لاس اینجلس: آگ کی شدت اور ہلاکتوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 جنوری 2025ء) مقامی حکام کے مطابق امریکہ کے لاس اینجلس میں جنگل کی آگ سے مرنے والوں کی تعداد اب 24 ہو گئی ہے۔ ان میں 16 ہلاکتیں ایٹن فائر زون میں، جب کہ آٹھ پیلیسیڈس فائر زون میں ہوئیں۔
اس وقت امدادی کارکنان علاقے میں سرچ آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں اور خدشہ ہے مرنے والوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔
کیلیفورنیا: جنگلاتی آگ کی تباہی کی تفتیش کے مطالبات
بہتر موسمی حالات اور فائر فائٹرز کی کوششوں نے پیلیسیڈس میں آگ کو پھیلنے سے قدرے محدود کر دیا ہے۔ تاہم، 'آگ کی شدت اور جان لیوا حالات' کی وجہ سے آنے والے دنوں میں حالات دوبارہ خراب ہونے والے ہیں۔ آگ اب تک اب 23,713 ایکڑ پر پھیل چکی ہے، اس میں صرف 13 فیصد علاقے پر قابو پایا جاسکا ہے۔
(جاری ہے)
نیشنل ویدر سروس کے ماہر موسمیات روز شوئن فیلڈ نے کہا کہ 110 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہواؤں کا مطلب ہے کہ منگل کے اوائل سے "خاص طور پر خطرناک صورتحال" کا اعلان متوقع ہے۔
کم از کم 16 افراد لاپتہلاس اینجلس کے جنگلات میں لگی آگ کے باعث کم از کم 16 افراد لاپتہ ہیں۔
لاس اینجلس کاؤنٹی کے شیرف رابرٹ لونا نے اتوار کے روز کہا کہ ایٹن فائر زون میں 12 افراد لاپتہ ہیں اور چار پیلیسیڈس سے لاپتہ ہیں۔
کیلیفورنیا میں جنگلاتی آگ: تباہ کن قدرتی آفات میں سے ایک
لونا نے مزید کہا کہ لاپتہ افراد کی تعداد میں اضافے کا امکان ہے کیونکہ "درجنوں" مزید رپورٹس اگلے دنوں میں آ سکتی ہیں۔
تفتیش کار اس بات کی بھی تفتیش کر رہے تھے کہ آیا لاپتہ ہونے والے افراد میں سے کوئی جنگل کی آگ سے ہلاک ہوا ہے۔
شیرف کے محکمے کی ٹیموں نے انسانی باقیات کی تلاش کے لیے جاسوس کتوں کا استعمال کرتے ہوئے اتوار کو بھی اپنی کوششیں جاری رکھیں۔
لاس اینجلس کے ارد گرد پانچ محاذوں پر آگفائر فائٹرز نے لاس اینجلس میں اتوار کے روز پانچ الگ الگ محاذوں پر آگ پر قابو پانے کی کوشش کی، جو مسلسل بڑھتی ہی جارہی ہے۔
کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوزوم نے، این بی سی کے میٹ دی پریس کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ جنگل کی آگ امریکی تاریخ کی بدترین قدرتی آفت بن سکتی ہے۔
انہوں نے کہا،" میرے خیال میں یہ نہ صرف اس سےہونے والے مالی نقصان کے لحاظ سے بلکہ وسعت اور دائرہ کار کے لحاظ سے بھی بدترین ہو گا۔
'نیوزوم نے مزید کہا کہ وہ شہر کی تعمیر نو کے لیے "مارشل پلان" شروع کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا، "ہماری ایک ٹیم نے اس پر کام شروع کردیا ہے۔"
آگ بدھ تک رہنے کا خدشہلاس اینجلس میں تشویش پائی جاتی ہے کہ موسم کے بگڑتے حالات کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ جنگل کی آگ رواں ہفتے بدھ تک جاری رہ سکتی ہے۔
نیشنل ویدر سروس نے پیر کے آخر سے منگل کی صبح تک خطرناک ہواؤں کی پیش گوئی کی ہے، جس میں 110 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار تک ہوا چل سکتی ہے۔ جمعرات تک حالات کے معتدل ہونے کی توقع ہے۔ خیال رہے کہ یہ آگ تقریباﹰ دس روز قبل شروع ہوئی تھی۔
ج ا ⁄ ر ب (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے لاس اینجلس جنگل کی آگ کی تعداد کہا کہ
پڑھیں:
حالات خراب ہیں!
