افغانستان میں تقریباً تین سال قبل جب طالبان حکومت کی واپسی ہوئی تو پاکستان کے پالیسی سازوں کو امید تھی کہ ان کی واپسی سے مغربی سرحد کی صورت حال میں کسی حد تک استحکام آئے گی۔ یہ پاکستان کے لیے اہم تھا کیونکہ اسے اپنی مشرقی سرحدوں، بھارت کے ساتھ کشیدہ تعلقات کا سامنا ہے۔

لیکن یہ مفروضہ کہ طالبان دور میں پاکستان کی سرحدیں محفوظ ہوں گی، اسٹریٹجک طور پر غلط اندازہ ثابت ہوا۔ جلد ہی اس بات کے شواہد سامنے آنے لگے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع ملا۔ انہوں نے سرحد پار حملوں کا سلسلہ تیز کیا اور یہ پاکستان کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ بن کر سامنے آیا۔

ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرکے طالبان حکومت، پاکستان کی توقعات پر پوری نہیں اتری جسے امید تھی کہ وہ پاکستان کے سیکیورٹی خدشات کو دور کریں گے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تجزیاتی معاونت اور پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم کی پے در پے رپورٹس نے پاکستان کے اس مؤقف کو تقویت بخشی کہ ’افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد تمام غیرملکی انتہا پسند گروپس میں سب سے زیادہ فائدہ ٹی ٹی پی کو ہوا‘۔

جولائی 2024ء کی اس کی تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’ٹی ٹی پی افغانستان میں سب سے بڑا دہشت گرد گروپ ہے جس میں شامل عسکریت پسندوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 6 ہزار سے ساڑھے 6 ہزار کے درمیان ہے‘۔ یہ افغانستان میں ’بڑے پیمانے پر متحرک ہے اور پاکستان میں سرحد پار سے دہشت گردی کی کارروائیاں کرتا ہے‘۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ’طالبان، ٹی ٹی پی کو دہشت گرد گروہ نہیں سمجھتے، ان کے قریبی تعلقات ہیں جبکہ وہ ٹی ٹی پی کے لیے بہت کچھ کرتے ہیں‘۔ اسی رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی کو افغانستان کے جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس سے مدد ملتی ہے جبکہ وہ اس گروہ کو سپروائز بھی کرتا ہے۔ جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس کا مقصد طالبان کے اصل دشمن اسلامک اسٹیٹ خراسان میں طالبان اراکین کی شمولیت کو روکنا ہے۔ دوسری جانب ٹی ٹی پی کے القاعدہ کے ساتھ بھی روابط برقرار ہیں۔

گزشتہ سال پاکستان میں سرحد پار دہشت گرد حملوں کے سلسلے میں شدت آئی جبکہ قانون نافذ کرنے والےاداروں کے اہلکاروں کی اموات میں بھی نمایاں اضافہ دیکھا گیا جس سے پاکستان میں سلامتی کے خطرات نے سر اٹھایا۔ درحقیقت 2024ء میں ایک دہائی بعد دہشت گردانہ حملوں میں سب سے زیادہ اموات ریکارڈ کی گئیں۔

پاکستانی اور طالبان حکام کے درمیان ٹی ٹی پی سے متعلق ساڑھے تین سالہ بات چیت کے کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔ طالبان نے ٹی ٹی پی کو ’سنبھالنے‘ کے لیے وقت طلب کیا تو کبھی پاکستانی حکام پر زور دیا کہ وہ عسکری گروپ سے مذاکرات کرے اور کبھی ان انتہاپسندوں کے ٹھکانوں کو سرحدوں سے دور کرنے کی یقین دہانی کروائی جبکہ ایسا کرنے کے لیے انہوں نے مالی امداد کی بھی درخواست کی۔

صبر کا پیمانہ لبریز ہونے پر پاکستانی حکام نے کابل کے لیے سخت مؤقف اختیار کرنا شروع کیا اور افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں اور انتہاپسندوں کو غیراعلانیہ آپریشنز میں نشانہ بنایا۔ پاکستان کی قیادت کی جانب سے سخت بیانات جاری کیے گئے۔ طالبان حکام سے کہا گیا کہ وہ ٹی ٹی پی اور پاکستان کے درمیان کسی ایک کو چُنیں۔ پاک فوج کے ترجمان نے ’دہشت گردوں کو مسلح کرنے اور انہیں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کے لیے‘ براہ راست افغان عبوری حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا۔

