Nai Baat:
2025-09-18@11:13:23 GMT

ناشکرے، تھڑدلے

اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT

ناشکرے، تھڑدلے

میں نے پنجاب یونیورسٹی کے الرازی ہال میں اپنے سامنے شور مچاتے نوجوانوں کو دیکھا۔وہ اس بات پر سراپا احتجاج تھے کہ میں نے پاکستان سے محبت کی بات کیوںکی۔ یہ کیوں کہا کہ ہمارے نوجوانوں کی بڑی تعداد پاکستان نہیں چھوڑنا چاہتی کیونکہ وہاں بیٹھے ہوئے اسی سے نوے فیصد نوجوان لڑکوں اور لڑکیوںنے اس سوا ل پر ہاتھ کھڑے کر دئیے تھے کہ وہ اس ملک میں نہیں رہنا چاہتے۔ وہ ملک ،جس میں ان کے ماں باپ رہتے ہیں۔ وہ ملک، جو انہیں بہترین تعلیم دے رہا ہے۔ جس کو قائم کرنے کے لئے ہمارے پرکھوں نے جان و مال کی قربانیاں دی ہیں۔ حب الوطنی کا یہ بحران صرف ایک سیاسی رہنما کا پیدا کر دہ ہے۔ وہ سیاسی رہنما جسے اس ملک نے عزت، دولت، شہرت اور اقتدا ر تک دیا ۔ ابھی سوشل میڈیا پر کسی نے لکھا، پنجاب یونیورسٹی میں نوجوانوں نے تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا۔ میں نے اس سوال پر بہت دیر تک غور کیا کہ کیا میں نے کچھ غلط کیا۔ کیا وہ لوگ غلط تھے جو بنگلہ دیش میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے اور پھانسیوں پر چڑھتے رہے۔ میں نے مان لیا کہ پنجاب یونیورسٹی کے جرنلزم ڈپیارٹمنٹ کے نوجوانوں کی بھاری اکثریت میرے ساتھ اتفاق نہیں رکھتی۔ وہ ان کے ساتھ ہے جو کہتے ہیں کہ ہم فوجیوں کی اولاد ہیں اور پاکستان کی فوج کو گالی دیتے ہیں تو کیا مجھے اپنی بات کہنے سے ہٹ جانا چاہیے۔ کیا جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہم وطنوں سے کہا تھا کہ اللہ ایک ہے اور مکے والوں کی اکثریت نے ان کی مخالفت کی تھی تو کیا انہیں بھی اکثریت کو درست مان لینا چاہئے تھا؟
میرے سامنے وہ نوجوان تھے جو ملک کی بہترین یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے ۔ میرا پورا یقین ہے کہ وہ اپنے بزرگوں سے کہیں اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔ آج گھروں میں ائیرکنڈیشنرز ہیں اور چھوٹی چھوٹی گلیوں میں کئی کئی کاریں پارک ہوتی ہیں۔ ان سب کے پاس سمارٹ فون موجود تھے۔ ایک وقت تھا کہ پورے علاقے میں کسی ایک کے پاس گاڑی ہوا کرتی تھی اور کسی ایک گھر میں ٹیلی ویژن۔ اب حالات یہ ہیں کہ شہر کی مرکزی سڑکیں دس، دس لین کی ہو کر بھی پیک ہوتی ہیں۔ میرے شہر کے ارد گرد جدید ہاؤسنگ سوسائیٹیوں کا ایک جنگل اگ آیا ہے جہاں ایک پانچ مرلے کا مکان بھی کروڑ سے دو کروڑ کا ہے۔ ہمارے ارد گرد شاپنگ مالز کھمبیوں کی طرح بکھرے ہوئے ہیں اور جب ان میں سیل لگتی ہے تو وہاں خواتین کی دونوں ہاتھوں میں ڈریس اٹھائے ہوئے لمبی لمبی قطاریں انہی نوجوانوں کی ماؤں، بہنوں اور بھابھیوں کی ہوتی ہے اوریہ بہت پرانی بات نہیں ہے کہ جب نئے کپڑے بنا ہی عیدوں یا شادیوں پر کرتے تھے۔
دراصل یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ناشکرے اور تھڑدلے نوجوان اپنے علاوہ ہر دوسرے شخص کو کرپٹ اور نااہل سمجھتے ہیںحالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ آج بھی وہ شخص جو محنت کرتا ہے، دیانتداری اختیار کرتا ہے وہ کامیاب ہوجاتا ہے ۔ میں نے اپنے شہر میں ایسی بہت ساری دودھ دہی کی دکانیں دیکھی ہیں جہاں لوگ لائن میں لگ کے خریداری کرتے ہیں اور ایسے مکینک بھی جن کے پاس لوگ گاڑیوں کی مرمت کے لئے باقاعدہ انتظار کرتے ہیں۔ آج ہم جن لوگوں کو اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں یا بیوروکریسی، بہت سارے بڑے بڑے تاجریا جج اور جرنلسٹ، وہ سب ہم میں سے ہی نکلے ہیں۔ گائوں کا ایک لڑکا جو چوک میں بیٹھ کے دوسروں پر آوازے کسنے کی بجائے اپنی تعلیم پر دھیان دیتا ہے وہ سی ایس ایس کر کے سیکرٹری بن جاتا ہے ، فوج کا امتحان کلیئر کر کے جرنیل اوراس کے ساتھ ہی ایسا ناشکرا جسے یہ بتایا جاتا ہے کہ اس کے وسائل دوسروں نے لوٹ لئے ہیں اور کوئی مسیحا آئے گا جو زمینداروں سے زمینیں کارخانے داروں سے کارخانے چھین کے اس کے حوالے کر دے گا، وہ اسی انتظار میں رہ جاتا ہے اور ساری عمر دوسروں کو برابھلا کہتا ہوا۔ ایسی سوچ دینے والے عشروں تک کوئی کاروبار نہیں کرتے او رنہ ہی کوئی ملازمت مگر کئی کئی سو کنال کے گھروں کے مالک بن جاتے ہیں اور احمقوں سے کہتے ہیں کہ لوگوں نے تمہارا مال لوٹ لیا ہے۔
کسی نے پوچھا، تختہ سیاہ پر کھینچی ہوئی ایک بڑی لائن کو چھوئے بغیر چھوٹا کرنے کا طریقہ کیا ہے توجواب ملا اس سے بڑی لائن کھینچ دو، پہلی والی خود بخود چھوٹی ہوجائے گی۔میں نے ایک انڈین موٹیویشنل سپیکر کو سنا، وہ کہہ رہا تھا کہ سوسائٹی میں کوئی بھی شخص اپنی اہلیت اور محنت سے کم یا زیادہ نہیں کماتا۔ مان لو کہ تمہارے پاس جو کچھ ہے تمہارے میں اہلیت ہی اس کی تھی اور جوتم سے آگے نکل گئے وہ اس کی قابلیت رکھتے تھے۔ اگر تم ان جتنے اہل اور قابل ہوتے تو ان سے آگے نکل گئے ہوتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے بنیادی نظریات اور تصورات کو درست رکھیں۔ اگر ہم اپناوقت دوسروں کی ٹانگیں کھینچنے میں ضائع کرتے رہیں گے تو زندگی کی دوڑ میں ہم بھی بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ مجھے کسی نے کہا کہ بہت سارے خوشامد سے بھی آگے نکل جاتے ہیں تو میرا جواب تھا کہ تم اسے مثبت سمجھو یا منفی، خوشامد بھی ایک صلاحیت ہے اور یہ واقعی کام کرتی ہے۔ لو گ اپنی تعریف سننا پسند کرتے ہیں اور خاص طو ر وہ لوگ جو دولت مند ہوتے ہیں یا سماجی طور پر طاقتور، گالی سب کو بری لگتی ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی یہ نہیں سمجھتا کہ وہ د ونمبر طریقے سے امیر یا افسر بنا ہے۔ میر امشورہ تھا کہ تم اگر دوسروں کی تعریف نہیں کرسکتے تو مت کرو مگر دوسروں کی بدتعریفی کر کے، خواہ مخواہ کی تنقید کر کے بھی دوسروں کا موڈ اور اپنا راستہ کھوٹا مت کرو۔ المیہ یہ ہے کہ ہم نے الزام کو سچ اور گالی کوبہادری بنا کے پیش کرنا شروع کر دیا ہے۔ بدتمیز کوجرأت مند اور قانون شکن کو لیڈر سمجھنا بڑی غلط فہمی ہے۔
میں آپ کو پورے یقین سے بتاتاہوں کہ اگر آپ محنت اور دیانت کو اپنا شعار بنا لیں تو آپ کامیاب ہوسکتے ہیں۔ انہی دونوں خوبیوں کی بنیاد پر آپ اس سے زیادہ کما سکتے ہیں جتنا بہت سارے پاکستان سے باہر جا کے کما رہے ہیں اور یوں بھی باہر جانے میں ایک بڑا گھاٹا ہے کہ آپ پیاروں سے دور ہوجاتے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ آپ اپنی زندگی میں اسلام کو کتنی اہمیت دیتے ہیں مگر یہ بات طے شدہ ہے کہ اگر آپ امیگریشن لینے میں کامیاب بھی ہوجائیں تو آپ کی اگلی نسلیں اس عظیم مذہب سے دور ہوجائیں گی۔ بہرحال یہ نفع نقصان کا اپنا اپنا کھاتہ ہے جو اپنی اپنی فہم و فراست کے مطابق ہی ہوسکتا ہے۔ میری زندگی کے تجربات کا یہی حاصل ہے کہ اہلیت، محنت اور دیانت آپ کو کامیابی دلا سکتی ہیں۔ اگر آپ مثبت رہیں گے تو مثبت چیزیں خود بخود آپ کے گرد گھیرا کر لیں گی جیسے نیک نامی، شہرت ، دولت اور کامیابی۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: ہیں اور ہے کہ ا تھا کہ ہے اور

