Express News:
2025-11-05@03:18:00 GMT

کیا عورت کو فیصلے کرنے کا حق حاصل ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT

خواتین کے حقوق کے لیے چلائی جانے والی تحریکوں، آگاہی پروگرام اور ریلیوں کی بدولت کچھ تو خواتین کے تحفظ کے حوالے سے قانون سازی عمل میں آئی اور کافی حد تک صنفی مساوات کے حوالے سے بات بھی ضرور ہونے لگی ہے، لیکن کیا ہمارے سماج میں واقعی ایسا ہی ہے؟

کیا واقعی ہمارے میں معاشرے میں بھی تبدیلی آگئی ہے؟ کیا ہمارے معاشرے نے عورت کی خودمختاری کو تسلیم کرلیا گیا ہے؟ کیا واقعی پاکستان میں خواتین آئین اور قانون کے تحت فراہم کردہ آزادی اور خودمختاری کی حق دار سمجھی جاتی ہیں؟ کیا اپنے فیصلے ان پر مسلط نہیں کیے جاتے؟ اور کیا واقعی خواتین زندگی کے بہت سے فیصلے خاندان والوں کے دباؤ میں آکر نہیں کرتیں؟

یقیناً بہت سی خواندہ اور ماڈرن خاندانوں کا دعویٰ یہ ہی ہوگا کہ ہمارے گھر کی لڑکیوں کو ان کی زندگی کے فیصلوں میں مکمل خودمختاری اور آزادی حاصل ہے، لیکن اس معاملے پر جب انھی خاندانوں کی خواتین سے متعدد معاملات جیسے کہ پڑھائی مکمل نہ کرنا، تعلیم یا ڈگری کے بیچ میں شادی ہوجانا، خانکی معاملات، کیرئیر جاری نہ رکھنا وغیرہ جیسے مسائل پر بات کی گئی، تو ننانوے فی صد خواتین کا کہنا یہی تھا کہ گھر والوں کی رائے یا دباؤ ان کے فیصلے کا سبب بنی۔

خود میرے ذاتی تدریسی کیرئیر میں بہت سی بچیوں کے ایسے معاملات بھی سامنے آئے، جو کہ پروفیشنل تعلیم حاصل کر رہی تھیں یا ان کے سیمسٹر کے امتحانات کے قریب یا درمیان میں گھر والے شادی رکھ لیتے ہیں، جس کے بعد بچوں کی پیدائش کی بنا پر ان کی تعلیم متاثر ہوتی ہے۔ پتا چلتا ہے کہ بھئی یہ تمام معاملات اورفیصلے ان کے اپنے نہیں، بلکہ ان کے گھر والوں کے ہوتے ہیں۔

لڑکی تعلیم حاصل کر رہی ہے یا اس کا سیمسٹر درمیان میں ہے یا امتحانات ہونے والے ہیں، گھر والوں کے لیے یہ سب اہم نہیں ہوتا، بلکہ ہمارے معاشرے میں اس سب سے زیادہ ضروری کام شادی کرنا اور بچوں کی پیدائش ہی ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بچیوں اور لڑکیوں کو ان کی زندگی کے معاملات میں فیصلہ لینے کا اختیار انتہائی محدود ہے یا پھر صرف اس حد تک خودمختار ہے، جب تک گھروالوں کے لیے لڑکی کا فیصلہ ساز گار ہو۔ زندگی کے اہم معاملات میں لڑکیوں اور بچیوں کو فیصلہ سازی کا حق نہ دینے سے ان کی زندگی پر بہت سے گہرے، دور رَس اور منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، جن کی جڑیں ہمارے معاشرے کے روایتی، سماجی اور ثقافتی نظام میں پیوست ہیں۔

زندگی کے اہم معاملات میں لڑکیوں اور بچیوں کو فیصلہ سازی کا حق نہ دینے سے سب سے پہلا اور اہم نقصان لڑکیوں کی تعلیم پر ہوتا ہے۔ جب بچیوں کو اپنی تعلیم کے حوالے سے فیصلے کرنے کا حق نہیں دیا جاتا، تو وہ اکثر رسمی تعلیم مکمل نہیں کر پاتیں اور معاشرتی دباؤ کی وجہ سے کم عمری میں شادی یا دیگر گھریلو ذمہ داریوں میں شامل کر دی جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ اپنی تعلیمی قابلیت کو بڑھانے کے مواقع کھو دیتی ہیں، جس کا اثر ان کی معاشی خود مختاری اور روزگار کے مواقع پر پڑتا ہے۔

دوسری جانب ہمارے معاشرتی نظام میں لڑکیوں کو خود اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کی آزادی نہیں دی جاتی، جس کی ایک بڑی مثال کم عمری کی شادیاں بھی ہیں۔ والدین اور خاندان کے بزرگ اکثر لڑکیوں کے مستقبل کے حوالے سے ان کے حق میں فیصلے کرتے ہیں، جن میں لڑکیوں کی مرضی اور رائے کو کم اہمیت دی جاتی ہے۔ اس قسم کی شادیوں کے نتیجے میں لڑکیاں تعلیمی، جسمانی اور ذہنی ترقی سے نہ صرف محروم رہ جاتی ہیں، بلکہ جذباتی، نفسیاتی اور مالی طور پر بھی خاندان والوں پر انحصار کرتی ہیں اور ساتھ ہی زندگی کے دوسرے اہم پہلوؤں میں بھی پیچھے رہ جاتی ہیں۔

جب بچیوں کو ان کے فیصلوں کا حق نہیں دیا جاتا، تو یہ رویہ ان کے ذہنی اور جذباتی صحت پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے۔ وہ احساسِ کمتری اور بے بسی کا شکار ہو جاتی ہیں اور اپنی زندگی میں آگے بڑھنے کے مواقع سے محروم رہ جاتی ہیں۔ یہ جذباتی دباؤ ان کی خود اعتمادی کو متاثر کرتا ہے اور وہ اپنی صلاحیتوں پر یقین کھو دیتی ہیں۔ فیصلہ کرنے کے حق سے محروم لڑکیاں اکثر اپنی معاشی خود مختاری سے بھی محروم رہ جاتی ہیں۔ انھیں معاشرتی اور خاندانی دباؤ کے تحت ایسے راستے اپنانے پر مجبور کیا جاتا ہے، جو ان کے معاشی استحکام کو متاثر کرتے ہیں۔ لڑکیوں کا اپنی مرضی سے تعلیم، پیشہ اور شادی کا انتخاب نہ کرنے کی وجہ سے کر سکتیں، تو یہ ان کے معاشی مستقبل کو بھی محدود کر دیتا ہے۔

خواتین اور لڑکیوں کو اپنی زندگی اور جسم کے بارے میں فیصلوں کا مکمل اختیار ہونا چاہیے، لیکن تعلیم اور پیشہ اختیار کرنے سے لے کر ازدواجی معاملات میں خواتین آج بھی مکمل بااختیار نہیں ہیں۔ یہاں  تک کہ خواندہ ماڈرن خاندانوں اور گھرانوں میں بھی اپنے مستقبل یا اپنا کردار خود منتخب کرنے کے لیے خواتین کی صلاحیت سے نہ صرف انکار کیا جاتا ہے، بلکہ ان کی آواز کو دبایا بھی جاتا ہے۔

اس قسم کے رویوں کا سب سے بڑا اثر یہ ہوتا ہے کہ یہ نظام نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔ لڑکیاں جب خود اپنی زندگی کے فیصلوں کا اختیار نہیں رکھتیں تو وہ اپنی اولاد کے لیے بھی ایسی ہی روایتی سوچ اور رویوں کو فروغ دیتی ہیں، جس سے معاشرتی ترقی کی رفتار سست ہو جاتی ہے۔ بچیوں اور لڑکیوں کو ان کی زندگی کے فیصلوں کا حق نہ دینا نہ صرف انفرادی سطح پر نقصان دہ ہے، بلکہ یہ معاشرتی ترقی میں بھی رکاوٹ بنتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ترقی کرے اور خوش حال ہو تو ہمیں بچیوں کو زندگی کے تمام معاملات میں خود مختار بنانے کے لیے انھیں ان کے فیصلے کرنے کا حق دینا ہوگا۔ اس سے نہ صرف ان کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوگا، بلکہ وہ معاشرتی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کر سکیں گی۔
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: معاملات میں کے حوالے سے رہ جاتی ہیں ان کی زندگی فیصلے کرنے اپنی زندگی میں لڑکیوں فیصلوں کا لڑکیوں کو کے فیصلوں زندگی کے والوں کے کا حق نہ میں بھی کے لیے