گزشتہ ہفتے وزیر اعظم شہباز شریف نے کابل سے مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان میں حملے اور معصوم لوگوں کو مارنے سے ٹی ٹی پی کو روکیں اور اسے پاکستان کی ریڈ لائن قرار دیا۔

دسمبر کے اواخر میں جنوبی وزیرستان کے علاقے مکین میں ایک سرحدی چوکی پر ٹی ٹی پی کے انتہاپسندوں نے حملہ کیا جس میں 16 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے۔ اس واقعے نے پاکستان کو جوابی کارروائی کرنے پر مجبور کیا۔ 24 دسمبر کو پاکستان کے لڑاکا طیاروں نے پکتیکا صوبے میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر فضائی بمباری کی۔

طالبان حکام نے سخت احتجاج کیا اور دعویٰ کیا کہ ان کی فورسز نے وزیرستان سمیت پاکستان کی سرحد سے متصل متعدد علاقوں میں جوابی کارروائیاں بھی کی ہیں۔ ان مسلح جھڑپوں نے پہلے سے کشیدگی کا شکار تعلقات کو مزید سنگین رخ دیا ہے۔

یہ اب ایک ایسے وقت میں ہوا کہ جب پاکستان کے خصوصی مندوب محمد صادق افغانستان میں تھے اور کابل میں افغان حکومت کے نائب وزیر اعظم مولوی عبدالکبیر اور دیگر طالبان حکام کے ساتھ بات چیت میں مصروف تھے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو کم کیا جاسکے۔ حالیہ فضائی کارروائی کو ایک جانب کردیا جائے تو محمد صادق کا دورہ، پاکستان کی جانب سے ایک سال سے زائد عرصے سے اپنائی گئی سخت پالیسی اقدامات کے بعد افغانستان کے ساتھ تعلقات کو بحال کرنے کی کوشش کی نشاندہی کرتا ہے۔

ان سخت پالیسی اقدامات میں غیراعلانیہ فضائی حملوں کے علاوہ (اور اپریل 2024ء میں افغانستان میں اسٹرائیک جس کا اعتراف پاکستان نے بھی کیا تھا)، ٹرانزٹ ٹریڈ پابندیاں اور غیر قانونی افغان مہاجرین کو پاکستان سے بے دخل کرنا شامل تھے۔ ان آپریشنز کو عموماً پاکستان کی فوج کی جانب سے ملٹری بیس آپریشنز کہا جاتا ہے جن کا مقصد ٹی ٹی پی کی صلاحیتوں کو کم کرنا ہوتا ہے۔

ان اقدامات کا مقصد یہ تھا کہ طالبان کو ٹی ٹی پی کے معاملے پر پاکستان کے ساتھ تعاون نہ کرنے کے نقصانات کا ادراک ہو۔ تاہم ان اقدامات کے بھی محدود نتائج سامنے آئے۔ ایک سال تک سخت مؤقف پر ڈٹے رہنے کے بعد پاکستانی حکام نے فیصلہ کیا کہ اس وقت کابل کے ساتھ سفارتی تعلقات کو مزید کشیدہ ہونے سے روکنے کے لیے ایک سال سے بند بات چیت کے دروازوں کو دوبارہ کھولنا ہوگا تاکہ تجارت اور سلامتی کے مسائل کے حل کے لیے کوئی راہ تلاش کی جاسکے۔ دونوں فریقین ہی ان مذاکرات میں دلچسپی رکھتے تھے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی اور ٹرانزٹ ٹریڈ ایک سال سے زائد عرصے سے بند ہے۔

درحقیقت طالبان حکام اور محمد صادق کی قیادت میں پاکستان کے ہائبرڈ وفد (جس میں ملٹری حکام بھی شامل ہیں) کے درمیان بات چیت کا مقصد معاشی تعاون کو بہتر بنانا ہے۔ انہوں نے اہم تجارتی امور بشمول ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کی تجدید اور ترجیحی تجارتی معاہدے کو حتمی شکل دینے کے ساتھ ساتھ ایک دستاویزی نظام جس کو پاکستان اپنی سرحدی کنٹرول پالیسی کے طور پر نافذ کر رہا ہے، پر بات چیت کی۔

