امریکی ریاست ایریزونا سے تعلق رکھنے والے انتہائی دائیں بازو کے ریپبلکن رکن کانگریس اینڈی بگس، پاکستان کو 2004 سے حاصل اہم غیر نیٹو اتحادی (ایم این این اے) کے اسٹیٹس سے محروم کرنے کے لیے ایک بار پھر بل لے آئے۔

نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اس مجوزہ قانون میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، جسے امریکی محکمہ خارجہ نے ستمبر 2012 میں غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر یہ بل منظور بھی ہو جاتا ہے تو اس کے عملی اثرات محدود ہوسکتے ہیں، خاص طور پر اس لیے کہ حقانی نیٹ ورک کے بانی جلال الدین حقانی کے بیٹے سراج الدین حقانی اس وقت افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔

واضح رہے کہ امریکا، دوحہ معاہدے کے ذریعے افغانستان کے ساتھ رابطے جاری رکھے ہوئے ہے۔

گزشتہ ہفتے اینڈی بگس نے چار قانونی تجاویز پیش کی تھیں جن میں پاکستان کی ایک اہم غیر نیٹو اتحادی کی حیثیت ختم کرنے کا بل بھی شامل ہے، وہ اس وقت ایوان نمائندگان کی عدالتی کمیٹی کی جرائم اور وفاقی حکومت کی نگرانی سے متعلق ذیلی کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔

یہ بل ’اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ایک اہم غیر نیٹو اتحادی کی حیثیت سے ختم کرنے اور دیگر مقاصد کے لیے‘ کے عنوان سے کمیٹی برائے امور خارجہ کو بھیج دیا گیا ہے۔

مجوزہ قانون سازی میں 1961 کے فارن اسسٹنس ایکٹ کی دفعہ 517 (اے) (1) کے تحت پاکستان کا ایک اہم غیر نیٹو اتحادی کا درجہ واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے، بشرطیکہ امریکی صدر اس بات کی تصدیق نہ کریں کہ پاکستان پرعزم ہے کہ وہ اپنے ملک میں حقانی نیٹ ورک کی محفوظ پناہ گاہوں کو نمایاں طور پر تباہ کرے گا، حقانی نیٹ ورک کو پاکستانی سرزمین استعمال کرنے سے روکے گا اور پاک۔افغان سرحد پر عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت کو محدود کرنے کے لیے افغانستان کے ساتھ فعال طور پر تعاون کرے گا اور حقانی نیٹ ورک کے سینئر اور درمیانے درجے کے رہنماؤں کو گرفتار کرکے ان پر مقدمہ چلائے گا۔

یہ بل ان شرائط کے پورا ہونے تک صدر کو پاکستان کی ایک اہم غیر نیٹو اتحادی کی حیثیت کو بحال کرنے سے بھی روک دے گا۔

پاکستان کو 2004 میں اس وقت کے صدر جارج ڈبلیو بش نے ایک اہم غیر نیٹو اتحادی کا درجہ دیا تھا، جس سے اسے فوجی تربیت، دفاعی تعاون اور مالی امداد جیسے فوائد تک رسائی حاصل ہوئی تھی، اس درجے کا مقصد اسٹریٹجک شراکت داری کو مضبوط بنانا اور دفاعی صلاحیتوں کو بہتر بنانا تھا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ رکن کانگریس اینڈی بگس نے 2019 کے بعد سے کئی بار اسی طرح کے بل پیش کیے ہیں، تاہم ان میں سے کوئی بھی ایوان میں ووٹنگ تک نہیں پہنچا۔

ایک سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ اینڈی بگس کی جانب سے بار بار کی جانے والی کوشش ہے جو ٹرمپ انتظامیہ کے دوران پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کوششوں سے مطابقت رکھتی ہیں۔

ایک ماہر کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ پہلے ہی پاکستان کو دی جانے والی فوجی امداد روک چکے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ یہ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی ایک وسیع تر کوشش کا حصہ ہے کہ وہ خود کو چین سے دور رکھے، تاہم اس طرح کے اقدامات کے برعکس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جس سے اسلام آباد، بیجنگ کے قریب پہنچ سکتا ہے۔

مجوزہ قانون سازی کی قسمت کا انحصار اس بات پر ہے کہ آیا اسے ایوان اور سینیٹ میں بحث کے لیے فلور پر لایا جاتا ہے یا نہیں۔

بگس کی قانون سازی کا ایجنڈا
کانگریس مین اینڈی بگس نے اس کے ساتھ ساتھ کئی متنازع بل پیش کیے ہیں۔ ان میں ایک قرارداد بھی شامل ہے جس میں ایوان پر زور دیا گیا ہے کہ وہ بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کی قانونی حیثیت کو مسترد کرے، جس نے حال ہی میں غزہ میں کارروائیوں پر اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔

ایک اور بل میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کو دی جانے والی تمام امریکی امداد کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جس پر اسرائیلی حکومت نے غزہ میں حماس کی حمایت کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔

فریڈم کاکس کے سربراہ کی حیثیت سے اینڈی بگس نے متعدد معاملات پر منقسم موقف اختیار کیا ہے، وہ اسقاط حمل کے اختیاری حقوق کی مخالفت کرتے ہیں، آب و ہوا کی تبدیلی پر سائنسی اتفاق رائے کو مسترد کرتے ہیں اور امریکا میں غلامی کے خاتمے کی یاد میں 2021 میں وفاقی تعطیل ’جونیتھ‘ کے خلاف ووٹ دے چکے ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: حقانی نیٹ ورک اینڈی بگس نے کی حیثیت سے کا کہنا کی ایک کے لیے

پڑھیں:

ایران کے خلاف دھمکی آمیز رویہ بے سود کیوں؟

اسلام ٹائمز: یوں دکھائی دیتا ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے ایران کے سامنے دو راستے قرار دینے پر اصرار، حقیقت پر مبنی ہونے کی بجائے محض زبانی کلامی دھمکیوں اور نفسیاتی جنگ پر استوار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تیسرا راستہ بھی پایا جاتا ہے؛ ایسا راستہ جو زیادہ حقیقت پسندانہ ہے اور وہ موجودہ زمینی حقائق کو قبول کر لینے پر مشتمل ہے۔ واشنگٹن کو چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو قبول کر لے کہ ایران کا جوہری پروگرام ایک عارضی بحران نہیں بلکہ اب وہ خطے کے زمینی حقائق کا حصہ بن چکا ہے۔ امریکہ کئی سالوں سے جوہری طاقت کا امکان رکھنے والے ایران کو برداشت کرتا آیا ہے اور اس تلخ حقیقت کے انکار کا نتیجہ امریکی مفادات کو زک پہنچانے کے سوا کوئی اور نہیں نکلے گا۔ اس کے باوجود امریکی حکمران اس خام خیالی کا شکار ہیں کہ وہ ایران کو جوہری ٹیکنالوجی کے حصول سے پہلے والی پوزیشن میں واپس پلٹا سکتے ہیں۔ تحریر: روزمیری ای کلارک (کالم نگار فارن پالیسی)
 
گذشتہ چند ماہ سے واشنگٹن میں بیٹھے سیاست دان امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری جنگ کی خطرناک تصویر پیش کرنے میں مصروف ہیں اور اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ یا تو ایران اپنا جوہری پروگرام رول بیک کرنے پر تیار ہو جائے گا یا پھر امریکہ اس پر حملہ کر دے گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی دھمکی آمیز رویہ جاری رکھے ہوئے ہے اور دو ٹوک انداز میں ایران کی جانب سے اس کی پیش کردہ شرائط قبول نہ کرنے کی صورت میں تباہ کن نتائج کی دھمکیاں لگا رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بقول ایران کی جوہری تنصیبات تباہ کرنے کے صرف دو ہی راستے ہیں: "یا مذاکرات کے ذریعے انہیں ختم کیا جائے یا فوجی طاقت کے بل بوتے پر"۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکی صدر کی دھمکیاں کس حد تک حقیقت پر مبنی ہیں؟
 
سرخ لکیر یا بڑھک؛ واشنگٹن ایران کی جوہری ترقی کے پھندے میں
یوں دکھائی دیتا ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے ایران کے سامنے دو راستے قرار دینے پر اصرار، حقیقت پر مبنی ہونے کی بجائے محض زبانی کلامی دھمکیوں اور نفسیاتی جنگ پر استوار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تیسرا راستہ بھی پایا جاتا ہے؛ ایسا راستہ جو زیادہ حقیقت پسندانہ ہے اور وہ موجودہ زمینی حقائق کو قبول کر لینے پر مشتمل ہے۔ واشنگٹن کو چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو قبول کر لے کہ ایران کا جوہری پروگرام ایک عارضی بحران نہیں بلکہ اب وہ خطے کے زمینی حقائق کا حصہ بن چکا ہے۔ امریکہ کئی سالوں سے جوہری طاقت کا امکان رکھنے والے ایران کو برداشت کرتا آیا ہے اور اس تلخ حقیقت کے انکار کا نتیجہ امریکی مفادات کو زک پہنچانے کے سوا کوئی اور نہیں نکلے گا۔ اس کے باوجود امریکی حکمران اس خام خیالی کا شکار ہیں کہ وہ ایران کو جوہری ٹیکنالوجی کے حصول سے پہلے والی پوزیشن میں واپس پلٹا سکتے ہیں۔
 
دھمکی، ٹارگٹ کلنگ، پابندی؛ واشنگٹن کے مقابلے میں ایران کی جوہری ترقی کا راز
دراصل گذشتہ چند عشروں کے دوران ایران کے خلاف عائد کردہ پابندیوں، فوجی دھمکیوں اور خفیہ طور پر انجام پانے والی ٹارگٹ کلنگ کی کاروائیوں نے ہی ایران کو اپنے جوہری پروگرام میں وسعت اور ترقی لانے پر مجبور کیا ہے۔ جوہری ٹیکنالوجی کے شعبے میں تہران کی حالیہ ترقی تین اہم مراحل میں انجام پائی ہے اور ان تینوں مراحل میں واشنگٹن یا تل ابیب کی جانب سے براہ راست دشمنی پر مبنی اقدامات انجام پائے ہیں۔ پہلا مرحلہ ایران سے جوہری معاہدے بورجام کے خاتمے کے بعد سامنے آیا۔ اس معاہدے نے 2015ء میں ایران کی جوہری سرگرمیوں کو شدید حد تک محدود کر دیا تھا۔ لیکن 2018ء میں ڈونلڈ ٹرمپ اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبردار ہو گئے۔ یہ دستبرداری ایسی صورت میں انجام پائی جب خود ٹرمپ حکومت نے بھی جولائی 2017ء تک اس معاہدے کی مکمل پابندی کی تھی۔ ایران نے بورجام معاہدہ ختم ہو جانے کے بعد بھی ایک سال تک اس کی پابندی جاری رکھی۔
 
