محبت کا گھر: میانمار میں منشیات کے عادی افراد کے لیے ایک نئی امید
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 جنوری 2025ء) ینگون میں واقع ایک ہاسٹل سے ہر روز صبح چھ بجے کے قریب ایک سو سے زیادہ مرد باہر نکلتے ہیں۔ ان سب کے سر منڈے ہوئے ہیں، اور یہ لوگ ایک مخصوص مقصد کے تحت اکٹھے ہوتے ہیں۔
ان کے دن کا آغاز سخت جسمانی مشقوں سے ہوتا ہے جن میں وزن اٹھانا، کراٹے کی مشقیں اور رقص شامل ہیں، جس کے بعد بودھ مت کی مذہبی دعائیں کی جاتی ہیں۔
یہ کوئی عام تربیتی کیمپ نہیں، بلکہ میانمار میں منشیات کے عادی افراد کے لیے بحالی کا ایک منفرد مرکز ہے۔
'محبت کا گھر' میں ایک اور دن کا آغاز'میٹا سینائین' میں ایک اور دن کا آغاز ہو چکا ہے۔ برمی زبان میں اس لفظ کا مطلب ہوتا ہے 'محبت کا گھر'۔اس بحالی مرکز میں منشیات کے عادی افراد کو سخت محنت اور محبت کے ذریعے نئی زندگی کی راہ پر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
(جاری ہے)
یہاں آنے والے افراد کو منشیات کی عادت چھوڑنے میں مدد فراہم کی جاتی ہے، اور ان کو زندگی کے نئے راستے دکھائے جاتے ہیں۔میانمار طویل عرصے سے دنیا کے بڑے منشیات تیار کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔ منشیات کی یہ صنعت نہ صرف اربوں ڈالر کا کاروبار ہے بلکہ کئی دہائیوں سےجاری اندرونی جھگڑوں کی وجہ بھی رہی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ حکام نے اس مسئلے کو زیادہ تر نظر انداز کیا ہے، جس کی وجہ سے یہ مسئلہ بڑھتا ہی گیا۔
2021 کی فوجی بغاوت کا اثر
سن دو ہزار اکیس میں فوج کی بغاوتکے نتیجے میں پیدا ہونے والے انتشار نے میانمار کی معیشت کو تباہ کر دیا۔ اقوام متحدہ کے مطابق، میانمار اب دنیا میں افیون پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک اور میتھمفیٹامین جیسی خطرناک منشیات کی تیاری کا اہم مرکز بن چکا ہے۔
یہ منشیات زیادہ تر دوسرے ایشیائی ممالک، آسٹریلیا اور یورپ اسمگل کی جاتی ہیں۔
تاہم، ملک کے تجارتی مرکز اور اہم بندرگاہ ینگون کی گلیوں میں منشیات حاصل کرنا نہایت آسان ہے۔ آنگ کی کہانیبتیس سالہ آنگ، جنہوں نے پیشہ ورانہ وجوہات کی بنا پر اپنا مکمل نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی، ایک ٹرینڈ ڈاکٹر تھے اور اپنا کلینک چلا رہے تھے۔ لیکن جب انہوں نے پہلی بار میتھمفیٹامین کا استعمال کیا، تو ان کی زندگی کا رخ بدل گیا۔
تین سال کے اندر یہ لت ان کی زندگی پر اس قدر غالب آ گئی کہ انہوں نے سب کچھ کھو دیا۔ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ "میں نے سب کچھ کھو دیا۔ منشیاتنے مجھے ایک کامیاب انسان سے ایک گمشدہ نوجوان میں بدل دیا۔" انہیں تین بار ہسپتال میں داخل کیا گیا، اس کے بعد ان کے والدین انہیں گھر لے آئے۔
انگ کا کہنا تھا، 'میٹا سینائین' میں "مختلف قسم کی جسمانی مشقوں جیسے کراٹے طرز کی تربیت، رسہ کھینچنے کے مقابلے اور مراقبہ کی نشستوں میں شرکت کرنا خاص طور پر اس وقت مشکل تھا جب نشے کی طلب ابھی تک باقی تھی۔
" شروع میں یہاں رہنا ذرا مشکل تھا۔انگ بتاتے ہیں، "وہ ہمیشہ ہمیں کسی نہ کسی سرگرمی میں مشغول رکھتے ہیں، لیکن بعد میں میں اس کا عادی ہو گیا۔ اب میرے پاس بے وجہ رہنے کا وقت نہیں ہے۔"
ماہرین کی رائےانگون پٹاراکورن، تھائی لینڈ میں پرنسس مدر نیشنل انسٹیٹیوٹ فار ڈرگ ایبیوز ٹریٹمنٹ کے ماہر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سخت طریقے عارضی طور پر مددگار ثابت ہو سکتے ہیں، لیکن ان کو ہر فرد کی ضروریات کے مطابق ڈھالنا ضروری ہے۔
