میں نے پنجاب یونیورسٹی کے الرازی ہال میں اپنے سامنے شور مچاتے نوجوانوں کو دیکھا۔وہ اس بات پر سراپا احتجاج تھے کہ میں نے پاکستان سے محبت کی بات کیوںکی۔ یہ کیوں کہا کہ ہمارے نوجوانوں کی بڑی تعداد پاکستان نہیں چھوڑنا چاہتی کیونکہ وہاں بیٹھے ہوئے اسی سے نوے فیصد نوجوان لڑکوں اور لڑکیوںنے اس سوا ل پر ہاتھ کھڑے کر دئیے تھے کہ وہ اس ملک میں نہیں رہنا چاہتے۔ وہ ملک ،جس میں ان کے ماں باپ رہتے ہیں۔ وہ ملک، جو انہیں بہترین تعلیم دے رہا ہے۔ جس کو قائم کرنے کے لئے ہمارے پرکھوں نے جان و مال کی قربانیاں دی ہیں۔ حب الوطنی کا یہ بحران صرف ایک سیاسی رہنما کا پیدا کر دہ ہے۔ وہ سیاسی رہنما جسے اس ملک نے عزت، دولت، شہرت اور اقتدا ر تک دیا ۔ ابھی سوشل میڈیا پر کسی نے لکھا، پنجاب یونیورسٹی میں نوجوانوں نے تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا۔ میں نے اس سوال پر بہت دیر تک غور کیا کہ کیا میں نے کچھ غلط کیا۔ کیا وہ لوگ غلط تھے جو بنگلہ دیش میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے اور پھانسیوں پر چڑھتے رہے۔ میں نے مان لیا کہ پنجاب یونیورسٹی کے جرنلزم ڈپیارٹمنٹ کے نوجوانوں کی بھاری اکثریت میرے ساتھ اتفاق نہیں رکھتی۔ وہ ان کے ساتھ ہے جو کہتے ہیں کہ ہم فوجیوں کی اولاد ہیں اور پاکستان کی فوج کو گالی دیتے ہیں تو کیا مجھے اپنی بات کہنے سے ہٹ جانا چاہیے۔ کیا جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہم وطنوں سے کہا تھا کہ اللہ ایک ہے اور مکے والوں کی اکثریت نے ان کی مخالفت کی تھی تو کیا انہیں بھی اکثریت کو درست مان لینا چاہئے تھا؟
میرے سامنے وہ نوجوان تھے جو ملک کی بہترین یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے ۔ میرا پورا یقین ہے کہ وہ اپنے بزرگوں سے کہیں اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔ آج گھروں میں ائیرکنڈیشنرز ہیں اور چھوٹی چھوٹی گلیوں میں کئی کئی کاریں پارک ہوتی ہیں۔ ان سب کے پاس سمارٹ فون موجود تھے۔ ایک وقت تھا کہ پورے علاقے میں کسی ایک کے پاس گاڑی ہوا کرتی تھی اور کسی ایک گھر میں ٹیلی ویژن۔ اب حالات یہ ہیں کہ شہر کی مرکزی سڑکیں دس، دس لین کی ہو کر بھی پیک ہوتی ہیں۔ میرے شہر کے ارد گرد جدید ہاؤسنگ سوسائیٹیوں کا ایک جنگل اگ آیا ہے جہاں ایک پانچ مرلے کا مکان بھی کروڑ سے دو کروڑ کا ہے۔ ہمارے ارد گرد شاپنگ مالز کھمبیوں کی طرح بکھرے ہوئے ہیں اور جب ان میں سیل لگتی ہے تو وہاں خواتین کی دونوں ہاتھوں میں ڈریس اٹھائے ہوئے لمبی لمبی قطاریں انہی نوجوانوں کی ماؤں، بہنوں اور بھابھیوں کی ہوتی ہے اوریہ بہت پرانی بات نہیں ہے کہ جب نئے کپڑے بنا ہی عیدوں یا شادیوں پر کرتے تھے۔
