Express News:
2025-11-03@19:20:22 GMT

کیا عورت کو فیصلے کرنے کا حق حاصل ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT

خواتین کے حقوق کے لیے چلائی جانے والی تحریکوں، آگاہی پروگرام اور ریلیوں کی بدولت کچھ تو خواتین کے تحفظ کے حوالے سے قانون سازی عمل میں آئی اور کافی حد تک صنفی مساوات کے حوالے سے بات بھی ضرور ہونے لگی ہے، لیکن کیا ہمارے سماج میں واقعی ایسا ہی ہے؟

کیا واقعی ہمارے میں معاشرے میں بھی تبدیلی آگئی ہے؟ کیا ہمارے معاشرے نے عورت کی خودمختاری کو تسلیم کرلیا گیا ہے؟ کیا واقعی پاکستان میں خواتین آئین اور قانون کے تحت فراہم کردہ آزادی اور خودمختاری کی حق دار سمجھی جاتی ہیں؟ کیا اپنے فیصلے ان پر مسلط نہیں کیے جاتے؟ اور کیا واقعی خواتین زندگی کے بہت سے فیصلے خاندان والوں کے دباؤ میں آکر نہیں کرتیں؟

یقیناً بہت سی خواندہ اور ماڈرن خاندانوں کا دعویٰ یہ ہی ہوگا کہ ہمارے گھر کی لڑکیوں کو ان کی زندگی کے فیصلوں میں مکمل خودمختاری اور آزادی حاصل ہے، لیکن اس معاملے پر جب انھی خاندانوں کی خواتین سے متعدد معاملات جیسے کہ پڑھائی مکمل نہ کرنا، تعلیم یا ڈگری کے بیچ میں شادی ہوجانا، خانکی معاملات، کیرئیر جاری نہ رکھنا وغیرہ جیسے مسائل پر بات کی گئی، تو ننانوے فی صد خواتین کا کہنا یہی تھا کہ گھر والوں کی رائے یا دباؤ ان کے فیصلے کا سبب بنی۔

خود میرے ذاتی تدریسی کیرئیر میں بہت سی بچیوں کے ایسے معاملات بھی سامنے آئے، جو کہ پروفیشنل تعلیم حاصل کر رہی تھیں یا ان کے سیمسٹر کے امتحانات کے قریب یا درمیان میں گھر والے شادی رکھ لیتے ہیں، جس کے بعد بچوں کی پیدائش کی بنا پر ان کی تعلیم متاثر ہوتی ہے۔ پتا چلتا ہے کہ بھئی یہ تمام معاملات اورفیصلے ان کے اپنے نہیں، بلکہ ان کے گھر والوں کے ہوتے ہیں۔

لڑکی تعلیم حاصل کر رہی ہے یا اس کا سیمسٹر درمیان میں ہے یا امتحانات ہونے والے ہیں، گھر والوں کے لیے یہ سب اہم نہیں ہوتا، بلکہ ہمارے معاشرے میں اس سب سے زیادہ ضروری کام شادی کرنا اور بچوں کی پیدائش ہی ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بچیوں اور لڑکیوں کو ان کی زندگی کے معاملات میں فیصلہ لینے کا اختیار انتہائی محدود ہے یا پھر صرف اس حد تک خودمختار ہے، جب تک گھروالوں کے لیے لڑکی کا فیصلہ ساز گار ہو۔ زندگی کے اہم معاملات میں لڑکیوں اور بچیوں کو فیصلہ سازی کا حق نہ دینے سے ان کی زندگی پر بہت سے گہرے، دور رَس اور منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، جن کی جڑیں ہمارے معاشرے کے روایتی، سماجی اور ثقافتی نظام میں پیوست ہیں۔

زندگی کے اہم معاملات میں لڑکیوں اور بچیوں کو فیصلہ سازی کا حق نہ دینے سے سب سے پہلا اور اہم نقصان لڑکیوں کی تعلیم پر ہوتا ہے۔ جب بچیوں کو اپنی تعلیم کے حوالے سے فیصلے کرنے کا حق نہیں دیا جاتا، تو وہ اکثر رسمی تعلیم مکمل نہیں کر پاتیں اور معاشرتی دباؤ کی وجہ سے کم عمری میں شادی یا دیگر گھریلو ذمہ داریوں میں شامل کر دی جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ اپنی تعلیمی قابلیت کو بڑھانے کے مواقع کھو دیتی ہیں، جس کا اثر ان کی معاشی خود مختاری اور روزگار کے مواقع پر پڑتا ہے۔

