Jasarat News:
2025-04-26@04:40:26 GMT

حکومت گھریلو صنعتوں کو سرپرستی فراہم کرے، لیاقت بلوچ

اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT

لاہو ر(نمائندہ جسارت) نائب امیر جماعت اسلامی، صدر قائمہ کمیٹی سیاسی قومی امور لیاقت بلوچ نے گوجرانوالہ، سیالکوٹ، کھاریاں (گجرات) میں گھریلو صنعتوں کے مالکان اور انتظامی منیجرز سے ملاقات میں کہا کہ گھریلو صنعتوں کو فروغ دینے کے لیے حوصلہ افزائی حکومت کی ترجیح اول بنائی جائے۔ برآمدات میں اضافہ کے لیے غیرضروری درآمدات کا خاتمہ کیا جائے اور کاٹیج انڈسٹری کو بھرپور اعتماد دیا جائے۔ اس سے روزگار کے زیادہ مواقع پیدا ہوں گے۔ حکومت گھریلو صنعتوں کے لیے ہر طرح کی سرپرستی دے۔ نیز غیرترقیاتی اخراجات میں 30 فیصد کمی اور آئی پی پیز، شرح سود میں ہونے والی کمی سے ہونے والی بچت کا عام آدمی کو ریلیف کا ثمر ملنا چاہیے۔ 17 جنوری کو ملک گیر احتجاج میں ’’بجلی سستی کرو‘‘ پرامن مظاہرے ہوں گے۔ یہ مظاہرے عوام کے جذبات کے ترجمان ہوںگے۔لیاقت بلوچ نے گوجرانوالہ میں اسکولوں میں تربیتی اور مقابلہ مضمون نویسی کے لیے متحرک ٹیم سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے نوجوان، نئی نسل میں بے پناہ خداداد صلاحیتیں ہیں۔ یہ المیہ ہے کہ 2 کروڑ 35 لاکھ بچے اسکولوں کی تعلیم سے محروم ہیں۔ حکومتیں اعلانات کرتی ہیں لیکن ازالہ کے لیے کوئی منصوبہ اور لائحہ عمل نہیں بنایا جارہا۔ نئی نسل نوجوانوں کو منشیات کی لت میں مبتلا کرنے والے سماج کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ نئی نسل کو فرقہ وارایت نسل پرستی، لِسانیت اور طبقاتی کشمکش سے پاک معاشرہ دینا اجتماعی قومی ذمے داری ہے۔ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے نوجوانوں کو تعلیم، ہنرمندی اور اُن کے لیے روزگار کو قومی ترجیح بنایا جائے۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے طلبہ و طالبات کے لیے پاکستان کی یونیورسٹیز اور کالجز میں کوٹہ بڑھایا جائے۔ لیاقت بلوچ نے جماعت اسلامی کے رہنماؤں امتیاز بریار، سلیم منہاس، سید ضیاء اللہ شاہ، چوہدری انور مقصود سے ملاقات اور سابق ایم این اے سینئر سیاسی رہنما رہنما رحمن نصیر کی بیٹی کی شادی کھاریاں میں مبارکباد دی۔ اِس موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے لیاقت بلوچ نے کہا کہ پورے ملک میں امنِ عامہ ابتر ہے، جرائم، چوریاں، ڈکیتیاں بڑھ رہی ہیں۔ حکومتوں کی نااہلی، کرپشن اور غیرذمہ دارانہ طرزِ حکومت کی وجہ سے حکومتی رِٹ عملاً ختم ہوچکی، عوام کو جان، مال، عزت کا تحفظ نہیں ہے۔لیاقت بلوچ نے کہا کہ سیاسی بحران سیاسی قیادت کے انتقامی رویے، ضِد، ہٹ دھرمی اور عدالتوں سے انصاف کے عدم حصول کی وجہ سے گھمبیر ہوتا جارہا ہے۔ افغانستان سے مضبوط پائیدار تعلقات خطے کی اہم ضرورت ہیں۔ افغانستان اور پاکستان کی حکومتوں کو ایک دوسرے کا اعتماد بحال کرنا چاہیے۔ مضبوط، پائیدار دوستانہ تعلقات دونوں ممالک کے عوام کے اقتصادی حقوق کے لیے بھی ضروری ہیں اور دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے بھی باہم مضبوط تعلقات شاہِ کلید ہے۔ عسکری طاقت نہیں، بہترین سفارتی اور اسٹریٹجک اقدامات پاک افغان تعلقات اور خطے میں مستقل امن کے لیے ناگزیر ہیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: لیاقت بلوچ نے کے لیے

پڑھیں:

فطری اور غیر فطری سیاسی اتحاد

پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی مرضی ہے کہ ’’ وہ ہم سے اتحاد کرتے ہیں یا نہیں، وہ خود مختار سیاسی پارٹی کے سربراہ ہیں۔ ہم کسی سے سیاسی اتحاد کے لیے زبردستی نہیں کر سکتے۔‘‘ موجودہ حکومت کی ایک اہم ترین سیاسی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ’’ خدا نہ کرے کہ ہم موجودہ حکومت کا ساتھ چھوڑ دیں، ہمارا کوئی نیا سیاسی اتحاد نہیں ہو رہا، اگر ہم نے حکومت سے علیحدگی اختیار کی تو ملک میں نیا بحران پیدا ہو جائے گا اور ملک ایسے بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ حکومت کو ہمارے تحفظات دور کرنے چاہئیں اور ایسا نہ ہونے سے ہی شکایات پیدا ہوتی ہیں اور پیپلز پارٹی کے خلاف منفی بیانیہ بنایا جاتا ہے تو ہمیں بھی بولنا پڑتا ہے۔‘‘

وفاق میں شامل دو بڑی پارٹیوں مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان پنجاب میں پاور شیئرنگ فارمولے پر عمل نہ ہونے سے پہلے سے ہی تحفظات چل رہے تھے کہ اب 6 نہریں نکالنے کے مسئلے نے سندھ میں پیپلز پارٹی کے لیے ایک اور مسئلہ پیدا کردیا ہے اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی سیاسی ساکھ داؤ پر لگ گئی ہے اور پی پی کے مخالفین نے سندھ میں نہروں کی بنیاد پر احتجاجی مہم شروع کی تھی جس کے بعد پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت نے بھی ایک سخت موقف اپنایا کہ نہریں نہیں بننے دیں گے اور سندھ کے حصے کا ایک قطرہ پانی بھی کسی کو نہیں لینے دیں گے۔ وفاق نے کینالز کے مسئلے پر یہ معاملہ مذاکرات سے حل کرنے کی کوشش شروع کی تو سندھ کی تمام قوم پرست جماعتوں نے نہریں نکالنے کے خلاف بھرپور احتجاج، پہیہ جام اور شٹرڈاؤن ہڑتال شروع کردی جب کہ سندھ میں پیر پگاڑا کی سربراہی میں قائم جی ڈی اے پہلے ہی احتجاج کررہی تھیں اور صدر زرداری پر بھی الزامات لگا رہی تھی۔

سندھ بار ایسوسی ایشن بھی اب شہروں کے خلاف احتجاج میں شریک ہو چکی ہے اور سندھ بار نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نہروں کے خلاف ہونے والے دھرنے کو سنجیدہ لے اور نہروں کی تقسیم کا نوٹیفکیشن فی الفور واپس لے ورنہ احتجاج جاری رہے گا۔ پی پی کے چیئرمین بلاول زرداری نے پہلے بھی حیدرآباد کے جلسے میں سخت موقف اپنایا ہے جس کے بعد وفاق نے یہ مسئلہ پی پی کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے رابطے شروع کیے مگر اب یہ مسئلہ پیپلز پارٹی کا نہیں رہا سندھ کی تمام جماعتیں اور وکلا بھی احتجاج میں شامل ہو چکے ہیں۔ ایم کیو ایم بھی اس مسئلے پر سندھ میں ہونے والے احتجاج کی حمایت کر رہی ہے مگر ساتھ میں پیپلز پارٹی پر بھی کڑی تنقید کر رہی ہے جو سندھ میں پیپلز پارٹی کی اپوزیشن اور وفاق میں (ن) لیگ کی اتحادی اور وفاقی حکومت میں شامل ہے مگر وفاقی حکومت سے اسے بھی شکایات ہیں کہ ان کے ساتھ جو وعدے ہوئے تھے وہ پورے نہیں کیے جا رہے۔

اس لیے ہمارے تحفظات دور نہ ہوئے تو حکومت سے اتحاد ختم کر دیں گے۔وفاق میں پیپلز پارٹی کا مسلم لیگ (ن) کے ساتھ یہ تیسرا اتحاد ہے۔ 2008 میں یہ اتحاد ٹوٹ گیا تھا اور پی پی حکومت نے ایم کیو ایم اور (ق) لیگ کو اپنا نیا اتحادی بنا کر اپنی مدت پوری کر لی تھی۔ ایم کیو ایم مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جنرل پرویز کے باعث (ق) لیگ کی اتحادی رہی ہے مگر وہ (ن) لیگ اور پی پی حکومت کا اتحاد ختم بھی کرتی رہی ہے۔ پی پی نے 2008 کے الیکشن کے بعد سندھ میں اپنی حکومت میں ایم کیو ایم کو شامل نہیں کیا اور سولہ برسوں میں پی پی حکومت کی سندھ میں اپوزیشن پی ٹی آئی 2018 میں رہی اور زیادہ تر ایم کیو ایم ہی سندھ میں حکومت سے باہر رہ کر سندھ حکومت کے خلاف اپوزیشن کا کردار ادا کرتی رہی اور اب بھی کر رہی ہے۔