دراصل یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ناشکرے اور تھڑدلے نوجوان اپنے علاوہ ہر دوسرے شخص کو کرپٹ اور نااہل سمجھتے ہیںحالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ آج بھی وہ شخص جو محنت کرتا ہے، دیانتداری اختیار کرتا ہے وہ کامیاب ہوجاتا ہے ۔ میں نے اپنے شہر میں ایسی بہت ساری دودھ دہی کی دکانیں دیکھی ہیں جہاں لوگ لائن میں لگ کے خریداری کرتے ہیں اور ایسے مکینک بھی جن کے پاس لوگ گاڑیوں کی مرمت کے لئے باقاعدہ انتظار کرتے ہیں۔ آج ہم جن لوگوں کو اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں یا بیوروکریسی، بہت سارے بڑے بڑے تاجریا جج اور جرنلسٹ، وہ سب ہم میں سے ہی نکلے ہیں۔ گائوں کا ایک لڑکا جو چوک میں بیٹھ کے دوسروں پر آوازے کسنے کی بجائے اپنی تعلیم پر دھیان دیتا ہے وہ سی ایس ایس کر کے سیکرٹری بن جاتا ہے ، فوج کا امتحان کلیئر کر کے جرنیل اوراس کے ساتھ ہی ایسا ناشکرا جسے یہ بتایا جاتا ہے کہ اس کے وسائل دوسروں نے لوٹ لئے ہیں اور کوئی مسیحا آئے گا جو زمینداروں سے زمینیں کارخانے داروں سے کارخانے چھین کے اس کے حوالے کر دے گا، وہ اسی انتظار میں رہ جاتا ہے اور ساری عمر دوسروں کو برابھلا کہتا ہوا۔ ایسی سوچ دینے والے عشروں تک کوئی کاروبار نہیں کرتے او رنہ ہی کوئی ملازمت مگر کئی کئی سو کنال کے گھروں کے مالک بن جاتے ہیں اور احمقوں سے کہتے ہیں کہ لوگوں نے تمہارا مال لوٹ لیا ہے۔
کسی نے پوچھا، تختہ سیاہ پر کھینچی ہوئی ایک بڑی لائن کو چھوئے بغیر چھوٹا کرنے کا طریقہ کیا ہے توجواب ملا اس سے بڑی لائن کھینچ دو، پہلی والی خود بخود چھوٹی ہوجائے گی۔میں نے ایک انڈین موٹیویشنل سپیکر کو سنا، وہ کہہ رہا تھا کہ سوسائٹی میں کوئی بھی شخص اپنی اہلیت اور محنت سے کم یا زیادہ نہیں کماتا۔ مان لو کہ تمہارے پاس جو کچھ ہے تمہارے میں اہلیت ہی اس کی تھی اور جوتم سے آگے نکل گئے وہ اس کی قابلیت رکھتے تھے۔ اگر تم ان جتنے اہل اور قابل ہوتے تو ان سے آگے نکل گئے ہوتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے بنیادی نظریات اور تصورات کو درست رکھیں۔ اگر ہم اپناوقت دوسروں کی ٹانگیں کھینچنے میں ضائع کرتے رہیں گے تو زندگی کی دوڑ میں ہم بھی بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ مجھے کسی نے کہا کہ بہت سارے خوشامد سے بھی آگے نکل جاتے ہیں تو میرا جواب تھا کہ تم اسے مثبت سمجھو یا منفی، خوشامد بھی ایک صلاحیت ہے اور یہ واقعی کام کرتی ہے۔ لو گ اپنی تعریف سننا پسند کرتے ہیں اور خاص طو ر وہ لوگ جو دولت مند ہوتے ہیں یا سماجی طور پر طاقتور، گالی سب کو بری لگتی ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی یہ نہیں سمجھتا کہ وہ د ونمبر طریقے سے امیر یا افسر بنا ہے۔ میر امشورہ تھا کہ تم اگر دوسروں کی تعریف نہیں کرسکتے تو مت کرو مگر دوسروں کی بدتعریفی کر کے، خواہ مخواہ کی تنقید کر کے بھی دوسروں کا موڈ اور اپنا راستہ کھوٹا مت کرو۔ المیہ یہ ہے کہ ہم نے الزام کو سچ اور گالی کوبہادری بنا کے پیش کرنا شروع کر دیا ہے۔ بدتمیز کوجرأت مند اور قانون شکن کو لیڈر سمجھنا بڑی غلط فہمی ہے۔
میں آپ کو پورے یقین سے بتاتاہوں کہ اگر آپ محنت اور دیانت کو اپنا شعار بنا لیں تو آپ کامیاب ہوسکتے ہیں۔ انہی دونوں خوبیوں کی بنیاد پر آپ اس سے زیادہ کما سکتے ہیں جتنا بہت سارے پاکستان سے باہر جا کے کما رہے ہیں اور یوں بھی باہر جانے میں ایک بڑا گھاٹا ہے کہ آپ پیاروں سے دور ہوجاتے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ آپ اپنی زندگی میں اسلام کو کتنی اہمیت دیتے ہیں مگر یہ بات طے شدہ ہے کہ اگر آپ امیگریشن لینے میں کامیاب بھی ہوجائیں تو آپ کی اگلی نسلیں اس عظیم مذہب سے دور ہوجائیں گی۔ بہرحال یہ نفع نقصان کا اپنا اپنا کھاتہ ہے جو اپنی اپنی فہم و فراست کے مطابق ہی ہوسکتا ہے۔ میری زندگی کے تجربات کا یہی حاصل ہے کہ اہلیت، محنت اور دیانت آپ کو کامیابی دلا سکتی ہیں۔ اگر آپ مثبت رہیں گے تو مثبت چیزیں خود بخود آپ کے گرد گھیرا کر لیں گی جیسے نیک نامی، شہرت ، دولت اور کامیابی۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: ہیں اور ہے کہ ا تھا کہ ہے اور
پڑھیں:
کوچۂ سخن
غزل
جاتے ہوئے جوازِ بقا لے گیا تو پھر
سیلِ بلا، فصیلِ انا لے گیا تو پھر
اس خوف سے بھی جاگتا رہتا ہوں رات بھر
آنکھوں سے کوئی خواب چرا لے گیا تو پھر
مذہب نے آ کے چھین لیے مجھ سے میرے بت
الحاد جاتے جاتے خدا لے گیا تو پھر
تم دیکھ تو رہے ہو تماشا جنون کا
صحرا اٹھا کے آبلہ پا لے گیا تو پھر
بنتا ہے کیا سخی ترے کون و مکان سے
کاسے میں ڈال کر یہ گدا لے گیا تو پھر
خوش اعتقاد شخص ہے، لڑنے سے پیشتر
دشمن بھی آ کے مجھ سے دعا لے گیا تو پھر
اِس خوف سے کہ راس نہ آئے اگر زمیں
میں آسمان ساتھ اٹھا لے گیا تو پھر
(اسد رحمان۔ پپلاں، پنجاب)
۔۔۔
غزل
سب کو دکھائی دیتی ہے میں ایسی گھات ہوں
دیوار پر تحریر اک پوشیدہ بات ہوں
میں ہونے اور نہ ہونے کے ہوں بیچ میں ابھی
میں بود اور نابودکے بھی ساتھ ساتھ ہوں
ہر شے میں جلوہ دیکھتا ہوں ایک ذات کا
کثرت کے درمیان بھی وحدت کے ساتھ ہوں
کوئی آ کے میری ساری اناؤں کو توڑ دے
میں آج کے اس دورکا اک سومنات ہوں
اک زندگی کے بعد ہے اِک اور زندگی
پھر افترا بھی ساتھ ہے کہ بے ثبات ہوں
الفت نے تیری وقت سے بیگانہ کر دیا
دن کو گمان ہوتا ہے جیسے کہ رات ہوں
ساجد ؔ میں اپنے یار سے ایسا ہوں منسلک
