موٹر سائیکل چوروں نے شہری علاقوں کے بعد اسپتالوں کا رخ کرلیا
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)حیدر آباد کے شہری علاقوں میں جہاں موٹر سائیکل چوری کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے وہاں اب اسپتال بھی محفوظ نہیں رہے ہیں سندھ کے دوسرے بڑے سول اسپتال حیدرآباد میں بھی موٹر سائیکل چوری کی وارداتوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور ہفتے کے دوران تین سے چار موٹر سائیکلیں چوری ہونا معمول بن گیا ہے جبکہ اسپتال کا عملہ اور سیکورٹی گارڈز متاثرین سے تعاون کرنے سے انکار کرتے ہوئے متاثرین کو واردات کی سی سی ٹی وی فوٹیج دینے کیلیے پریشان کرتے ہیں۔تفصیلات کے مطابق حیدرآباد کے شہری علاقوں سے موٹر سائیکل چوری کی وارداتوں میں اضافہ کے بعد اب اسپتال بھی چوروں اور لٹیروں سے محفوظ نہیں رہے،سندھ کے دوسرے بڑے سول اسپتال حیدرآباد میں پولیس چوکی،درجنوں سیکورٹی گارڈزاور سینکڑوں سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہونے کے باوجود بھی موٹر سائیکل چوری کی وارداتوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور ہفتے کے دوران تین سے چار موٹر سائیکلیں چوری ہونا معمول بن چکا ہے ،گزشتہ روز بھی امریکن کوارٹرز پٹھان کالونی کے رہائشی نوجوان عبدالشکور کی موٹر سائیکل اسپتال کے میڈیکل وارڈ کے سامنے سے نامعلوم چور تالا توڑ کرچوری کر کے لے گئے اور اس واردات کی سی سی ٹی وی فوٹیج پولیس کو فراہم کیے جانے کے باوجود اب تک موٹر سائیکل برآمد نہیں کی گئی جبکہ اس حوالے سے متاثرہ نوجوان عبدالشکور کا کہنا ہے کہ موٹر سائیکل چوری ہونے کے بعد ہم نے اسپتال کے سیکورٹی عملے سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم تمہاری گاڑیوں کی چوکیداری کیلییے نہیں بیٹھے ہیں جبکہ چوری واردات کی سی سی ٹی وی کیمرہ فوٹیج کے حصول کیلیے بھی اسپتال کے عملے نے صاف انکار کر دیا تھا۔انہوں نے ڈی آئی جی عبدالرزاق دھاریجواور ایس ایس پی حیدر آباد ڈاکٹر فرخ علی لنجار سے مطالبہ کیا کہ سول اسپتال حیدرآباد میں موٹر سائیکلیں چوری ہونے کی وارداتوں میں اضافے کا نوٹس لے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سی سی ٹی
پڑھیں:
کراچی میں ڈاکٹر کی ڈاکٹروں کے خلاف ایف آئی آر درج، معاملہ کیا ہے؟
کراچی کے تھانہ صدر میں ڈاکٹر امتیاز احمد کی جانب سے ڈاکٹر عمر سلطان، ڈاکٹر شاہد علی اعوان اور ڈاکٹر وقار عمرانی امیت 30 سے 35 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: طلبا کے لیے ڈریس کوڈ کا اعلان کیوں کیا؟ جامعہ کراچی نے وضاحت کردی
درج ایف آئی آر میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ 24 اپریل کو وہ جناح اسپتال کے او پی ڈی کمپلیکس میں اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہے تھے کہ اس دوران مذکورہ ڈاکٹروں سمیت 30 سے 35 افراد او پی ڈی میں داخل ہوئے اور او پی ڈی بند کرنے کا مطالبہ کیا۔
ڈاکٹر امتیاز احمد نے بتایا کہ ہم نے جواب دیا کہ ہم او پی ڈی بند نہیں کریں گے جس کے بعد یہ افراد مشتعل ہوئے اور ہم پر تشدد کیا جبکہ او پی ڈی میں توڑ پھوڑ بھی کی۔
درج مقدمے میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ یہ ساری کارروائی ڈاکٹر یاسین عمرانی کے کہنے پر ہوئی ہے لہٰذا ان کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے۔
جناح پوسٹ میڈیکل سینٹر کی ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے ترجمان ڈاکٹر محمد علی کے مطابق مریضوں کو دیکھنے والے ینگ ڈاکٹرز پر ہونے والا تشدد قابل مذمت ہے۔
ترجمان ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے مطابق یہ حملہ ایک انتظامی پوسٹ کے لیے کرایا گیا ہے جس میں باہر کے لوگوں کا تعاون حاصل کیا گیا۔
مزید پڑھیے: چھوٹی سی عمر میں جج، ڈاکٹر اور انجینیئر بننے والی 3 لڑکیوں کی کہانی
ایسوسی ایشن کے ترجمان کے مطابق جناح اسپتال کے سیکیوریٹی انچارج ڈپٹی ڈائریکٹر یاسین عمرانی کو نااہلی کی بنیاد پر ٹرانسفر کیا گیا جس کے بعد ان کی انتظامی پوسٹ کو بچانے کے لیے مریضوں کو علاج سے محروم کرنے کے لیے ایک ناکام کوشش کی گئی۔
ترجمان نے بتایا کہ اس وقت سندھ کے کسی بھی اسپتال میں سروس بند نہیں ہے اور تمام اسپتالوں میں مریضوں کا علاج جاری ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اوپی ڈی کمپلکس جناح اسپتال ڈاکٹر بمقابلہ ڈاکٹر