یوٹیوب، فیس بک، اور ٹک ٹاک جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فوری پابندی کیلئے درخواست دائر
اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا کا غلط استعمال عام ہو چکا ہے، ہر دوسرا فرد یوٹیوب چینل چلا رہا ہے اور اسے بلیک میلنگ اور غیر اخلاقی مواد کے فروغ کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ درخواست گزار کے مطابق، غیر اخلاقی ویڈیوز اپ لوڈ کرکے ویوز حاصل کیے جا رہے ہیں، اور فیک ویڈیوز کی بھرمار نے سوشل میڈیا کو ایک غیر محفوظ پلیٹ فارم بنا دیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ لاہور ہائیکورٹ میں شہری اسلم کی جانب سے ایک درخواست دائر کی گئی ہے، جس میں یوٹیوب، فیس بک، اور ٹک ٹاک جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فوری پابندی عائد کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔ یہ درخواست ایڈووکیٹ ندیم سرور کے ذریعے جمع کرائی گئی ہے، جس میں وفاقی حکومت اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو فریق بنایا گیا ہے۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا کا غلط استعمال عام ہو چکا ہے، ہر دوسرا فرد یوٹیوب چینل چلا رہا ہے اور اسے بلیک میلنگ اور غیر اخلاقی مواد کے فروغ کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ درخواست گزار کے مطابق، غیر اخلاقی ویڈیوز اپ لوڈ کرکے ویوز حاصل کیے جا رہے ہیں، اور فیک ویڈیوز کی بھرمار نے سوشل میڈیا کو ایک غیر محفوظ پلیٹ فارم بنا دیا ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ ان پلیٹ فارمز پر بغیر کسی لائسنس یا قواعد کے ویڈیوز اپ لوڈ کی جا رہی ہیں، اور ولاگرز اپنے مواد میں خواتین کو شامل کرکے خاندانی نظام کو متاثر کر رہے ہیں۔ یہ رویہ معاشرتی اقدار کیخلاف ہے اور نوجوان نسل کو گمراہ کر رہا ہے۔ درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ سٹیزن پروٹیکشن رولز پر سختی سے عملدرآمد کروانے کا حکم دے اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بند کرنے کی ہدایات جاری کرے تاکہ معاشرتی بگاڑ کو روکا جا سکے۔ یہ درخواست ایسے وقت میں دائر کی گئی ہے جب سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے حوالے سے کئی حلقوں کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ درخواست کی سماعت کے بعد عدالت کی جانب سے ممکنہ فیصلے کا شدت سے انتظار کیا جا رہا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: درخواست میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز غیر اخلاقی کی گئی ہے رہا ہے
پڑھیں:
جسٹس طارق کیس، ریکارڈنگ کے حصول کی درخواست دائر، اسلام آباد بار کی جزوی ہڑتال
اسلام آباد (وقائع نگار+ آئی این پی+ این این آئی) اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کا2 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کر دیا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان نے2 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا ہے۔ تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک جسٹس جہانگیری کو کام سے روکا جا رہا ہے، اس کیس میں حساس نوعیت کے سوالات موجود ہیں، جن میں جج کی اہلیت کا سوال بھی شامل ہے۔ اسلام آباد کورٹ کو یہ بھی بتایا گیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس طارق جہانگیری کے خلاف شکایت زیرِ التوا ہے۔ عدالت نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک بطور جج کام سے روکنے کا حکم دیا ہے۔ عدالتی حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ عدالتی معاونین21 اکتوبر کو عدالت کی معاونت کریں گے۔ کیس کی آئندہ سماعت بھی21 اکتوبر کو مقرر کر دی گئی ہے۔ روسٹر کے مطابق جسٹس ثمن رفعت اب ہائی کورٹ کی تیسرے نمبر پر سینئر ترین جج بن گئی ہیں۔ علاوہ ازیں جسٹس طارق محمود جہانگیری کو کام سے روکنے کے حکم میں نیا موڑ، چیف جسٹس کورٹ کی سماعت کی آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ کے حصول کی درخواست دائر کر دی گئی۔ بیرسٹر جہانگیر جدون نے رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ کو درخواست دائر کی۔ درخواست میں موقف اپنایا کہ گزشتہ روز میڈیا پر بڑے پیمانے پر جسٹس جہانگیری کیس رپورٹ ہوا، میڈیا پر رپورٹ ہوا چیف جسٹس نے وکلاء کو کہا ابھی کوئی آرڈر پاس نہیں کر رہے لیکن سماعت ختم ہونے کے بعد معلوم ہوا کہ جسٹس جہانگیری کو کام سے روک دیا گیا۔ درخواست میں استدعا کی گئی کہ16 ستمبر دن ایک بجے کورٹ نمبر 1 کی آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ دی جائے۔ علاوہ ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری کو جوڈیشل ورک سے روکنے کے معاملے پر اسلام آباد بار کونسل کی کال پر وکلاء نے جزوی ہڑتال کی۔ اس موقع پر عدالتوں میں معمول کی کارروائی متاثر ہوئی۔ سیکرٹری ہائیکورٹ بار منظور ججہ نے اعلامیہ جاری کرتے ہوئے وکلاء سے اپیل کی کہ وہ عدالتوں میں پیش نہ ہوں۔ جسٹس ثمن رفعت امتیاز بھی عدالت نہیں پہنچیں جبکہ جسٹس بابر ستار اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق کا ڈویژن بنچ بھی شروع نہ ہو سکا۔ جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس خادم سومرو پہلے ہی تین روزہ رخصت پر ہیں۔ جزوی ہڑتال کے باوجود کچھ وکلاء ارجنٹ نوعیت کے کیسز میں پیش ہوتے رہے۔ اس دوران سیکرٹری ہائیکورٹ بار منظور ججہ بھی ہائی کورٹ کے احاطے میں موجود رہے۔