پڑھیں:

قومی اداروں کی اہمیت اور افادیت

مہذّب ملکوں میں آئین کو سپریم لاء کی حیثیّت حاصل ہوتی ہے۔ آئین کی خلاف ورزی کو اس ملک میں سب سے بڑا جرم قرار دیا جاتا ہے۔ آئین ہی مختلف اکائیوں کو ملاکر، ریاست کی تشکیل کرتا ہے اور آئین ہی طرزِ حکمرانی کے بارے میں راہنما اصول فراہم کرتا ہے۔

آئین ہی کو قومی اتحادکی بنیاد اور ضمانت سمجھا جاتا ہے۔مہذّب معاشروں میں آئین کو پامال کرنا ناقابلِ معافی جرم سمجھا جاتاہے۔ اس کو محض آئین شکنی ہی کہہ لیں تو بھی جرم کی سنگینی برقرار رہتی ہے۔جمہوری معاشروں میں آئین شکنی کو بغاوت کی طرح سزا دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں آئین توڑنے والے سزاسے بچتے رہے اس لیے قانون شکنی کو فروغ ملا اور قانون کی حکمرانی قائم نہ ہوسکی۔

دوست ممالک کے سفارتکار کسی تقریب میں ملیں تو حیرانی سے پوچھتے ہیں کہ’’ آپ عجیب قوم ہیں جہاں ٹی وی پر وزراء کھلم کھلا ہائبرڈ نظام کی تعریف و تحسین کرتے ہیں۔ کسی ایسے نظام کی تعریف صرف وہ دسترخوانی ٹولہ ہی کرسکتا ہے جو اس نظام کے دسترخوان پر بیٹھا، اس کی برکات سے پوری طرح مستفیض ہورہا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ وہ اپنے سامعین کو جاہل یا بھیڑ بکریاں سمجھ کر فسطائیت کو ایک بہتر آپشن کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس کے خطرناک اثرات اور نتائج سے عوام کو جان بوجھ کر بے خبر رکھتے ہیں۔

کیا وہ نہیں جانتے کہ جدید ریاست تین ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے مقننہ ، عدلیہ اور انتظامیہ ۔ میڈیا کو بھی چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے۔ ایک مہذّب معاشرے کی نشوونما کے لیے عوام کی منتخب پارلیمنٹ، طاقتور عدلیہ ، آزاد میڈیا، باضمیر انتظامیہ اور قانون کی حکمرانی کی ضرورت ہوتی ہے مگر آمریّت ان سب کی نفی کرتی ہے۔ ڈکٹیٹروں کو اپنے غیر آئینی اقدام پر قانونی مہر لگوانے کے لیے تابعدار عدلیہ کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے پارلیمنٹ کے بعد سب سے پہلے عدلیہ کو قابو کیا جاتا ہے۔

اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو حکومت، وزیرِاعظم یا صدر اپنے عہدے سے سبکدوش نہیں کرسکتا۔ انھیں صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہی عہدے سے برخاست کرسکتی ہے مگر ڈکٹیٹروں نے جج صاحبان کو ہٹانے کا ایک انوکھا طریقہ ایجاد کرلیا، وہ اپنے وفادار اٹارنی جنرل یا وزیرِ قانون کے ذریعے معلوم کرتے ہیں کہ کون سے جج فرمانبردار ہیں اور کون سے جج ایسے ہیں جن کی ریڑھ کی ہڈّی مضبوط ہے، اگر باضمیر جج کافی تعداد میں نظر آئیں تو پھر شریف الدّین پیرزادوں کے مشورے پر PCO کے نام سے ایک نیا آئین نافذ کردیا جاتا ہے۔