میں نے سب سے پہلے یہ جملہ کہ ’’حالات خراب ہیں‘‘ 1980 میں اپنے والد سے سنا جب میں نے میٹرک کے امتحانات کے بعد اپنے والد سے اپنے اسکول کے گروپ کے ساتھ پاکستان کی سیر پر جانے کی اجازت اور پیسے طلب کیے۔ کچھ میری اپنی ضد اور سب سے بڑھ کر والدہ کی سفارش کے نتیجے میں اجازت اور پیسے دونوں مل گئے۔
پورے سفر کا دورانیہ تئیس دن تھا جس میں تمام شمالی علاقہ جات بھی شامل تھی۔ اخراجات کا تخمینہ اسکول نے ساڑھے چھ سو لگایا تھا کہ جس میں رہائش، کھانا پینا اور چند مخصوص علاقوں کی سیر بھی شامل تھی۔ شاید نئی نسل کو یہ رقم ایک لطیفہ ہی لگے مگر 1980 میں یہ ایک خاصی مناسب رقم ہوتی تھی۔
اس سفر سے آنے کے بعد جو جملہ مستقل طور پر میری زندگی کا حصہ بن گیا وہ آپ یقیناً سمجھ گئے ہوں گے کہ ’’ حالات خراب ہیں‘‘۔ ایسا نہیں کہ اس سفر میں کوئی حادثہ پیش آیا ہو۔ سفر بہترین رہا، انتظامات شاندار تھے اور یہ سفر آج بھی میری یادوں کے دریچوں میں ایک خوبصورت یاد کے طور پر محفوظ ہے۔ اس کے بعد ہر دو یا تین سال بعد میں دوستوں کے ساتھ سفر پر جاتا اور شادی کے بعد پہلے صرف بیگم اور بعد میں بچوں کے ساتھ پورا پاکستان دیکھا اور دکھایا۔ ہر سفر سے پہلے والدین سے اجازت ضرور لی لیکن اجازت سے پہلے جو جملہ سننے کو ملتا وہ یہی ہوتا تھا کہ حالات خراب ہیں، نہ جاؤں تو بہتر ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ میں نے سدھر کر دیا اور نہ حالات تبدیل ہوئے۔ ہر سفر سے پہلے یہ جملہ میرا مستقل ساتھی رہا اور آج بھی ہے کہ حالات خراب ہیں۔
اب اس صورتحال میں یہ سوال یا سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ حالات کیوں خراب ہیں؟ اور حالات کس کی وجہ سے خراب ہیں؟ دونوں سوالات کے صحیح جواب دینے سے پہلے تو آپ یہ سمجھ لیجیے کہ ان سوالات کے درست جوابات دینے پر آپ کی حب الوطنی پر حرف آئے گا بلکہ صاحب حرف کیا پوری پوری چارج شیٹ یا ایف آئی آر یعنی پہلی معلوماتی روداد بھی درج ہوسکتی ہے کہ جس کے نتیجے میں آپ کے حالات یقیناً خراب ہوجائیں گے، حالانکہ ان سوالات کے درست جواب میں ہی اس مسئلے کا حل پنہاں ہے۔ اگر میں اپنے ’’حالات‘‘ کی ’’امان‘‘ پاؤں تو عرض کروں کہ حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کو نظام پر اعتماد نہیں رہا ہے۔ نظام جو کہ خود ایک ضابطہ ہوتا ہے ایک ’’منظم بے ضابطگی‘‘ کا شکار ہے اور اس کا شکار خود اس کے رکھوالے کھیل رہے ہیں بلکہ کھیل کیا رہے ہیں انھوں نے تو پورے نظام کو ہی ’’رکھیل‘‘ بنا کر رکھا ہوا ہے۔
آج ثنا یوسف کے واقعے کا بہت چرچا ہے اور کل سلمان فاروقی والے واقعے کا بہت شور و غوغا تھا۔ ابھی تھوڑے دن پہلے یہ قوم نتاشا اقبال کو کوس رہی تھی اور پھر وہ وکٹری کا نشان بنا کر باعزت بری ہوگئی۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ایسے واقعات تواتر کے ساتھ پیش آرہے ہیں اور قانون ان کی پیش بندی سے قاصر ہے بلکہ اس کے آگے لاغر اور ناتواں ہیں۔ ان حالات میں سماجی ذرائع ابلاغ غریبوں کا رابن ہڈ یا سلطانہ ڈاکو بن کر نمودار ہوا ہے کہ جس کے آگے اس وقت قانون کے رکھوالے اور قانون شکن یکساں طور پر بےبس ہیں۔ اس سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ یہ کوئی صحت مندانہ رحجان نہیں ہے بلکہ ایک کمزور، بیمار اور ذہنی طور پر معذور معاشرے کی علامت ہے کہ جس کا انجام سوچتے ہوئے بھی خوف آتا ہے۔
یہ سماجی ذرائع ابلاغ اس وقت ایک مادر پدر آزاد نظام بنا ہوا ہے کہ جو یکطرفہ روداد سنا یا دکھا کر معاشرے میں ہیجانی کیفیت طاری کردیتا ہے اور اس یکطرفہ کارروائی پر معاشرہ اپنا فیصلہ سنا دیتا ہے اور اس فیصلے کے قانون اپنی کارروائی ضرور کرتا ہے کہ جس سے قانون کی بالادستی ضرور مستحکم ہوتی ہے مگر انصاف شرط نہیں ہوتا۔
سماجی ذرائع ابلاغ کیسے کام کرتا ہیں اس پر ایک کہانی اور اختتام۔ ایک بادشاہ کے سامنے ایک مقدمہ رکھا گیا۔ مقدمہ بالکل سیدھا تھا۔ سب کو نظر آرہا تھا کہ مدعی حق پر ہے مگر مدعا علیہ زور زور سے اور چیخ چیخ کر اپنا دفاع کررہا تھا اور اپنا دعوٰی بیان کررہا تھا۔ بادشاہ نے مدعا علیہ کے حق میں فیصلہ دے دیا، بعد میں جب دربار نے جان کی امان طلب کرکے اپنی اصلاح کےلیے بادشاہ سے فیصلے کی وجہ پوچھی تو بادشاہ نے جواب دیا کیا تمھیں نہیں پتہ کہ سچ کی آواز کو دبایا نہیں جاسکتا تو جس کی آواز تیز اور اونچی تھی میں نے اس کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ اس پر پورا دربار بادشاہ کی ثنا میں گونج اٹھا۔
یہی حقیقت اس وقت سماجی ذرائع ابلاغ کی ہے۔ نظام کی بربادی کے نتیجے ایک متبادل چیز پرورش پارہی ہے کہ جس کو نظام تو بالکل نہیں کہا جاسکتا، ہاں ایک مکمل افراتفری سے پہلے کی ایک شکل ضرور ہے اور اگر ہم اب بھی نہیں سنبھلے اور سدھرے تو پھر ہر چیز کا اللہ ہی حافظ ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