Express News:
2025-09-17@23:21:07 GMT

لاہور خوابوں کے شہر سے اسموگ تک کا سفر

اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT

لاہور جوکبھی اپنی خوبصورتی، باغوں اور تاریخی ورثے کے لیے جانا جاتا تھا، آج ایک بدلتے ہوئے منظر نامے کا شکار ہے، وہ لاہور جس کی فضاؤں میں کبھی گلاب اور موتیا کی خوشبو بسی رہتی تھی جہاں نہروں کے کنارے لوگ زندگی کے سکون کو محسوس کرتے تھے اور جہاں کے باغات زندگی کی تازگی کا ذریعہ تھے، اب اپنے ہی سایوں میں گم ہوتا جا رہا ہے۔

ماضی کا لاہور ایک ایسا خواب تھا جس میں ہرگلی اور ہرکوچہ ایک کہانی سناتا تھا۔ سردیوں کی دھند میں لپٹی شامیں رومانی ہوا کرتی تھیں اور بہارکی ہوائیں ہر طرف خوشبو بکھیر دیتی تھیں۔ یہ شہر اپنی فضاؤں میں شاعری سموئے ہوئے تھا، جہاں سانس میں ایک تازگی محسوس ہوتی تھی۔

مگر آج وہی لاہور اپنی خوبصورتی کھو چکا ہے۔ دھند، جوکبھی شاعری کا موضوع ہوا کرتی تھی، اب زہریلے دھویں کی چادر بن چکی ہے۔ یہ دھند اب اسموگ بن کر لاہورکے آسمان پر چھا گئی ہے اور اس نے شہرکی فضاؤں کو زہر آلود کر دیا ہے۔ لاہور جوکبھی زندگی کی علامت تھا، آج بیماریوں آلودگی اور خوف کی علامت بن چکا ہے۔

لاہور حالیہ برسوں میں شدید اسموگ کا شکار رہا ہے جس نے صحت عامہ اور ماحولیات پر سنگین اثرات مرتب کیے ہیں۔ اسموگ جو دھوئیں اور دھند کا مجموعہ ہے، بنیادی طور پر گاڑیوں کے دھوئیں، صنعتی اخراجات، اینٹوں کے بھٹوں سے نکلنے ولے دھوئیں اور فصلوں کی باقیات جلانے جیسے عوامل کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔

یہ سب اچانک نہیں ہوا لاہور کی موجودہ صورتحال ان تمام غلطیوں کا نتیجہ ہے جو ہم نے اپنے ماحول کے ساتھ کیں۔ بے ہنگم ترقی، درختوں کی بے دریغ کٹائی اور صنعتی فضلے نے اس شہر کی فضاؤں کو بوجھل کر دیا ہے۔گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں فیکٹریوں کی چمنیوں سے نکلتی زہریلی گیسیں اور فصلوں کی باقیات کو جلانے کے عمل نے مل کر لاہور کو ایک ایسے زہریلے ماحول میں بدل دیا ہے جہاں سانس لینا بھی خطرے سے خالی نہیں۔

اسموگ کا اثر صرف ماحول پر ہی نہیں بلکہ انسانی صحت پر بھی گہرے نقوش چھوڑ رہا ہے۔ سانس کی بیماریاں، دل کے امراض اور آنکھوں میں جلن معمول بنتے جا رہے ہیں۔ عورتیں اور بچے اس زہریلے دھوئیں کا سب سے زیادہ شکار ہو رہے ہیں۔ خواتین جوگھروں کے اندر اور باہر دونوں جگہ سرگرم ہوتی ہیں، زیادہ وقت اس آلودہ فضا میں گزارتی ہیں اور بچے جن کے پھیپھڑے ابھی مکمل نشوونما نہیں پائے ہوتے اس آلودگی کے خطرناک اثرات کا سامنا کر رہے ہیں۔

لاہورکی اس بدحالی کو دیکھ کر دل میں ایک خلش پیدا ہوتی ہے، وہ لاہور کہاں گیا جہاں کی فضائیں صاف تھیں جہاں سانس لینا ایک خوشگوار تجربہ تھا اور جہاں کے آسمان پر صرف روشن ستارے چمکتے تھے؟ آج لاہور کا ہر منظر ہر گوشہ دھندلا نظر آتا ہے۔

