Jasarat News:
2025-09-18@13:42:48 GMT

سچیر بالاجی کی پرسرار موت اور ٹریلین ڈالرز کا کھیل

اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT

سچیر بالاجی کی پرسرار موت اور ٹریلین ڈالرز کا کھیل

چیٹ جی پی ٹی بنانے والی کمپنی اوپن اے آئی کے ریسرچر اور بعد میں اسی کے خلاف آواز بلند کرنے والے ہندوستانی نژاد نوجوان سچیر بالاجی اپنی چھبیسویں سالگرہ کے پانچ دن بعد چھبیس نومبر ۲۰۲۴ کو سان فرانسسکو میں اپنے اپارٹمنٹ میں مردہ پائے گئے تھے۔ ان کے اپارٹمنٹ میں پولیس اس وقت داخل ہوئی جب ان کے والدین تین دن سے ان سے رابطہ نہیں کر پارہے تھے۔ جب پولیس داخل ہوئی تو سچیر کی لاش غسل خانے میں پڑی تھی اور ان کے سر پر گولی کا زخم تھا اور غسل خانہ خون سے بھرا ہوا تھا ۔ سان فرانسسکو پولیس نے ان کی موت کو سرسری سی تحقیقات کے بعد خود کشی قرار دے کر کیس بند کردیا تھا۔ اس کے بعد سچیر کے والدین نے نجی انویسٹی گیٹر کی خدمات لیں اور ان کا کہنا یہ ہے کہ جائے وقوعہ پر واضح طور پر سچیر کی مزاحمت کے آثار ملے ہیں۔ سچیر کے والدین قطعی طور پر اس کو خودکشی ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کی والدہ کا کہنا ہے کہ جب آخری دفعہ سچیر سے بات ہوئی تھی اور وہ مطمئن اور خوش تھا اور اس کو زندگی میں کبھی بھی نفسیاتی عارضہ لاحق نہیں رہا۔ سان فرانسسکو پولیس کا یہ عمل اس لیے بھی حیرت انگیز تھا کہ سچیر بالا جی نیویارک ٹائمز کے ایک ہائی پروفائل مقدمے میں ایک اہم ترین ممکنہ گواہ بننے کے لیے تیار تھے جو نیویارک ٹائمز نے اوپن اے آئی کے خلاف اس کے کاپی رائیٹڈ مواد کے استعمال کے خلاف دائر کیا ہوا تھا۔

سچیر نے اپنے زمانہ طالب علمی ہی میں اوپن اے آئی کو جوائن کرلیا تھا اور ان کی والدہ کے بقول وہ شروع میں چیٹ جی پی ٹی پر کام

کرنے کے حوالے سے بہت پرجوش تھے اور اپنے کام کو انسانیت کی خدمت سمجھتے تھے۔ مگر جب سے اوپن اے آئی نے منافع بخش کمپنی کی شکل اختیار کی ان کا ضمیر وہاں کام کرنے پر مطمئن نہ ہوا۔ جیسا کہ اوپن اے آئی کے نام ہی سے ظاہر ہے کہ اس کے قیام کا بنیادی مقصد ایک شفاف اور اوپن سورس مصنوعی ذہانت دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا مگر اپنے اس بنیادی مقصد سے مکمل رو گردانی کرتے ہوئے اوپن اے آئی نے نہ صرف یہ کہ اپنے آپ کو ایک منافع بخش کمپنی میں تبدیل کردیا بلکہ اپنے معاملات نہایت خفیہ رکھے۔

سچیر نے اگست ۲۰۲۴ میں اوپن اے آئی سے اصولی بنیادوں پر اختلاف کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ استعفا دینے بلکہ اس کے خلاف آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ واضح رہے کہ سچیر اوپن اے آئی سے اصولی اختلاف پر استعفا دینے والے پہلے فرد نہیں تھے مگر استعفا دینے کے بعد اوپن اے آئی کے اندرونی مشکوک معاملات کے خلاف گواہی دینے والے پہلے فرد ضرور تھے۔ اس سے پہلے روسی نژاد اے آئی سائنس دان اور بابائے مصنوعی ذہانت جیفری ہنٹن کے شاگرد خاص ایلیا سٹسکیور سیم آلٹمین کے خلاف ناکام بغاوت کرنے کے بعد اوپن اے آئی سے استعفا دے چکے ہیں۔ ایلیا سٹسکیور کو اوپن اے آئی کا اصل دماغ سمجھا جاتا تھا۔ ایلیا سٹسکیور یہ سمجھتے تھے کہ سیم آلٹمین کی قیادت میں اوپن اے آئی ایک نہایت خطرناک رُخ اختیار کرتی جارہی ہے جس کو لگام نہ دی گئی تو یہ انسانیت کے لیے شدید خطرہ بن سکتی ہے۔ خصوصاً ’’کیو اسٹار‘‘ نامی ایک خفیہ پروجیکٹ سے سیم آلٹمین نے بورڈ کو بھی لاعلم رکھا تھا۔ ایلیا سٹسکیور نے بورڈ کی مدد سے سیم آلٹمین کو ہٹوا تو دیا مگر صرف کچھ ہی دنوں میں سیم آلٹمین اس بغاوت کو ناکام بنانے کے بعد اس کروفر سے واپس اوپن اے آئی میں آئے کہ ایلیا سمیت پورے بورڈ کو استعفا دینا پڑا اور بے محابہ بڑھنے والی اے آئی کے آگے حفاظتی بند باندھنے والی ’’اے آئی الائنمنٹ‘‘ کی ٹیم ہی کو تحلیل کردیا گیا۔

سچیر بالاجی نے اکتوبر میں نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اوپن اے آئی اپنے ماڈلز کے ٹریننگ کے لیے کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈیٹا کا حصول کرتا ہے۔ تیئس اکتوبر ۲۰۲۴ کو سچیر نے اپنی ذاتی ویب سائٹ پر ایک تفصیلی آرٹیکل پوسٹ کیا تھا کہ اوپن اے آئی کا انٹرنیٹ پر موجود مواد کا حصول جائز استعمال (فیئر یوز) کے امریکی قانون کے مطابق نہیں ہے۔ ماضی میں جب اوپن اے آئی کی سابقہ سی ٹی او میرا مورتی سے جب وال اسٹریٹ جنرل نے یہ سوال کیا کہ اوپن اے آئی ٹریننگ کے لیے ڈیٹا کا حصول کہاں سے کرتا ہے تو وہ اس کا تسلی بخش جواب نہ دے سکیں تھیں۔

یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اوپن اے آئی کا ڈیٹا کہاں سے آتا ہے۔ بگ ٹیک کو ہمیشہ سے قانون سے کھیلنے کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے اور اس حوالے سے امریکی حکومت کے ارکان آنکھیں ہی بند نہیں کیں بلکہ ٹیکنالوجی کے حوالے سے وہ قطعی نابلد معلوم ہوتے ہیں اور ان کی جہالت کا اظہار امریکی کانگریس میں بگ ٹیک کے نمائندوں کی پیشی اور ان سے کیے گئے سوالات سے ہوتا رہتا ہے۔ سچیر بالاجی بہرحال گھر کے بھیدی تھے اور چیٹ جی پی ٹی کی فائن ٹیوننگ میں ان کا اہم کردار تھا۔ اوپن اے آئی کے معاملات کے خلاف ان کی گواہی اوپن اے آئی کو روک تو شاید نہ پاتی مگر ٹریلین ڈالرز کے اس دھندے میں بدمزگی اور رکاوٹ ضرور پیدا کرتی۔

اوپن اے آئی کے ابتدائی سرمایہ کاروں میں ایلون مسک بھی شامل تھے جنہوں نے بعد میں اوپن اے آئی کے موجودہ سی ای او سیم آلٹمین سے اختلاف کے بعد اپنا سرمایہ نکال لیا تھا۔ ایلون نے بھی اوپن اے آئی کے منافع بخش کمپنی میں بدلنے کے خلاف مقدمہ کر رکھا ہے۔ ایلون مسک کا کہنا تھا کہ اگر کمپنی اپنا نام بدل کر ’’کلوزڈ اے آئی‘‘ کردے تو وہ مقدمہ واپس لینے پر تیار ہیں۔ مگر سیم آلٹمین کا کہنا یہ ہے کہ ایلون مسک کا مسئلہ اوپن اے آئی کے منافع بخش ہونے سے نہیں ہے بلکہ ایلون پوری کمپنی کو ہڑپ کرنا چاہتے تھے۔ سیم آلٹمین کی یہ بات درست لگتی ہے۔ سچیر بالاجی کی موت کے بعد ایلون مسک نے ایف بی آئی سے سچیر کی موت کی تحقیقات کا مطالبہ کردیا ہے جو یقینا سیم آلٹمین سے اپنا پرانا حساب چکانا چاہتے ہیں اور اے آئی کے ٹریلین ڈالزر کے اس کھیل میں اپنا حصہ بڑھانا چاہتے ہیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: سچیر بالاجی سیم ا لٹمین منافع بخش ایلون مسک کے خلاف ا کا کہنا کے بعد کے لیے تھا کہ اور ان

پڑھیں:

مساوی اجرت کی جدوجہد، کھیلوں میں خواتین اب بھی پیچھے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 ستمبر 2025ء) ویمن اسپورٹس یا خواتین کے کھیلوں کے شعبے میں ترقی ہو رہی ہے۔ اس وقت عالمی منظر نامے پر ایک نظر ڈالی جائے تو ایسا ہی لگتا ہے کہ کھیلوں کا شعبہ مساوی تنخواہ کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ یورپی پارلیمان کی ایک رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ 83 فیصد کھیلوں میں اب مساوی انعامی رقم دی جاتی ہے جبکہ فٹ بال، ٹینس اور کرکٹ جیسے بڑے کھیلوں میں خواتین کے میچوں کے لیے اسٹیڈیم بھرے ہونا معمول بن گیا ہے۔

گلوبل آبزرویٹری برائے صنفی مساوات اور اسپورٹس کی عبوری سی ای او لومبے موامبا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جب مساوی تنخواہ اور شرائط کی بات آتی ہے تو کھیل کا شعبہ دیگر شعبوں کے مقابلے میں بدستور پیچھے دکھائی دیتا ہے۔

(جاری ہے)

‘‘

اگرچہ کھیل سے متعلق بہت کم اعداد و شمار موجود ہیں، لیکن یہ اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ صرف 15 سے 25 فیصد ہی نامور خواتین فٹبالرز مرد فٹ بالرز کے مساوی پیسے کماتی ہیں۔

اگرچہ ٹینس جیسا کھیل مستثنٰی ہے، جو تمام ٹورنامنٹس میں مردوں اور عورتوں کے لیے یکساں انعامی رقم کی طرف بڑھ رہا ہے، لیکن زیادہ تر کھیلوں میں ٹاپ کھلاڑیوں کی سطح پر دیکھا جائے تو یہ فرق بہت نمایاں ہے۔

اس فرق کی وجوہات میں تاریخی پابندیاں، سرمایہ کاری کی کمی، پیشہ ورانہ مواقع اور زچگی کی سہولیات کا فقدان شامل ہے۔ سب سے بڑی رکاوٹ یہ تاثر ہے کہ کھیل صرف مردوں کا شعبہ ہے۔

سابق فٹبالر الیکس کلون کے مطابق صرف اعلیٰ تنخواہوں کا موازنہ کرنا مساوی تنخواہ کی بحث کو نقصان پہنچاتا ہے کیونکہ یہ تصویر کا صرف ایک محدود اور مسخ شدہ رُخ دکھاتا ہے۔

الیکس کلون اب عالمی کھلاڑیوں کی یونین FIFPRO کے لیے کام کرتی ہیں۔ان کا مزید کہنا ہے کہ کھیل میں سب سے زیادہ کمانے والوں کی تنخواہوں کا اس طرح موازنہ کرنا مساوی تنخواہ کی دلیل کو نقصان پہنچاتا ہے۔

تنخواہوں کی حد

ڈاکٹر کلون کا کہنا ہے کہ خواتین کھلاڑیوں کے لیے کم از کم تنخواہ مقرر ہونی چاہیے، جیسا کہ امریکہ، برطانیہ اور اسپین کی اعلیٰ لیگز میں ہوتا ہے۔ اس سے کھلاڑیوں کو مالی تحفظ ملتا ہے اور ساتھ ہی کلبز کو خواتین کی ٹیموں میں سرمایہ کاری کی ترغیب ملے گی۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ کھیل میں آمدنی بڑھنے سے تنخواہیں بھی خود بخود بڑھیں گی۔

بنیادی سطح پر تبدیلی

گلوبل آبزرویٹری فار جینڈر ایکویلیٹی اینڈ اسپورٹس کی عبوری سی ای او لومبے موامبا کہتی ہیں کہ صرف مساوی تنخواہوں کا حصول کافی نہیں۔ خواتین کھیلوں میں اکثر بغیر معاوضے یا کم معاوضے کے کام کرتی ہیں (کوچ، ریفری وغیرہ)، ''اس وجہ سے ان کی ترقی کے مواقع محدود ہو جاتے ہیں۔ کھیل میں برابری کے لیے صرف تنخواہ نہیں بلکہ پورے نظام میں تبدیلی ضروری ہے۔

‘‘ صرف تنخواہ نہیں، حالات بھی اہم ہیں

ڈاکٹر کلون کہتی ہیں کہ کچھ فیڈریشنز صرف دکھاوے کے لیے مساوی تنخواہ دیتی ہیں اور خواتین اور مرد کھلاڑیوں کے سفر، سہولیات، کھانے پینے کے معیار وغیرہ میں واضح فرق ہوتا ہے۔ ان کے بقول یہ سب عوامل کارکردگی پر اثر انداز ہوتے ہیں، اس لیے صرف میچ فیس برابر ہونا کافی نہیں۔‘‘

خواتین ٹیموں کو ترجیح نہیں دی جاتی

جسمینا کووِچ، جو چند خواتین فٹبال ایجنٹس میں سے ایک ہیں، بتاتی ہیں کہ کچھ کلبز خواتین ٹیموں میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں ، لیکن سب نہیں، ''کئی کلب کہتے ہیں کہ مردوں کی ٹیم کو ہمیشہ ترجیح دی جائے گی۔

خواتین تب کھیل سکتی ہیں جب میدان خالی ہو۔‘‘ سیاسی خطرات اور قانون سازی

خواتین کے کھیلوں کو ایک بڑا خطرہ کئی ممالک، خاص طور پر امریکہ میں، دائیں بازو کی سیاست کی طرف جھکاؤ سے ہے۔ 1972ء میں متعارف ہونے والے Title IX قانون نے سرکاری فنڈ سے چلنے والے تعلیمی اداروں میں صنفی امتیاز کو ممنوع قرار دیا، جس سے خواتین کی کھیلوں میں شرکت بڑھی۔

یہ قانون امریکہ کی خواتین فٹبال ورلڈ کپ اور اولمپکس میں کامیابی کا ایک اہم سبب سمجھا جاتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا دوسرا دور

ڈونلڈ ٹرمپ نے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے چند دن بعد ایک قانون میں تبدیلی کی، جس کے تحت ٹرانس جینڈر کھلاڑیوں پر خواتین کے مقابلوں میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ ناقدین کے مطابق یہ اقدام خواتین کے کھیلوں کو کمزور کرنے اور ''تنوع، مساوات اور شمولیت‘‘(DEI) کی پالیسیوں کو ختم کرنے کی ایک کڑی ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی ویمن رائٹس ڈویژن کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر ہیتھر بار کے مطابق، ٹرمپ انتظامیہ کی DEI کے خلاف مہم نے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں پر منفی اثر ڈالا ہے، یہاں تک کہ ''جینڈر‘‘ جیسے الفاظ کو بھی امریکی حکومت ناپسند کرنے لگی ہے۔

ادارت: عدنان اسحاق

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل، ایتھوپیا اور سوئز کینال کا نیا کھیل
  • مساوی اجرت کی جدوجہد، کھیلوں میں خواتین اب بھی پیچھے
  • 375 ٹریلین کی بے ضابطگیوں کی رپورٹ حکومت کو بدنام کرنے کی سازش قرار
  • تاریخ میں پہلی بار 2600 ارب روپے قرض قبل ازوقت واپس کیا گیا، ترجمان وزارت خزانہ
  • مالی سال 2025 میں وفاقی خسارہ کم ہو کر 7.1 ٹریلین روپے رہا، وزارت خزانہ کا دعویٰ
  • سوشل میڈیا کی ہوس اور ڈالرز کی لالچ، بچوں نے باپ کے آخری لمحات کا وی لاگ بنادیا
  • محسن نقوی نے کھیل کی عزت بچانے کیلئے درست مؤقف اپنایا: شاہد آفریدی کی چیئرمین پی سی بی کی تعریف
  • آئی سی سی اور بھارت کا دوغلا پن
  • سیلاب کی تباہ کاریاں جاری، اربوں ڈالرز سے تعمیر ہونے والی ایم 5 موٹروے کا بڑا حصہ بہہ گیا
  • سرکاری اداروں کی اجتماعی آڈٹ رپورٹ میں بڑی غلطیوں کا انکشاف