گرین لینڈ کے رہائشی کس ملک کے شہری بننا چاہتے ہیں؟ نئے پول نے چونکا دیا
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
واشنگٹن(انٹرنیشنل ڈیسک)نو منتخب صدرامریکا ڈونلڈ ٹرمپ کے گرین لینڈ پر قبضے کے بیان نے ساری دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرالی اور جنہیں اس کے بارے میں نہیں پتہ تھا انہوں نے بھی جان لیا کہ گرین لینڈ جزیرہ کیا ہے اور کہاں ہے لیکن اب ایک تازہ ترین پول نے پھر دنیا کو چونکادیا ہے ۔
ایک نئے ریفرنڈم میں گرین لینڈ کے رہائشیوں کی اکثریت نے امریکہ میں شامل ہونے کی حمایت کردی ہے۔ امریکی ریسرچ فرم پیٹریاٹ پولنگ کے مطابق ٹرمپ کی تجویز کو مسترد کرنے والوں کی تعداد 37.
پیٹریاٹ پولنگ فاؤنڈیشن کی طرف سے اتوار کو کیے گئے ایک سروے کے مطابق 57.3 فیصد شرکا نے گرین لینڈ کے امریکہ کا حصہ بننے سے اتفاق کیا۔
یہ پہلا موقع ہے جب گروپ نے امریکہ سے باہر رائے شماری کرائی ہے۔ یہ سروے نو منتخب صدر کے بیٹے ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر کے دورے کے دوران کیا گیا تھا۔ ٹرمپ بارہا اس جزیرے کے حصول میں اپنی دلچسپی کا اعلان کر چکے ہیں۔ یہ جزیرہ آرکٹک اوقیانوس اور بحر اوقیانوس کے درمیان واقع ہےاور ڈنمارک کی بادشاہی کے اندر ایک خود مختار انتظامی ڈویژن ہے۔
ٹرمپ نے حال ہی میں گرین لینڈ اور پاناما کینال کے جزیرے کو حاصل کرنے کے لیے فوجی کارروائی کو مسترد کرنے سے بھی انکار کر دیا اور کہا کہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہمیں اقتصادی تحفظ کے لیے ان کی ضرورت ہے۔ میں فوجی کارروائی نہ کرنے کے اپنے عزم کا اعلان نہیں کروں گا۔ ہمیں کچھ کرنا پڑ سکتا ہے۔
یادرہے گرین لینڈ کے وزیر اعظم میوٹ میوٹ ایگیڈ نے جمعہ کو میڈیا سے گفتگو میں کہا تھاکہ یہ جزیرہ “… گرین لینڈ کے لوگوں کے لیے ہے۔ ہم ڈینش نہیں بننا چاہتے، ہم امریکی نہیں بننا چاہتے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ جزیروں کے باشندوں کی خواہش ایک آزاد ملک بننا ہے، اور وعدہ کیا کہ اس معاملے پر ووٹ “جلد آئے گا۔”
تاہم، میوٹ ایگیڈ نے اس بات پر زور دیا کہ وہ ٹرمپ کے ساتھ “بات چیت کے لیے تیار” ہیں، اور مستقبل میں بھی امریکہ کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔
ڈنمارک گرین لینڈ کی آزادی کے لئے ذہنی طور پر تیار
یادرہے 2008 میں، گرین لینڈ نے ڈنمارک سے خود مختاری کے حصول کے لئے ایک ریفرنڈم منعقد کیا تھا جس کے نتیجے میں 75% ووٹرز نے خود مختاری کے حق میں ووٹ دیا تھا ریفرنڈم میں 72% ٹرن آؤٹ تھا۔ جس کے نتیجے میں 2009 کے سیلف گورنمنٹ ایکٹ نے جزیرے کو اپنے معاملات میں کافی حد تک خودمختار کردیا تھا۔ گرین لینڈ میں اتفاق رائے ہے کہ وہ بالآخر آزادی حاصل کر لے گا اور یہ بھی کہ اگر گرین لینڈ اپنی آزادی کے حق میں ووٹ دیتا ہے تو ڈنمارک اسے قبول کرے گا اور اس کی توثیق بھی کرے گا۔
ڈنمارک نے اس سے قبل گرین لینڈ اور فیرو جزائر دونوں کے لیے ایسے الحاق اور ان کی حیثیت کی اس تبدیلی کی مخالفت کی تھی لیکن ڈنمارک کی موجودہ وزیر اعظم میٹ فریڈرکسن یقینی اور مکمل طور پر اس کے خلاف نہیں ہیں۔
گرین لینڈ پر امریکا کی نظریں کیوں ؟
گرین لینڈ2.2 ملین مربع کلومیٹر (جرمنی کے سائز کا تقریباً چھ گنا) کے رقبے پر پھیلا ہوا جزیرہ ہے جس کی کل آباد ی محض 57 ہزار ہے ، گرین لینڈ 80% برف سے ڈھکا ہوا ہے۔ یہ جزیرہ سونے، چاندی، تانبے اور یورینیم کے ذخائر سے مالا مال ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے علاقائی پانیوں میں تیل کے وسیع ذخائر ہیں۔لیکن اس کی سست ترقی نے اس کی معیشت کو ماہی گیری اور ڈنمارک سے ملنے والی سالانہ سبسڈی پر انحصار کرنے والا بنا دیا ہے
2023 میں چھپنے والی ایک رپورٹ میں جیولوجیکل سروے آف ڈینمارک اور گرین لینڈ نے تخمینہ پیش کیا کہ جزیرے پر 38 معدنیات بڑی مقدار میں موجود ہیں جن میں کاپر، گریفائیٹ، نیوبیئم، ٹائٹینیئم، روڈیئم شامل ہیں۔ اس کے علاوہ نایاب معدنیات جیسا کہ نیوڈیمیئم اور پریسیوڈائمیئم جو الیکٹرک گاڑیوں کی موٹر اور ونڈ ٹربائن بنانے میں کام آتی ہیں بھی پائی گئی ہیں۔
مشیگن یونیورسٹی کے پروفیسر ایڈم سائمن نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’ گرین لینڈ میں دنیا کی سب سے نایاب معدنیات کا عالمی طور پر 25 فیصد حصہ موجود ہو سکتا ہے۔‘ اگر یہ دعوی درست ہے تو مقدار کے حساب سے یہ پندرہ لاکھ ٹن بنتا ہے۔
چین بھی گرین لینڈ میں اہم کھلاڑی
یاد رہے کہ توانائی کی بدلتی ہوئی عالمی ضرورت کے بیچ نایاب معدنیات کا حصول اہم ہو چکا ہے جبکہ انھیں موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی ضروری سمجھا جا رہا ہے۔ بڑی عالمی طاقتیں دنیا بھر میں ایسی معدنیات کی بڑی کانوں کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں اور ایسے میں تنازعات بھی جنم لے رہے ہیں۔
چین اس وقت ان معدنیات کی مارکیٹ کا سب سے بڑا کھلاڑی ہے جو ایک تہائی حصے پر کنٹرول رکھتا ہے۔ اسی وجہ سے چین کے سیاسی اور معاشی اثرو رسوخ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ گرین لینڈ میں اس وقت دو کمپنیاں نایاب معدنیات پانے پر کام کر رہی ہیں جن میں سے ایک کے پیچھے چینی سرکاری کمپنی کی سرمایہ کاری ہے۔
گرین لینڈ پر پہلے ہی امریکا کا قبضہ ہے
بنیادی طور پر امریکہ کے لیے گرین لینڈ پر کنٹرول حاصل کرنا مشکل نہیں ہوگا کیونکہ گرین لینڈ میں اس کے پہلے ہی فوجی اڈے اور بڑی تعداد میں فوجی موجود ہیں۔
اس مسئلے پر ایک ممکنہ حل یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ جزیرہ الحاق کی جانب بڑھے۔ جیسا کہ اس سے قبل امریکہ نے بحرالکاہل کے ممالک مارشل آئی لینڈز، مائیکرونیشیا اور پالاؤ کے ساتھ کیا ہے۔لیکن اگر گرین لینڈ ڈنمارک سے چھٹکارا حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے تو حالیہ برسوں میں یہ واضح ہو گیا ہے کہ وہ امریکہ سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتا۔ دوسری عالمی جنگ میں اس جزیرے پر قبضہ کرنے کے بعد امریکیوں نے در حقیقت اس جزیرے کو کبھی چھوڑا ہی نہیں اور امریکہ اس جزیرے کو اپنی سلامتی اور مستقبل کے لیے اہم سمجھتا ہے۔
گرین لینڈ پر بزور طاقت قبضے کا نتیجہ نیٹو کا خاتمہ
اگر ٹرمپ گرین لینڈ پر حملہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو نیٹو کے آرٹیکل 5 کے مطابق وہ نیٹو پر حملہ کریں گے۔ لیکن اگر کوئی نیٹو ملک نیٹو کے کسی رکن ملک پر حملہ کرتا ہے تو ’نیٹو‘ کا وجود باقی نہیں رہے گا۔‘ڈنمارک کے انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل سٹڈیز کے سینیئر محقق الریک گڈ نے بی بی سی کو بتایا ٹرمپ کہہ رہے ہیں کہ اس سرزمین کو حاصل کرنا ہمارے لیے درست ہے۔ اگر ہم واقعی ان کی باتوں کو سنجیدگی سے لیتے ہیں تو یہ مغربی ممالک کے پورے اتحاد کے لیے ایک بری علامت ہے۔
مزیدپڑھیں:آئی فون 17 کی قیمت کیا ہوگی؟
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: گرین لینڈ میں گرین لینڈ کے گرین لینڈ پر جزیرے کو یہ جزیرہ کرنے کے کے لیے
پڑھیں:
امریکا کا ایشیائی ممالک کی سولر مصنوعات پر 3521 فیصد ٹیکس کا اعلان
واشنگٹن:امریکا نے جنوب مشرقی ایشیا سے امریکا درآمد ہونے والے سولر پینلز پر 3521 فیصد تک کے بھاری محصولات عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
یہ اقدام چین کی مبینہ سبسڈی اور ڈمپنگ کے خلاف ردعمل کے طور پر سامنے آیا ہے جس کا مقصد امریکی مقامی سولر انڈسٹری کا تحفظ ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی محکمہ تجارت نے پیر کے روز بتایا کہ یہ ڈیوٹیز کمبوڈیا، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور ویتنام کی کمپنیوں پر لاگو ہوں گی تاہم ان پر عمل درآمد سے قبل جون میں بین الاقوامی تجارتی کمیشن (ITC) کی توثیق درکار ہوگی۔
یہ فیصلہ ایک سال قبل امریکی اور دیگر سولر مینوفیکچررز کی درخواست پر شروع ہونے والی اینٹی ڈمپنگ اور کاؤنٹر ویلنگ ڈیوٹی تحقیقات کے بعد سامنے آیا ہے۔
محکمہ تجارت کے مطابق کمبوڈیا کی سولر مصنوعات پر 3521 فیصد، ملائیشیا سے جنکو سولر کی مصنوعات پر 40 فیصد، ویتنامی مصنوعات پر 245 فیصد، تھائی لینڈ سے ٹرینا سولر پر 375 فیصد سے زائد اور دیگر ویتنامی مصنوعات پر 200 فیصد سے زیادہ ڈیوٹی عائد کی جائے گی۔
2023 میں امریکا نے ان چار ممالک سے تقریباً 11.9 ارب ڈالر مالیت کے شمسی سیل درآمد کیے تھے۔
اب یہ مجوزہ محصولات اگر نافذ ہوگئے تو نہ صرف عالمی سطح پر شمسی توانائی کی سپلائی چین متاثر ہوگی بلکہ چین اور امریکا کے درمیان تجارتی کشیدگی میں بھی اضافہ متوقع ہے۔