پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے کہا ہے کہ 190 ملین پاؤنڈ کیس کے فیصلے میں تاخیر سے تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مذاکرات ہورہے ہیں، حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہے، یہ تاثر دینا غلط ہے۔

190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ مؤخر ہونے کے بعد اسلام آباد میں پی ٹی آئی رہنماؤں شبلی فراز اور عمر ایوب کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے سلمان اکرم راجہ نے اس کیس کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی کابینہ نے 190 ملین پاؤنڈ کی رقم ملک ریاض کو دی یا اس اکاؤنٹ میں جمع کرا کر عمران خان کو بڑا فائدہ پہنچایا، یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے، ضروری ہے واقعات کو درست انداز سے سمجھا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: 190 ملین پاؤنڈ کیس: کب کیا ہوا؟

انہوں نے کہا کہ جو رقم سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں آئی، اس میں وزیراعظم کی کابینہ یا وزیراعظم عمران خان کا کوئی عمل دخل نہیں تھا، برطانیہ میں ملک ریاض فیملی کے 190 ملین پاؤنڈ ضبط کیے گئے، یہ اس لیے ہوا کیونکہ انہوں نے حسن نواز سے پراپرٹی خریدی جسے ون ہائیڈ کارنر کہا جاتا ہے۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اس پراپرٹی کی خریداری کے لیے خطیر رقم ادا کی گئی ہے جبکہ وہاں کے اداروں کے خیال میں اگر اس کی قیمت 10 ملین پاؤنڈ تھی تو وہ 40 ملین پاؤنڈ میں خریدی گئی، جس کے بعد تفتیش کا آغاز ہوا، نیشنل کرائم ایجنسی نے رقوم کے معاملے پر ملک ریاض کے ساتھ معاہدہ کیا گیا کہ ملک ریاض یہ رقم واپس لے جائیں۔

یہ بھی پڑھیں: 190 ملین پاؤنڈ کیس: بریت ہوئی تو ہمیں حیرانی ہوگی، پی ٹی آئی رہنما

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے برطانیہ کے کسی ادارے نے نہیں کہا کہ یہ ریاست پاکستان کی رقم ہے بلکہ یہ بھی نہیں کہا کہ یہ کسی جرم سے حاصل کردہ رقم ہے، برطانوی اداروں نے ملک ریاض کو اپنی منشا سے رقم پاکستان لانے کی اجازت دی، انہوں نے سپریم کورٹ میں کچھ رقم جمع کرانا تھی لہٰذا انہوں نے وہ رقم وہاں جمع کرا دی۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ سب وزیراعظم عمران خان یا کابینہ کی مداخلت کے بغیر ہوا، نیشنل کرائم ایجنسی نے حکومت پاکستان سے کہا کہ ملک ریاض سے جو معاہدہ ہوا ہے وہ خفیہ ہی رہے، اس کا چرچا نہ کیا جائے کیونکہ نیشنل کرائم ایجنسی دیگر رقوم کی تحقیقات بھی کررہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس بات کو بنیاد بنا کر کہانی بنائی گئی کہ کابینہ نے وہ رقم جو ریاست پاکستان کو موصول ہونی تھی، وہ ملک ریاض کے حوالے کردی، دوسری جانب ملک ریاض نے وہ رقم سپریم کورٹ اکاؤنٹ میں جمع کرادی، وہ رقم انہوں نے ملیر میں حاصل کردہ زمین کے معاملے پر سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں جمع کرائی۔