وفاقی ذرائع کے مطابق یہ مذاکرات مثبت سمت اور ’تعاون پر مبنی ماحول‘ میں آگے بڑھ رہے تھے۔ جنوری میں دوبارہ اعلیٰ سطح کے دوروں پر اتفاق کیا گیا تھا لیکن پھر ایئر اسٹرائیکس ہوگئیں۔

اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان مسلح جھڑپوں اور سخت بیانات کے تبادلوں کی وجہ سے سفارتی مذاکرات میں خلل ضرور آیا ہے لیکن ان کی جلد بحالی کی امید ہے۔ یہ نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان کی حکمت عملی میں عارضی طور پر تبدیلی آئی ہے جوکہ صرف طالبان حکام کے خلاف سخت اقدامات لینے پر مرکوز تھی اور ٹی ٹی پی سے متعلق ایجنڈا سے متعلق تھی۔

پاکستانی حکام، کابل کو پہلے ہی خبردار کر چکے تھے کہ اگر افغان سرزمین سے پاکستان پر کوئی بڑا حملہ ہوا تو وہ جوابی کارروائی کریں گے اور حملہ آوروں کا تعاقب کریں گے۔ اموات کو درگزر نہیں کیا جائے گا اور پاکستان مجبور ہوجائے گا کہ وہ ملٹری کارروائیاں کرے۔

سزا اور جزا کی حالیہ پالیسی پاکستان کو افغانستان کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ ترتیب دینے کا منصوبہ بنانے میں مدد دے گی۔ اسلام آباد پُرامید ہے کہ سفارتی تعلقات اور تجارتی ترغیبات کے ساتھ ساتھ ٹی ٹی پی کے معاملے پر دباؤ کے مشترکہ اثرات طالبان حکام کو پاکستان کے سیکیورٹی خدشات دور کرنے پر آمادہ کریں گے۔

افغان طالبان کی کوششوں پر انحصار کرتے ہوئے پاکستان سزا اور جزا کی پالیسی کو اپنانے کے لیے پُرعزم ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ چین اور افغانستان کے دیگر ہمسایوں کے ساتھ علاقائی تعاون کی حکمت عملی تیار کرے تاکہ دہشتگردی جوکہ پورے خطے کے لیے خطرہ ہے، اس سے نمٹنے کے لیے کابل پر دباؤ ڈالا جاسکے۔
ملیحہ لودھی

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: افغانستان میں پاکستانی حکام افغانستان کے پاکستان میں طالبان حکام ٹی ٹی پی کے ٹی ٹی پی کو پاکستان کی کو پاکستان پاکستان کے تعلقات کو کے درمیان کے ساتھ کا مقصد بات چیت کریں گے ایک سال کرتا ہے کے بعد کے لیے

پڑھیں:

پاک افغان مذاکرات: افغان ہٹ دھرمی نئے تصادم کا باعث بن سکتی ہے

سابق چیئرمین ڈیپارٹمنٹ آف میڈیا اینڈ کمیونیکیشن سٹڈیز

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور

25 اکتوبر کو استنبول میں شروع ہونے والے پاک افغان مزاکرات طالبان کی طرف سے اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ کرنے کی تحریری ضمانت نہ دینے اور غیر زمہ دارانہ رویہ اختیار کرنے پر 28 اکتوبر کی رات کو بے نتیجہ ختم ہو گئے تھے۔ تاہم اچھی خبر یہ ہے کہ اب میزبان ملک ترکیہ کی درخواست پر دو دن بعد پاکستان نے امن کو ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کیا ہے اور 30 اکتوبر کو مزاکرات کا دوبارہ آغاز ہوچکا ہے۔

اطلاعات کے مطابق طالبان اپنے رویئے میں لچک دکھانے کی حامی بھری ہے اس لئے اس بار دوست ممالک کی مداخلت کے باعث بہتر نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔تاہم مزاکرات کے اس تیسرے سیشن کے نتائج کا کچھ دن تک انتظار کرنا پڑے گا۔

اس سے قبل پاکستان نے استنبول میں جاری پاک افغان مذاکرات کی ناکامی کا باقاعدہ اعلان کردیا تھا۔ یاد رہے کہ پاک افغان سرحدی جھڑپوں کے بعد 19 اکتوبر کو ہونے والی عارضی جنگ بندی کے نتیجے میں قطر دوحہ میں پاک افغان مذاکرات کا آغاز ہوا تھا۔ جس میں قطر اور ترکیہ نے ثالث کے طور پر کردار ادا کیا۔ ان مزاکرات کے نتیجے میں مستقل جنگ بندی پر اتفاق کرتے ہوئے جنگ بندی اور دیگر امور کا مکینیزم طے کرنے کیلئے 25 اکتوبر کو استنبول میں مزاکرات کی اگلی نشست منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

استنبول میں تین روز جاری رہنے والے ان مزاکرات کے دوران طویل نشتیں ہوئیں جس میں افغانستان کے وفد کی ہٹ دھرمی کے باعث کئی بار مزاکرات کے بلا نتیجہ خاتمے کی صورت حال پیدا ہوئی۔ لیکن میزبان ترکیہ کی درخواست پر پاکستان مذاکرات کو مزید وقت دینے پر تیار ہوتا رہا لیکن بالآخر 28 اکتوبر کی رات یہ مزاکرات بے نتیجہ ختم ہوگئے۔تاہم اسی دوران تہران میں ECO وزراء کی کانفرنس میں پاکستانی اور افغان وزیر داخلہ کی سائیڈ لائین ملاقات ہوئی ہے جس میں محسن نقوی نے اپنے ہم منصب کو باہمی اختلافات کو مزاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا ہے۔اسی دوران ایران کے صدر نے بھی ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے۔

استنبول مذاکرات کی ناکامی کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگی معیشت پر پروان چڑھنے والی طالبان حکومت افغان عوام کو غیر ضروری جنگ میں گھسیٹنا چاہتی ہے۔

رواں ماہ ہونے والی سرحدی جھڑپوں کے بعد استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا عمل 25 اکتوبر سے ہوا تھا جس کے دوران دونوں فریقین کی جانب سے بعض تجاویز پیش کی گئی تھیں جن پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ افغانستان کی عبوری حکومت کی جانب سے ان مذاکرات کے خاتمے کے بعد تاحال کوئی باقاعدہ بیان سامنے نہیں آیا ہے۔منگل کو رات گئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر ایک بیان میں وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کا کہنا تھا قطر کے بعد استنبول میں ہونے والی بات چیت میں بھی کوئی قابل حل عمل نہیں نکل سکا۔

پاکستان اور افغانستان کے مابین شدید سرحدی جھڑپوں کے بعد دونوں ممالک نے عارضی طور جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا اور پھر مذاکرات کے پہلا دور قطر میں ہوا تھا جس میں دونوں ممالک نے جنگ بندی توسیع اور دیرپا امن کے قیام کے لیے استنبول میں دوسرے مرحلے کے مذاکرات کا اعلان کیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ استنبول مذاکرات میں ایک نکاتی ایجنڈے یعنی افغان طالبان حکومت کی طرف سے افغان سرزمین کو تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ لبریشن آرمی جیسی شدت پسند تنظیموں کی طرف سے تربیت گاہ کے طور پر استعمال کرنے سے روکنے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کے معاملے پر بات کی گئی۔

پاکستانی وزیر اطلاعات کے مطابق مذاکرات کے دوسرے دور میں افغان طالبان کے وفد نے شدت پسند تنظیموں اور دہشت گردوں کے خلاف قابل اعتماد اور فیصلہ کن کارروائی کے لیے پاکستان کے منطقی اور جائز مطالبے سے بارہا اتفاق کیا۔لیکن کابل میں قیادت سے رابطے کے بعد وہ اس موقف سے منحرف ہوتے رہے۔

عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ اگرچہ پاکستان کی جانب سے اس بارے میں ناقابل تردید شواہد بھی فراہم کیے گئے جن کا اعتراف افغان طالبان اور مذاکرات کروانے والے میزبان ممالک نے کیا تاہم افغان فریق نے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی اور وہ اس بنیادی مسئلے سے انحراف کرتا رہا جس پر بات چیت کا عمل شروع کیا گیا تھا۔ عطا تارڑ نے افغان طالبان پر ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے الزام تراشی، ٹال مٹول اور چالبازی کا سہارا لینے کے الزامات عائد کیے اور کہا کہ اس وجہ سے بات چیت کوئی قابل عمل حل نکالنے میں ناکام رہی۔

