حکومت کانادرا موبائل ایپ اورریجنل دفاتر کے قیام کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
حکومت نےنادرا موبائل ایپ لانچ کرنے اور3نئے ریجنل دفاتر کے قیام کا فیصلہ کیا ہے۔ محسن نقوی کا کہنا تھا کہ کل17جنوری سے پاک آئی ڈی ویب سائٹ بند کی جا رہی ہے،3نئے ریجنل سنٹر آزاد جموں و کشمیر، گوادر اور گلگت بلتستان میں بنائے جائیں گے، نادرا کی پاک آئی ڈی ویب سائٹ بند کر کے تمام خدمات موبائل ایپ پر فراہم کی جائیں گی،ویب سائٹ کے استعمال میں شہریوں بالخصوص بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو مشکلات پیش آتی تھیں۔ محسن نقوی نے کہا کہ انگلیوں کے نشانات اور مطلوبہ دستاویزات سکین کر کے اپ لوڈ کرنے میں پریشانی ہوتی تھی،جعلساز عناصر جعلی ویب سائٹس کے ذریعے شناختی دستاویزات بنوانے میں معاونت کا کاروبار کر رہے تھے،شہریوں کی ذاتی معلومات حاصل کر کے ان کا غلط استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی تھی،ان سر گرمیوں کے تدارک کے لئے17جنوری سے ویب سائٹ بند کی جا رہی ہے ۔وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا کہ وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ نے جعلساز عناصر کا سختی سے نوٹس لیا ہے، نادرا دیگر اداروں کے ساتھ ملکر ساتھ ان عناصر کے خلاف کارروائی کو یقینی بنا رہا ہے، نادرا کی موبائل ایپ کو پہلے سے بہت مزید بہتر بنادیا گیا ہے، شناختی کارڈ، نائکوپ، پی او سی ، ب فارم ، ایف آرسی سمیت تمام خدمات موبائل ایپ پر دستیاب ہیں۔شہری گھر بیٹھے موبائل ایپ پر شناختی دستاویزات کی تمام تر کارروائی مکمل کر سکتے ہیں، نئے ریجنل دفاتر 31 مارچ سے کام شروع کر دیں گے،ان دفاتر کے قیام سے نادرا حکام اور شہریوں کے درمیان را بطے میں آسانی ہو گی، ریجنل دفاتر کے قیام سے دور دراز علاقوں کے نادرا مراکز میں خدمات کی فراہمی بہتر ہوگی،شہریوں کے مسائل تیزی سے حل ہوں گے ، شکایات کا فوری ازالہ ہو گا۔31مارچ تک ملک کی تمام تحصیلوں میں نادرا دفاتر قائم کرنے کا ہدف پورا کر لیا جائے گا،ملک بھر میں صرف 19 تحصیلوں میں نادرا دفاتر کا قیام باقی تھا، اس ضمن میں کام تیزی سے جاری ہے، 31مارچ تک ان تحصیلوں میں بھی نادرا دفاتر فعال ہو جائیں گے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
کیا امریکا نے تجارتی جنگ میں فیصلہ کُن پسپائی اختیار کرلی؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں ایک بات تو پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے اور وہ یہ کہ اُن کے بارے میں کوئی بھی بات پورے یقین سے نہیں کہی جاسکتی۔ وہ کب کیا کر بیٹھیں کچھ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ پالیسی کے حوالے سے اُن کے بہت سے اقدامات نے انتہائی نوعیت کی کیفیت راتوں رات پیدا کردی اور پھر اُنہوں نے یوں پسپائی اختیار کی کہ دنیا دیکھتی ہی رہ گئی۔
بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے اُن کی سوچ انتہائی متلون ہے۔ وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کہہ جاتے ہیں اور عواقب کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ انتہائی غیر یقینی شخصیت ہیں اور اِس وصف کے ذریعے امریکا کے لیے مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔
ٹیرف کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ اُنہوں نے پہلے تو چین، کینیڈا اور میکسیکو سمیت بارہ سے زیادہ ممالک پر بھاری درآمدی ڈیوٹی تھوپ دی۔ اُن کا خیال تھا کہ درآمدات کو امریکی صارفین کے لیے مہنگا کرکے وہ ملکی صںعتوں کو زیادہ تیزی سے پنپنے کا موقع فراہم کریں گے مگر جو کچھ ہوا وہ اِس کے برعکس تھا۔ جب دوسرے ملکوں نے بھی جوابی ٹیرف کا اعلان کیا تو امریکی مصنوعات اُن ملکوں کے لیے صارفین کے لیے مہنگی ہوگئیں اور یوں امریکی معیشت کو شدید دھچکا لگا۔
صدر ٹرمپ نے جب دیکھا کہ اُن کا اٹھایا ہوا قدم شدید منفی اثرات پیدا کر رہا ہے تو اُنہوں نے قدم واپس کھینچ لیا۔ یوں امریکا نے ٹیرف کے محاذ پر واضح پسپائی اختیار کی۔ اِس پسپائی نے ثابت کردیا کہ امریکا اب من مانی نہیں کرسکتا۔ وہ کوئی یک طرفہ اقدام کرکے کسی بھی ملک کے لیے بڑی الجھن پیدا کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔ دھونس دھمکی کا زمانہ جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ امریکا کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑ رہا ہے۔
طاقت کا معاملہ بھی “وڑتا” دکھائی دے رہا ہے۔ چین اور روس ڈٹ کر میدان میں کھڑے ہیں۔ اُنہوں نے ثابت کردیا ہے کہ اب امریکی فوج کے لیے کہیں بھی کچھ بھی کرنا آسان نہیں رہا۔ منہ توڑ جواب دینے والے میدان میں کھڑے ہیں۔ دور افتادہ خطوں کو زیرِنگیں رکھنے کی امریکی حکمتِ عملی اب ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ افریقا میں بھی بیداری کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یورپ کی ہچکچاہٹ نے امریکا کی مشکلات مزید بڑھادی ہیں۔
ہمارے سامنے اب ایک ایسی دنیا تشکیل پارہی ہے جس میں امریکا اور یورپ ہی سب کچھ نہیں۔ پوری دنیا کو مٹھی میں بند کرکے دبوچے رکھنے کا زمانہ جاچکا ہے۔ بہت سے ممالک نے خود کو عسکری اعتبار سے مضبوط بنایا ہے۔ پاکستان کو انتہائی کمزور سمجھا جارہا تھا مگر اُس نے فضائی معرکہ آرائی میں بھارت کو ناکوں چنے چبواکر امریکا اور یورپ کو پیغام دے دیا کہ اُسے تر نوالہ نہ سمجھا جائے۔ دنیا بھر میں بھارت کی جو سُبکی ہوئی ہے اُس نے یہ بھی واضح اور ثابت کردیا کہ بھارت عالمی طاقت تو کیا بنے گا، وہ علاقائی طاقت بننے کے قابل بھی نہیں ہے۔
یہ تمام تبدیلیاں دیکھ کر امریکی قیادت بھی سوچنے پر مجبور ہے کہ ٹیرف یا کسی اور معاملے میں من مانی سے گریز ہی بہتر ہے۔ صدر ٹرمپ نے چند ہفتوں کے دوران جو طرزِ فکر و عمل اختیار کی ہے وہ اِس بات کی غماز ہے کہ اب سب کچھ امریکا کے حق میں نہیں رہا۔