القادر ٹرسٹ فیصلے کے بعد مذاکرات پر کیا اثر پڑے گا؟
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
پاکستان تحریک انصاف 26 نومبر کے ناکام احتجاج کے بعد سے قدرے کمزور پوزیشن میں نظر آتی ہے، اور دسمبر کے وسط میں پاکستان تحریک انصاف نے حکومت کے ساتھ مذاکرات پر مشروط آمادگی ظاہر کی۔
اس ہفتے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے حکومت کو تحریری صورت میں جو مطالبات پیش کیے گئے اُن میں اوّلین بانی پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی کا مطالبہ تھا،القادر ٹرسٹ کے فیصلے کے بعد جس میں عمران خان صاحب کو 14 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
9 مئی اور 26 نومبر کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کے عدالتی کمیشن بنانے کے مطالبات بھی بظاہر پورے ہوتے نظرنہیں آتے کیونکہ حکومتی مؤقف یہ ہے کہ ان واقعات کے حوالے سے مقدمات عدالتوں میں زیر التوا ہیں، اس لیے عدالتی تحقیقاتی کمیشن نہیں بنایا جاسکتا۔
اگر دیکھا جائے تو 26 نومبر کی ناکامی کے بعد القادر ٹرسٹ مقدمے میں عمران خان کو سزا سنائے جانے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کو خاصا دھچکا پہنچا ہے۔
اس ساری صورتحال میں کیا حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کا جاری رہنا ممکن ہے؟ اور پاکستان تحریک انصاف کا مؤقف کیا ہے؟
پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اور معروف قانون دان بیرسٹرعلی ظفر نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس مقدمے کے فیصلے سے مذاکرات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، مذاکرات چلتے رہیں گے اور ہم اپنی عدالتی جنگ بھی لڑتے رہیں گے۔
اُنہوں نے اُمید ظاہر کی کہ اس فیصلے کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل دائر کریں گے اور اگلے 10 دن میں یہ فیصلہ ختم ہو جائے گا، عمران خان بھی یہی کہتے ہیں کہ مذاکرات میں انہوں نے اپنے لیے کچھ نہیں مانگا، وہ اپنے مقدمات لڑتے رہیں گے اور انصاف کے لیے کوشش کریں گے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہرعلی خان نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کی ہدایت کے مطابق مذاکرات جاری رہیں گے لیکن اگر ایک ہفتے میں ہمارے مطالبات پر پیشرفت نہیں ہوتی تو یہ مذاکرات ختم بھی ہوسکتے ہیں۔
مذاکرات کا جاری رہنا مشکل نظر آتا ہے، ابصار عالممعروف صحافی اور تجزیہ نگار ابصار عالم نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات جاری رہنے کا امکان بہت کم ہے کیونکہ حکومت نے پی ٹی آئی کا تجویز کردہ عدالتی کمیشن بنانے سے تو انکار کر دیا ہے، حکومت کا کہنا ہے کہ کیونکہ مقدمات عدالتوں میں چل رہے ہیں اس لیے کمیشن نہیں بن سکتا، دوسری طرف پی ٹی آئی کی جانب سے ایک ہفتے کی ڈیڈلائن دی گئی ہے تو بظاہر مذاکرات کا جاری رہنا مشکل نظر آتا ہے۔
ابصار عالم نے کہا کہ مذاکرات کے ساتھ ساتھ ٹریک ٹو یا بیک گراؤنڈ میں جو ڈپلومیسی چل رہی ہے اُس میں چیزیں کتنی کامیابی حاصل کرپاتی ہیں یہ دیکھنا پڑے گا، لیکن اِس کے لیے عمران خان کو اپنی احتجاج اور پروپیگنڈا کے طریقوں سے پیچھے ہٹنا پڑے گا کیونکہ اس وقت مخالفین کا پلڑا بھاری نظر آرہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ القادر ٹرسٹ ایسا مقدمہ ہے جس کا تناظر بین الاقوامی ہے اور جس مقدمے میں برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی تحقیقات کر چُکی ہے تو باقی مقدمات کے برعکس، اس مقدمے میں پاکستان تحریک انصاف کے پاس پروپیگنڈا کرنے کا مارجن کم ہے، جیسے دیگر مقدمات کے بارے میں وہ ہمیشہ سے یہ تاثر دیتے رہے ہیں کہ یہ یہ مقدمات غلط قائم کئے گئے ہیں لیکن اِس مقدمے کے بارے میں وہ یہ نہیں کہہ سکتے۔
انہوں نے کہا کہ ملک ریاض اور علی ریاض اس مقدمے کی وجہ سے برطانیہ نہیں جاسکتے۔
ایک سوال کے جواب کہ گزشتہ روز آرمی چیف سے ملاقات کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی قیادت بڑی پرجوش نظر آرہی تھی، ابصار عالم نےکہا کہ ایسا حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان غلط فہمیاں پھیلانے کے لیے دانستہ کیا جاتا ہے، کیونکہ حکومت اور اپوزیشن دونوں چاہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ان کی سائیڈ پر ہو۔ اور پی ٹی آئی قیادت کا ملاقات کے بعد پرجوش ردعمل حکومتی حلقوں میں پریشانی پھیلانے کے لیے بھی ہوسکتا ہے، اسی لیے اسٹیبلشمنٹ کو ذرائع کے ذریعے سے خبر جاری کروانا پڑی کہ ملاقات میں صرف سیکیورٹی معاملات پر بات ہوئی۔
مذاکرات پی ٹی آئی کا دانشمندانہ فیصلہ ہے، احمد بلال محبوبپاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی کے صدر احمد بلال محبوب نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو سزا سنائے جانے سے پاکستان تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان جاری مذاکرات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، یہ بات حکومت بھی کہہ چُکی ہے اور پی ٹی آئی بھی۔دوسری بات یہ ہے کہ سزا کا فیصلہ عدالت سے آیا ہے اور عدالت ہی کے ذریعے اِس فیصلے کو بدلا جا سکتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں کہ عدالتی فیصلوں میں حکومت کس طرح سے پاکستان تحریک انصاف کی مدد کر سکتی ہے، احمد بلال محبوب نے کہا کہ حکومت کا اگر ارادہ ہو کہ وہ عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کو سہولیات دینا چاہتی ہے تو وہ بنی گالا کو سب جیل قرار دے سکتی ہے جہاں عمران خان آرام سے رہ سکتے ہیں، دوسرے یہ کہ جب یہ مقدمے ہائی کورٹ کے سطح پر آئیں تو حکومتی پراسیکیوشن اِن کی سختی سے مخالفت نہ کرے۔
اُنہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے بہت سارے طریقے آزما کے دیکھ لیا، اُنہوں نے ہنگامے کرلیے، احتجاج کرلیا لیکن جب انہیں محسوس ہوا کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دباؤ میں آنے کو تیار نہیں اور اس سب سے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوا تو اس کے بعد انہوں نے اپنا لائحہ عمل بدلنے کے بارے میں سوچا۔
’کوئی کھڑکی دروازہ تلاش کرنے کی کوشش اچھی چیز ہے‘پی ٹی آئی کی مذاکرات پر آمادگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے اںہوں نے کہا کہ انہیں لگتا ہے یہ ان کا اندازہ ہے کہ پی ٹی آئی کی سوچ میں تبدیلی ایک تو 26 نومبر کے ناکام احتجاج سے آئی دوسرے جنرل فیض حمید کی گرفتاری اور تفتیش کے بعد جو چیزیں سامنے آئیں، ہوسکتا ہے اُنہیں وہ چیزیں دکھائی گئی ہوں اور وہ اتنی نقصان دہ ہوں کہ پی ٹی آئی نے بیک ڈور ڈپلومیسی اختیار کرلی ہو۔ لیکن جو بھی ہے مذاکرات ایک خوش آئند فیصلہ ہے، دیوار کو ٹکر مارنے کی بجائے کوئی کھڑکی دروازہ تلاش کرنے کی کوشش اچھی چیز ہے۔
پی ٹی آئی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ ملاقات؛ ایسی ملاقاتوں کے نتائج دو چار مہینے بعد سامنے آتے ہیں؛ ندیم افضل چنوی نیوز کے سوال کہ گزشتہ روز پی ٹی آئی قیادت، اسٹیبلشمنٹ سے ملاقات کے بعد بہت پُراُمید اور پرجوش نظر آرہی تھی تو کیا یہ خوشی بے معنی تھی، سابق وفاقی وزیر ندیم افضل چن نے کہا ایسی ملاقاتوں کے نتائج دو چار مہینوں بعد سامنے آتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ جو کوئی بھی اِس وقت ملک کے لئے نہیں سوچ رہا وہ قومی مجرم ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اپنی انا چھوڑ کر مذاکرات کرنے چاہیئں، مذاکرات کے مستقبل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ سیاست میں مذاکرات تو ہمیشہ چلتے رہتے ہیں اور یہ چلتے رہنے چاہئیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان تحریک انصاف کے پی ٹی ا ئی کی القادر ٹرسٹ کے بارے میں مذاکرات پر ابصار عالم کرتے ہوئے حکومت اور نے کہا کہ کہ حکومت انہوں نے رہیں گے کے لیے ہیں کہ اور اس کے بعد
پڑھیں:
ہونیاں اور انہونیاں
پاکستان میں نظام انصاف میں معاشرے سے زیادہ تقسیم نظر آرہی ہے۔ اب صرف باہمی اختلاف نہیں بلکہ عدم برداشت والا تاثر ابھر رہا ہے۔ اسے ملکی نظام انصاف کی کوئی خوشنما شکل قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ اس سے لوگوں کا نظام انصاف پر اعتماد جو پہلے ہی ڈگمگاہٹ کا شکار ہے، مزید ڈگمگانے کے خدشات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتاہے۔
پاکستان کے لوگ پہلے ہی سیاستدانوں کی لڑائیوں سے تنگ ہیں۔ اگر نظام انصاف کے بارے میں وہ یہی تاثر لیتے ہیں، تو یہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں تو جو کچھ چل رہا ہے، یہ سب کچھ چونکا دینے والا ہے۔ حال میں جو تین واقعات ہوئے ہیں، ان پر ججز پر بحث و مباحثہ شروع ہے جو اچھی روایت نہیں ہے۔ ہمارے لیے تو عدلیہ کا احترام لازم ہے۔ ججز کے لیے ایسا ہی ہے۔ عوام میں یہ تاثر نہیں پیدا ہونا چاہیے کہ ججز اور وکلا تو کچھ بھی کرسکتے ہیں لیکن عوام ایسا نہیں کرسکتے۔
سب سے پہلے ایمان مزاری اور اسلام آباد ہا ئی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کا معاملہ دیکھ لیں۔ کھلی عدالت میں ایک معاملہ ہوا۔ ججز صاحب نے اگلے دن معذرت مانگ لی۔ یہ معاملہ غصہ میں ہوئی گفتگو سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔
میری رائے ہے کہ ایمان مزاری کو معذرت قبول کرلینی چاہیے تھی۔ محترم جج صاحب نے انھیں بیٹی بھی کہا۔ لیکن ایمان مزاری نے اس واقعہ پر سیاست کرنی شروع کر دی جو زیادہ افسوسناک بات ہے۔
ایمان مزاری نے اسلام آباد ہا ئی کورٹ میں جج ثمن رفعت کو چیف جسٹس صاحب کے خلاف ہراسگی کی درخواست دے دی، اس درخواست پر فورا ً تین جج صاحبان پر مشتمل کمیٹی بنا دی۔ یوں صورتحال کس رخ پر جارہی ہے، وہ ہم سب کے سامنے ہے۔
اس سے پہلے اسلام ا ٓباد ہائی کورٹ کے رولز بنانے پر بھی قانونی لڑائی سب کے سامنے تھی۔ سپریم کورٹ میں بھی صورتحال سب کے سامنے ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک ڈبل بنچ نے جسٹس طارق جہانگیری کو کام کرنے سے روک دیا ہے۔ ان کی ڈگری کا معاملہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں جج کی ڈگری ایک حساس معاملہ ہوتی ہے۔
حال ہی میں ایک رکن قومی اسمبلی جمشید دستی کی ڈگری جعلی نکلی ہے تو الیکشن کمیشن نے اسے ڈس کوالیفائی کر دیا ہے۔ یہ قانونی پہلو بھی درست ہے کہ کسی بھی جج کے خلاف کاروائی کرنے کا واحد فورم سپریم جیوڈیشل کونسل ہے۔
بہرحال قانونی نکات اور تشریحات کے معاملات قانون دان ہی بہتر سمجھ سکتے ہیں اور ججز ہی ان پر فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔
پاکستان میں خط میں تو ساتھی ججز کوچارج شیٹ کرنے کا طریقہ تو عام ہو چکا ہے۔ اس حوالے سے میڈیا میں خبریں بھی آتی رہی ہیں۔ بہر حال رٹ پٹیشن میں کسی جج صاحب کو کام کرنے سے روکنے کا اپنی نوعیت کا یہ پہلا معاملہ ہے۔
لیکن میرا خیال ہے کہ آئین وقانون میں جعلی ڈگری کے ایشو پر کسی جج کوکام سے روکنے کی کوئی ممانعت بھی نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آئین اس کی اجازت دیتا ہے۔ اس لیے مجھے فیصلہ میں کوئی قانونی رکاوٹ نظر نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی یہ ایک پنڈورا بکس کھول دے گا۔
پاکستان میں سیاسی تقسیم بہت گہری ہے اور حالیہ چند برسوں میں اس تقسیم میں نفرت ‘عدم برداشت اس قدر بڑھی ہے کہ معاملہ دشمنی کی حدود میں داخل ہو چکا ہے۔ خصوصاً پی ٹی آئی نے جس انداز میں مہم جوئیانہ سیاست کا آغاز کیا ‘اس کا اثر پاکستان کے تمام مکتبہ ہائے فکر پر پڑا ہے۔
پاکستان میں نظام انصاف کے حوالے سے باتیں ہوتی رہتی ہیں تاہم یہ باتیں زیادہ تر سیاسی و عوامی حلقے کرتے تھے ‘زیادہ سے زیادہ وکلا حضرات ذرا کھل کر بات کرتے تھے لیکن نظام انصاف کے اندر اختلافات اور تقسیم کی باتیں باہر کم ہی آتی تھیں لیکن حالیہ کچھ عرصے سے جہاں بہت سی چیزوں میں بدلاؤ آیا ہے ‘یہاں بھی صورت حال میں تبدیلی آئی ہے۔
اب پاکستان کے عام شہری کو بھی بہت سے معاملات سے آگاہی مل رہی ہے کیونکہ بحث و مباحثہ مین اسٹریم میڈیا میںہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا تک پہنچ چکے ہیں۔ سوشل میڈیا کے بارے میں تو آپ کو پتہ ہے کہ چھوٹی سی بات بھی کتنی بڑی بن جاتی ہے اور گلی محلوں تک پھیل جاتی ہے۔