ان کا کہنا تھا کہ چار سال تک بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان برداشت کرنے کے بعد پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور عوام کی سلامتی پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے اس لیے پاکستان اپنے عوام کو دہشت گردی کی لعنت سے بچانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرتا رہے گا اور دہشت گردوں، ان کی پناہ گاہوں، ان کے سرپرستوں اور معاونین کو ختم کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے گی۔

پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی نے سکیورٹی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ پاکستانی وفد نے مذاکرات کے دوران افغان طالبان کو اپناحتمی مؤقف پیش کیا تھا۔ پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ افغان طالبان کی طرف سے کی جانے والی دہشت گردوں کی سرپرستی نامنظور ہے۔ پاکستانی وفد نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اس سرپرستی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اور یقینی اقدامات کرنے پڑیں گے۔

پاکستانی سکیورٹی ذرائع نے سرکاری خبر رساں ادارے کو مزید بتایا کہ مذاکراتی عمل کے دوران طالبان کے دلائل غیر منطقی اور زمینی حقائق سے ہٹ کر رہے۔ نظر آ رہا ہے کہ طالبان کسی اور ایجنڈے پر چل رہے ہیں۔ سیکیورٹی ذرائع نے کہا ہے کہ یہ ایجنڈا افغانستان، پاکستان اور خطے کے استحکام کے مفاد میں نہیں ہے اور مستقبل میں مذاکرات افغان طالبان کے مثبت رویے پر منحصر ہے۔

ادھر بی بی سی پشتو کے مطابق افغان طالبان کی تجاویز میں پاکستان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ افغانستان کی زمینی اور فضائی حدود کی خلاف ورزی نہ کی جائے اور امریکہ سمیت کوئی بھی گروہ یا دشمن قوت افغانستان کے خلاف پاکستان کی سرزمین استعمال نہ کرے۔

افغان طالبان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کے وفد نے جنگ بندی کے معاہدے پر عملدرآمد کے لیے میکینزم یعنی طریقہ کار وضع کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ مذاکراتی عمل کے دوران افغان طالبان کا موقف رہا کہ پاکستان میں ہونے والی شدت پسندی کی کارروائیاں پاکستان کے اندر ہو رہی ہیں تو اسے کیسے قصوروار ٹھہرایا جا سکتا ہے جبکہ پاکستان کا مؤقف تھا کہ یہ شدت پسند افغانستان سے آتے ہیں۔جس کے ثبوت افغان وفد اور میزبان ممالک کے سامنے رکھے گئے۔میزبان ممالک نے پاکستان کے اس موقف کی تائید بھی کی۔

معلوم ہوا ہے کہ استنبول مذاکرات کے دوران پاکستان کی طرف سے جو حل پیش کیے گئے وہ افغان طالبان کے لیے قابل قبول نہیں تھے کیونکہ بقول ان کے یہ ان کے نظریات کے خلاف تھے۔ افغان طالبان کا موقف تھا کہ وہ ڈیورینڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد ہی نہیں سمجھتے تو اگر وہ اسے تسلیم کرلیتے ہیں تو انھیں مقامی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جبکہ پاکستان نے اپنا موقف پیش کیا کہ آئندہ جب بھی افغان زمین سے پاکستان پر کوئی حملہ ہو گا تو اس کا جواب دیا جائے گا۔

یاد رہے کہ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک بیان میں یہاں تک کہا تھا کہ اگر مذاکرات سے معاملات حل نہیں ہوتے تو افغانستان کے ساتھ کھلی جنگ ہوگی۔انہوں نے کہا مجھے دوحہ میں ہونے والی مزاکرات کی پہلی نشست میں ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ افغان وفد کے پاس فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں اور افغان طالبان قیادت بھارت کے اشاروں پر چل رہی ہے جس کی وجہ سے مزاکرات کے نتیجہ کی امید نہیں تھی۔

دوسری جانب طالبان کی عبوری حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے گزشتہ دنوں سرکاری نشریاتی ادارے کو جاری کیے گئے اپنے ایک آڈیو پیغام میں کہا تھا کہ افغانستان بات چیت کے حق میں ہے تاہم اگر افغانستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی گئی تو جواب دیا جائے گا۔