دوسری جانب ہمارے معاشرتی نظام میں لڑکیوں کو خود اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کی آزادی نہیں دی جاتی، جس کی ایک بڑی مثال کم عمری کی شادیاں بھی ہیں۔ والدین اور خاندان کے بزرگ اکثر لڑکیوں کے مستقبل کے حوالے سے ان کے حق میں فیصلے کرتے ہیں، جن میں لڑکیوں کی مرضی اور رائے کو کم اہمیت دی جاتی ہے۔ اس قسم کی شادیوں کے نتیجے میں لڑکیاں تعلیمی، جسمانی اور ذہنی ترقی سے نہ صرف محروم رہ جاتی ہیں، بلکہ جذباتی، نفسیاتی اور مالی طور پر بھی خاندان والوں پر انحصار کرتی ہیں اور ساتھ ہی زندگی کے دوسرے اہم پہلوؤں میں بھی پیچھے رہ جاتی ہیں۔

جب بچیوں کو ان کے فیصلوں کا حق نہیں دیا جاتا، تو یہ رویہ ان کے ذہنی اور جذباتی صحت پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے۔ وہ احساسِ کمتری اور بے بسی کا شکار ہو جاتی ہیں اور اپنی زندگی میں آگے بڑھنے کے مواقع سے محروم رہ جاتی ہیں۔ یہ جذباتی دباؤ ان کی خود اعتمادی کو متاثر کرتا ہے اور وہ اپنی صلاحیتوں پر یقین کھو دیتی ہیں۔ فیصلہ کرنے کے حق سے محروم لڑکیاں اکثر اپنی معاشی خود مختاری سے بھی محروم رہ جاتی ہیں۔ انھیں معاشرتی اور خاندانی دباؤ کے تحت ایسے راستے اپنانے پر مجبور کیا جاتا ہے، جو ان کے معاشی استحکام کو متاثر کرتے ہیں۔ لڑکیوں کا اپنی مرضی سے تعلیم، پیشہ اور شادی کا انتخاب نہ کرنے کی وجہ سے کر سکتیں، تو یہ ان کے معاشی مستقبل کو بھی محدود کر دیتا ہے۔

خواتین اور لڑکیوں کو اپنی زندگی اور جسم کے بارے میں فیصلوں کا مکمل اختیار ہونا چاہیے، لیکن تعلیم اور پیشہ اختیار کرنے سے لے کر ازدواجی معاملات میں خواتین آج بھی مکمل بااختیار نہیں ہیں۔ یہاں  تک کہ خواندہ ماڈرن خاندانوں اور گھرانوں میں بھی اپنے مستقبل یا اپنا کردار خود منتخب کرنے کے لیے خواتین کی صلاحیت سے نہ صرف انکار کیا جاتا ہے، بلکہ ان کی آواز کو دبایا بھی جاتا ہے۔

اس قسم کے رویوں کا سب سے بڑا اثر یہ ہوتا ہے کہ یہ نظام نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔ لڑکیاں جب خود اپنی زندگی کے فیصلوں کا اختیار نہیں رکھتیں تو وہ اپنی اولاد کے لیے بھی ایسی ہی روایتی سوچ اور رویوں کو فروغ دیتی ہیں، جس سے معاشرتی ترقی کی رفتار سست ہو جاتی ہے۔ بچیوں اور لڑکیوں کو ان کی زندگی کے فیصلوں کا حق نہ دینا نہ صرف انفرادی سطح پر نقصان دہ ہے، بلکہ یہ معاشرتی ترقی میں بھی رکاوٹ بنتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ترقی کرے اور خوش حال ہو تو ہمیں بچیوں کو زندگی کے تمام معاملات میں خود مختار بنانے کے لیے انھیں ان کے فیصلے کرنے کا حق دینا ہوگا۔ اس سے نہ صرف ان کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوگا، بلکہ وہ معاشرتی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کر سکیں گی۔
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: معاملات میں کے حوالے سے رہ جاتی ہیں ان کی زندگی فیصلے کرنے اپنی زندگی میں لڑکیوں فیصلوں کا لڑکیوں کو کے فیصلوں زندگی کے والوں کے کا حق نہ میں بھی کے لیے

پڑھیں:

آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلیے اسٹرکچرل اصلاحات مکمل کرنا ہوں گی، وزیر خزانہ

اسلام آباد:

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ اگر موجودہ اسٹرکچرل اصلاحات مکمل نہ کی گئیں تو آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔

وفاقی وزراء اویس لغاری، شزہ فاطمہ خواجہ، چیئرمین ایف بی آر اور سیکرٹری خزانہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ پائیدار معاشی ترقی کے لیے اسٹرکچرل ریفارمز ناگزیر ہیں، اصلاحات کی تکمیل سے ہی معاشی خودمختاری اور پائیدار ترقی ممکن ہے۔

محمد اورنگزیب نے کہا کہ ریاستی ملکیتی اداروں میں بڑی اصلاحات کی گئی ہیں اور وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ پر تیزی سے کام جاری ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ نے بتایا کہ سعودی عرب، چین اور خلیجی ممالک نے پاکستان کی بھرپور مدد کی ہے۔

قرضوں کی واپسی، بانڈز کا اجرا اور پنشن اصلاحات

سیکرٹری خزانہ امداد اللہ بوسال نے بتایا کہ رواں مالی سال میں 8.3 ٹریلین روپے سود کی ادائیگی کے لیے مختص کیے گئے ہیں جبکہ 9.8 ٹریلین روپے کے قرضے واپس کیے جائیں گے۔ اب تک 2.6 ٹریلین روپے کے قرضے واپس ہو چکے ہیں۔

امداد اللہ بوسال نے کہا کہ جلد پانڈا بانڈ اور بعد ازاں یورو بانڈ جاری کیے جائیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ نئے ملازمین کو ڈائریکٹ کنٹری بیوشن پنشن اسکیم کے تحت بھرتی کیا جا رہا ہے، اور اس مقصد کے لیے ایک کمپنی قائم کی جا رہی ہے۔

سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ افواج میں ریٹائرمنٹ جلدی ہو جاتی ہے، اس لیے مسلح افواج کے لیے بھی ڈائریکٹ کنٹری بیوشن پنشن سسٹم پر کام جاری ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک میں یہی اسکیم لائی گئی تھی مگر بعد میں واپس لینا پڑی۔

چیئرمین ایف بی آر کی بریفنگ

ایف بی آر کی کارکردگی اور اصلاحات سے متعلق چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے بتایا کہ انکم ٹیکس فائلرز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ انکم ٹیکس کا مجموعی گیپ 1.7 ٹریلین روپے ہے، جس میں سے ٹاپ پانچ فیصد کا حصہ 1.2 ٹریلین روپے بنتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم ہر منگل کو ایف بی آر کا احتساب کرتے ہیں جس سے ادارے کو سپورٹ ملتی ہے۔ ٹوبیکو سیکٹر میں کارروائیوں کے دوران ایف بی آر کے دو اہلکار شہید ہوئے، جبکہ رینجرز مکمل تعاون فراہم کر رہی ہے۔

چیئرمین ایف بی آر کے مطابق ادارے میں گورننس کے حوالے سے بڑی اصلاحات کی گئی ہیں، افسران کو اے، بی اور سی کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا ہے، اور ایف بی آر کو سیاسی و انتظامی اثر و رسوخ سے آزاد کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ڈیجیٹائزیشن کے باعث شوگر سیکٹر سے 75 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہوا، جس میں 42 ارب روپے سیلز ٹیکس اور 43 ارب روپے انکم ٹیکس کی مد میں حاصل کیے گئے۔ ریٹیلرز سے حاصل ہونے والا ٹیکس 82 سے بڑھ کر 166 ارب روپے ہوگیا ہے۔

توانائی شعبے میں اصلاحات

وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا کہ ہمیں مہنگی بجلی وراثت میں ملی، جس کی لاگت 9.97 روپے فی یونٹ ہے۔ روپے کی بے قدری اور کیپیسٹی چارجز کے باعث بجلی مہنگی ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی ہدایت پر انڈسٹری کے لیے بجلی 16 روپے فی یونٹ سستی کی گئی۔ سرپلس بجلی عوام کو 7.5 روپے فی یونٹ کے حساب سے پیشکش کی جا رہی ہے۔