جج صاحبان کو پابند کیاجاتا ہے کہ وہ پی سی او کے تحت حلف اُٹھائیں یا پھر گھر جائیں۔ جب جنرل مشرّف نے آئین توڑ کر حکومت پر قبضہ کیا تو اس کے مشیر سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو ڈکٹیٹر کے غیر آئینی اقدام کی حمایت پر آمادہ کرتے رہے۔ جب آدھے سے زیادہ جج صاحبان (ان ججوں میں کوئی بھی پنجابی نہیں تھا) اس پر تیار نہ ہوئے تو انھیں عہدوں سے فارغ کردیا گیا۔ انھیں دو دن کے لیے گھروں پر نظر بند کرکے فرمانبردار ججوں سے حلف اُٹھوالیا گیا اوراس کے بعد اپنی مرضی کے کچھ اور جج تعنیات کرکے ان سے مارشل لاء کے حق میں فیصلہ لے لیا گیا۔

 سپریم کورٹ سے اپنے حق میں فیصلہ لینے کے بعد بھی آئین کے آرٹیکل چھ کی تلوار ان کے سر پر لٹکتی رہتی ہے، اس کے لیے ان پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام (غیر آئینی) اقدامات کو پارلیمنٹ سے ratifyکروائیں۔ اس کے لیے اِدھر اُدھر سے لوٹے جمع کرکے ایک کنگز پارٹی بنائی جاتی ہے، جس طرح جنرل مشرّف نے ق لیگ بنائی تھی، اسی طرح کی پارٹی ہر آمر کو بنانا پڑتی ہے، اس کے لیے ایک جعلی ساالیکشن کروایا جاتا ہے جس میں کنگز پارٹی کے امیدواروں کو جتوانے کے لیے انتظامیہ اور پولیس کے ایسے افسر تیّار کیے جاتے ہیں، جو ہر غیر قانونی اور غیر اخلاقی حربہ استعمال کرنے کے لیے تیار ہوں۔

ان کے ساتھ ایک غیر تحریری معاہدہ ہوتا ہے کہ تم ہمارے کہنے پر غیر قانونی کام کرتے رہو، ہمارے مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمے بناؤ ۔ اس کے صلے میں ہم تمہیں تخفّظ دیں گے، تمہیں فیلڈ پوسٹنگ سے نہیں ہٹایا جائے گا۔ تم فیلڈ میں جتنا عرصہ چاہے رہو اور جتنی چاہے لوٹ مار کرتے رہو، تمہیں کوئی نہیں پوچھے گا، اس کے بعد بھی تمہیں بہترین پوسٹنگ دلادیں گے۔ اس طرح پولیس اور انتظامیہ میں ایک نئی کلاس تیار کی جاتی ہے۔ ایسے افسر، سول سرونٹس نہیں رہتے بلکہ حکمرانوں کے نوکر بن جاتے ہیں۔ اس طرح مقننّہ اور عدلیہ کے ساتھ انتظامیہ کو بھی برباد کردیا جاتا ہے۔

 آمر اور فاشسٹ حکمران آزاد میڈیا کو بھی کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے چنانچہ میڈیا کو جو ریاست کا چوتھا ستون کہلاتا ہے، خوف اور تحریص سے اپنا حامی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جھکنے سے انکار کرنے والے صحافیوں کو آمروں کے دور میں کوڑے مارے گئے، گرفتار کیا گیا، کچھ کو خرید لیا گیا اور کئی قتل کردیے گئے ۔ اس طرح ملک کا نام دنیا بھر میں بدنام اور بے وقار ہوتا رہا اور دیارِ غیر میں رہنے والے پاکستانیوں کو رسوائی اور طعنوں کا سامنا کرنا پڑتا رہا۔

آمریتوں کے دور میں میڈیا جبر کا شکار رہا ہے اور کالم نگار ، اینکرز اور تجزیہ کار آمروں کی بنائی ریڈ لائنز کراس کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے، انھیں صرف تعریف و تحسین کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔ بڑے بڑے صحافیوں کے تجزئیے سن کر افتخار عارف یاد آیا کرتے ہیں جو درست کہہ گئے کہ ؎ہوسِ لقمۂ تر کھاگئی لہجے کا جلال ۔تلخ حقیقت یہی ہے کہ ریاست کا چوتھا ستون بھی بوسیدہ کردیا گیا ہے۔

