر ہم ایٹمی طاقت نہ ہوتے تو اس خطے میں ہماری حیثیت کس قدر کمزور ہوتی۔ہم بھی ہندوستان کے گرد گھوم رہے ہوتے مگر دور اندیش سیاسی قیادت نہ ہونے کی سبب ہم نے اپنے ایٹمی طاقت کو مہم جوئی کے لیے استعمال کیا اور جس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔اب تک اس ملک میں کوئی مضبوط سیاسی قیادت نہیں ابھری۔

اگر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو امریکا نے ہمیں ہمیشہ اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔یہ امریکا کے مفاد میں ہے کہ تیسر ی دنیا کے کسی ملک میں کوئی مضبوط سیاسی قیادت نہ ہو تاکہ وہ ان ممالک کو آسانی سے اپنے مفادات کے لیے استعمال کر سکے۔ ہمارے ایٹمی طاقت ہونے کے مفاد میں ہے کہ ہم ایک مضبوط معاشی قوت بھی ہوں اور مضبوط سیاسی قیادت بھی رکھتے ہوں۔پاکستان کے لیے بین الاقوامی سیاسی جریدے یہ تحریر کریں کہ پاکستان اب ایک مضبوط معاشی قوت بننے جا رہا ہے اور اب پاکستان کی سرزمین کو استعمال کر کے کوئی بھی دنیا کا امن خراب نہیں کر سکتا۔

ایک تسلسل ہوتا اگر امریکا ، ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت کو ختم نہ کرتا اور نہ ہی بھٹو ان سے اس قدر ٹکراؤ میں آتے اور نہ ہی یہاں جمہوریت کمزور ہوتی۔اس طرح یہ ملک جنرل ضیاء الحق کے ہتھے نہ چڑھتا اور آج ہم شاید ہندوستان سے کہیں زیادہ آگے ہوتے۔ ذوالفقارعلی بھٹو کے پاکستان کے لیے جو معاشی پالیسی تھی وہ نہرو جیسی تھی نہ کہ من موہن سنگھ کی پالیسی۔وہ بھی مارکیٹ اکانومی کے خلاف تھی۔

اس وقت پاکستان نے ایک اصولی موقف اپنا لیا ہے کہ اب بارڈر اسمگلنگ نہیںہو گی۔ افغانستان چونکہ ایک لینڈ لاکڈ ملک ہے۔ان کے پاس سمندر کا کنارہ نہیں، لہٰذا ان کا بنیادی کاروبار منشیات، اسلحے کی اسمگلنگ اور دوسرے غیر قانونی کاروبار ہیں۔نیز یہ کہ افغانستان ایک مہذب اور ذمے دار ریاست نہیں اوروہ اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

اس لیے مہذب دنیا کو اس حوالے سے ہمارے ساتھ کھڑا رہنا ہوگا۔یہ وہ جنگ ہے جو نہ صرف ہم اپنے اندرونی بحران کو ختم کرنے کے لیے لڑ رہے ہیں بلکہ اس دنیا کا بھی بھلا ہو جائے گا وہ اس لیے کہ ہمارے مفادات اس دنیا کے مفادات سے جڑے ہوئے ہیں اور اس موقف کو بین الاقوامی فورم پر اجاگر کرنی کی ضرورت ہے۔مستقبل میں بین الاقوامی تعلقات کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ ہم ان لوگوں کو ان دوستوں کو آگے لائیںجو ہمارا امیج دنیا میں بہتر بنا سکتے ہیں اور ایسی سازشوں کا قلع قمع کر سکتے ہیں جو ٹرمپ حکومت کو پاکستان کے خلاف گمراہ کر سکتے ہیں۔
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بین الاقوامی پاکستان اور سیاسی قیادت ایٹمی طاقت پاکستان کے کہ پاکستان پاکستان ا اور نہ ہی سکتے ہیں رہے ہیں کے خلاف ہیں اور کے لیے ہے اور یہ بات

پڑھیں:

شہباز شریف، شہزادہ محمد ملاقات: کثیر جہتی تعلقات مزید گہرنے کرنے کے عزم کا اعادہ، فیلڈ مارشل بھی موجود تھے

