چیف جسٹس یحییٰ آفریدی حلف برداری کیلئے نیا سوٹ کیوں نہیں خرید سکے؟ WhatsAppFacebookTwitter 0 13 January, 2025 سب نیوز

اسلام آباد:چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے واضح کیا ہے کہ سپریم کورٹ کا ہر جج آزاد ہے اور کیس کو اپنے انداز سے بھیجتا ہے، ججز کو بریکٹ نہیں کیا جانا چاہیے، ججز پر تنقید ہونی چاہیے لیکن تعمیراتی تنقید ہو۔

چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے سپریم کورٹ پریس ایسوسی ایشن کے ممبران نے ملاقات کی، اس موقع پر چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے بتایا کہ چیف جسٹس پاکستان بننے کا فیصلہ اتنی جلدی میں ہوا میں حلف برداری کا نیا سوٹ بھی نہیں خرید سکا۔

چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے سپریم کورٹ پریس ایسوسی ایشن کے ارکان نے ملاقات کی، اس موقع پر چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ سپریم کورٹ کا ہر جج آزاد ہے، سپریم کورٹ کا ہر جج کیس کو اپنے انداز سے بھیجتا ہے، ججز کو بریکٹ نہیں کیا جانا چاہیے، ججز پر تنقید ہونی چاہئے لیکن تعمیراتی تنقید ہو۔

انہوں نے کہا کہ میرے چیف جسٹس پاکستان بننے کا فیصلہ اتنی جلدی میں ہوا میں حلف برداری کا نیا سوٹ بھی نہیں خرید سکا، چیف جسٹس کا فیصلہ اتنی سرعت کے ساتھ ہوا کہ مین نے کچھ سوچا ہوا نہیں تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ریفارمز کے حوالے سے بہت سے اقدامات اٹھائے جا چکے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہائیکورٹ کی اتھارٹی کا بہت احترام ہے، ضلعی عدلیہ ہائیکورٹ کے ماتحت ہے، براہ راست ہائیکورٹ کی اتھارٹی یا ماتحت عدلیہ میں مداخلت نہیں ہو گی۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ ایک ٹائٹینک ہے اس کو آپ تبدیل نہیں کر سکتے، سپریم کورٹ کی سمت کو تبدیل کر کے انصاف کی فراہمی بہتر کی جا سکتی ہے۔

.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: چیف جسٹس یحیی حلف برداری نہیں خرید نیا سوٹ

پڑھیں:

سپریم کورٹ کا طلاق یافتہ بیٹی کو پنشن دینے کے حوالے سے بڑا فیصلہ 

 سپریم کورٹ نے طلاق یافتہ بیٹی کو پنشن دینے کے حوالے سے بڑا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ  بیٹی کی پنشن شادی کی حیثیت پر نہیں، حق کی بنیاد پر دی جائے گی۔

جسٹس عائشہ ملک نے تحریری کردہ 10 صفحات کا فیصلہ جاری کردیا، سپریم کورٹ   نے کہا کہ پنشن سرکاری ملازم کا قانونی حق ہے، خیرات نہیں، خواتین کی پنشن کا انحصار صرف مالی ضرورت پر ہونا چاہیے، نہ کہ شادی کی حیثیت پر۔

سپریم کورٹ نے والد کی وفات کے بعد طلاق یافتہ بیٹی کو پنشن نہ دینے والے سرکلر کو کالعدم قرار دے دیا، سپریم کورٹ  نے کہا کہ سندھ حکومت کا 2022 کا امتیازی سلوک والا سرکلر غیر قانونی اور آئین کے خلاف ہے، پاکستان کا بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کے باوجود صنفی مساوات میں بدترین رینکنگ پر ہونا باعثِ افسوس ہے۔

درخواست گزار (طلاق یافتہ بیٹی) نے والد کی پنشن دوبارہ شروع کرنے کی درخواست دی تھی، سندھ ہائی کورٹ کے لاڑکانہ بینچ نے درخواست گزار کی پنشن کی منظوری دی، سندھ ہائیکورٹ فیصلہ کیخلاف سندھ حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کی اپیل مسترد کرتے ہوئے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا اور قرار دیا کہ پنشن خیرات یا بخشش نہیں بلکہ آئینی اور قانونی حق ہے،  بیٹی کی پنشن کو شادی کی حیثیت سے مشروط کرنا آئین کے آرٹیکل 9، 14، 25 اور 27 کی خلاف ورزی ہے۔

سپریم کورٹ  نے کہا کہ سرکلر قانون کی تشریح نہیں بلکہ اس میں غیر قانونی شرط شامل کر رہا ہے،  پنشن کا حق بنیادی آئینی حق ہے، سرکاری تاخیر جرم کے زمرے میں آتی ہے، عورتوں کو مالی طور پر خودمختار تصور نہ کرنا آئینی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔

سپریم کورٹ نے اظہار افسوس کیا کہ پاکستان کا خواتین کی برابری میں عالمی درجہ 148 میں سے 148 ہے۔

متعلقہ مضامین

  • چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت پشاور میں عدالتی شعبے میں اصلاحات کے تسلسل کے فروغ اور ادارہ جاتی روابط کا جائزہ اجلاس
  • چیف جسٹس کا ملاقات کیلئے رابطہ، پکڑا جاؤنگا، اسلام آباد نہیں آ سکتا: عمر ایوب 
  • ملاقات کیلئے خط لکھنے پر یحییٰ آفریدی کا عمر ایوب سے رابطہ
  • چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا عمرایوب سے رابطہ، ملاقات کیلئے مدعو کرلیا
  • ملاقات کیلئے خط لکھنے پر چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا عمر ایوب سے رابطہ
  • چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا عمرایوب سے رابطہ، ملاقات کیلئے مدعو کرلیا
  • چیف جسٹس سپریم کورٹ یحییٰ آفریدی کا عمرایوب سے رابطہ، ملاقات کیلئے بلالیا
  • سپریم کورٹ: طلاق یافتہ بیٹی کی پنشن پر اہم فیصلہ آگیا
  • سپریم کورٹ نے طلاق یافتہ بیٹی کو پنشن دینے سےمتعلق فیصلہ جاری کر دیا
  • سپریم کورٹ کا طلاق یافتہ بیٹی کو پنشن دینے کے حوالے سے بڑا فیصلہ