حکومت نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے چند اقدامات کیے ہیں۔ فصلوں کی باقیات کو جلانے پر پابندی عائد کی گئی ہے، فیکٹریوں کی مانیٹرنگ کے نظام کو مضبوط بنایا جا رہا ہے اور شجرکاری مہمات شروع کی گئی ہیں۔ ماحول دوست ٹرانسپورٹ کو فروغ دینے کے لیے الیکٹرک گاڑیوں کو متعارف کرایا جا رہا ہے اور فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے قوانین کو سخت کیا جا رہا ہے، مگر یہ سب اقدامات اس بڑے مسئلے کے لیے ناکافی محسوس ہوتے ہیں۔

لاہورکو اس زہریلی آلودگی سے بچانے کے لیے ہمیں اجتماعی کوششیں کرنا ہوں گی۔ یہ مسئلہ صرف حکومت کا نہیں بلکہ ہم سب کا ہے۔ ہمیں اپنی روزمرہ زندگی میں ایسے فیصلے لینے ہوں گے جو ماحول کے لیے فائدہ مند ہوں۔ گاڑیوں کا غیر ضروری استعمال کم کرنا ہوگا، پبلک ٹرانسپورٹ کو اپنانا ہوگا اور درختوں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہوگا۔ فصلوں کی باقیات کے لیے کسانوں کو متبادل فراہم کرنا ہوگا تاکہ وہ انھیں جلانے کے بجائے کسی اور طریقے سے استعمال کر سکیں۔

لاہور جو کبھی اپنی فضا کی خوشبو روشنی اور تازگی کی وجہ سے مشہور تھا، آج دھند میں لپٹا ہوا ایک بے رنگ سا شہر بن چکا ہے۔ مگر یہ وقت مایوسی کا نہیں عمل کا ہے، اگر ہم نے آج قدم نہ اٹھایا تو آنے والی نسلیں صرف کتابوں اورکہانیوں میں اس لاہور کو جان سکیں گی جو کبھی باغوں کا شہر کہلاتا تھا۔ ہمیں اس خواب کو بکھرنے سے بچانا ہوگا۔ یہ وقت ہے کہ ہم سب مل کر اپنے شہرکی خوبصورتی کو دوبارہ بحال کریں تاکہ لاہور پھر سے وہی روشنیوں اور خوشبوؤں کا مسکن بن جائے جس نے کبھی دنیا کے دلوں میں اپنی جگہ بنائی تھی۔

 لاہور میں اسموگ کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے جس سے نمٹنے کے لیے حکومت اور عوام دونوں کو مل کر موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ صحت عامہ اور ماحولیات کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔ اس مسئلے کو مستقبل بنیادوں پر حل کرنے کے لیے حکومت عوام اور ماحولیاتی ماہرین کے باہمی تعاون کی ضرورت ہے۔ ہمیں فوری اقدامات اٹھائے کے ساتھ ساتھ طویل المدتی پالیسیز بنانی ہوں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں ایک صحت مند اور صاف ماحول میں زندگی گزار سکیں۔اس مسئلے کا ممکنہ حل یہ ہے کہ صاف توانائی کا استعمال کیا جائے۔ بجلی پیدا کرنے کے لیے کوئلے کے بجائے شمسی اور ہوا کی توانائی کو فروغ دیا جائے۔

بہتر اور ماحول دوست پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام سے گاڑیوں کا دباؤ کم کیا جاسکتا ہے۔ شجر کاری مہم کے ذریعے ہوا کے معیار کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ صنعتوں اورگاڑیوں سے ہونے والی آلودگی کو روکنے کے لیے سخت قوانین نافذ کے جائیں۔ لوگوں کو ماحولیات کے مسائل اور ان کے حل کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اور ماحول جا رہا ہے ا لودگی کے لیے کیا جا

پڑھیں:

اسرائیل کی غزہ میں وحشیانہ بمباری تھم نہ سکی، مزید 16 فلسطینی شہید

صیہونی فوج نے رہائشی عمارتوں پر حملے تیز کر دیئے، مزید 16 فلسطینی شہید ہوگئے، درجنوں عمارتیں ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئیں۔
مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیل کی جانب سے پیر کے روز غزہ شہر پر کیے گئے شدید فضائی اور زمینی حملوں میں کم از کم 16 فلسطینی شہید ہو گئے، جبکہ درجنوں عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہو کر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئیں۔
رپورٹ کے مطابق یہ حملہ اس دوران ہوا جب امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو یروشلم میں اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو سے جنگ کے بارے میں تبادلہ خیال کر رہے تھے۔
روبیو کا یہ دورہ قطر میں عرب اور اسلامی ممالک کے ہنگامی اجلاس کے ساتھ ہوا، جس میں کچھ ممالک امریکہ کے قریبی اتحادی ہیں اور یہ اجلاس حال ہی میں اسرائیل کی جانب سے خلیجی ملک قطر میں مقیم حماس کے رہنماؤں پر حملے کے ردعمل میں بلایا گیا تھا۔
مقامی صحت حکام نے تصدیق کی ہے کہ تازہ ترین حملوں میں دو رہائشی مکانات اور ایک خیمہ نشانہ بنے، جہاں ایک بے گھر فلسطینی خاندان عارضی طور پر مقیم تھا۔
عینی شاہدین کے مطابق، اسرائیلی افواج نے غزہ کے مختلف علاقوں پر حملے کیے، جس سے شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔ سڑکوں اور کھلے میدانوں میں قائم کیمپوں میں رہائش پذیر ہزاروں افراد کو جنوب کی طرف محفوظ علاقوں کی تلاش میں نکلنے پر مجبور ہونا پڑا۔
اسرائیل کا موقف ہے کہ یہ کارروائیاں حماس کو شکست دینے اور غزہ شہر پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں۔ تاہم، اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی جانب سے ان حملوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے، جنہیں ”جبری اجتماعی بے دخلی“ سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق، جنوبی غزہ کے نام نہاد ”انسانی زون“ میں حالات انتہائی خراب ہیں، جہاں خوراک، پانی اور طبی سہولتوں کی شدید قلت ہے اور پناہ گزین بدترین صورتحال کا شکار ہیں۔
غزہ کے علاقے صبرا کی رہائشی 50 سالہ خاتون غادہ، جو اپنے پانچ بچوں کے ساتھ رہائش پذیر ہیں، نے اپنا مؤقف بیان کرتے ہوئے کہا ”کیا آپ جانتے ہیں کہ نقل مکانی کیا ہے؟ یہ روح کو جسم سے نکالنے کے مترادف ہے، یہ ذلت ہے، موت کی ایک اور شکل ہے۔“
ادھر اسرائیلی افواج گزشتہ کئی ہفتوں سے مشرقی غزہ کے کم از کم چار علاقوں میں کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، جن میں سے تین علاقے مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ اب یہ افواج شہر کے مرکز کی طرف بڑھ رہی ہیں اور ان کا اگلا ہدف مغربی علاقہ ہو سکتا ہے، جہاں زیادہ تر بے گھر افراد نے پناہ لی ہوئی ہے۔

 

Post Views: 7

متعلقہ مضامین

  • ماحول دوست ٹرانسپورٹ کی طرف قدم، مریم نواز کا وزیرآباد میں الیکٹرک بس سروس کا افتتاح
  • کراچی، 11 سالہ بچی کی پراسرار ہلاکت، گلا گھونٹ کر قتل کیے جانے کا انکشاف
  • پالیسی ریٹ برقرار رکھنے کا فیصلہ کاروباری ماحول کو متاثر کرے گا،فیصل معیز خان
  • سیاسی ماحول میں ہلچل، سینیٹر علی ظفر استعفے جمع کرانے پارلیمنٹ پہنچ گئے
  • نواز شریف واقعی علاج کی غرض سے لندن گئے ہیں ؟
  • کراچی: شاہراہ نور جہاں پر پولیس مقابلہ، ایک ڈاکو زخمی حالت میں گرفتار
  • چیئرمین سی ڈی اے سے قازقستان کے سفیر یرژان کیستافین کی ملاقات، شہری تعاون، ثقافتی تبادلے اور ماحول دوست منصوبوں پر تفصیلی گفتگو
  • اسرائیل کی غزہ میں وحشیانہ بمباری تھم نہ سکی، مزید 16 فلسطینی شہید
  • 7 ممالک جہاں آئی فون 17 کی قیمت پوری دنیا سے کم ہے
  • مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف لندن روانہ