پرتَو ہوں اُس کی ذات کا یا عینِ ذات ہوں
(شیخ محمد ساجد۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
ایسے اس ہاتھ سے گرے ہم لوگ
ٹوٹتے ٹوٹتے بچے ہم لوگ
اپنا قصہ سنا رہا ہے کوئی
اور دیوار کے بنے ہم لوگ
وصل کے بھید کھولتی مٹی
چادریں جھاڑتے ہوئے ہم لوگ
اس کبوتر نے اپنی مرضی کی
سیٹیاں مارتے رہے ہم لوگ
پوچھنے پر کوئی نہیں بولا
کیسے دروازہ کھولتے ہم لوگ
حافظے کے لیے دوا کھائی
اور بھی بھولنے لگے ہم لوگ
عین ممکن تھا لوٹ آتا وہ
اس کے پیچھے نہیں گئے ہم لوگ
(ضیاء مذکور۔ صادق آباد)
۔۔۔
غزل
مجھ میں جتنے بھی ترے شہر ہیں، برباد کروں
سوچتا ہوں کہ نئی بستیاں آباد کروں
چپ ہی بیٹھا رہے، مجھ پر کوئی پھبتی نہ کسے
میرے بس میں ہو تو وہ آئنہ ایجاد کروں
قفسِ دل میں جگہ ایک ہی طائر کی ہے
میں کسے قید کروں اور کسے آزاد کروں
خود سے چھپ کر تجھے سونپ آیاکلیدِ زنداں
اور کس طرح بھلا میں تری امداد کروں
نخلِ غم کے لیے ناکافی رہا ہجر ترا
کیوں نہ اس کے لیے تیّار نئی کھاد کروں
وقت کی گاچنی ملتی ہی نہیں ہے مجھ کو
کون سی تختی پہ لکھ کر مَیں تجھے یاد کروں
(سعید شارق۔اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
اک لڑکی کے رُخ پر کیا بیزاری ہے
پھولوں کو بھی کھلنے میں دشواری ہے
عشق میں جب بھی کوئی شخص اجڑتا ہے
لگتا ہے اب اگلی میری باری ہے
اس سے پوچھو خوابوں کا اب کیا ہو گا
دن میں جس نے مجھ پر نیند اتاری ہے
مرشد بس میں خود سے نفرت کرتا ہوں
مرشد مجھ کو سوچنے کی بیماری ہے
ڈوب رہے ہیں لوگ سمندر میں عمارؔ
اِس نے اُن آنکھوں کی نقل اتاری ہے
(عمار یاسر مگسی۔لاہور)
۔۔۔
غزل
یہ جو میرے اندر پھیلی خاموشی ہے
تم کیا جانو کتنی گہری خاموشی ہے
اس کی اپنی ہی اک چھوٹی سی دنیا ہے
اک گڑیا ہے، ایک سہیلی خاموشی ہے
تیرا سایہ تیرے ساتھ سفر کرتا ہے
میرے ساتھ مسلسل چلتی خاموشی ہے
فرقت کا دکھ بس وہ سمجھے جس پر بیتے
میں ہوں، سُونا گھر ہے،گہری خاموشی ہے
شب کے پچھلے لمحوں میں، اکثر دیکھا ہے
تنہائی سے مل کر روتی خاموشی ہے
یہ موسم، یہ منظر،روٹھے روٹھے سے ہیں
جیسے سرد رویے، ویسی خاموشی ہے
لگتا ہے کہ تم نے بھی کچھ دیکھ لیا ہے
ہر لمحے جو تم پر طاری خاموشی ہے
مجھ کو انصرؔ روز پریشاں کر دیتی ہے
تیرے ہونٹوں پر جو رہتی خاموشی ہے
(راشد انصر ۔پاکپتن شریف)
۔۔۔
غزل
ترے جوارِ توجہ میں جو کھڑا ہوگا
بڑے بڑوں سے بھی قد میں بہت بڑا ہوگا
اب آ رہا ہوں میں شمشیر جاں سنبھالے ہوئے
ذرا سنبھلنا کہ اب معرکہ کڑا ہوگا
میں سر جھکا نہیں سکتا کسی بھی حالت میں
مجھے یقیں ہے اسی ضد پہ وہ اڑا ہوگا
جو بات اپنے تعلق کی چھڑ گئی ہوگی
میان وہم و یقیں سخت رن پڑا ہوگا
جہاں پہ ہمتیں دینے لگیں گی سب کی جواب
وہاں پہ دیکھنا جھنڈا مرا گڑا ہوگا