ایم کیو ایم پہلی بار 1988 میں بے نظیر دور میں وفاق اور سندھ میں پی پی حکومت کی اتحادی بنی تھی۔ پی پی اور ایم کیو ایم سندھ کی دو اہم پارٹیاں ہیں اور دونوں کا اتحاد فطری بھی ہے، سندھ میں پیپلز پارٹی دیہی سندھ اور ایم کیو ایم شہری سندھ کی نمایندگی کرتی ہیں۔ دونوں کے حامیوں نے سندھ میں ہی رہنا ہے اور دونوں کا سیاسی اتحاد سندھ کے وسیع مفاد میں ہے مگر پی پی اپنی دیہی سیاست کے باعث ایم کیو ایم کے ساتھ چلنے پر رکاوٹ محسوس کرتی ہے جس کی وجہ سندھ میں 50 سال سے نافذ کوٹہ سسٹم ہے جو دس سال کے لیے بھٹو دور میں نافذ ہوا تھا جسے پیپلز پارٹی ختم نہیں ہونے دے رہی جب کہ ایم کیو ایم اس کا خاتمہ چاہتی ہے کیونکہ اس پر مکمل عمل نہیں ہو رہا اور ایم کیو ایم کے مطابق سندھ میں پی پی کی حکومت شہری علاقوں کی حق تلفی کر رہی ہے۔

شہری علاقوں میں لوگوں کو بسا کر صرف انھیں ہی سرکاری ملازمتیں دی جاتی ہیں۔ سندھ میں ان دونوں پارٹیوں کا اتحاد فطری ہو سکتا ہے مگر نہیں ہو رہا اور اب بھی دونوں ایک دوسرے کے خلاف سخت بیان بازی جاری رکھے ہوئے ہیں اور پی پی، ایم کیو ایم کا موجودہ مینڈیٹ تسلیم بھی نہیں کرتی اور صدر آصف زرداری کے لیے یہ ووٹ لے بھی چکی ہے۔

وفاق میں (ن) لیگ اور پی پی کا سیاسی اتحاد ہے جو مجبوری کا اتحاد ہے۔ پی پی (ن) لیگ کو آڑے ہاتھوں لیتی ہے جس کا جواب مسلم لیگ موثر طور نہ دینے پر مجبور ہے۔ کے پی کے میں تحریک انصاف اور جے یو آئی میں سیاسی اتحاد ہونا بالکل غیر فطری ہے کیونکہ دونوں متضاد خیالات کی حامل ہیں جب کہ پی ٹی آئی تو (ن) لیگ اور پی پی کو اپنا سیاسی مخالف نہیں بلکہ اپنا دشمن قرار دیتی ہے جو ملک کی بدقسمتی اور ملکی سیاست اور جمہوریت کے خلاف ہے اور ملک میں فطری اتحاد برائے نام ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بلوچستان کے حالات پر پورے ملک کو تشویش ہے، لیاقت بلوچ
  • فطری اور غیر فطری سیاسی اتحاد
  • پاک افغان تعلقات کا نیا دور
  • گیس سے بجلی پیدا کرنے والی صنعتوں سے کیپٹو پاور لیوی کی وصولی روکنے کا حکم
  • فیصل آباد میں گھریلو ملازمہ سے اجتماعی زیادتی، متاثرہ لڑکی حاملہ ہوگئی
  • نیشنل ایکشن پلان کا اجلاس فوری طور پر بلایا جائے ، تحریک انصاف شامل ہو: فیصل واوڈا
  • نیشنل ایکشن پلان کا اجلاس فوراً بلایا جائے جس میں پی ٹی آئی بھی شامل ہو، فیصل واوڈا
  • یکم مئی کو کانفرنس منعقد کی جائے گی، چیئرمین نیشنل انڈسٹریل ریلیشنز کمیشن
  • اسٹیبلشمنٹ فیڈریشن کو ون یونٹ نظام نہ بنائے: لیاقت بلوچ
  • تحریکِ انصاف کا اندرونی انتشار اسٹیبلشمنٹ کی طاقت بن گیا، جماعت اسلامی