امریکی رکن کانگریس پاکستان کا ’اہم غیر نیٹو اتحادی‘ کا درجہ ختم کرانے کا بل لے آئے
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
امریکی ریاست ایریزونا سے تعلق رکھنے والے انتہائی دائیں بازو کے ریپبلکن رکن کانگریس اینڈی بگس، پاکستان کو 2004 سے حاصل اہم غیر نیٹو اتحادی (ایم این این اے) کے اسٹیٹس سے محروم کرنے کے لیے ایک بار پھر بل لے آئے۔
نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اس مجوزہ قانون میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، جسے امریکی محکمہ خارجہ نے ستمبر 2012 میں غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر یہ بل منظور بھی ہو جاتا ہے تو اس کے عملی اثرات محدود ہوسکتے ہیں، خاص طور پر اس لیے کہ حقانی نیٹ ورک کے بانی جلال الدین حقانی کے بیٹے سراج الدین حقانی اس وقت افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکا، دوحہ معاہدے کے ذریعے افغانستان کے ساتھ رابطے جاری رکھے ہوئے ہے۔
گزشتہ ہفتے اینڈی بگس نے چار قانونی تجاویز پیش کی تھیں جن میں پاکستان کی ایک اہم غیر نیٹو اتحادی کی حیثیت ختم کرنے کا بل بھی شامل ہے، وہ اس وقت ایوان نمائندگان کی عدالتی کمیٹی کی جرائم اور وفاقی حکومت کی نگرانی سے متعلق ذیلی کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔
یہ بل ’اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ایک اہم غیر نیٹو اتحادی کی حیثیت سے ختم کرنے اور دیگر مقاصد کے لیے‘ کے عنوان سے کمیٹی برائے امور خارجہ کو بھیج دیا گیا ہے۔
مجوزہ قانون سازی میں 1961 کے فارن اسسٹنس ایکٹ کی دفعہ 517 (اے) (1) کے تحت پاکستان کا ایک اہم غیر نیٹو اتحادی کا درجہ واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے، بشرطیکہ امریکی صدر اس بات کی تصدیق نہ کریں کہ پاکستان پرعزم ہے کہ وہ اپنے ملک میں حقانی نیٹ ورک کی محفوظ پناہ گاہوں کو نمایاں طور پر تباہ کرے گا، حقانی نیٹ ورک کو پاکستانی سرزمین استعمال کرنے سے روکے گا اور پاک۔افغان سرحد پر عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت کو محدود کرنے کے لیے افغانستان کے ساتھ فعال طور پر تعاون کرے گا اور حقانی نیٹ ورک کے سینئر اور درمیانے درجے کے رہنماؤں کو گرفتار کرکے ان پر مقدمہ چلائے گا۔
یہ بل ان شرائط کے پورا ہونے تک صدر کو پاکستان کی ایک اہم غیر نیٹو اتحادی کی حیثیت کو بحال کرنے سے بھی روک دے گا۔
پاکستان کو 2004 میں اس وقت کے صدر جارج ڈبلیو بش نے ایک اہم غیر نیٹو اتحادی کا درجہ دیا تھا، جس سے اسے فوجی تربیت، دفاعی تعاون اور مالی امداد جیسے فوائد تک رسائی حاصل ہوئی تھی، اس درجے کا مقصد اسٹریٹجک شراکت داری کو مضبوط بنانا اور دفاعی صلاحیتوں کو بہتر بنانا تھا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ رکن کانگریس اینڈی بگس نے 2019 کے بعد سے کئی بار اسی طرح کے بل پیش کیے ہیں، تاہم ان میں سے کوئی بھی ایوان میں ووٹنگ تک نہیں پہنچا۔
ایک سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ اینڈی بگس کی جانب سے بار بار کی جانے والی کوشش ہے جو ٹرمپ انتظامیہ کے دوران پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کوششوں سے مطابقت رکھتی ہیں۔
ایک ماہر کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ پہلے ہی پاکستان کو دی جانے والی فوجی امداد روک چکے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ یہ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی ایک وسیع تر کوشش کا حصہ ہے کہ وہ خود کو چین سے دور رکھے، تاہم اس طرح کے اقدامات کے برعکس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جس سے اسلام آباد، بیجنگ کے قریب پہنچ سکتا ہے۔
مجوزہ قانون سازی کی قسمت کا انحصار اس بات پر ہے کہ آیا اسے ایوان اور سینیٹ میں بحث کے لیے فلور پر لایا جاتا ہے یا نہیں۔
بگس کی قانون سازی کا ایجنڈا
کانگریس مین اینڈی بگس نے اس کے ساتھ ساتھ کئی متنازع بل پیش کیے ہیں۔ ان میں ایک قرارداد بھی شامل ہے جس میں ایوان پر زور دیا گیا ہے کہ وہ بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کی قانونی حیثیت کو مسترد کرے، جس نے حال ہی میں غزہ میں کارروائیوں پر اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔
ایک اور بل میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کو دی جانے والی تمام امریکی امداد کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جس پر اسرائیلی حکومت نے غزہ میں حماس کی حمایت کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
فریڈم کاکس کے سربراہ کی حیثیت سے اینڈی بگس نے متعدد معاملات پر منقسم موقف اختیار کیا ہے، وہ اسقاط حمل کے اختیاری حقوق کی مخالفت کرتے ہیں، آب و ہوا کی تبدیلی پر سائنسی اتفاق رائے کو مسترد کرتے ہیں اور امریکا میں غلامی کے خاتمے کی یاد میں 2021 میں وفاقی تعطیل ’جونیتھ‘ کے خلاف ووٹ دے چکے ہیں۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: حقانی نیٹ ورک اینڈی بگس نے کی حیثیت سے کا کہنا کی ایک کے لیے
پڑھیں:
عقیدہ اور قانون میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس حیثیت
عقیدہ اور قانون میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس حیثیت WhatsAppFacebookTwitter 0 23 July, 2025 سب نیوز
تحریر: محمد محسن اقبال
انسانی تاریخ کے ہر دور میں کچھ شخصیات ایسی ابھری ہیں جنہوں نے اپنے بے مثال کردار، لازوال پیغام اور آفاقی کشش کی بدولت سب پر فوقیت حاصل کی۔ ان ہستیوں میں کوئی بھی شخصیت حضرت محمد مصطفیٰ ۖ سے زیادہ مقدس اور محترم نہیں، جنہیں دنیا بھر میں ایک ارب سے زائد مسلمان دل کی گہرائیوں سے عزیز رکھتے ہیں۔ آپ ۖ نہ صرف اسلام میں سلسلہ? نبوت کی آخری کڑی ہیں بلکہ رحمت، عدل اور اخلاقی عظمت کی علامت بھی ہیں۔ قرآنِ مجید گواہی دیتا ہے:
محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔ (سورة الاحزاب، 33:40)
نبوت کا یہ خاتمہ محض ایک عقیدہ نہیں بلکہ اسلام کی بنیاد ہے، اور اس کا انکار درحقیقت اسلام کا انکار ہے۔ مسلمانوں کے دلوں میں نبی کریم ۖ کے لیے جو بے پناہ عقیدت و محبت پائی جاتی ہے، وہ براہِ راست خدائی احکامات کا نتیجہ ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ہم نے تمہیں گواہ، خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا تاکہ تم لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، اور نبی کی عزت کرو، ان کی مدد کرو، اور صبح و شام ان کی تعظیم کرو۔ (سورة الفتح، 48:8)
یہ صرف روحانی تعلق نہیں بلکہ اطاعت، محبت، اور آپ ۖ کے نام و پیغام کے دفاع میں جڑوں تک پیوست ایک رشتہ ہے۔ متعدد احادیث اس عظیم احترام کو مزید اجاگر کرتی ہیں۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا:
تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔” (بخاری)
آپ ۖ کے صحابہ کرام نے اس محبت کو اپنے عمل سے ثابت کیا۔ وہ آپ ۖ کے دفاع میں اپنی جانیں قربان کرنا سب سے بڑا اعزاز سمجھتے تھے۔ جب کبھی کسی دشمن نے نبی کریم ۖ کی شان میں گستاخی کی، تو صحابہ کرام نے انتہائی غیرت مندانہ اور مضبوط ردِعمل دیا، جو ان کی آپ ۖ کی حرمت و عظمت سے بے پناہ وابستگی کو ظاہر کرتا تھا۔
حضرت محمد ۖ کے غیر معمولی کردار کا اعتراف صرف اسلامی دنیا تک محدود نہیں رہا۔ بہت سے غیر مسلم مورخین، فلاسفرز اور مذہبی مفکرین نے بھی آپ ۖ کی عظمت کو تسلیم کیا ہے۔ معروف برطانوی دانشور جارج برنارڈ شا نے ایک مرتبہ کہا:
انہیں انسانیت کا نجات دہندہ کہا جانا چاہیے۔ میرا یقین ہے کہ اگر ان جیسے شخص کو آج کی دنیا کی قیادت مل جائے، تو وہ دنیا کے مسائل کو اس انداز میں حل کرے گا جو امن اور خوشی کا ضامن ہوگا۔ اسی طرح مشہور امریکی مصنف مائیکل ایچ ہارٹ نے اپنی کتاب ”دی ہنڈرڈ” میں حضرت محمد ۖ کو تاریخ کی سب سے مؤثر شخصیت قرار دیا، اور اس کی وجہ آپ ۖ کی دینی و دنیاوی دونوں میدانوں میں بے مثال کامیابی کو بتایا۔
مزید برآں، مختلف مذاہب کی آسمانی کتابیں اور روایات — اگرچہ صراحت کے ساتھ حضرت محمد ۖ کا نام نہیں لیتیں — لیکن بالواسطہ طور پر آپ ۖ کی آمد اور صفات کی پیش گوئی کرتی ہیں۔ مسیحی روایات میں انجیل یوحنا (باب 14:16، 15:26، اور 16:7) میں مذکور ”پیراکلیٹ” یا ”تسلی دینے والا” کے حوالے کو بہت سے محققین حضرت محمد ۖ کی پیش گوئی قرار دیتے ہیں، خاص طور پر جب اس لفظ کے اصل یونانی مفہوم کا تجزیہ کیا جائے۔ یہودی صحیفے استثناء 18:18 میں لکھا ہے:
”میں ان کے بھائیوں میں سے تیرے مانند ایک نبی ان کے لیے اٹھاؤں گا، اور اپنا کلام اس کے منہ میں رکھوں گا۔”
اسلامی علما اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ حضرت محمد ۖ، جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے تھے، اس پیش گوئی کے مصداق ہیں کیونکہ آپ ۖ بنی اسرائیل سے نہیں بلکہ ان کے بھائیوں یعنی بنی اسماعیل سے تعلق رکھتے تھے، اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح شریعت لے کر آئے اور ایک قوم کی قیادت فرمائی۔
ہندو مذہبی کتب میں بھی ایسے حوالے موجود ہیں جنہیں بعض محققین آخری نبی کی پیش گوئی سے تعبیر کرتے ہیں۔ قدیم سنسکرت مذہبی کتاب بھوِشیہ پران میں ایک شخصیت ”مہامدا” کا ذکر ملتا ہے، جو ایک غیر ملکی سرزمین میں اصلاحات لائیں گے اور سچائی کا پرچار کریں گے۔
اگرچہ ان حوالوں کی تشریحات مختلف ہو سکتی ہیں، لیکن ایسے مقامات کو اس بات کا ثبوت قرار دیا گیا ہے کہ حضرت محمد ۖ کے پیغام کی آفاقیت کو مختلف تہذیبوں میں تسلیم کیا گیا تھا۔
بدقسمتی سے حالیہ برسوں میں دنیا بھر میں ایک نہایت تشویشناک رجحان سامنے آیا ہے—آزادی اظہار یا فنون لطیفہ کے نام پر جان بوجھ کر حضرت محمد ۖ کی عظمت کو نظر انداز کرنے، تمسخر اُڑانے یا کم تر دکھانے کی منظم کوششیں کی جا رہی ہیں۔ یورپی اشاعتی اداروں میں شائع ہونے والے گستاخانہ خاکوں سے لے کر توہین آمیز فلموں اور نفرت انگیز تقاریر تک، یہ تمام اشتعال انگیز اقدامات عالم اسلام کے جذبات کو مجروح کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ یہ رجحان، جسے اب اسلاموفوبیا کے نام سے جانا جاتا ہے، مذہبی نفرت کو معمول بنانے، معاشرتی تقسیم کو ہوا دینے، اور ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے عقائد کو چیلنج کرنے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
پاکستان بھی ان خطرناک کوششوں سے محفوظ نہیں رہا۔ بعض مقامی اور غیر ملکی فنڈنگ سے چلنے والے عناصر نے خفیہ نظریاتی مہمات، نصابی بگاڑ اور قانونی چالاکیوں کے ذریعے رسول اکرم ۖ کے مرکزی مقام کو کمزور کرنے اور ختمِ نبوت کے عقیدے پر سوال اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ قادیانی عقائد کو اصل اسلام کے طور پر پیش کرنے یا اسلامی عقائد کے بارے میں الجھن پیدا کرنے کی یہ کوششیں اس وسیع تر عالمی ایجنڈے کا حصہ ہیں جو امتِ مسلمہ کی وحدت کو نقصان پہنچانے کے لیے سرگرم ہے۔ تاہم، ایسی تمام کوششوں کو نہ صرف مذہبی حلقوں کی جانب سے بلکہ پاکستانی پارلیمان، عدلیہ، اور عام عوام کی طرف سے بھی بھرپور مزاحمت اور ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
دنیا کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اگرچہ مسلمان سیاست یا ثقافت میں اختلافات رکھتے ہیں، لیکن ایک بنیادی مسئلے پر وہ مکمل طور پر متحد ہیں اور وہ ہے حضرت محمد مصطفیٰ ۖ سے محبت، عقیدت اور عقیدہ? ختمِ نبوت۔ ایشیا سے لے کر افریقہ، یورپ سے لے کر امریکہ تک، مسلمانوں نے بارہا اس اتحاد کو عملی طور پر ثابت کیا ہے۔ پرامن احتجاج، علمی جوابات، قانونی درخواستیں اور بین الاقوامی سفارت کاری—سب ذرائع کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا گیا ہے کہ نبی کریم ۖ کی عظمت اور حرمت کا دفاع کیا جا سکے۔ یہ عالمی اتحاد اس بات کی یاددہانی ہے کہ رسول اکرم ۖ کی شان میں گستاخی کوئی معمولی سیاسی یا قانونی مسئلہ نہیں، بلکہ یہ مسلم شناخت کی روح پر حملہ ہے۔
قانونی اور سیاسی لحاظ سے دنیا کے کئی ممالک ایسے قوانین رکھتے ہیں جو مذہبی جذبات کے تحفظ اور نفرت انگیز تقاریر کی ممانعت کو یقینی بناتے ہیں، جن میں مقدس مذہبی شخصیات کی توہین بھی شامل ہے۔ یورپ کے متعدد ممالک جیسے جرمنی اور آسٹریا میں اگر کسی شخص نے مذہبی جذبات کو مجروح کیا تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ حتیٰ کہ بھارت میں بھی تعزیراتِ ہند کی دفعات 295 اور295 اے کے تحت مذہبی برادریوں کے مقدسات اور شخصیات کی توہین کے خلاف تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔
یورپی عدالت برائے انسانی حقوق نے بھی اپنے سابقہ فیصلوں میں اُن افراد کی سزاؤں کو برقرار رکھا ہے جنہوں نے حضرت محمد ۖ کی شان میں گستاخی کی تھی، اور ان اقدامات کو نفرت انگیزی پر اُکسانے کے مترادف قرار دیتے ہوئے آزادی? اظہار کے دائرہ کار سے باہر تصور کیا ہے۔ تاہم، کوئی بھی ملک عقیدہ? ختمِ نبوت کے قانونی تحفظ کے معاملے میں پاکستان جتنا پُرعزم اور دوٹوک نہیں رہا۔ 1974ء میں ایک ملک گیر تحریک اور پارلیمنٹ میں تفصیلی بحث کے بعد، پاکستان کے آئین میں ترمیم کی گئی جس کے تحت قادیانیوں (احمدیوں) کو غیر مسلم قرار دیا گیا۔
یہ تاریخی فیصلہ مذہبی امتیاز کی بنیاد پر نہیں تھا، بلکہ اسلام کے اس بنیادی عقیدے — ختمِ نبوت — کے تحفظ کے لیے کیا گیا تھا۔ اگرچہ احمدی جماعت اپنے آپ کو مسلمان کہتی ہے، لیکن ان کے عقائد اس بنیادی اسلامی نظریے سے متصادم تھے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ، جو عوام کی نمائندہ ہے، نے طویل سماعتوں کے بعد یہ طے کیا کہ اس گروہ کا نظریہ اسلام کے متفقہ عقائد سے انحراف کرتا ہے۔ چنانچہ، پاکستان کے آئین میں دوسری آئینی ترمیم کے تحت واضح طور پر یہ شق شامل کی گئی
”جو شخص حضرت محمد مصطفیٰ ۖ کی ختم نبوت پر مکمل اور غیر مشروط ایمان نہیں رکھتا، وہ آئین اور قانون کی رُو سے مسلمان نہیں ہے۔”