نہیں ہے دل مرے سینے میں تو یقینی ہے
نگینے جیسا ترے تاج میں جڑا ہوگا
کسی کا سر جسے کہتے ہیں دیکھنے والے
ندی کے سینے پہ بہتا ہوا گھڑا ہوگا
سکوں سے بیٹھنا فطرت میں ہی نہیں اس کی
وہ نورؔ اپنی ہی پرچھائیں سے لڑا ہوگا
(سید محمد نورالحسن نور۔ ممبئی)
۔۔۔
غزل
کسی کی یاد میں دن بھر تڑپتا عشق رہتا ہے
میرے دل کے جزیروں پر مچلتا عشق رہتا ہے
کوئی تجویز دیں مرشد مجھے باہر نکلنا ہے
میرے اندر کی دنیا میں بھٹکتا عشق رہتا ہے
میری فریاد لے جائے کوئی آقا ؐ کی چوکھٹ تک
مدینے کی فضاؤں کو ترستا عشق رہتا ہے
عجب بے کیف موسم کی فراوانی ہے سینے میں
دھواں دیتی نہیں لکڑی، سلگتا عشق رہتا ہے
جسے معروف ؔدنیا سے غلامی ختم کرنی تھی
وہ خود اب قیدخانے میں چلاتا عشق رہتا ہے
(معروف شاہ۔ اسکردو)
۔۔۔
غزل
یہ رابطہ بھی اس لیے موقوف ہوگیا
میں عرصۂ حیات میں مصروف ہوگیا
حیرت ہے اپنے عہد کی گمنامیوں کے بیچ
مجھ سا فقیر شہر میں معروف ہوگیا
مجھ سے مرے گمان کی گرہیں نہ کھل سکیں
تیرا خیال رات میں ملفوف ہوگیا
صاحب کسی نگاہ کا فیضان دیکھئے
میں کہ تمام شہر پہ مکشوف ہوگیا
ہائے وہ التفات کے رنگوں کی کہکشاں
میں دیکھتے ہی دیکھتے محذوف ہوگیا
(سید فیض الحسن فیضی کاظمی۔ پاکپتن)
۔۔۔
غزل
مشکل ہے اس قدر اب تم پر یقین کرنا
جیسے کہ آسماں کو زیرِ زمین کرنا
قیمت ہمارے دل کی کیا خوب ہے لگائی
بولی لگا کے جیسے اک دو سے تین کرنا
یہ بھی کمال اکثر محفل میں تیری دیکھا
تند خو کو اک نظر میں خندہ جبین کرنا
ہے عشق کی روایت یا معجزہ ہے اس کا
مسند کے وارثوں کو کوچہ نشین کرنا
چہروں کے داغ دھبے دائم ؔ سبھی مٹائیں
لیکن کوئی نہ چاہے دل کو حسین کرنا
(ندیم دائم۔ ہری پور)
۔۔۔
غزل
کہتے ہو جو ہر روز وہ کر کیوں نہیں جاتے
تم فرقتِ دلدار میں مر کیوں نہیں جاتے
بازار میں بک جاتی ہے غیرت کی علامت
دستار چلی جاتی ہے سر کیوں نہیں جاتے
ہر وقت پڑے رہتے ہو رستے میں ہمارے
تم لوگ گزر گاہ سے گھر کیوں نہیں جاتے
قسمت نے جنہیں کھل کے مہکنے نہ دیا ہو
ہاتھوں سے وہی پھول بکھر کیوں نہیں جاتے
میں آج سمجھ پایا تری بے قدری کو
میخانے چلے جاتے ہو گھر کیوں نہیں جاتے
حسرت سے ہی اس آنکھ کو تکتے ہو روزانہ
اس بحر میں تم صائم ؔاتر کیوں نہیں جاتے
(عابد حسین صائم۔ بورے والا، پنجاب)
۔۔۔
غزل
توُ نے جب ہم کو نہ اپنا، جانا
خوب در سے ترے جانا، جانا
پہلے ہنسنا تھا اک عادت اپنی
تجھ سے ملتے ہی تو رونا، جانا
درد سے مجھ کو دوا ہی تو ملی
میں نے گرنے سے سنبھلنا، جانا
وقت کی آنکھ بدلنے کے طفیل
بوجھ کندھوں پر اٹھانا، جانا
زندگی کیسے گزرتی ہے یہ گُر
دوسروں کو بھی سکھانا، جانا
(محبوب الرّحمان۔سینے،میاندم،سوات)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی