یوکرینی جنگ: مذاکرات صرف امریکہ اور روس کے مابین، روسی مشیر
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 جنوری 2025ء) روسی دارالحکومت ماسکو سے منگل 14 جنوری کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ملکی صدر ولادیمیر پوٹن کے مشیر نکولائی پاتروشیف نے ماسکو اور کییف کے مابین تقریباﹰ تین سال سے جاری خونریز جنگ کے خاتمے کے لیے ممکنہ مذاکرات کے حوالے سے کہا ہے کہ ایسی کسی بھی بات چیت میں صرف روس اور امریکہ کو شامل ہونا چاہیے۔
یوکرین نے ترک اسٹریم گیس پائپ لائن پر حملے کیے، روسی الزام
نکولائی پاتروشیف نے کومسومولسکایا پراودا نامی روسی اخبار کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ یوکرینی تنازعے کے حل کے لیے کسی بھی بات چیت میں صرف امریکہ اور روس ہی کو حصہ لینا چاہیے۔ صدر پوٹن کے بہت زیرک سمجھے جانے والے اس مشیر کے مطابق ایسی کسی بھی مکالمت میں خود یوکرین کو بھی حصہ لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔
(جاری ہے)
نکولائی پاتروشیف نے کہا، ''میرے رائے میں یوکرین سے متعلق کسی بھی مکالمت میں صرف ماسکو اور واشنگٹن کو ہی آمنے سامنے بیٹھنا چاہیے۔ اس بات چیت میں دیگر مغربی ممالک کو اس لیے شامل نہیں ہونا چاہیے کہ یوکرین کے بارے میں لندن یا برسلز کے ساتھ کسی بھی طرح کے مذاکرات کرنے کے لیے تو کچھ ہے ہی نہیں۔‘‘
کرسک میں دو شمالی کوریائی فوجی گرفتار کیے، یوکرین
پوٹن ٹرمپ کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں، کریملن
مغربی تجزیہ کاروں کے مطابق روسی صدر پوٹن کے اس مشیر کا یہ بیان اس لیے ناقابل عمل ہے کہ گزشتہ تقریباﹰ تین سال سے روس کے خلاف جنگ تو یوکرین لڑ رہا ہے اور اگر اس تنازعے کو حل کرنا ہے، تو خود یوکرین کو اس بارے میں کسی بھی طرح کے مذاکرات سے باہر رکھتے ہوئے کوئی حل نکالنا مشکل ہی نہیں بلکہ عملاﹰ غیر منطقی اور ناممکن بھی ہو گا۔
امریکی اور برطانوی میزائلوں سے متعلق نئے روسی دعوےماسکو سے موصولہ دیگر رپورٹوں کے مطابق روس نے آج منگل کے روز دعویٰ کیا کہ کییف حکومت کی مسلح افواج نے روس کے خلاف جنگ میں آج امریکہ اور برطانیہ کے تیار کردہ اور یوکرین کو مہیا کیے گئے کئی میزائل فائر کیے۔
جرمنوں کی اکثریت یوکرین میں بین الاقوامی امن فوج کی تعیناتی کی حامی
روسی وزارت دفاع کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق یوکرین نے بریانسک کے علاقے میں آج ماسکو کی افواج کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہوئے امریکی ساختہ اے ٹی اے سی ایم ایس طرز کے چھ اور برطانوی ساختہ اسٹارم شیڈو طرز کے بھی اتنے ہی میزائل فائر کیے۔
یوکرین جنگ اور ٹرمپ کی قیادت: امن کی نئی راہیں؟
اس کے علاوہ روس پر حملے کے لیے کم از کم 146 ڈرونز بھی بھیجے گئے، جو روسی وزارت خارجہ کے مطابق تمام کے تمام فضا میں ہی تباہ کر دیے گئے۔
اس بیان میں وزرات دفاع نے کہا کہ یوکرین کی طرف سے ان حملوں کا ماسکو بھرپور جواب دے گا۔ اپنے بیان میں روسی وزارت دفاع نے کہا، ''کییف حکومت کے ان اقدامات کا، جن کی اس کے مغربی اتحادی حمایت کر رہے ہیں، لازمی طور پر ماسکو کی طرف سے بھرپور جواب دیا جائے گا۔‘‘
م م / ک م (روئٹرز، اے ایف پی)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے مطابق کسی بھی بات چیت کے لیے
پڑھیں:
بھارت کی روس کو مہلک دھماکہ خیز مواد کی خفیہ فروخت