فیصلہ کن موڑ اس وقت رونما ہوا جب امریکہ نے مئی 2019ء میں دھمکی آمیز اقدام کے طور پر یو ایس ایس ابراہم جنگی بحری بیڑہ ایران کے پانیوں کے قریب بھیج دیا تاکہ یوں اس وقت کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کے بقول ایران کو واضح پیغام دے سکے۔ اسی فوجی تناو کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایران نے بورجام معاہدے کی پابندی ختم کر دی اور چند ماہ بعد ایران کی یورینیم افزودگی 4.5 فیصد تک جا پہنچی۔ دوسرا قدم ایران نے دسمبر 2020ء میں اٹھایا۔ ایران نے اعلان کیا کہ وہ یورینیم افزودگی کی سطح 20 فیصد تک بڑھانا چاہتا ہے۔ اس اعلان کے چند دن بعد ہی ایران کے ممتاز جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کو تہران میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایران نے اپریل 2021ء میں یورینیم افزودگی کی سطح 60 فیصد تک بڑھانے کا اعلان کر دیا۔
 
ایران کے خلاف دھمکی آمیز رویہ بے سود کیوں؟
مذکورہ بالا مطالب کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ "یا معاہدہ یا جنگ" کا نعرہ نہ صرف انتہائی سادہ لوحی پر مبنی ہے بکہ انتہائی شدید حد تک خطرناک بھی ہے۔ ایران کے خلاف فوجی اقدام نہ صرف ایران کی جوہری صلاحیتوں کو ختم کرنے پر قادر نہیں ہے بلکہ عین ممکن ہے اس کے ایسے نتائج سامنے آئیں جو واشنگٹن کے لیے انتہائی خوفناک ثابت ہوں، جیسے ایران کی جانب سے جوہری ہتھیار تیار کرنے میں کامیابی۔ اگرا امریکہ ایران کے خلاف فوجی طریقہ کار اپناتا ہے تو ایسی صورت میں اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ تہران جوہری ہتھیار تیار کرنے کے لیے زیادہ پر عزم نہ ہو جائے اور اپنی جوہری ترقی میں مزید تیزی نہ لے آئے؟
 
ممکن ہے اسرائیل کو امریکی سیاست میں یہ یوٹرن ناگوار گزرے لیکن ایسے فیصلے کے سفارتی نتائج ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی ذات کا حصہ ہیں۔ ٹرمپ ایسا صدر ہے جو بین الاقوامی تعلقات عامہ میں اعلانیہ طور پر "پاگل شخص" والے ماڈل کا پیروکار ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ یہ ایسا طریقہ کار ہے جو غیر متوقع اقدامات پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کے بارے میں پہلے سے اندازہ لگانا تقریباً ناممکن ہے۔ امریکہ کے لیے ضروری نہیں کہ خود کو "معاہدہ یا جنگ" جیسے دو راہے کے پھندے میں پھنسائے۔ ایران کی موجودہ جوہری صورتحال گذشتہ کئی سالوں سے ایک ہی حالت میں برقرار ہے اور وہ کوئی بحرانی صورتحال نہیں ہے جس کا فوری راہ حل تلاش کرنے کی ضرورت ہو۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت کشمیر کی آئینی حیثیت کی تبدیلی کا فیصلہ واپس لے، بلاول
  • نیٹو کے سربراہ کا فضائی دفاعی صلاحیت میں 400 فیصد اضافے پر زور
  • وفاق کو قرض دینے کی حیثیت بھی رکھتے ہیں ، وزیراعلیٰ خیبرپختونخواکادعویٰ
  • اسپین میں نیٹو مخالف مظاہرے ، اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ
  • ریاست منی پور کے لوگ مودی کی بے رخی اور غیر حساسیت کی قیمت چکا رہے ہیں، جے رام رمیش
  • طاقتور شخصیات کی جنگ، ٹرمپ کی مسک کو ڈیموکریٹس کی حمایت پر سنگین نتائج کی دھمکی
  • وزیر مملکت بلال بن ثاقب کی ایلون مسک کے والد سے ملاقات
  • حکومت کا کم آمدنی والے افراد کے لیے سستے ہاؤسنگ لون متعارف کرانے کا منصوبہ
  • ایران کے خلاف دھمکی آمیز رویہ بے سود کیوں؟
  • امریکی صدر اور ایلون مسک جھگڑا،’ٹرمپ کو مسک سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں’