بھارت میں معیارِ زندگی پاکستان سے بہتر ہے، وہاں خوشی زیادہ ہے: دیپک پروانی
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
پاکستانی معروف فیشن ڈیزائنر و اداکار دیپک پراوانی کا کہنا ہے کہ بھارت میں پاکستان کے مقابلے میں زندگی کا معیار بہتر ہے، وہاں خوشی زیادہ ہے۔
30 سال قبل ڈرامہ سیریل ’بڑے ابو‘ میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے دیپک پروانی نے حال ہی میں ایک یوٹیوب پوڈ کاسٹ کے لیے انٹرویو ریکارڈ کروایا ہے۔
انٹرویو کے دوران دیپک پروانی نے بھارتی شہر جے پور میں اپنے کام اور دورے سے متعلق تجربہ شیئر کیا ہے۔
دیپک پروانی نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے مقابلے ہندوستان میں معیارِ زندگی زیادہ بہتر ہے، وہاں کے لوگ خوش ہیں، مسکراتے ہیں اور مطمئن نظر آتے ہیں۔
انہوں نے ہندوستان میں خواتین کو حاصل ہونے والی آزادی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ بھارتی لڑکیاں سڑکوں پر آزادی سے چلتی ہیں، سائیکلیں اور موٹر سائیکلیں چلاتی ہیں۔
دیپک پروانی نے بھارت کا لاہور کے ماحول کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ لاہور میں بھی ایسا ہی ماحول ہے، مگر کراچی ایسا نہیں ہے، کراچی میں پارکس ہیں مگر وہاں جانے کی اجازت نہیں ہے۔
اداکار کا کہنا ہے کہ بھارت میں رکشے والے کے پاس بھی اوبر ہے اور پانی پوری والے کے پاس بھی ٹیپ کرنے کی سہولت موجود ہے، وہاں پارکس ہیں، وہاں صرف کنکریٹ کے جنگل نہیں ہیں۔
دیپک پروانی نے یہ بھی کہا ہے کہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کہ بھارت
پڑھیں:
دیامر اور اس کا سیاحتی مقام بابوسر اداس، سیلاب سے ہرطرف تباہی کے مناظر
سیاحوں کی جنت کہلانے والا گلگت بلتستان کا ضلع دیامر اور اس کا سیاحتی مقام بابوسر اداس ہے۔ 4 روز قبل آنے والے سیلاب سے ہرطرف تباہی کے ایسے مناظر ہیں جو شاید پہلے کبھی نہ دیکھے ہوں۔
پیر کو تھک نالے میں آنے والے سیلاب کی تباہی کے مناظر دکھانے کے لیے جیو نیوز کی ٹیم ناران کاغان کے راستے سے ہوتی ہوئی دیامر پہنچی، لوش لال پڑی اور تھک کے مقام پر 8، 9 کلومیٹر کا سفر کبھی پیدل اور کہیں موٹر سائیکل پر طے کیا۔
وہاں پہنچے تو ایسا محسوس ہوا جیسے سیلاب گزرنے کے بعد ہر طرف تباہی ہی تباہی ہے، یوں لگا جیسے چٹانیں سڑکوں پر آگئی ہوں، سڑکیں، راستے سب ختم ہو چکے ہیں اور وہاں ہتھر ہی پتھر موجود ہیں۔
بجلی کے پول، متعدد گاڑیاں اب بھی تھک نالے کے قریب دھنسی ہوئی ہیں۔
ڈاکٹر مشعل فاطمہ اور ان کے دیور فہد اسلام کی نماز جنازہ حامد سعید کاظمی نے پڑھائی، نماز جنازہ شاہدہ اسلام میڈیکل کالج کے گراؤنڈ میں ادا کی گئی، جس میں اراکین اسمبلی، شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
مقامی لوگ اور ریسکیو اہلکار دھنسی ہوئی گاڑیوں کو نکالنے میں مصروف ہیں، تباہ ہونے والی کوسٹر میں کھانے پینے کا سامان اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ سیاح کس افراتفری میں یہاں سے نکلیں ہوں گے۔
گاڑی میں پانی کی بوتلیں اور بچوں کی واکرز بھی نظر آئی، کوسٹر کا ڈرائیور اپنی گاڑی کیلئے پریشان ہے اور وہ اب بھی اسی مقام پر جیو نیوز کو نظر آیا۔
سیاحتی مقام پر موجود ہوٹل کی پارکنگ میں محفوظ رہ جانے والی کئی گاڑیاں کھڑی ہیں۔ سڑک بہہ جانے سے آمد و رفت معطل ہے اور سیاح وہاں پھنس جانے والی قیمتی گاڑیوں کیلئے پریشان ہیں۔
وہاں کچھ عینی شاہدین سے جیو نیوز سے بات چیت ہوئی انہوں نے بتایا کہ سیلاب کی نذر ہونے والے سیاحتی مقام پر عموما زیادہ رش رہتا تھا، اچانک سیلاب آنے کے وقت بھی وہاں 14، 15 گاڑیاں کھڑی تھیں۔ لوگوں نے آوازیں دی لیکن پھر بھی کچھ سیاح گاڑیوں میں بیٹھے رہے۔ کچھ لوگ لینڈ سلائیڈنگ کی ویڈیو بناتے رہے۔
وہاں واٹر اسکیمز بہہ جانے سے پینے کا پانی ناپید ہوچکا ہے، بجلی معطل ہے۔
سیاحوں کی جنت کہلانے والا یہ بابوسر اداس ہے، ویران ہے اور حکومت کی جانب سے کسی بڑے امدادی آپریشن کا منتظر ہے۔