ایچ ٹی آئی ایس نے اپنی ویب سائٹ پر اعتراف کیا ہے کہ وہ دھماکہ خیز مواد کی تیاری کرتی ہے جو زمین دوز اور زمینی تعمیراتی منصوبوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کمپنی کا دعویٰ ہے کہ یہ اسپین کی کمپنی ”Maxam“ کی ذیلی کمپنی ہے، جس پر امریکی سرمایہ دار ادارہ ”Rhone Capital“ کا کنٹرول ہے۔ اسلام ٹائمز۔ عالمی پابندیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے بھارت خفیہ طور پر روس کو ہتھیاروں میں استعمال ہونے والا خطرناک دھماکہ خیز کیمیکل ”ایچ ایم ایکس“ فروخت کیا ہے، جو یوکرینی شہریوں پر برسنے والے میزائلوں اور راکٹوں میں استعمال ہو رہا ہے۔ یہ انکشاف بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے بھارتی کسٹمز ڈیٹا کے ذریعے کیا ہے۔ دسمبر میں بھارتی کمپنی ”آئیڈیل ڈیٹونیٹرز پرائیویٹ لمیٹڈ“ (Ideal Detonators Pvt Ltd) نے تقریباً 14 لاکھ ڈالر مالیت کا ایچ ایم ایکس روس بھیجا۔ حیرت انگیز طور پر یہ مواد دو ایسی روسی کمپنیوں کو فراہم کیا گیا، جن کے براہِ راست تعلقات روسی دفاعی صنعت سے ہیں۔ ان میں سے ایک کمپنی ”Promsintez“ وہی ادارہ ہے جس پر حال ہی میں یوکرین نے ڈرون حملہ کیا تھا۔
یاد رہے کہ ایچ ایم ایکس ایک ایسا دھماکہ خیز مواد ہے جو میزائلوں، ٹارپیڈوز، راکٹ موٹروں اور جدید فوجی ہتھیاروں میں استعمال ہوتا ہے۔ امریکی وزارتِ دفاع اسے روسی جنگی مشین کے لیے ”انتہائی اہم“ قرار دے چکی ہے، اور کسی بھی ملک کو اس کے لین دین سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ بھارتی کسٹمز کے ریکارڈ اور ایک سرکاری اہلکار کی تصدیق کے مطابق، دونوں کھیپیں روس کے شہر سینٹ پیٹرز برگ میں اتاری گئیں۔ رپورٹ کے مطابق، پہلی کھیپ، جس کی مالیت 4 لاکھ 5 ہزار ڈالر تھی، روسی کمپنی ”High Technology Initiation Systems“ (HTIS) نے خریدی، جبکہ دوسری کھیپ، جو 10 لاکھ ڈالر سے زائد کی تھی، ”Promsintez“ نامی کمپنی نے وصول کی۔ دونوں کمپنیاں روس کے جنوبی علاقے سمارا اوبلاست میں واقع ہیں، جو قازقستان کی سرحد کے قریب ہے۔
ایچ ٹی آئی ایس نے اپنی ویب سائٹ پر اعتراف کیا ہے کہ وہ دھماکہ خیز مواد کی تیاری کرتی ہے جو زمین دوز اور زمینی تعمیراتی منصوبوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کمپنی کا دعویٰ ہے کہ یہ اسپین کی کمپنی ”Maxam“ کی ذیلی کمپنی ہے، جس پر امریکی سرمایہ دار ادارہ ”Rhone Capital“ کا کنٹرول ہے۔ بھارت کی جانب سے بھیجی گئی یہ خطرناک دھماکہ خیز اشیاء صرف فیکٹریوں میں نہیں، بلکہ عام شہریوں کی جانیں لینے والے ہتھیاروں میں تبدیل ہو رہی ہیں۔ یوکرینی حکام کے مطابق Promsintez جیسی کمپنیاں بھارت کے ساتھ مسلسل تعاون کر رہی ہیں، جس کے نتیجے میں روس کی دفاعی پیداوار مسلسل جاری ہے۔
حالانکہ امریکہ نے بارہا خبردار کیا ہے کہ جو بھی ملک یا کمپنی روسی فوجی صنعت سے وابستہ ہو گا، اس پر پابندیاں لگ سکتی ہیں، لیکن بھارت کے خلاف کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ ماہرین کے مطابق امریکہ بھارت سے نجی سطح پر بات چیت تو کرتا ہے، مگر پابندیوں سے گریز کرتا ہے تاکہ چین کے خلاف بھارت کو ساتھ رکھا جا سکے۔ بھارتی وزارتِ خارجہ نے اس حوالے سے روایتی بیان جاری کیا کہ ’ہم دوہری نوعیت کی اشیاء کا برآمدی نظام عالمی قوانین کے تحت چلاتے ہیں‘۔ مگر یہ وضاحت ایسے وقت میں دی گئی جب عالمی برادری کی آنکھوں کے سامنے بھارت روسی فوج کو مہلک مواد فراہم کر رہا ہے۔