بعد ازاں، 1984 میں آرڈیننس نافذ کیا گیا، جس کے تحت احمدیوں کو اپنے آپ کو مسلمان کہنے، اسلامی اصطلاحات استعمال کرنے، یا اپنے عقائد کو اسلام کے طور پر پیش کرنے سے روک دیا گیا۔ یہ قانون 1993 کے معروف ”ظہیر الدین کیس” میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے برقرار رکھا، جہاں عدالت نے قرار دیا کہ ریاست کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عوامی نظم و ضبط کو قائم رکھنے اور فریب دہی کو روکنے کے لیے مذہبی اظہار پر ضابطہ لگا سکے۔عدالت نے بجا طور پر مشاہدہ کیا کہ مذہبی آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی گروہ کسی دوسرے مذہب کی علامات اور عبادات کو غلط طریقے سے پیش کرے یا ان کی نقالی کرے۔
یہ بات سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ پاکستان کا یہ قانونی مؤقف کسی بھی فرقے یا کمیونٹی کے خلاف نفرت یا تشدد کو ہوا دینے کے لیے نہیں، بلکہ اسلامی عقائد کے تقدس کے تحفظ کے لیے ایک واضح اور دوٹوک حد کھینچنے کے مترادف ہے۔ پاکستان کے تمام شہری، چاہے وہ کسی بھی مذہب یا مسلک سے تعلق رکھتے ہوں، قانون کے تحت مساوی حقوق کے حامل ہیں، لیکن کسی کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ ذاتی یا سیاسی مفادات کے لیے کسی مذہب کے بنیادی عقائد کو مسخ کرے۔
حضرت محمد مصطفیٰ ۖ کی حرمت صرف ایک دینی مسئلہ نہیں، بلکہ مسلمانوں کے لیے ایک جذباتی، ثقافتی اور سیاسی معاملہ بھی ہے۔ جب کبھی نبی کریم ۖ کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے — خواہ وہ گستاخانہ خاکوں، فلموں یا بیانات کی صورت میں ہو — تو پوری دنیا میں مسلمانوں کی جانب سے جو شدید ردِعمل سامنے آتا ہے، وہ عدم برداشت کی علامت نہیں، بلکہ آپ ۖ سے گہری عقیدت اور محبت کا فطری اظہار ہے۔آزادی? اظہار کے نام پر اس قسم کی اشتعال انگیزی صرف تہذیبوں کے درمیان کشیدگی کو ہوا دیتی ہے اور باہمی غلط فہمیوں کو مزید گہرا کرتی ہے۔
دنیا کو یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ جس طرح یہودی اور عیسائی حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کے لیے احترام کا مطالبہ کرتی ہیں، اسی طرح مسلمان اپنے نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ ۖ سے کہیں زیادہ گہرا اور محافظانہ تعلق رکھتے ہیں۔ اسلام کے نبی ۖ نہ صرف آخری رسول ہیں بلکہ سچائی، رحمت اور عدل کا مجسم نمونہ ہیں۔ آپ ۖ کا پیغام آج بھی اربوں لوگوں کے لیے ہدایت کا چراغ ہے، اور آپ ۖ کی حرمت ہر چیز سے زیادہ مقدس ہے۔ لہٰذا دنیا کے ہر کونے میں — چاہے وہ عدالتیں ہوں، عبادت گاہیں، قدیم صحیفے یا اہلِ ایمان کے دل — نبی کریم ۖ کے احترام، عزت اور ختمِ نبوت کو تسلیم کرنا اور محفوظ رکھنا لازم ہے۔ یہ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک پکار ہے کہ وہ تعصب سے بالاتر ہو کر اُس عظیم ہستی کی حرمت کو پہچانے، جنہوں نے دنیا کے اخلاقی معیار کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراسلام آباد میں چینی مہنگی بیچنے والوں کے خلاف ضلعی انتظامیہ کا بھرپور ایکشن مون سون کا چوتھا اسپیل یا تباہی؟تحریر عنبرین علی غیرت کے نام پر ظلم — بلوچستان کے المیے پر خاموشی جرم ہے آبادی پر کنٹرول عالمی تجربات اور پاکستان کے لیے سبق حلف، کورم اور آئینی انکار: سینیٹ انتخابات سے قبل خیبرپختونخوا اسمبلی کا بحران اور اس کا حل موسم اور انسانی مزاج کا تعلق چینی مافیا: ریاست کے اندر ریاستCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم