فاسٹ بولر احسان اللہ نے پی ایس ایل کے بائیکاٹ کا اعلان کیوں کیا؟
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
فاسٹ بولراحسان اللہ کا کہنا ہے کہ وہ پی ایس ایل کا بائیکاٹ کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ دنیا اور لوگ بھی مطلبی ہیں۔
ایک انٹرویو میں احسان اللہ نے کہا کہ وہ اب فرنچائز کرکٹ نہیں کھیلیں گے اور زندگی رہی تو پی ایس ایل میں کبھی نظر نہیں آئیں گے۔ انہوں نے ملتان سلطانز کے مالک علی ترین کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بھی ان سے رابطہ نہیں کیا۔
یہ بھی پڑھیں: علی ترین نے ورلڈ کپ میں شکست کا ذمہ دار عماد وسیم کو کیوں قرار دیا؟
میزبان نے احسان اللہ سے سوال کیا کہ علی ترین نے آپ سے رابطہ نہیں کیا وہ تو آپ کو بہت سپورٹ کرتے تھے۔ جس پر ان کا کہنا تھا کہ ان سے کسی نے بھی رابطہ نہیں کیا، علی ترین کو کوئی اور ملتا ہے تو وہ ان کے ساتھ چلے جاتے ہیں، وہ مجھے نہیں میرے ٹیلنٹ کو سپورٹ کرتے تھے۔
احسان اللہ کا مزید کہنا تھا کہ پی ایس ایل شروع ہونے میں ابھی 4 مہینے ہیں۔ اس سال بھی کوئی ان پر اعتبار کر کے ٹیم میں رکھ سکتا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں پاکستان چھوڑ کر دبئی یا انگلینڈ چلا جاتا ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: ’کراچی کا کھانا فارغ ہے‘، علی خان ترین نے اپنے بیان کی وضاحت کیوں کی؟
احسان اللہ کی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو صارفین کی جانب سے اس پر مختلف تبصرے کیے گئے۔ قادر خواجہ نے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ کچھ شہر کے لوگ وی ظالم سی کچھ سانوں مرن دا شوق وی سی۔
کچھ شہر کے لوگ وی ظالم سی کچھ سانوں مرن دا شوق وی سی
Ihsanullah bashed Ali Tareen and he said I will never play Franchise cricket and PSL.
He said Ali Tareen didn't contact me and all are friends with benefits..@aliktareenpic.twitter.com/WhP3tgeltt
— Qadir Khawaja (@iamqadirkhawaja) January 13, 2025
انضمام سجاد لکھتے ہیں کہ احسان اللہ بہت ٹیلنٹڈ بولر تھا لیکن کچھ اپنی اور کچھ پی سی بی کی غلطیوں کی وجہ سے اس کا کیرئیر ختم ہو گیا۔ اسی لیے کہتے بڑی بڑی باتیں نہیں کرنی چاہیے۔
بہت ٹیلنٹڈ بولر تھا لیکن کچھ اپنی غلطیوں اور کچھ پی۔ سی۔بی کی غلطیوں کی وجہ سے کیرئیر ختم کر گیا۔
اسی لیے کہتے بڑی بڑی باتیں نہیں کرنی چاہے۔۔۔ pic.twitter.com/sc3lMrbvR7
— Inzimam⁵⁶Sajad (@I_Engr560) January 13, 2025
ایک صارف نے احسان اللہ کو پی ایس ایل میں نہ لینے کا ذمہ دار علی ترین کو ٹھہراتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کہا تھا کہ احسان اللہ انجری کے بعد عام بولر بن گیا ہے۔
I Blame Ali Tareen for Ihsanullah not getting picked in PSL bcz usny PSL draft sy pehly hi keh dia tha iski arm ab stall straight nai ho skti wo dobara 150+ bowl nai kar skta wo ordinary bowler ban gia ha wagera wagera #PSL2025 #PakistanCricket #HBLPSLDraft #psl10draft https://t.co/W2MnduDQxP
— Alee (@Mr_Aleeeee) January 13, 2025
ایک ایکس صارف نے لکھا کہ احسان اللہ ایک بے وقوف شخص ہے جو یہ سوچتا تھا کہ وہ دنیا کا بہترین بولر ہے۔
He is an idiot who thinks he's the best bowler in the world. https://t.co/UBye5J7c8T
— A (@Thuglifehai14) January 14, 2025
برق رفتارفاسٹ بولراحسان اللہ نے 2023 میں پاکستان سُپر لیگ (پی ایس ایل) میں ملتان سلطانز کی نمائندگی کی تھی، جس کے بعد انھیں اپریل میں 2023 میں ہی پاکستانی ٹیم کی جانب سے نیوزی لینڈ کے خلاف پہلا ون ڈے میچ بھی کھلایا گیا تھا لیکن انجری کے سبب وہ دوسرا میچ نہیں کھیل سکے۔
احسان اللہ ملتان سلطانز کے لیے 14 میچ کھیل چکے ہیں، جن میں انھوں نے 23 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ ان کو گزشتہ ایک سال سے کہنی کی انجری کا مسئلہ درپیش ہے، اس دوران ان کا آپریشن اور انگلینڈ میں چیک اپ بھی ہوچکا ہے۔
ملتان سلطانز کے مالک علی ترین نے پی ایس ایل ڈرافٹنگ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ احسان اللہ کو انجری کی وجہ سے ہم نے ریٹین نہیں کیا۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ پی ایس ایل کے سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر لیگ کو بہتر بنائیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
احسان اللہ پی ایس ایل پی سی بی علی ترینذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: احسان اللہ پی ایس ایل پی سی بی علی ترین ملتان سلطانز پی ایس ایل علی ترین نہیں کیا تھا لیکن تھا کہ
پڑھیں:
مولانا نے اتحاد کیوں نہیں بنایا
تحریک انصاف کو ایک اور سیاسی دھچکا ملا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی جماعت جے یو آئی (ف) نے فی الحال تحریک انصاف کے ساتھ کسی بھی قسم کا سیاسی اتحاد نہ بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی تحریک انصاف اور بانی تحریک انصاف کا گرینڈ اپوزیشن الائنس بنانے کا خواب بھی ٹوٹ گیا۔ اگر دیکھا جائے تو مولانا کے انکار نے تحریک انصاف کی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس سے تحریک انصاف کے سیاسی وزن میں کمی ہوگی۔ اور ان کی سیاسی تنہائی میں اضافہ ہوگا۔
تحریک انصاف کے سیاسی نقصان پر بعد میں بات کرتے ہیں، پہلے اس پہلو پر غور کریں کہ اگر گرینڈا پوزیشن الائنس بن جاتا؟ تحریک انصاف اور جے یو آئی (ف) کا سیاسی اتحاد بن جاتا تو کیا ہوتا؟ یہ پاکستان کی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی ہوتی۔ پی ٹی آئی کے سیاسی وزن میں بہت اضافہ ہوتا۔ حکومت کے مقابلہ میں اپوزیشن مضبوط ہوتی۔ میں ابھی احتجاجی سیاست کی بات نہیں کر رہا۔ یہ اتحا د نہ بننے سے تحریک انصاف کی پارلیمانی سیاست کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ اپوزیشن تقسیم رہے گی۔
آپ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلا س کی مثال سامنے رکھ لیں۔ مولانا اجلا س میں پہنچ گئے۔ حکومت کے مطابق اپوزیشن کی نمائندگی موجود تھی۔ تحریک انصاف کے بائیکاٹ کا وہ اثر نہیں تھا۔ جو مشترکہ بائیکاٹ کا ہو سکتا تھا۔ اسی طرح 26ویں آئینی ترمیم کی ساکھ بھی تب بہتر ہوئی جب اس کو اپوزیشن نے بھی ووٹ ڈالے۔ چاہے مولانا نے ہی ڈالے۔ اس لیے میری رائے میں مولانا کے اتحاد نہ کرنے کے فیصلے کا تحریک انصاف کی پارلیمانی سیاست کو بھی کافی نقصان ہوگا۔
وہ بھی کمزور ہوگی۔ یہ الگ بات ہے کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف تو پہلے ہی کئی دن سے اس اتحاد کے نہ بننے کا اعلان کر رہے ہیں۔ وہ بار بار بیان دے رہے تھے کہ اگر مولانا نے اتحاد نہیں کرنا تو نہ کریں، ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایسے بیانات بنتے اتحاد کو بھی توڑ دیتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں تحریک انصاف کے اندر ایک دھڑا جہاں یہ اتحاد بنانے کی کوشش کر رہا تھا، وہاں تحریک انصاف کا ہی ایک اور دھڑا روز اس اتحاد کو بننے سے روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اگر اسد قیصر اتحاد بنانے کی کوشش کر رہے تھے تو گنڈا پور اور عمر ایوب اس کے حق میں نہیں تھے۔
جے یو آئی (ف) کے رہنما کامران مرتضیٰ کا بہت سادہ موقف سامنے آیا ہے۔ان کے مطابق اسد قیصر جو اس اتحاد کے لیے تحریک انصاف کی طرف سے فوکل پرسن مقرر ہو ئے تھے، وہ لندن چلے گئے اور سیاسی طو رپر بھی خاموش ہو گئے۔ جب اعظم سواتی نے اسٹبلشمنٹ سے بات چیت کے بیانات دیے تو کامران مرتضیٰ نے فوری بیان دیا کہ تحریک انصاف سے یہ بات طے ہوئی ہے کہ دونوں جماعتوں میں سے کوئی اکیلا اسٹبلشمنٹ سے بات نہیں کرے گا۔ جب بھی بات کی جائے مشترکہ بات کی جائے گی، آپ دیکھیں ابھی باقاعدہ اتحاد بنا ہی نہیں ہے اور تحریک انصاف کی طرف سے طے شدہ اصولوں سے انحراف شروع ہو گیا۔
جے یو آئی (ف) کے بیانات کہتے رہے اسد قیصر وضاحت کریں۔ ہم صرف ان کی وضاحت قبول کریں گے۔ کامران مرتضیٰ بیان دیتے رہے کہ وضاحت دیں ۔ لیکن اسد قیصر چپ رہے۔ ہ لندن سے واپس بھی نہیں آئے۔ ان کے علاوہ کسی نے (جے یو آئی ف )سے ملاقات کی کوشش بھی نہیں کی۔ ایسے میں آپ دیکھیں جے یو آئی (ف) کے پاس کیا آپشن رہ جاتے ہیں۔ وہ ایسے میں اتحاد نہ بنانے کا اعلان کرنے کے سوا کیا فیصلہ کر سکتے تھے۔
تحریک انصاف کا وہ دھڑا جو اسٹبلشمنٹ سے مفاہمت چاہتا ہے۔ وہ اس اتحاد کی راہ میں رکاوٹ نظر آرہا تھا۔ وہ دھڑا جو کے پی میں حکومت میں ہے، وہ اس اتحادکے حق میں نظر نہیں آرہا تھا۔ عمر ایوب بھی زیادہ پرجوش نہیں تھے۔ یہ سب سامنے نظر آرہا تھا۔
یہ اتحاد نہ بننے سے تحریک انصاف کا سڑکیں گرم کرنے کا خواب بھی چکنا چورہو گیا ہے۔ تحریک انصاف اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ اب اس میں سڑکیں گرم کرنے طاقت نہیں رہی ہے۔ پنجاب میں مزاحمتی طاقت ختم ہو گئی ہے۔
کے پی میں تقسیم بڑھتی جا رہی ہے۔ اس لیے اگر مولانا ساتھ مل جاتے اور احتجاجی تحریک شروع کی جاتی تواس میں زیادہ طاقت ہوتی۔ مولانا کا ورکر زیادہ طاقتور ہے۔ مولانا کی احتجاجی سیاست کی طاقت آج بھی تحریک انصاف سے زیادہ ہے۔ لیکن یہ بھی تو تسلیم کریں کہ مولانا نے اگر اپنا ورکر باہر نکالنا ہے تو تحریک انصاف سے کچھ طے ہونا ہے۔ جے یو آئی کا ورکرکوئی کرائے کا ورکر تو نہیں جو تحریک انصاف کو کرائے پر دے دیا جائے۔
میں سمجھتا ہوں شاید اسٹبلشمنٹ مولانا کو تو اس اتحاد بنانے سے نہیں روک سکتی تھی لیکن اس لیے تحریک انصاف ہی کو استعمال کر کے اس اتحاد کو بننے سے روکا گیا ہے۔ تحریک انصاف نے اس اتحاد کے خدو خال بھی واضح نہیں کیے تھے۔
تحریک انصاف نے اگر قائد حزب اختلاف کے عہدے اپنے پاس رکھنے تھے تو کم از کم اتحاد کی سربراہی کی پیشکش مولانا کو کی جانی چاہیے تھی۔ کیا تحریک انصاف چاہتی تھی کہ وہ اپوزیشن کو ملنے والے تمام عہدے بھی اپنے پاس رکھے اور مولانا سڑکیں بھی گرم کر دیں۔ مجھے لگتا ہے کہ تحریک انصاف میں لوگوں کو یہ خوف پڑ گیا کہ اگر مولانا آگئے تو ان کا عہدہ چلا جائے گا۔ کے پی خوف میں آگئے کہ مولانا کی جماعت کو اقتدار میں حصہ دینا ہوگا۔ قومی اسمبلی سینیٹ میں تحریک انصاف کی قیادت اپنے خوف میں پڑ گئی۔ اس لیے تحریک انصاف نے یہ اتحاد نہ بننے کی راہ خود ہموار کی۔
ایک اور بات جو جے یو آئی (ف) کے لیے شدید تشویش کی بات تھی کہ بانی تحریک انصاف نے ابھی تک اس اتحاد کو بنانے اور مولانا فضل الرحمٰن کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ ان کی پالیسی اور سوچ واضح نہیں تھی۔
بانی تحریک انصاف مولانا کے بارے میں خاموش ہیں۔ وہ نہ حق میں بات کر رہے ہیں نہ خلاف بیان کر رہے ہیں۔ جے یو آئی چاہتی تھی کہ کم از کم اس اتحاد کو بنانے کے لیے بانی کا خط ہی آجائے کہ وہ مولانا کو اتحاد بنانے کی دعوت دیں۔ اس بات کی کیا گارنٹی تھی کل بانی تحریک انصاف کہہ دیں کہ میں نے تو اس اتحاد کی منظوری نہیں دی تھی۔ میں نہیں مانتا۔ ایسا کئی مواقع پر ہو بھی چکا ہے۔ لیکن تحریک انصاف بانی تحریک انصاف کا خط لانے میں بھی ناکام رہی۔ اسد قیصر باہر تھے۔ خط آیا نہیں، کوئی ملنے کو تیار نہیں تھا، پھر اتحاد کیسے بنتا۔