Jasarat News:
2025-07-26@16:41:51 GMT

اصلی ہیرو

اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT

اصلی ہیرو

وہ کتنے اکیلے تھے۔ جب وہ مریضوں کے لیے تڑپتے تھے مریض جن کے لیے وہ واحد اُمید کے طور پر موجود تھے۔ لمحہ لمحہ وہ دُنیا کو اپنے مریضوں کو بچانے کے لیے رپورٹ کرتے رہے، کہتے رہے ہم مر رہے ہیں، دُنیا کو بتادو ایک طویل عرصے 2 ماہ یعنی 60 دن کمال عدوان اسپتال میں محاصرے میں رہے، بمباری ہوتی رہی، اسپتال میں آگ لگادی گئی، پھر بھی وہ باہر نہ آئے، اپنے مریضوں کے ساتھ رہے، شدید زخمی مریضوں کے ساتھ پانی، خوراک، ادویات، بجلی ہر چیز کے بغیر وہ اُن کے ساتھ تھے۔ یہ ہیں ڈاکٹر حسام ابوصفیہ انہوں نے بہت دفعہ کی دھمکیوں کے باوجود اپنی جان بچانے کے لیے باہر نکلنا گوارا نہیں کیا۔ آخری لمحوں تک پہاڑ جیسی استقامت کے ساتھ صہیونی درندوں کے سامنے ڈٹے رہے۔ ویسے امکان ہے کہ صہیونیوں کو درندہ کہنے پر درندے ناراض ہوں اور بُرا مانیں۔ حسام ابوصفیہ جو روسی شہریت رکھتے تھے، چاہتے تو اس سب کے بعد غزہ ہی چھوڑ جاتے۔ لیکن بھلا وہ کیوں کرتے ایسا وہ تو غزہ آئے ہی فلسطینیوں کے لیے تھے۔ انہوں نے ہر چیز برداشت کی، بھوک پیاس گرمی سردی پھر… پھر اپنے بیٹے ابراہیم کی موت جس کو دفنانے کے لیے ان کو صہیونیوں نے اسپتال سے باہر نہیں آنے دیا، انہوں نے اپنے پیارے بیٹے کو اسپتال کی دیوار کے ساتھ دفن کردیا۔ لیکن وہیں رہے۔ کئی دفعہ زخمی ہوئے راتیں جاگ کر گزاریں، لیکن ایک مرد آہن کی طرح انسان خدمت کے لیے ڈٹے رہے۔ بار بار اقوام عالم کو آواز دیتے۔ توجہ دلاتے، انسان المیے کے بارے میں بتاتے لیکن اقوام نے اُن کی نہ سنی۔

وہ اس آخری لمحے تک اپنے مشن پر قائم رہے۔ آخر انہیں صہیونیوں نے گرفتار کرلیا، یہ ہیں ہمارے اصل ہیرو۔ ان کے ایک بیٹے نے ان کی گرفتاری پر پیغام نشر کیا کہ ہم اپنے والد کی گرفتاری اور ان کے بارے میں معلومات نہ ملنے پر درد اور پریشانی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں وہ ہمارے بھائی اور اپنے بیٹے ابراہیم کی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے وہ خود بھی شدید زخمی ہوئے اور آج بھی اس کے اثرات سے دوچار ہیں اس کے باوجود ہمارے والد نے پورے خلوص سے اپنا فرض ادا کیا۔ ڈاکٹر حسان ابوصفیہ کے ساتھ گرفتار کیے گئے کچھ لوگوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنا کر چھوڑا گیا۔ ان رہائی پانے والوں نے بتایا کہ انہیں گرفتاری کے ساتھ ہی رائفل کے بٹوں سے مارا پیٹا گیا، شدید سردی میں کئی گھنٹے برہنہ مظالم کا نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیلی فوج کے بدنام زمانہ ’’سدی تیمان‘‘ حراستی کیمپ سے رہائی پانے والے قیدی محمد الرملاوی نے بتایا کہ اپنی رہائی سے دو دن پہلے میں ڈاکٹر حسام ابوصفیہ سے ملا تو حیران رہ گیا ان کی حالت بہت خراب تھی، ہم ان کی حالت دیکھ کر بے ساختہ رو پڑے۔ وہ ایک قومی شخصیت ہیں، ہمارے رہنما، ہمارے ہیرو۔ الرملاوی قیدی نے کہا کہ ڈاکٹر حسام ابوصفیہ نے بتایا کہ ان کی گرفتاری کے دوران اسرائیلی فوج کی طرف سے ان کے ساتھ بہت بدسلوکی کی گئی۔ مجھ پر بدترین ظلم کیا گیا مجھے بہت ذلیل و رسوا کیا گیا۔ اسرائیلی حکومت ڈاکٹر ابو حسام کے وکیل کو ان سے ملنے کی اجازت بھی نہیں دے رہی جبکہ اس سے قبل وہ ان کی جیل میں موجودگی سے بھی انکار کررہے تھے۔ اب وہ اپنے اس بیانیے کو واپس لے رہے ہیں کہ ڈاکٹر حسام ابوصفیہ اسرائیل میں نظر بند نہیں ہیں۔ یہ اُس دبائو کا نتیجہ ہے کہ جو مختلف ملکوں میں اُن کے لیے احتجاج کا باعث بنا۔ لیکن یہ کوئی خاص نتیجہ نہیں ہے۔ جب تک ان کو اور دیگر تمام قیدیوں کو حفاظت کے ساتھ رہا نہیں کیا جاتا۔ ایک طرف اسرائیلی حکومت کے جرائم انسانی حقوق کی دھجیاں اُڑا رہے ہیں اور دوسری طرف اقوام متحدہ کے اہلکار زبانی کلامی مطالبات اور بیانات پر ہی اَٹکے ہوئے ہیں۔ کیا اُن کا یہ کہہ دینا کافی ہے کہ ’’اسرائیل منظم طریقے سے بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کررہا ہے‘‘۔ وہ تو کررہا ہے آپ کیا کررہے ہیں؟ دنیا کے تین ملکوں امریکا، برطانیہ اور اسرائیل نے مل کر غزہ میں نسل کشی کی باقی ممالک خاموشی سے سب دیکھتے رہے۔ تاریخ یہ بات یاد رکھے گی۔