اویس لغاری نے کہا کہ حکومت بجلی کی خرید و فروخت کے کاروبار سے باہر آرہی ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار صارفین پر بوجھ ڈالے بغیر 1.2 کھرب روپے کا سرکلر ڈیٹ ختم کیا جا رہا ہے۔ پاور پلانٹس کے مالکان سے مذاکرات کے ذریعے 2058 تک 3600 ارب روپے کی اضافی ادائیگی روکی گئی۔

نجکاری

وزیراعظم کے مشیر برائے نجکاری محمد علی نے کہا کہ نجکاری کمیشن کا ڈھانچہ تبدیل کر دیا گیا ہے اور نجکاری پروگرام 2024 میں 24 ادارے شامل کیے گئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پی آئی اے کی نجکاری سرفہرست ہے اور اس کی خریداری کے لیے چار کنسورشیم دلچسپی کا اظہار کر چکے ہیں۔ ہدف ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری رواں سال کے آخر تک مکمل ہو۔

محمد علی نے کہا کہ 39 میں سے 20 وزارتوں کی رائٹ سائزنگ مکمل ہوچکی ہے، 54 ہزار آسامیاں ختم کر دی گئی ہیں جس سے 56 ارب روپے کی بچت ہوگی۔

انہوں نے بتایا کہ پاسکو اور یوٹیلیٹی اسٹورز بند کیے جا رہے ہیں جبکہ نیشنل آرکائیو آف پاکستان سمیت اہم اداروں کو مزید مضبوط کیا جا رہا ہے۔

وزیر مملکت انفارمیشن ٹیکنالوجی

وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی شزہ فاطمہ خواجہ نے کہا کہ وزیراعظم کیش لیس اکانومی کے فروغ کے لیے باقاعدہ اجلاس کر رہے ہیں۔ تین کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں، جن میں سے ایک ان کی سربراہی میں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ نیشنل ڈیٹا ایکسچینج لیئر کا پائلٹ پراجیکٹ دسمبر میں متعارف کرایا جائے گا جس سے ٹیکس نیٹ بڑھے گا اور لیکج میں کمی ہوگی۔

شزہ فاطمہ نے کہا کہ پاکستان کی 400 ارب ڈالر کی معیشت دراصل 800 ارب ڈالر کی ہوسکتی ہے کیونکہ نصف حصہ انفارمل اکانومی پر مشتمل ہے۔

وزیر مملکت نے بتایا کہ جون 2026 تک ڈیجیٹل پیمنٹس کو 20 لاکھ صارفین تک بڑھایا جائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • دو سالہ جنگ کے بعد غزہ کے بچے ایک بار پھر تباہ شدہ اسکولوں کا رخ کرنے لگے
  • وزیر اعلیٰ پنجاب کی انتخابی کامیابی کے خلاف دائر درخواست مسترد
  • آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلیے اسٹرکچرل اصلاحات مکمل کرنا ہوں گی، وزیر خزانہ
  • بنگلہ دیش: عبوری حکومت کا سیاسی اختلافات پر اظہارِ تشویش، اتفاق نہ ہونے کی صورت میں خود فیصلے کرنے کا عندیہ
  • صرف 22 سال کی عمر میں 3نوجوانوں کو دنیا کے کم عمر ترین ارب پتی بننے کا اعزاز حاصل
  • کراچی، مجبوری نے عورت کو مرد بنا دیا، مگر غیرت نے بھیک مانگنے نہیں دی
  • تلاش
  • ارشد وارثی کو زندگی کے کونسے فیصلے پر بےحد پچھتاوا ہے؟
  • سوشل میڈیا پر لڑکیوں کی بکنگ ہو رہی، ڈراموں میں اداکاروں کو کمبل میں دکھایا جا رہا ہے، مشی خان
  • ایمباپے رونالڈو کے بعد گولڈن بوٹ حاصل کرنے والے ریال میڈرڈ کے پہلے کھلاڑی بن گئے