فرینڈز آف گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیئٹِو گروپ اور یونائیٹڈ نیشنز سسٹم انیشیئٹِو پروموشن ورکنگ گروپ کے درمیان پہلے پالیسی ڈائیلاگ کا انعقاد
اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT
فرینڈز آف گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیئٹِو گروپ اور یونائیٹڈ نیشنز سسٹم انیشیئٹِو پروموشن ورکنگ گروپ کے درمیان پہلے پالیسی ڈائیلاگ کا انعقاد WhatsAppFacebookTwitter 0 12 January, 2025 سب نیوز
اقوام متحدہ : فرینڈز آف گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیئٹِو گروپ اور یونائیٹڈ نیشنز سسٹم انیشیئٹِو پروموشن ورکنگ گروپ کے درمیان پہلا پالیسی ڈائیلاگ نیویارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں منعقد ہوا۔ اقوام متحدہ میں چین کے نائب مستقل نمائندے گنگ شوانگ اور اقوام متحدہ کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل حنیف نے اجلاس میں شرکت کی اور تقریریں کیں۔ اجلاس میں 40 سے زائد ممالک اور اقوام متحدہ کی تقریباً 20 ایجنسیوں کے 100 سے زائد نمائندوں نے شرکت کی۔
گنگ شوانگ نے کہا کہ گزشتہ تین سالوں میں گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیئٹِو چین کی تجاویز سے لے کر بین الاقوامی اتفاق رائے تک، تعاون کے تصورات سے مشترکہ اقدامات تک تیار ہوا ، جس سے بہت سے ترقی پذیر ممالک کو فائدہ پہنچا ہے۔ امید ہے کہ فرینڈز آف دی گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیئٹِو گروپ اقوام متحدہ کے سسٹم انیشیئٹِو پروموشن ورکنگ گروپ کے ساتھ مل کر غیر متزلزل طور پر کثیرالجہتی کو برقرار رکھے گا اور ترقیاتی ایجنڈے پر زور دے گا ، اور شراکت داری کو مضبوط کرےگا تاکہ 2030 کے ایجنڈے کے نفاذ میں زیادہ سے زیادہ خدمات سر انجام دی جا سکیں ۔
شرکاء اجلاس نے بین الاقوامی ترقیاتی تعاون میں چین کے قائدانہ کردار کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے 2030 کے ایجنڈے پر عمل درآمد کو فروغ دینے کے لیے گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیئٹِو کے اہم کردار کو سراہا اور تجویز پیش کی کہ دونوں گروپ باقاعدگی سے بات چیت اور تبادلے کو آگے بڑھیں اور اہم شعبوں میں عملی تعاون کریں ۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: سسٹم انیشیئٹ و پروموشن ورکنگ گروپ کے
پڑھیں:
بھارتی فوج بھی انتہاپسند ہندوتوا ایجنڈے کے رنگ میں رنگ گئی
حالیہ دنوں میں بھارتی آرمی چیف جنرل اوپندر دویدی کی مذہبی سرگرمیوں نے سوشل میڈیا سے لے کر سیاسی حلقوں تک میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ کیا اب انڈین فوج محض دفاعی ادارہ نہیں رہی بلکہ ہندوتوا کے ایجنڈے کی محافظ بن چکی ہے؟
جنرل دویدی نے حال ہی میں وردی میں نہ صرف کیدارناتھ کے مندر میں حاضری دی بلکہ رام بھدرآچاریہ کے آشرم میں بھی ماتھا ٹیکتے دکھائی دیے۔ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو انہوں نے فوجی وردی کو ہندو عقیدت کا لباس بنا ڈالا۔
سوال یہ نہیں کہ کسی کا ذاتی عقیدہ کیا ہے، سوال یہ ہے کہ جب ایک سیکولر ملک کی مسلح افواج کا سربراہ وردی میں مذہبی رسومات ادا کرے تو اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ کیا فوجی وردی صرف ہندو دیوی دیوتاؤں کی خدمت کےلیے مخصوص ہوچکی ہے؟
بھارتی آئین کی شقیں شاید کتابوں میں اب بھی سیکولرزم کا دعویٰ کرتی ہوں، مگر زمین پر حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ بھارتی فوج جسے تمام قومیتوں، مذاہب اور ثقافتوں کا محافظ ہونا چاہیے تھا، اب زعفرانی رنگ میں رنگتی جا رہی ہے۔ جنرل دویدی کے مذہبی مندر دوروں سے یہ تاثر ملتا ہے جیسے وہ صرف ایک مخصوص اکثریتی مذہب کے وفادار ہوں، اور اقلیتوں کے لیے ان کی فوجی قیادت سوالیہ نشان بن چکی ہو۔
اگر آرمی چیف ہندو مندر میں ماتھا ٹیک سکتے ہیں، تو کیا وہ کسی مسجد میں دو گھڑی سکون کی دعا کے لیے رکیں گے؟ کیا وہ کسی چرچ جا کر دعائیہ کلمات سنیں گے؟ سکھوں کے گوردوارے میں عقیدت سے جھکیں گے؟ یا یہ سب صرف آر ایس ایس کی ’’ہندو راشٹر‘‘ کی مہم کا حصہ ہے، جہاں وردی کو ایک مذہبی پرچم میں بدل دیا گیا ہے؟
یہ سارا معاملہ صرف ایک فرد کا مذہبی رجحان نہیں بلکہ اس پورے ادارے کے غیر جانب دار تشخص پر ایک سنجیدہ سوال ہے۔ جب جنرل دویدی میڈیا کے سامنے وردی میں پوجا پاٹ کرتے ہیں تو وہ نہ صرف آئین کے سیکولر اصولوں کی نفی کرتے ہیں بلکہ اقلیتوں کو بھی ایک واضح پیغام دیتے ہیں کہ ان کی نمائندگی اس فوج میں شاید صرف کاغذوں کی حد تک رہ گئی ہے۔
بھارت میں ہندوتوا کی سیاسی اور سماجی بالادستی اب اتنی گہری ہو چکی ہے کہ ملک کا ہر ادارہ اس کی جھلک دکھانے لگا ہے، حتیٰ کہ فوج جیسا حساس اور غیر جانبدار ادارہ بھی۔ اس تناظر میں جنرل دویدی کی مندر یاترا صرف ایک ذاتی عقیدے کا اظہار نہیں بلکہ ایک طاقتور پیغام ہے، اور وہ پیغام یہ ہے کہ نئی دہلی کی راہ صرف ہندوتوا کے قدموں کی چاپ سننے کو تیار ہے۔
کیا ہندوستانی سپہ سالار اب صرف ایک عقیدے کا نمائندہ ہے؟ اگر ایسا ہے تو اقلیتوں کو سوچ لینا چاہیے کہ ان کی حفاظت کے دعوے صرف کاغذی تحریر رہ گئے ہیں، کیونکہ وردی پہنے وہ ہاتھ جو ملک کی سرحدوں کے محافظ کہلاتے ہیں، اب شاید صرف ایک مخصوص مذہب کے سامنے جھکنے کے لیے اٹھتے ہیں۔