بتایا جارہا ہے کہ حماس اور اسرائیلی حکومت کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہوگیا ہے۔ قیدیوں کا تبادلہ ہوگیا۔ اُمید ہے کہ ڈاکٹر حسام ابوصفیہ کو رہا کیا جائے گا اور ان کے ساتھ بہت سے فلسطینی جو اسرائیلی جیلوں میں برسوں سے تشدد سہہ رہے ہیں اور جیل کاٹ رہے ہیں لیکن اسرائیل امریکا برطانیہ کو پابند کرنے اور سزا دینے کے لیے اقوام متحدہ اعلان کرے گی؟

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: رہے ہیں کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

غزہ کی مائیں رات کو اُٹھ اُٹھ کر دیکھتی ہیں ان کے بھوکے بچے زندہ بھی ہیں یا نہیں

غزہ کی بدنصیب مائیں رات بھر جاگ کر بس یہ دیکھتی رہتی ہیں کہ ان کے غذائی قلت کے شکار بچے سانس لے بھی رہے ہیں یا نہیں۔

امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کے نمائندوں نے غزہ میں ان بے چین اور مضطرب ماؤں سے ملاقاتیں کیں جن کے جگر گوشے بھوک سے موت کی دہلیز پر پہنچ گئے ہیں۔

7 اکتوبر 2023 سے اسرائیل کی غزہ پر جاری مسلسل بمباری اور محاصرے کے باعث لاکھوں فلسطینی مہلک فاقہ کشی کا سامنا کر رہے ہیں۔

بچے کثیر تعداد غذائی قلت کے باعث اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ ایسے بچوں کی تعداد 300 سے زائد ہیں جب کہ 9 لاکھ بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔

امریکی نشریاتی ادارے CNN کے نمائندوں کو ایک ماں نے بتایا کہ اسپتال کے صرف اس کمرے میں 4 بچے غذائی قلت سے مر چکے ہیں۔

غم زدہ ماں نے خوف کے عالم میں کپکپاتے ہوئے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ میری بیٹی پانچویں ہوگی جس کا وزن دائمی اسہال کے باعث صرف 3 کلوگرام رہ گیا ہے۔

بےکس و لاچار ماں نے بتایا کہ میں خود کمزور ہوں اور اپنی ننھی پری کو دودھ پلانے سے قاصر ہوں۔ رات میں چار یا پانچ بار اُٹھ کر دیکھتی ہوں، بیٹی کی سانسیں چل رہی ہیں یا وہ مجھے گھٹ گھٹ کر مرنے کے لیے چھوڑ گئی۔

غزہ میں کئی ماؤں نے سی این این کو بتایا کہ انہیں اپنے بچوں کو دودھ پلانے کے لیے کافی دودھ نہیں مل رہا ہے۔ فارمولا دودھ دستیاب نہیں۔ لوگ چائے یا پانی پر گزارہ کر رہے ہیں۔

اسی طرح ایک اور ماں ہدایہ المتواق نے اپنے 3 سالہ بیٹے محمد کو غزہ شہر کے العہلی العربی ہسپتال کے قریب ایک خیمے کے اندر پالا ہے۔

جس کا وزن اب صرف 6 کلوگرام (تقریباً 13 پاؤنڈ) ہے جو چند ماہ قبل 9 کلوگرام تھا۔

جبر کی ماری ماں نے روتے ہوئے بتایا کہ اس کا 3 سالہ بیٹا اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو سکتا۔ اگر کھانا ہے تو ہم کھاتے ہیں اگر نہیں تو اللہ پر بھروسہ کرنے کے سوا کوئی کچھ نہیں۔

سی این این کے نمائندوں نے بتایا کہ غزہ کے پناہ گزین کیمپوں اور اسپتالوں کے ہر کمرے میں یہی منظر ہے۔ بچوں کی آنکھیں دھنسی ہوئی اور پسلیاں نکلی ہوئی ہیں۔

 

متعلقہ مضامین

  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • سمیع خان نے علیزہ شاہ اور منسا ملک کے جھگڑے کی اصل کہانی بتا دی
  • غزہ کی مائیں رات کو اُٹھ اُٹھ کر دیکھتی ہیں ان کے بھوکے بچے زندہ بھی ہیں یا نہیں
  • فرانس؛ اسرائیل کیخلاف لبنانی مزاحمت کے ہیرو ابراہیم عبداللہ 40 سال بعد قید سے رہا
  • "اکلوتا بیٹا، دو بچوں کا باپ ہوں، والد کی وفات کے بعد گھر والوں کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں، جعلی پرچوں کا نشانہ ہوں" حماد اظہر کا جذباتی پیغام
  • فساد قلب و نظر کی اصلاح مگر کیسے۔۔۔۔۔ ! 
  • جنت مرزا کو کس بھارتی ہیرو کیساتھ کام کرنے کی پیشکش ہوئی؟ ٹک ٹاک اسٹار نے بتا دیا
  • سوشل میڈیا اور ہم
  • کیا کومل میر نے چہرے پر بوٹاکس کروایا ہے؟ اداکارہ نے بتا دیا
  • جرگہ کا فیصلہ یا پھر دل کا ۔۔؟