’’جدید علمیات اور جدید علم کلام‘‘سے آگے بھی کچھ ہے !
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
معروف سکالر محمد ابوبکر صدیق اپنے ایک طویل مضمون ’’جدید علمیات اور جدید علم کلام‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’جدید علم جس حقیقت کو تشکیل دیتا ہے یہ وہ حقیقت نہیں جس کا عرفان حاصل کرنا قدیم علم کا بنیادی مقصد ہوا کرتا تھا جبکہ سیکولر علم اپنی مخصوص حدود اور اہداف کے اندر رہتے ہوئے اس مطلق حقیقت کو اس طرح دیکھ ہی نہیں سکتا نہ ہی قدیم عملیات کی طرح اس موضوع پر کوئی حتمی دعویٰ پیش کرنے کا اہل ہے‘‘۔ اس سے مراد یہ ہے کہ قدیم جدید علم کا بنیادی مقصد حقیقت مطلق ultimate Reality کا عرفان اور اس کے ساتھ انسانی تعلق کی وضاحت کرنا تھا ،جس کے نتیجے میں یہ علم اپنی نوعیت میں کلی نوعیت کا حتمی دعویٰ رکھتا تھا۔جبکہ جدید علم کی اساس سیکولر بنیاد پر رکھی گئی ہے اوراس کا منطقی دائرہ کار محدود ہے اور تجرباتی اور مشاہداتی اصولوں کی بنیاد پر کام کرتا ہے بلکہ جدید علم اس حد تک محدود ہے کہ حقیقت مطلق کو اپنا موضوع ہی نہیں بناسکتا کہ اس کے پاس کوئی ماورائی فریم ورک ہی نہیں ہے کہ جس کی بنیاد پر کوئی حتمی دعویٰ کرنے کا اختیار رکھتا ہو۔لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ جدید عملیات کے پاس قدیم علمیات کی طرح کوئی روحانی پہلو نہیں اور نہ وہ ایسا پہلو تلاش کرنے پر یقین رکھتی ہے جو اسے حقیقت مطلق تک پہنچنے کا راستہ دے۔کیونکہ حقیقت مطلق ایسا تصور ہے جو علمی اعتبار سے تجربے اور فکر کے درجے پر انحصار کرتا ہے اور یہی وہ حقیقت ہے جو ہر شے کی اصل ہے اور اور زمان و مکان کی حدود و قیود سے آزاد ہے ۔
مطلق حقیقت کو سمجھنے اور پانے کے لئے روحانی فکری سفر کی ضرورت ہوتی ہے ۔اس کے کچھ اپنے زاویئے ہوتے ہیں ۔مثلاً ’’فلسفہ ‘‘جس میں مطلق حقیقت وہ ہے جو خود اپنے وجود سے وابستہ ہوتی ہے اور تمام ظاہری حقائق کا اولین ماخذ ہے۔ایسی حقیقت شکوک وشبہات تغیر تبدل سے ماورا ہوتی ہے۔ جس کے لئے ہم ہندو فلسفے میں ’’برہمن‘‘ اور افلاطون کے حوالے سے ’’آئیڈیاز کی دنیا‘‘ اور اگر سائنسی نقطہ نظر میں جھانکیں تو حقیقت مطلق ان قوانین و اصول کی کی حیثیت رکھتی ہے جن پر کائنات کی بنیاد ہے۔اب چونکہ سائنس تجرباتی حدود کے دائرہ کار کا مطالبہ کرتی ہے اس لئے حقیقت مطلق ایک غیر یقینی شے قرار دے دی جاتی ہے۔جبکہ دینی، مذہبی اور روحانی تعلیمات کی رو سے حقیقت مطلق ذات الہی ہے جس تک عشق و محبت اور عبادت و ریاضت کے ذریعے پہنچنا ہوتا ہے ،ایک مقام پر روحانی بالیدگی بھی اس میں شامل ہوجاتی ہے۔اور یہ اسلامی تعلیمات کے بغیرممکن ہی نہیں ۔ایک اور نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ انسان کے لئے حقیقت مطلق کا عرفان اس کا مقصد حیات ہو ۔ علاوہ ازیں حقیقت کے ادراک کے لئے کائنات کی گہرائیوں کو جاننے کا علم اور تجربہ چاہیئے ہوتا ہے۔ایک خوگر علم اگر حقیقت مطلق تک پہنچناچاہے تو حصول علم میں تن من دھن کی بازی لگا دے۔مختلف افکار و نظریات کا مطالعہ گہری ترین دلچسپی سے کرے ،غور و فکر کے در ہر پل کھلے رکھے اور تضادات پر کم توجہ مرکوز کرے ۔
فقط علمی ،روحانی اور اخلاق حسنہ اس کا محور و مرکز ہو۔کیونکہ فکری اور روحانی سفر ہی کائنات کے ادراک کے عمل میں سد راہ ہوسکتا ہے اور اس کا تمام تر تعلق جستجوئے پیہم سے ہے ۔فکری سفر سے مراد عقل ، شعور اور علم بے عمیق کے ذریعے کائنات کے مظاہر کوسمجھنا اور ان کا مطالعہ و مشاہدہ کرنا ہے۔یہاں ایک اور امر کا دھیان رکھنا ضروری ہے کہ عقل کے استعمال کے وقت منطق اور دلیل کی پاسداری کرنی ہے ۔کائناتی قواعد ضوابط کو نظر انداز نہ کیا جائے اور نہہی کائناتی اصولوں کو نقد و نظر کی کسوٹی پر پرکھا جائے۔نکتہ ارتکاز مقصد حیات کو سمجھنا اور قلبی کیفیات کو روح کی پاکیزگی کے لئے مختص کر لینے سے ہی حقیقت مطلق کے قرب کے حصول تک پہنچا جا سکتا ہے۔فلسفہ ، مذہب اور سبھی کے ادراک کا سفر طے کرتے ہوئے انسان روح کی حقیقت کو سمجھ سکتا ہے ۔اس کے ایک اور اہم شرط یہ ہے کہ سوال کی راہ مسدود نہ کی جائے کہ اسی سے تلاش کے رستے کھلتے ہیں ۔محترم سکالر کا یہ کہنا کہ ’’جدید دور کے سیکولر تصور علم میں بنیادی اہمیت ۔مطلق اور مقدس sacred کی بجائے ظاہر اور موجود profane کی ہے‘‘۔ اس سے مراد اگر سائنس، ٹیکنالوجی کی ترقی کو مطلق حقیقت سے یکسر علیحدہ کرکے شجر ممنوعہ کے قریب تر کرکے دیکھنا ہے تو بھی ایک حقیقت کے ادراک کی نفی ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: حقیقت کو کے ادراک ہی نہیں ہے اور کے لئے
پڑھیں:
فیس لیس اسیسمنٹ کی وجہ سے ریونیو میں اضافہ ہوا: ایف بی آر
اسلام آباد ( نمائندہ خصوصی) ایف بی آر کی سینئر قیادت نے کہا ہے کہ ادارے کا کسٹمز فیس لیس اسیسمنٹ کی وجہ سے ایف بی آر کے ریونیو میں اضافہ ہوا ہے۔ فیس لیس اسیسمنٹ سسٹم کا آغاز ریونیو کے لیے نہیں کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد بد عنوانی کا خاتمہ تھا۔ اس نظام پر عمل کرنے کی وجہ سے جو لوگ متاثر ہوئے ہیں وہی اس کا رول بیک جاتے ہیں۔ ایف بی آر ہی کے ادارے ڈائریکٹوریٹ جنرل آٖ ف پوسٹ کلیئرنس آڈٹ کی رپورٹ کے بعض مندرجات کی تردید کے لئے پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ اس ابتدائی نوعیت کی رپورٹ کو میڈیا کو لیک کیا گیا۔ ہمیں یہ بعد میں ملی اور میڈیا پر اس کے مندرجات کی غلط تشریح کی گئی۔ اس لیکج میں وہ افسر ملوث ہیں جن کی ذاتی نوعیت کی شکایات ہیں۔ رپورٹ میں ایسی چیزیں لائی گئی تھیں جو غلط تھیں۔ انکوائری کمیٹی بنا دی گئی ہے جس کی رپورٹ کی روشنی میں کارروائی کی جائے گی۔ فیس لیس اسیسمنٹ سسٹم کو پورے ملک میں نافذ کر دیا جائے گا۔ اس کو رول بیک نہیں کیا جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار ایف بی آر کے چیئرمین راشد محمود لنگڑیال، ممبر کسٹمز آپریشن سید شکیل شاہ اور دیگر اعلی افسروں نے میڈیا سے بات چیت میں کیا۔ چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے کہا کہ کسٹم کے فیس لیس اسیسمنٹ نظام کو ریونیو کے مقصد کے لیے شروع نہیں کیا تھا، اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ کسٹم کلیئرنس میں رشوت کو ختم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر میں کرپشن کے حوالے سے زیرو ٹالرنس ہے۔ گاڑیوں کی کلیئرنس کا سکینڈل سامنے آیا۔ اس میں دو افسروں کو گرفتار کیا گیا۔ گلگت بلتستان میں تاجروں کی ہڑتال کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کسٹم کلیئرنس کا پرانا نظام واپس دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔ ادارے میں وہ آٹھ اگست 2024 کو تعینات ہوئے تھے، انہوں نے اب تک کبھی کسی افسر کی تعیناتی سفارش پر نہیں کی ہے۔ ممبر کسٹم آپریشن شکیل شاہ نے کہا کہ ایف بی آر میں اصلاحات کے پلان پر عمل ہو رہا ہے۔ انہی میں سے ایک فیس لیس کسٹم اسیسمنٹ ہے، کیونکہ زیادہ تر امپورٹس کراچی کی بندرگاہ سے ہوتی ہیں، اس لیے وہاں یہ سسٹم شروع کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے بیرون ملک سے آنے والی درآمدات کے لیے مختلف مختلف اشیاء کو کلیئر کرنے کے لیے گروپس بنا دیے جاتے تھے جس میں درآمد کرنے والے کو یہ پتہ ہوتا تھا کہ اس کی چیز کلیئرنس کس نے کرنی ہے اور اس سے ساز باز کرنا ممکن ہوتا تھا۔ اب ایک ہال میں 40 افسر بیٹھے ہوئے ہیں اور کسی افسر کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ جس جی ڈی پر کام کر رہا ہے وہ کس کی ہے اور سارا کام ایک ہی ہال کے اندر ہوتا ہے اور اس کی سخت نگرانی ہوتی ہے اور ہال میں ٹیلی فون یا ای میل کے استعمال کی اجازت نہیں ہے۔ چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ درآمدی اشیاء کی کلیئرنس میں ٹائم بڑھنے کا تاثر بھی درست نہیں ہے۔ معمولی تاخیر ضرور ہوتی ہے لیکن اس کے کچھ بیرونی عوامل بھی ہیں جن میں بندرگاہ پر بہت زیادہ رش اور پروسیجرل رکاوٹیں موجود ہیں اور اس کی وجہ ایف سی اے نہیں ہے۔ انہوں نے بعض آڈٹ آبزرویشن کے لیک ہونے کے حوالے سے کہا کہ ان میں چیزوں کو غلط طور پر بیان کیا گیا اور بعض باتیں تو کلی طور پر غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی اس غیر قانونی لیک کے ذمہ دار ہیںیا جان بوجھ کر مس رپورٹنگ کر رہے ہیں ان کا احتساب کیا جائے گا۔ ہم اس سسٹم کو مزید بہتر بنائیں گے اور اصلاحات کو ڈی ریل کرنے والوں کے خلاف تمام ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