پڑھیں:

جماعت اسلامی کا شدید احتجاج، بنگلادیش میں موسیقی کی تعلیم کا منصوبہ منسوخ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ڈھاکا:۔ بنگلادیش نے پرائمری اسکولوں کے لیے موسیقی کے اساتذہ کی خدمات حاصل کرنے کا منصوبہ منسوخ کر دیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بنگلادیش کے ایک سرکاری اہلکار نے بتایا کہ پرائمری اسکولوں کے لیے موسیقی کے اساتذہ کی خدمات حاصل کرنے کا منصوبہ ختم کر دیا ہے ،اس اقدام کو مسلم اکثریتی ملک میں اسلام پسند گروپوں کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔

رواں سال اگست میں پرائمری تعلیم کی نگرانی کرنے والی وزارت نے موسیقی کے اساتذہ کی بھرتی کا اعلان کرتے ہوئے ایک سرکلر جاری کیا تھا جسے عبوری حکومت نے اب تبدیل کر دیا ہے۔

وزارت کے ایک سینئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حکومت نے فیصلہ ختم کر دیا ہے اور حکم جاری کر دیا ہے۔ موسیقی اور جسمانی تعلیم (فزیکل ایجوکیشن) دونوں پوسٹوں کو اب ختم کر دیا گیا ہے ۔ بنگلادیشی حکومت نے اس فیصلے پر عوامی سطح پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

یہ تبدیلی بنگلادیش کی سب سے بڑی اسلام پسند سیاسی جماعت، “جماعت اسلامی” اور دیگر اسلامی تنظیموں کے شدید احتجاج کے بعد ہوئی ہے جو اسکول کے نصاب میں موسیقی کی شمولیت کی مخالفت کرتی ہیں۔

اے ایف ایم عبوری کابینہ میں مذہبی امور کا قلمدان سنبھالنے والے خالد حسین نے گزشتہ ہفتے وزارت تعلیم کے حکام سے اس معاملے پر بات چیت کی تھی۔ انہوں نے میٹنگ کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ حکومت کوئی ایسا فیصلہ نہیں کرے گی جو عوامی جذبات کے خلاف ہو۔ اگست 2024ءمیں شیخ حسینہ کی معزولی کے بعد سے 170 ملین آبادی پر مشتمل جنوبی ایشیائی ملک سیاسی بحران کا شکار ہے۔

Aleem uddin

متعلقہ مضامین

  • بدل دو نظام، تحریک
  • جماعت اسلامی کا شدید احتجاج، بنگلادیش میں موسیقی کی تعلیم کا منصوبہ منسوخ
  • عورتوں کو بس بچے پیدا کرنے والی شے سمجھا جاتا ہے؛ ثانیہ سعید
  • ای ٹریفک چالان کی رقم بلدیہ عظمیٰ کراچی کو منتقل کرنے پر غور
  • مائیکرو پلاسٹکس ہماری روزمرہ زندگی میں خاموش خطرہ بن گئے
  • ’’اب تو فرصت ہی نہیں ملتی۔۔۔!‘‘
  • دو سالہ جنگ کے بعد غزہ کے بچے ایک بار پھر تباہ شدہ اسکولوں کا رخ کرنے لگے
  • وزیر اعلیٰ پنجاب کی انتخابی کامیابی کے خلاف دائر درخواست مسترد
  • بنگلہ دیش: عبوری حکومت کا سیاسی اختلافات پر اظہارِ تشویش، اتفاق نہ ہونے کی صورت میں خود فیصلے کرنے کا عندیہ
  • صرف 22 سال کی عمر میں 3نوجوانوں کو دنیا کے کم عمر ترین ارب پتی بننے کا اعزاز حاصل