افغان عوام حق دفاع رکھتے ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے مطابق ان مذاکرات کی کامیابی اس یقین دہانی پر منحصر تھی کہ افغانستان سے شدت پسندوں کی دراندازی کو روکا جائے اور ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کی حمایت ختم کی جائے۔ پاکستان نے افغان طالبان کو واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ تھا کہ وہ بتائیں کہ آیا وہ پاکستان کے ساتھ ہیں یا ٹی ٹی پی کے ساتھ۔ پاکستان کا گذشتہ کئی برسوں سے افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت سے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائی کا مطالبہ رہا ہے۔

دیکھا جائے تو پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کی طرف سے یہ بیان کہ مذاکرات سے معاملات حل نہیں ہوتے تو افغانستان کے ساتھ ہماری کھلی جنگ ہے کوئی انفرادی موقف نہیں۔ بلکہ پاکستان کی ملٹری اور سول قیادت نے کافی عرصے سے واضح کیا ہوا ہے کہ اگر پاکستانی طالبان کے حملے نہیں روکے گئے تو وہ افغانستان پر فضائی حملے کریں گے۔اور کابل و قندھار پر ٹارگٹ حملوں کیذریعے اس پر عمل درآمد بھی کیا گیا تھا۔ پاکستان کا یہ موقف تب سے واضح ہے جب فیلڈ مارشل عاصم منیر نے 2023 میں تحریکِ جہادِ پاکستان کے ایک بڑے حملے کے بعد یہ دھمکی دی تھی۔

 اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کاروائی کرنے سے کیوں گریزاں ہیں تو اس حوالے سے مختلف آراء ہیں۔ ایک یہ ہے کہ افغان طالبان کی اعلیٰ قیادت ٹی ٹی پی کو اپنا نظریاتی اتحادی سمجھتی ہے۔ ان کی تاریخ کی جڑیں مشترکہ ہیں اور ان کے 80 اور 90 کی دہائیوں سے قریبی تعلقات رہے ہیں۔ٹی ٹی پی نے افغان طالبان کے امیر کے ہاتھ پر بیعت کی ہوئی ہے۔اسی لئے پاکستان نے مزاکرات میں یہ بھی مطالبہ رکھا تھا کہ آفغان طالبان کے امیر پاکستان میں حملوں کے خلاف فتویٰ دیں۔دوسری طرف یہ بھی رائے ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف ایک پریشر tool کے طور پر استعمال کر کے بین الاقوامی منظر نامے پر زیر بحث رہ کر پاکستان اسلامی ممالک چین اور بین الاقوامی سطح پر اپنے مخصوص مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔

اسکا موقف یہ ہوسکتا ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کیخلاف کاروائیاں روکنے کے لئے اس کے پاس مطلوبہ وسائل نہیں ہیں لہذا ان کی اس سلسلے میں مطلوبہ امداد فراہم کی جائے اس طرح سے چین جس کی پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری ہے اور اس کا ایک صوبہ بھی افغان علاقے سے دراندازوں کی کاروائیوں کا شکار ہے اور اسلامی ممالک امریکہ اور یورپ سے معاشی فوائد حاصل کئے جائیں۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ افغان طالبان انڈیا سے معاشی فوائد حاصل کرکے اس کی پراکسی کے طور پر یا کھلی جھڑپوں کے ذریعے انڈیا کو دفاعی سطح پر فائدہ پہنچا رہا ہے۔

کیونکہ اس وقت انڈیا نے پاکستان کی سرحد کے قریب سرکریک میں فوجی مشقیں شروع کی ہوئی ہیں اور انکے چیف آف آرمی سٹاف اور دیگر فوجی و سیاسی ذمہ داراں پاکستان کو سبق سکھانے اور آپریشن سیندور کے جاری رہنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ لہذا اس طرح سے دو سرحدی محاذوں اور اندرونی محاذ پر دہشت گردی کیذریعے پاکستان کو الجھا کر بھارت مطلوبہ مقاصد حاصل کرنا چاہے گا۔اور تجزیہ نگاروں کے مطابق بھارت اس کے مطابق مناسب وقت پر کوئی ایڈونچر کرسکتا ہے۔

اگر ہم پاکستان کی افغان پالیسیوں کا تنقیدی جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ماضی میں پاکستان کی افغان طالبان وارئیر گروہ کی ہر طرح کی حمایت کرنے اور انہیں پناہ دینے کی طویل مدتی پالیسی کے متوقع نتائج یہی نکلنے تھے اور آج صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی اپنی سلامتی کو گزشتہ چار سالوں سے ان کی طرف سے مسلح شدت پسندی کا سامنا ہے۔

