خلیل الرحمان قمر کو جھانسہ دینے والی ملزمہ کی درخواست ضمانت خارج ، عدالت کا بڑا حکم آگیا
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
لاہور (نیوز ڈیسک) معروف ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمر کو جھانسہ دینے والی ملزمہ کی درخواست ضمانت خارج کردی گئی اور عدالت نے کیس کا ٹرائل ایک ماہ میں مکمل کرنے کا حکم دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں خلیل الرحمان قمر ہنی ٹریپ کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس ہائیکورٹ عالیہ نیلم اور جسٹس اسجد جاوید گھرال پر مشتمل بینچ نے سماعت کی۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے کہا ستمبر سے درخواست ضمانت زیرالتواہے، آپ نے کافی وقت لیا ، قانون کا غلط استعمال کرنا ٹرینڈ بن چکا ہے۔
چیف جسٹس ہائیکورٹ نے استفسار کیا ملزمہ آمنہ عروج کیا کرتی ہے، وکیل ملزمہ کا کہنا تھا کہ آمنہ عروج پراپرٹی کا کام کرتی اور پروموشنل ویڈیوزبناتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ملزمہ یہ تسلیم کررہی ہےکہ وہ ویڈیوبناناجانتی ہے، اتنے بڑے شہر میں اکیلا رہ کر پراپرٹی کا کام کرنا کوئی بہادر خاتون ہی ایساکرسکتی ہے۔
چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ اگر آمنہ عروج کو بلیک میل کیا جارہا تھا تو وہ خاموش نہ رہتی، کبھی آپ کہتے ہیں کہ آمنہ شوبز سے منسلک ہے ، کیا اس نے کسی ڈرامے میں کام کیا، کبھی آپ کہتے ہیں آمنہ عروج پروموشنل ویڈیوزبناتی ہے۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ ملزمہ خلیل الرحمان قمرکواغواکرکےننکانہ صاحب تک لیجانے تک ساتھ رہی، ٹرائل کورٹ میں چالان جمع اور فرد جرم عائد ہو چکی، گواہوں کےبیانات قلمبند ہو رہے ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ نے ملزمہ آمنہ عروج کی درخواست ضمانت خارج کرتے ہوئے کیس کا ٹرائل ایک ماہ میں مکمل کرنے کا حکم دے دیا اور شریک ملزم یاسر کی ضمانت منظور کرلی۔
5 مزیدپڑھیں:سالوں کے دوران کتنے ہزار شہریوں کے شناختی کارڈز بلاک کیے گئے، تفصلات سامنے آگئیں
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: درخواست ضمانت چیف جسٹس
پڑھیں:
حقائق کی جانچ سپریم کورٹ کا کام نہیں، ہم صرف قانون کی خلاف ورزی کو دیکھیں گے، چیف جسٹس
چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سپریم کورٹ میں حقائق کی جانچ سے متعلق معاملات نہیں آنے چاہیئے، حقائق کی جانچ سپریم کورٹ کا کام نہیں ہے۔ ہم یہاں صرف قانون کے خلاف ورزی کو دیکھیں گے۔
سپریم کورٹ نے نان نفقہ کی ادائیگی سے متعلق شہریوں کی مختلف اپیلیں مسترد کردیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحی آفریدی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کے روبرو نان نفقہ کی ادائیگی سے متعلق شہریوں کی مختلف اپیلوں کی سماعت ہوئی۔
درخواست گزار کے وکیل نے موقف دیا کہ فیملی کورٹ نے شادی کے تاریخ اور بچوں کی تاریخ پیدائش سے نان نفقہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے، درخواست گزار علیحدگی کے بعد سے نان نفقہ دینے کو تیار ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ میں حقائق کی جانچ سے متعلق معاملات نہیں آنے چاہیئے، حقائق کی جانچ سپریم کورٹ کا کام نہیں ہے۔ ہم یہاں صرف قانون کے خلاف ورزی کو دیکھیں گے۔
نان نفقہ سے متعلق حقائق کی جانچ فیملی کورٹس نے کرنی ہیں۔ سپریم کورٹ حقائق کی جانچ سے متعلق مداخلت نہیں کرے گی، ہم سمجھتے ہیں ہائیکورٹ کو بھی حقائق کی جانچ میں نہیں جانا چاہئے۔
چیف جسٹس نے وکیل سے مزید مکالمہ کیا کہ آپ نے 2022 سے نان نفقہ ادا نہیں کیا ہے۔ 3 برسوں سے آپ نے اپنے بچوں کو ایک روپیہ بھی نہیں دیا ہے۔
جسٹس محمد شفیع صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ آپ جو بات کررہے ہیں اس کے لئے ریکارڈ کا جائزہ لینا پڑے گا۔ حقائق کی جانچ کا فورم ماتحت عدالت ہے۔
چیف جسٹس یحی آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ اس مرحلے پر مداخلت نہیں کرے گی۔ عدالت نے نان نفقہ کی ادائیگی کیخلاف مختلف اپیلیں مسترد کردیں۔