اِس وقت بھی اگر عام آدمی سے پوچھا جائے کہ کیا الیکشن کمیشن پر اعتماد ہے؟ تو اس کا جواب ناں میں ہوگا۔ یوں الیکشن کمیشن پر بھی عوامی اعتماد ختم کرادیا گیا۔ آمرانہ حکومتیں جب چاہیں پولیس اور انتظامیہ کو اپنے ناپسندیدہ سیاستدانوں یا صحافیوں کے پیچھے لگادیتی ہیں، جو افراد پھر بھی راہِ راست پر نہ آئیں، ان کے پیچھے نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر کو لگادیا جاتا ہے کیونکہ مخالفین کو تنگ کرنے کے لیے ان کی خدمات ہر وقت حاضر رہتی ہیں۔

 ہائبرڈ نظام میں ادارے متنازعہ بنا دیے جاتے ہیں۔ کنگز پارٹی کے سوا باقی تمام پارٹیاں اور ان کے حامی اداروں سے نفرت اور غصّے کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ یہ ہیں آمرانہ حکمرانی کے نتائج۔ جمہوریّت کو مطعون کرنے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جمہوریت ملک ٹوٹنے نہیں دیتی اور تمام کنفیڈریٹنگ یونٹس کو ریاست کے ساتھ مضبوطی سے جوڑ کر رکھتی ہے۔

قومی اداروں کی کمزوری کے خطرناک after effects  یا side effects سے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ ایوّب خان کے دور میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بیج بوئے گئے اور بنگلہ دیش کی بنیاد رکھ دی گئی ۔ یحیٰ خان جیسے آمر نے ملک کا ایک بازو کٹوا دیا۔ جنرل ضیاالحق نے قوم کو کلاشنکوف، ہیروئن، انتہاپسندی اور لسانی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے تحفے دیے اور جنرل مشّرف نے ملک کو د ہشت گردی کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔

کل ایک شادی کی تقریب میں ایک بڑی عدالت کے ایک ریٹائرڈ جج صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ گفتگو کے دوران کہنے لگے ’’جمہوریت دوسرے نظاموں سے اس لیے بہتر ہے کہ اس میں چیک اینڈ بیلنس کو یقینی بنایا جاتا ہے، کوئی ادارہ لا محدود اختیارات کا حامل نہیں ہوتا، ہر ادارے پر چیک رکھا جاتا ہے کیونکہ کسی حکمران کے پاس لامحدود اختیارات آجائیں تو سسٹم میں کرپشن در آتی ہے اور  'Absolute Power Corrupts absolutely' دوسرے یہ کہ وہ تمام اداروں کو نگل جاتا ہے۔

ایک طاقتور آمر کے علاوہ باقی سب اپنا وجود کھو دیتے ہیں، پارلیمنٹ irrelevant ہو جاتی ہے۔ میڈیا صرف قصیدہ گوئی کرسکتا ہے۔ انتظامیہ اور پولیس کے افسران حکمرانوں کے تابع فرمان بن جاتے ہیں، وہ حکمرانوں کے کہنے پر ہر غیر قانونی اور غیراخلاقی کام کرنے کے لیے تیّار رہتے ہیں۔ ادارے کمزور ہوجائیں تو شہریوں کا ریاست سے تعلق کمزور ہوتے ہوتے بالآخر ختم ہوجاتا ہے ۔کیا اس طرح ملک ترقی کرسکتے ہیں؟ ترقّی کیا اِس طرح تو ملک قائم بھی نہیں رہ سکتے۔‘‘

یادرکھیں امن، جبر سے نہیں انصاف سے قائم ہوتا ہے اور استحکام ظلم سے نہیں قانون کی حکمرانی سے حاصل ہوتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایچ پی وی ویکسین: پاکستانی معاشرے میں ضرورت
  • انسان بیج ہوتے ہیں
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • لازوال عشق
  • اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں ٹوٹ جا ئوں گا تو یہ غلط فہمی ہے ، عمران خان
  • قومی اداروں کی اہمیت اور افادیت
  • جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
  • انقلاب – مشن نور
  • فیس لیس اسیسمنٹ کی وجہ سے ریونیو میں اضافہ ہوا: ایف بی آر
  • Self Sabotage