بروکنگز انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ’ویندا فلباب براؤن‘ کی رائے ہے کہ طالبان حقانی نیٹ ورک کے ٹی ٹی پی کے ساتھ آپریشنل تعلقات رہے ہیں، جو ختم کرنا مشکل ہے۔ حقانی نیٹ ورک کو خدشہ ہے کہ کریک ڈاؤن کی صورت میں ٹی ٹی پی نام نہاد دولت اسلامیہ کے ساتھ اتحاد قائم کر سکتی ہے۔ قندھار میں طالبان کی جنوب میں موجود قیادت پاکستان کے ماضی کے اقدامات پر ناخوش رہے ہیں جن میں ملا برادر کو قید کیا جانا اور امریکی حملے میں طالبان رہنما ملا منصور کی ہلاکت شامل ہیں۔ ایک اور رائے یہ بھی ہے کہ طالبان حکومت ٹی ٹی پی کی کارروائیوں کو پاکستان کا اندرونی معاملہ سمجھتی ہے اور یہ اپنے لیے کوئی دشمن پیدا نہیں کرنا چاہتی۔

نام نہاد دولت اسلامیہ کے برعکس ٹی ٹی پی نے کبھی افغان طالبان کی عبوری حکومت کو چیلنج نہیں کیا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جب تک ٹی ٹی پی طالبان حکومت کے لئے نظریاتی یا عسکری خطرہ نہیں تب تک افغان طالبان کے پاس اس کے خلاف کارروائی کا جواز نہیں ہو گا۔ اسی لیے افغان طالبان کی طرف سے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے ساتھ اپنے معاملات کو بات چیت سے حل کرے۔

دوسری طرف سرحدی کشیدگی کے بعد پاکستان کی طرف سے پاکستان میں موجود مقیم غیر قانونی افغانوں کے خلاف کریک ڈاؤن اور اٹھارہ روز سے جاری تجارتی بندش کو دباوء برھانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے اور طالبان رجیم کو کھلم کھلا غیر جمہوری قرار دے کر اس کے مخالفین کو تھپکی دی جا رہی ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ اقدامات اور سفارتی و فوجی دباو اسلامی ممالک کی ناراضگی کا خطرہ افغان طالبان کو ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی پر مجبور کر پاتے ہیں یا نہیں۔بہر صورت پاکستان کو اس پیچیدہ صورت حال سے احسن طریقے سے نمٹنے کیلئے امریکہ'چین 'سعودی عرب ایران' ترکیہ قطر سمیت اپنے تمام دوست اور برادر اسلامی ممالک سے مشاورت اور تعاون کے ساتھ ایسی متوازن حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی جس سے مسئلہ بھی حل ہو جائے اور دشمن ممالک کے ناپاک عزائم بھی ناکامی سے دوچار ہوں۔

متعلقہ مضامین

  • امریکی ڈرون پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں داخل ہو رہے ہیں، طالبان کا الزام
  • امریکی ڈرون پاکستان کی فضائی حدود سے افغانستان میں داخل ہو رہے ہیں؛ طالبان کا الزام
  • پاک افغان مذاکرات: افغان ہٹ دھرمی نئے تصادم کا باعث بن سکتی ہے
  • مذاکرات: افغان ہٹ دھرمی نئے تصادم کا باعث بن سکتی ہے،پاکستان
  • افغان حکومت بھارتی حمایت یافتہ دہشتگردی کی سرپرست ہے، وزیر دفاع خواجہ آصف
  • استنبول مذاکرات بارے حقائق کو ترجمان افغان طالبان نے توڑ مروڑ کر پیش کیا: پاکستان
  •  افغانستان کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے تک سب کچھ معطل رہےگا
  • افغانستان سے کشیدگی نہیں،دراندازی بند کی جائے، دفتر خارجہ
  • افغان طالبان سے مذاکرات میں پاکستان کا مؤقف لکھ کر مان لیا گیا ہے، طلال چوہدری
  • افغان طالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے اگلے مرحلے کے مثبت نتائج کے بارے میں پرامید ہیں، دفتر خارجہ