Daily Ausaf:
2025-04-26@02:35:35 GMT

’’جدید علمیات اور جدید علم کلام‘‘سے آگے بھی کچھ ہے !

اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT

معروف سکالر محمد ابوبکر صدیق اپنے ایک طویل مضمون ’’جدید علمیات اور جدید علم کلام‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’جدید علم جس حقیقت کو تشکیل دیتا ہے یہ وہ حقیقت نہیں جس کا عرفان حاصل کرنا قدیم علم کا بنیادی مقصد ہوا کرتا تھا جبکہ سیکولر علم اپنی مخصوص حدود اور اہداف کے اندر رہتے ہوئے اس مطلق حقیقت کو اس طرح دیکھ ہی نہیں سکتا نہ ہی قدیم عملیات کی طرح اس موضوع پر کوئی حتمی دعویٰ پیش کرنے کا اہل ہے‘‘۔ اس سے مراد یہ ہے کہ قدیم جدید علم کا بنیادی مقصد حقیقت مطلق ultimate Reality کا عرفان اور اس کے ساتھ انسانی تعلق کی وضاحت کرنا تھا ،جس کے نتیجے میں یہ علم اپنی نوعیت میں کلی نوعیت کا حتمی دعویٰ رکھتا تھا۔جبکہ جدید علم کی اساس سیکولر بنیاد پر رکھی گئی ہے اوراس کا منطقی دائرہ کار محدود ہے اور تجرباتی اور مشاہداتی اصولوں کی بنیاد پر کام کرتا ہے بلکہ جدید علم اس حد تک محدود ہے کہ حقیقت مطلق کو اپنا موضوع ہی نہیں بناسکتا کہ اس کے پاس کوئی ماورائی فریم ورک ہی نہیں ہے کہ جس کی بنیاد پر کوئی حتمی دعویٰ کرنے کا اختیار رکھتا ہو۔لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ جدید عملیات کے پاس قدیم علمیات کی طرح کوئی روحانی پہلو نہیں اور نہ وہ ایسا پہلو تلاش کرنے پر یقین رکھتی ہے جو اسے حقیقت مطلق تک پہنچنے کا راستہ دے۔کیونکہ حقیقت مطلق ایسا تصور ہے جو علمی اعتبار سے تجربے اور فکر کے درجے پر انحصار کرتا ہے اور یہی وہ حقیقت ہے جو ہر شے کی اصل ہے اور اور زمان و مکان کی حدود و قیود سے آزاد ہے ۔
مطلق حقیقت کو سمجھنے اور پانے کے لئے روحانی فکری سفر کی ضرورت ہوتی ہے ۔اس کے کچھ اپنے زاویئے ہوتے ہیں ۔مثلاً ’’فلسفہ ‘‘جس میں مطلق حقیقت وہ ہے جو خود اپنے وجود سے وابستہ ہوتی ہے اور تمام ظاہری حقائق کا اولین ماخذ ہے۔ایسی حقیقت شکوک وشبہات تغیر تبدل سے ماورا ہوتی ہے۔ جس کے لئے ہم ہندو فلسفے میں ’’برہمن‘‘ اور افلاطون کے حوالے سے ’’آئیڈیاز کی دنیا‘‘ اور اگر سائنسی نقطہ نظر میں جھانکیں تو حقیقت مطلق ان قوانین و اصول کی کی حیثیت رکھتی ہے جن پر کائنات کی بنیاد ہے۔اب چونکہ سائنس تجرباتی حدود کے دائرہ کار کا مطالبہ کرتی ہے اس لئے حقیقت مطلق ایک غیر یقینی شے قرار دے دی جاتی ہے۔جبکہ دینی، مذہبی اور روحانی تعلیمات کی رو سے حقیقت مطلق ذات الہی ہے جس تک عشق و محبت اور عبادت و ریاضت کے ذریعے پہنچنا ہوتا ہے ،ایک مقام پر روحانی بالیدگی بھی اس میں شامل ہوجاتی ہے۔اور یہ اسلامی تعلیمات کے بغیرممکن ہی نہیں ۔ایک اور نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ انسان کے لئے حقیقت مطلق کا عرفان اس کا مقصد حیات ہو ۔ علاوہ ازیں حقیقت کے ادراک کے لئے کائنات کی گہرائیوں کو جاننے کا علم اور تجربہ چاہیئے ہوتا ہے۔ایک خوگر علم اگر حقیقت مطلق تک پہنچناچاہے تو حصول علم میں تن من دھن کی بازی لگا دے۔مختلف افکار و نظریات کا مطالعہ گہری ترین دلچسپی سے کرے ،غور و فکر کے در ہر پل کھلے رکھے اور تضادات پر کم توجہ مرکوز کرے ۔
فقط علمی ،روحانی اور اخلاق حسنہ اس کا محور و مرکز ہو۔کیونکہ فکری اور روحانی سفر ہی کائنات کے ادراک کے عمل میں سد راہ ہوسکتا ہے اور اس کا تمام تر تعلق جستجوئے پیہم سے ہے ۔فکری سفر سے مراد عقل ، شعور اور علم بے عمیق کے ذریعے کائنات کے مظاہر کوسمجھنا اور ان کا مطالعہ و مشاہدہ کرنا ہے۔یہاں ایک اور امر کا دھیان رکھنا ضروری ہے کہ عقل کے استعمال کے وقت منطق اور دلیل کی پاسداری کرنی ہے ۔کائناتی قواعد ضوابط کو نظر انداز نہ کیا جائے اور نہہی کائناتی اصولوں کو نقد و نظر کی کسوٹی پر پرکھا جائے۔نکتہ ارتکاز مقصد حیات کو سمجھنا اور قلبی کیفیات کو روح کی پاکیزگی کے لئے مختص کر لینے سے ہی حقیقت مطلق کے قرب کے حصول تک پہنچا جا سکتا ہے۔فلسفہ ، مذہب اور سبھی کے ادراک کا سفر طے کرتے ہوئے انسان روح کی حقیقت کو سمجھ سکتا ہے ۔اس کے ایک اور اہم شرط یہ ہے کہ سوال کی راہ مسدود نہ کی جائے کہ اسی سے تلاش کے رستے کھلتے ہیں ۔محترم سکالر کا یہ کہنا کہ ’’جدید دور کے سیکولر تصور علم میں بنیادی اہمیت ۔مطلق اور مقدس sacred کی بجائے ظاہر اور موجود profane کی ہے‘‘۔ اس سے مراد اگر سائنس، ٹیکنالوجی کی ترقی کو مطلق حقیقت سے یکسر علیحدہ کرکے شجر ممنوعہ کے قریب تر کرکے دیکھنا ہے تو بھی ایک حقیقت کے ادراک کی نفی ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: حقیقت کو کے ادراک ہی نہیں ہے اور کے لئے

پڑھیں:

جنگ سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا: ایمل ولی خان

— فائل فوٹو

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سربراہ، سینیٹر ایمل ولی خان کا کہنا ہے کہ جنگ سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ دونوں ملک اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ ایک دوسرے کو تباہ اور برباد کر دیں۔

ایمل ولی خان نے سینیٹ اجلاس میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں امن کے خواہشمند، عدم تشدد کے پیروکار اور انتہا پسندی کے مخالف جنگ کے خلاف آواز اٹھائیں، ہمیں اپنے وطن اور قوم کی خاطر امن کے پیغام کو اجاگر کرنا ہو گا۔

بدقسمتی سے سیاستدان جمہوریت کا جنازہ نکال رہے ہیں، ایمل ولی خان

عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ سینیٹر ایمل ولی خان نے کہا ہے کہ آج سینیٹ میں جو ماحول دیکھا، یہ جمہوریت کا جنازہ نکل رہا ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ کسی بھی ڈائیلاگ کے لیے اپنی خدمات پیش کرتا ہوں، رضا مندی ظاہر کی گئی تو میں پاکستان کی خاطر جاؤں گا، میں ان شاء اللّٰہ بات کروں گا ماحول ایسا بنائیں گے کہ بھائی چارے والا ماحول بنے، ہم ہندوستان، چین، افغانستان اور ایران سب کے ساتھ دوستانہ ماحول چاہتے ہیں۔

ایمل ولی خان نے کہا ہے کہ اگر کوئی ماحول خراب کرنا بھی چاہتا ہے ہم نہ کریں کیونکہ اس میں ہماری قوم کا نقصان ہے، قوم کا سوچتے ہوئے ہمیں امن کا پیغام دینا ہو گا۔

اُنہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ واہگہ بارڈر بند کیا گیا لیکن کرتار پور کیوں کھلاچھوڑ دیا ہے؟ کیا اجمیر شریف جانے کی اجازت دی گئی ہے؟ تو پھر آپ کیوں کرتارپور کھلا چھوڑ کر امتیاز برت رہے ہیں، اگر بند کرنا ہے تو سب بند کریں۔

متعلقہ مضامین

  • کیا کوئی خاتون پوپ فرانسس کی جگہ پوپ بن سکتی ہیں ؟
  • جنگ سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا: ایمل ولی خان
  • بالواسطہ مذاکرات میں پیشرفت امریکہ کی حقیقت پسندی پر منحصر ہے، ایران
  • اسپیکر قومی اسمبلی کی پارلیمانی وفد کے ہمراہ عمرہ کی ادائیگی
  • ملک کی حفاظت کے لیے ہم سب سینہ سپر ہیں، علی محمد خان
  • اولاد کی تعلیم و تربیت
  • دعا کی طاقت… مذہبی، روحانی اور سائنسی نقطہ نظر
  • وہ ڈاکٹر اور یہ ڈاکٹر
  • کوچۂ سخن
  • رشتہ ایک سرد مہری کا