یہ بھی پڑھیں: 190 ملین پاؤنڈ اسکینڈل: کیا اسٹیبلشمنٹ کی کپتان سے ڈیل ہوگئی؟

رہنما پی ٹی آئی کا مزید کہنا تھا کہ یہ سارا معاملہ تھا جس پر کہا گیا کہ عمران خان نے ریاست پاکستان کی رقم ملک ریاض کے حوالے کردی، یہ رقم سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں موجود رہی، اس اکاؤنٹ سے ایک پیسہ تک نہیں نکلا، اس رقم پر منافع بدستور جاری رہا اور یہ رقم اب حکومت پاکستان کے خزانے میں جاچکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس پورے معاملے میں ریاست پاکستان کو نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہوا ہے، وہ رقم جو شاید کبھی پاکستان نہ آتی، وہ آئی اور ہمارے زیمبادلہ کے ذخائر کا حصہ بنی، اس رقم پر 20 ارب روپے کا منافع ہوا، وہ منافع بھی ریاست پاکستان کے اکاؤنٹ میں اچلا گیا، عمران خان اور بشریٰ بی بی کو ایک پیسے کا فائدہ نہیں ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: 190 ملین پاؤنڈ کیس میں عمران خان کو سزا ضرور ہوگی، فیصل واوڈا  کا دعویٰ

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ شوکت خانم ایک ٹرسٹ ہے جسے سالانہ عوام کی جانب سے 10 ارب روپے خیرات اور زکوٰۃ کی شکل میں وصول ہوتے ہیں، 20 سے 25 سال ہوچکے ہیں، کیا یہ رقم عمران خان کی جیب میں جاتی ہے، آج تک کوئی یہ نہیں کہہ سکا کہ اس ٹرسٹ کا کوئی پیسہ ادھر ادھر ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں بھی ٹرسٹ بنا، ایک یونیورسٹی قائم ہوئی سیرت النبی ﷺ کے حوالے سے، یہ یونیورسٹی آج بھی چل رہی ہے، عدالت میں اس کی گواہی آچکی ہے کہ عمران خان یا ان کی اہلیہ کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اس کیس کا فیصلہ لکھنے میں دشواری ہوئی ہوگی، اس کا فیصلہ لکھنا ایک تکلیف دہ عمل ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اس کیس کا فیصلہ آج آنا تھا لیکن نہیں آیا، شاید تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کوئی ڈیل ہورہی ہے، ایسا کچھ نہیں ہے، اب جب بھی یہ فیصلہ آئے گا ہم اسے عوام، عدالتوں اور پوری دنیا کے سامنے رکھیں گے، ماضی میں سائفر اور عدت کے مقدمات ہوا میں اڑ گئے، یہ مقدمہ بھی کوئی وقعت نہیں رکھتا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

190 ملین پاؤنڈ wenews اکاؤنٹ پریس کانفرنس پی ٹی آئی تاخیر ریفرنس سپریم کورٹ سلمان اکرم راجہ فیصلہ کیس ملک ریاض.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: 190 ملین پاؤنڈ اکاؤنٹ پریس کانفرنس پی ٹی ا ئی تاخیر ریفرنس سپریم کورٹ سلمان اکرم راجہ فیصلہ کیس ملک ریاض سلمان اکرم راجہ نے کہا انہوں نے کہا کہ اس ملین پاؤنڈ کیس ریاست پاکستان ملین پاؤنڈ کی اکاؤنٹ میں سپریم کورٹ پی ٹی ا ئی ملک ریاض کا فیصلہ وہ رقم کی رقم یہ رقم

پڑھیں:

تم ہمارے جیسے کیسے ہو سکتے ہو؟

اونچ نیچ
آفتاب احمد خانزادہ
۔۔

ٹالسٹائی کا خیال تھا کہ گذشتہ دو صدیوں کے اندر اخلاقی ترقی ہوئی ہے لیکن حکومتیں بری طرح سے غیر اخلاقی ثابت ہوئی ہیں چنانچہ اس کے نزدیک دنیا کے مظلوم عوام کے مسائل کا واحد حل یہ ہی ہے کہ ان کے اندر وہ اخلاقی جرأ ت پیدا ہوجائے جس سے وہ ظالموں کے استحصال کا عدم تشدد کے ذریعے مقابلہ کرسکیں ۔ وہ کہتا ہے ” یہ دنیا نہ ہنسی مذاق کی جگہ ہے اور نہ دارو رسن کی وادی ہے اور نہ ہی کسی ابدی دنیا کا پیش خیمہ ہے ہماری دنیا خود ایک ابدی حقیقت ہے یہ دنیا خوبصورت اور دلکش ہے ہمیں اسے زیادہ حسین و دلفریب بنانا چاہیے ان لوگوں کے لیے جو ہمارے ساتھ زندہ ہیں اور ان لوگوں کے لیے جو ہمارے بعد زندہ رہیں گے”۔ ستمبر 1860 میں ایک انگلستان کے عظیم ناول نگار چالس ڈکنس نے یکایک فیصلہ کیا کہ اسے اپنے ماضی سے تمام رشتے منقطع کر لینا چاہیے اور پھر اس نے اپنے بچوں کی موجودگی میں سارے خطوط اور دوسرے کاغذات نذر آتش کر دیئے ۔ ڈکنس کو ”زمانہ ” کی اہمیت کا غیر معمولی احساس تھا۔ زندگی کی جدوجہد میں انسانی فطرت کے جو نمونے ڈکنس نے پیش کیے ہیں وہ شیکسپیئر کے علاوہ کسی دوسرے انگریزادیب کے یہاں مفقود ہیں۔اس نے انسانی زندگی کے تمام اہم پہلوئوں پر غور وفکر کیا۔ اس کاناول Great Expectationایسے افراد کی داستا ن ہے جنہوں نے خود کو سماج اور روز مرہ زندگی سے قطع تعلق کرکے اپنی زندگی عذاب بنا رکھی ہے ۔ Miss Havishamاپنی نامرادیوں اور محرومیوں کا بدلہ سماج سے لینا چاہتی ہے لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خو دتنہا رہ جاتی ہے اور ایذا رسانی اس کی فطرت بن جاتی ہے ڈکنس کے زمانے میں قدیم روایتی قدریں تیزی سے ختم ہورہی تھیں اور لوگ نہ صرف قدیم بستیوں سے اجڑنے لگے تھے بلکہ صنعتی انقلاب اور مشینی تہذیب کے طفیل مرد، عورت اور بچے ”غیر انسان ” ہوتے جارہے تھے اس ماحول میں انسان محض ”چیز ” بنتا جارہا تھا ۔ اس ناول میں کردار وں کی اہم خصو صیت یہ ہے کہ وہ اس عجیب و غریب دنیا میں جینے پر مجبور ہیں ۔ وہ ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے بلکہ خود کلامی کے سہارے زندہ رہتے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سماجی حالات نے ان کی آواز چھین لی ہے پریشان حال اور پر ا گندہ خیال انسان اپنی چھوٹی سی دنیا الگ بسائے ہوئے ہیں مکانات اپنے اپنے طور بنتے اور گرتے رہتے ہیں کسی کو کسی سے کوئی سروکار نہیں۔
ڈکنس اپنے سماج کے گہرے مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ ” انسان کے درمیان جنگ زرگری ہی ساری تباہی کی جڑ ہے زرپرستی اور زر کی ہوس نے اگر سماج کے بالا ئی طبقے کو دولت او ر فراغت بخشی ہے تو دوسری جانب غربا کے لیے گھٹن ، تنہائی اور پریشانی کا سامان فراہم کیا ہے مزے کی بات یہ ہے کہ دولت جمع کرنے کی جدوجہد میں اہل زر بھی محفوظ نہیں رہتے اور خود ان کی زندگی بھی عذاب ہوکر رہ جاتی ہے ۔ شیکسپیئر اپنے ڈرامے King Learمیں دکھاتاہے کہ جب تک بادشاہ لیئر پاگل نہیں ہوجاتا زندگی کی ماہیت کو نہیں سمجھتا اور گلوسٹر کو زندگی کی حقیقت اور اس وقت تک نظر نہیں آتی جب تک وہ اندھا نہیں ہوجاتا ۔ سارتر کہتا ہے زندگی چپکنے والی غلاظت ہے جو بہتے بہتے جم گئی ہے جبکہ کیرک گرد کہتا تھا ” میں کبھی بھی بچہ نہیں تھا میں کبھی بھی جوان نہیں ہوا میں کبھی بھی زندہ نہیں رہا میں کبھی بھی کسی انسان سے محبت نہیں کر سکا زندگی کس قدر کھوکھلی اور لغوہے کوئی کسی کو دفن کرتاہے کوئی میت کے ساتھ جاتا ہے کوئی قبر میں تین بیلچے مٹی کے پھینکتا ہے آخر ستر برس کی عمر کب تک ساتھ دے گی کیوں نہ اس زندگی کا فوری طورپر خاتمہ کردیاجائے کیوں نہ آدمی قبرستان میں ڈیرے ڈال دے کیوں نہ قبر میں گھس جائے ”۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان کے 95 فیصد انسانوں کے یہ ہی احساسات و جذبات ہیں کہو کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان کے 95فیصد انسانوں کی یہ ہی سو چ ہے کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ آج ہم Great Expectationکے کردار نہیں بن کے رہ گئے ہیں کیا یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ آج 95 فیصد پاکستانی سارتر کی بات سے متفق ہیں کہ زندگی چپکنے والی غلاظت ہے آج چند سو کو چھوڑ کر کوئی ایک پاکستانی دکھا دو جو دل سے ہنستا ہو جسے کوئی غم نہ ہو کوئی فکر یا پریشانی نہ ہو ۔ جو چین سے سو تا ہے جو پیٹ بھر کے روٹی کھا تا ہو ۔ خدا کے واسطے کسی ایک شخص کا پتہ بتادو جوروز اپنی قبر نہ کھو دتا ہو جس کے اندر ننگی چیخیں نہ چیختی ہوں جو روز نہ مرتا ہو اور روز نہ جیتا ہو ۔ اس وقت اپنے آپ کو پیٹنے کا دل چاہتا ہے ماتم کرنے کا جی کرتا ہے ۔ جب امیرو کبیر ، محلوں او ر اونچے اونچے تختوں پر بیٹھے موٹے موٹے پیٹ والے یہ بکوا س کرتے ہیں کہ ملک ترقی کررہا ہے ملک سے غربت کا خاتمہ ہورہا ہے خو شحالی آرہی ہے ، مہنگائی کم ہورہی ہے لوگوں کا سکون لوٹ رہا ہے ارے کوئی ان اندھوں ، بہروں اور کانوں کو ملک کی گندی اورغلاظت سے بھری بستیاں دکھا دے ۔ خون تھوکتے انسان دکھا دے اپنے آپ کو پیٹتی بہنوں ، اور بیٹیوں کو دکھا دے بھوکے سوتے بچوں کو دکھا دے۔ تڑپتی بلکتی سسکتی مائوں کو دکھا دے ۔ خدارا کوئی تو اٹھے جوان اندھوں، بہروں اور کانوں کو ملک کی بستیوں میں لے جائے ۔ جہاں انسان تڑپ اور بلک رہے ہیں ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے امیروں ، بااختیاروں ، سرمایہ داروں ، جاگیرداروں اور حکمرانوں تم ہم 95 فیصد انسانوں سے بالکل الگ ہوتم اور ہم کیسے ایک ہوسکتے ہیں جب کہ تم ہمارے غموں ، دکھوں اور تکلیفوں کو محسوس ہی نہیں کرسکتے تم تمہارے جیسے کیسے ہوسکتے ہو۔ تم ہمارے اپنے کیسے ہوسکتے ہو ۔ تمہیں معلوم ہی نہیں ہے کہ غربت ، افلاس کس بلاکا نام ہیں فاقوں کی تکلیف کیسی ہوتی ہے۔ بیروزگاری کا غم جسم کو کیسے کاٹتا ہے ۔ اپنے جسم سے نکلنے والا خون دیکھ کر کیسے دل تڑپتا ہے ۔ چھوٹی چھوٹی خواہشوں اور امیدوں کے قتل عام پر کیسے دل روتا ہے ۔ نہیں بالکل نہیں تم اور ہم الگ الگ ہیں اس لیے یہ ڈھکو سلے بازی بند کرو یہ ڈرامہ بازی اب نہیں چلے گی یہ منافقت اب ناقابل برداشت ہوچکی ہے کیونکہ تمہارا پاکستان الگ ہے اور ہمارا پاکستان الگ ہے ۔ تمہارے خون کارنگ الگ ہے اورہمارے خون کا رنگ الگ ہے تمہارے جسم الگ ہیں اور ہمارے جسم الگ ہیں ہمارے سارے المیوں ، ساری ذلالتوں ، سارے غموں اور دکھوں کے تم ہی ذمہ دار ہو۔ ہم صرف تمہاری ہی وجہ سے چیزیں بن کے رہ گئے ہیں ۔جب سکندر اعظم 325قبل از مسیح میں شمالی مغربی ہندوستان میں گھو ما تو اس نے پنجاب میں اور اس کے آس پاس مقامی باشندوں کے ساتھ ساری لڑائیاں جیت لیں لیکن وہ اس قابل نہ ہوسکا کہ اپنے سپاہیوں میں اتنا جو ش و خروش پیدا کرسکے کہ و ہ طاقتور شاہی نند ا خاندان پر حملہ کرسکیں ۔ جو مشرقی ہندوستان کے شہر پٹالی پترا ، ( جو اب پٹنہ کہلا تا ہے ) اور جو ہندوستان کے بیشتر حصے پر حکومت کرتا تھا تاہم سکندر اعظم خاموشی سے یونان واپس جانے کے لیے تیا ر نہیں تھا ایک روز پر جو ش مباحثے میں دنیا کے فاتح نے جین فلسفیوں کے ایک گروہ سے پو چھا کہ وہ اس کی طرف توجہ دینے کو کیوں نظر انداز کر رہے ہیں اس سوال کا جواب اس نے یہ پایا ”بادشاہ سکندر ہر شخص صرف زمین کے اتنے ہی حصے کا مالک ہوسکتا ہے جتنے پر ہم کھڑے ہوئے ہیں آپ بھی ہم میں سے باقی سب کی طرح ایک انسان ہو سوائے اس کے آپ ہر وقت مصروف رہتے ہو اور کسی اچھائی کے لیے نہیں ۔ اپنے گھر سے اتنے میل ہامیل دور سفر کررہے ہو اپنے لیے اور دوسروں کے لیے ایک پریشانی کا باعث ہو، آپ جلد ہی مر جائو گے اور تب آپ صرف اس قدر زمین کے مالک ہوگے جو آپ کو اپنے اندر چھپا نے کے لیے کافی ہوگی ”۔ میر ے ملک کے امیروں ، بااختیاروں ، طاقتوروں ، حکمرانوںیہ ہی بات تمہارے سو چنے کی بھی ہے کہ تم اپنے لیے اور دوسروں کے لیے پر یشانی کا باعث ہو۔ آج نہیںتو کل تمہیں مر ہی جانا ہے اور اس وقت تم صرف اتنی ہی زمین کے مالک ہوگے جو تمہیں اپنے اندر چھپانے کے لیے کافی ہوگی ۔ باقی تمہاری ساری دولت ساری چیزوں کے مزے دوسرے لے رہے ہونگے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • محمد اورنگزیب نے اکنامک سروے معذرت خوانہ طریقے سے پیش کیا، وقاص اکرم، عمر ایوب
  • وزیراعلیٰ پنجاب نے ٹیکس بڑھانے کی تجاویز مسترد کردیں
  • زرعی شعبہ بحران کا شکار، ترقی کی شرح 6.4 سے گر کر 0.56 فیصد پر آ گئی
  • سعودی ولی عہد کا فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کی مذمت، عالمی برادری سے فوری کردار ادا کرنے کا مطالبہ
  • عید کے بعد سپریم کورٹ میں سیاسی مضمرات کے حامل کونسے مقدمات زیر سماعت آئیں گے؟
  • جسٹس یحییٰ آفریدی کے چیف جسٹس بننے کے بعد ادارے میں کیا کچھ بدلا؟
  • 3 دن واشنگٹن اور 2 دن نیویارک میں کتنی میٹنگز کیں۔۔؟ شیری رحمٰن نے حیران کن تفصیلات شیئر کر دیں
  • تم ہمارے جیسے کیسے ہو سکتے ہو؟
  • کامیاب حج سیزن پر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا مملکت کو خراج تحسین
  • ارطغرل غازی کے اداکار انگین آلتان نے پاکستان کی دلچسپ یادیں شیئر کردیں