اسلام آباد‘ مکہ مکرمہ‘ جدہ (اے پی پی +خبر نگار خصوصی+ اپنے سٹاف رپورٹر سے+ نمائندہ خصوصی) وزیراعظم  شہباز شریف اور  فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے وفد کے ہمراہ خانہ کعبہ میں نوافل ادا کیے اور بنیان مرصوص کی عظیم فتح پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا ہے۔ وزیرِ اعظم آفس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق شہباز شریف اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے وفد کے ہمراہ ولیِ عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی خصوصی دعوت پر سعودی عرب کا دورہ  کیا۔ انہوں نے جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب عمرہ کی ادائیگی کی۔ بیان کے مطابق پاکستانی وفد کے لیے خانہ کعبہ کا دروازہ خصوصی طور پر کھولا گیا۔ وزیراعظم اور آرمی چیف نے وفد کے ہمراہ خانہ کعبہ میں نوافل ادا کیے اور آپریشن بنیان مرصوص کی عظیم فتح پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ وزیراعظم اور  فیلڈ مارشل نے وفد کے ہمراہ  پاکستان کی معاشی میدان اور عوامی فلاح کیلئے اقدامات کے حوالے سے حالیہ کامیابیوں پر اللہ رب العزت کا شکر ادا کرتے ہوئے ملکی ترقی و خوشحالی کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ بالخصوص ظلم و جبر کے شکار  کشمیری و فلسطینی مسلمان بہن بھائیوں کیلئے خصوصی دعائیں کیں۔ نائب وزیرِ اعظم و وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار، وزیرِ داخلہ محسن نقوی اور وزیر اطلاعات و نشریات عطاء  اللہ تارڑ بھی وزیراعظم کے ہمراہ تھے۔ دریں اثناء وزیراعظم شہباز شریف اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ملاقات کی۔ دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے کو عیدالاضحیٰ کی مبارکباد دی۔ ملاقات میں نائب وزیراعظم اسحاق ڈار اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر وزیر داخلہ محسن نقوی‘ وزیر اطلاعات عطا تارڑ‘ سعودی سفیر نواف المالکی بھی موجود تھے۔ منیٰ پیلس میں ہونے والی ملاقات میں  دو طرفہ تعاون کو مزید وسعت دینے پر اتفاق کیا گیا۔ باہمی دلچسپی کے امور اور دیرینہ تعلقات اور مختلف شعبوں میں تعاون مضبوط بنانے‘ خطے کی سکیورٹی صورتحال‘ معاشی و دفاعی تعاون پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ علاقائی صورتحال اور قیام امن کیلئے مشترکہ کوششوں پر بھی تفصیلی گفتگو کی۔ ملاقات میں وزیر اعظم نے بھارت سے کشیدگی کم کرانے پر سعودی قیادت کے کردار کا شکریہ بھی ادا کیا۔ دریں اثناء وزیر اعظم نے شاہی دیوان میں ولی عہد و وزیر اعظم سعودی عرب شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کی جانب سے دئیے گئے خصوصی ظہرانے میں بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی۔ ولی عہد سعودی عرب نے وزیراعظم کا بھرپور استقبال کیا اور خود گاڑی چلا کر وزیرِ اعظم کو ظہرانے میں شرکت کیلئے لے کر گئے۔ دونوں رہنماؤں کے مابین غیر رسمی گفتگو ہوئی۔ ظہرانے میں مشرق وسطیٰ کے اہم رہنماؤں سمیت سعودی کابینہ کے ارکان اور اعلی سعودی سول و عسکری قیادت نے بھی شرکت کی۔ وزیر اعظم کا سعودی ولی عہد کی جانب سے شاندار استقبال اور ظہرانے میں بطور مہمان خاص شرکت، پاکستان و سعودی عرب کے دیرینہ برادرانہ تعلقات اور وزیرِ اعظم کی قیادت میں پاکستان کی سفارتی کامیابیوں کا مظہر ہے۔وزیراعظم شہبازشریف اور سعودی ولی عہد اور وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان کثیر جہتی تعلقات کو مزید گہرے کرنے کے لیے اپنے باہمی عزم کا اعادہ کیا ہے۔ جبکہ وزیراعظم شہباز شریف نے بھارتی جارحیت کے خلاف پاکستان کی ذمہ دارانہ تحمل کی پالیسی کو اجاگر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن صرف بات چیت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ جمعہ کو وزیر اعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری کردہ بیان کے مطابق اعلامیہ میں بتایا گیا وزیراعظم محمد شہبازشریف نے سعودی ولی عہد اور وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز سے ملاقات کی۔ ملاقات میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان گہرے، سٹرٹیجک اور برادرانہ تعلقات کا اعادہ کیا گیا۔ پاکستان کی حکومت اور عوام کی جانب سے وزیر اعظم شہباز شریف نے شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو عید کی مبارکباد پیش کی اور دنیا بھر سے حج کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب میں موجود عازمین کے لیے سعودی عرب کی مہمان نوازی اور خدمات کو سراہا۔ انہوں نے حرمین شریفین کے متولی اور ولی عہد کی محفوظ اور روحانی طور پر تکمیل حج کے تجربے کو یقینی بنانے کی قابل ذکر کوششوں پر شکریہ ادا کیا۔ وزیراعظم نے پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کے دوران سعودی عرب کے فعال کردار اور خطے اور اس سے باہر امن و استحکام کو فروغ دینے کے لیے اس کے ثابت قدم عزم کو سراہا۔ انہوں نے بھارتی جارحیت کے خلاف پاکستان کی ذمہ دارانہ تحمل کی پالیسی کو اجاگر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن صرف بات چیت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ دونوں رہنماؤں نے غزہ کی سنگین انسانی صورتحال پر بھی تفصیلی بات چیت کی۔ انہوں نے بین الاقوامی برادری پر اپنی اخلاقی اور قانونی ذمہ داریوں کو پورا کرنے پر زور دیا اور مسئلہ فلسطین کے منصفانہ اور پائیدار حل کے لیے اپنی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا جو عرب امن اقدام اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں پر مبنی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے سیاسی، اقتصادی اور سکیورٹی کے شعبوں میں دوطرفہ تعاون کی بڑھتی ہوئی رفتار پر اطمینان کا اظہار کیا۔ دونوں رہنماؤں نے قیادت کے مشترکہ وژن اور دونوں ممالک کے برادر عوام کی امنگوں کے مطابق اس سٹرٹیجک شراکت داری کو مزید بلند کرنے پر اتفاق کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ولی عہد کو جلد از جلد پاکستان کا سرکاری دورہ کرنے کی پرزور دعوت دی جسے ولی عہد نے بخوشی  قبول کر لیا۔ جبکہ وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف کا دو روزہ دورہ سعودی عرب مکمل ہوگیا۔ پرائم منسٹر آفس پریس ونگ کے مطابق وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف اپنا دو روزہ دورہ سعودی عرب مکمل کرکے پاکستان کیلئے روانہ ہو گئے۔ گورنر جدہ، شہزادہ سعود بن عبداللہ جلاوی، سعودیہ عرب کے پاکستان میں سفیر نواف بن سعید المالکی، پاکستان کے سعودی عرب میں سفیر احمد فاروق اور اعلی سفارتی اہلکاروں نے جدہ ائیر پورٹ پر وزیرِ اعظم کو الوداع کیا۔

متعلقہ مضامین

  • بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں نو رکنی اعلی سطحی وفد لندن پہنچ گیا.
  • پاک افغان تعلقات میں بہتری: کیا طورخم بارڈر سے تجارت پر اثر پڑے گا؟
  • پاکستان کا اعلیٰ سطحی کثیر الجماعتی وفد لندن پہنچ گیا
  • چیئرمین ایکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈویلپمنٹ ڈاکٹر گوہر اعجاز نے بجٹ تجاویز پیش کردیں
  • پانی کے چیلنجز کم کرنے کیلئے فعال منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، اسحاق ڈار
  • پاکستان اور سعودی عرب تعلقات مزید مضبوط ہوں گے، اسپیکر قومی اسمبلی
  • ایلون مسک کیساتھ تعلقات ختم ہوچکے، اب اس سے بات کرنیکا کوئی ارادہ نہیں، ڈونلڈ ٹرمپ
  • شہباز شریف کے عالمی رہنماؤں سے ٹیلیفونک رابطے، عید کی مبارکباد اور دوطرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال
  • شہباز شریف، شہزادہ محمد ملاقات: کثیر جہتی تعلقات مزید گہرنے کرنے کے عزم کا اعادہ، فیلڈ مارشل بھی موجود تھے
  • اسرائیلی حملوں کی مذمت، مشکل گھڑی میں لبنان کے ساتھ ہیں، دفتر خارجہ پاکستان