انہوں نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا اگر کسی کو دل کی بیماری ہو، تو اسے زیادہ ورزش کرنے کے لیے کہنے سے اس کی حالت بہتر نہیں ہو سکتی۔ اور جو لوگ ذہنی مسائل سے دوچار ہوں، وہ مراقبے کے طریقے پر اچھا ردعمل نہیں دے سکتے۔"
'محبت کا گھر' کا طریقہ کارمرکز کے منتظم سان شین نے کہا کہ منشیات ہر جگہ دستیاب ہیں کیونکہ انہیں کنٹرول کرنے میں کچھ مشکلات ہیں، جو موجودہ تنازعہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مرکز کا ورزش اور مراقبے پر زور دینے والا طریقہ مریضوں کو "جسمانی اور ذہنی طور پر بہتر بنانے میں مدد دیتا ہے۔" ان میں سے بعض کے تو اب سکس پیک ایبز بھی بن گئے ہیں۔
یہ طریقہ 26 سالہ زاؤ وان کے لیے ایک نیا راستہ بن چکا ہے، جو چار سال پہلےہیروئنکی عادت چھوڑنے کے لیے مرکز میں داخل ہوئے تھے اور اب وہ اس مرکز میں نگران کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
جب وہ یہاں آئے تو وہ 40 مریضوں میں سے ایک تھے، جن میں سے بیشتر ماریجوانا، میتھمفیٹامین کی گولیاں یا ہیروئن کے عادی تھے۔اب مرکز میں مریضوں کی تعداد تین گنا بڑھ چکی ہے۔
علاج کی قیمت اور مرکز کا کردارمریضوں کے رشتہ دار "محبت کا گھر" میں ان کے علاج کے لیے ادائیگی کرتے ہیں، جو مریض کی حالت کے مطابق 400,000 سے ایک ملین میانماری کیات یا 90 سے230 ڈالر تک ہوتی ہے۔
کِن کِن ون، جو میانمار ڈرگ ایڈکٹس ری ہیبلیٹیشن ایسوسی ایشن (سنٹرل) کی سیکریٹری ہیں، نے کہا کہ اس مرکز نے پچھلے سال میں 200 سے زائد افراد کا علاج کیا ہے۔
یہ مرکز منشیات کے عادی افراد کو نیا آغاز دینے کے لیے ایک اہم مقام بن چکا ہے، جہاں علاج کے اخراجات مریضوں کی حالت کے مطابق ہیں۔
آنگ کا نیا آغازسالوں کی اذیت کے بعد، آنگ اب مرکز میں بطور رضاکار ڈاکٹر کام کر رہے ہیں اور ان کا ارادہ ہے کہ وہ اپلائیڈ سائیکالوجی میں ڈگری حاصل کریں۔
انہوں نے کہا کہ اب ان کے خاندان کو ان کے بارے میں کچھ امید نظر آنے لگی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ، "میں اب دوبارہ نشہ نہیں کرنا چاہتا۔ یہ میرے لیے ایک خوفناک تجربہ رہا ہے۔"
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے محبت کا گھر میں منشیات نے کہا کہ کے مطابق انہوں نے کی جاتی لیے ایک کے لیے
پڑھیں:
کتاب ‘جھوٹے روپ کے درشن’ پر تبصرہ
راجہ انور صاحب کی کتاب ‘جھوٹے روپ کے درشن’ پڑھی، یہ کتاب راجہ انور اور کنول کی حقیقی محبت کے کمال و زوال پہ مرتب ہے۔ کتاب 2 سالہ خطوط پہ مشتمل ہے جو کہ 1972 سے 1974 تک محب اور محبوب کی روزمرہ زندگی کے احوال پر مشتمل ہے۔
کتاب کے مصنف راجہ انور صاحب پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم اور وہاں کے اسٹوڈنٹس پالیٹکس میں فعال کردار ہیں۔ راجہ انور مالی حوالے سے غریب مگر انتہائی ذہین، قابل، متحرک اور طلبا کے پسندیدہ شخصیت ہیں، وہ طلبا حقوق کے لیے سرگرم آواز اور باشعور رہنما ہیں، اسی پاداش میں وہ قید و بند بھی رہے۔ اس تصنیف سے پہلے وہ ‘بڑی جیل سے جھوٹی جیل تک’ کتاب لکھ چکے۔
طلبا یونین ہی کے اک پروگرام میں راجہ انور کا تعارف کنول نامی لڑکی سے ہو جاتا ہے، کنول خوبصورت اور امیر کبیر گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں، کنول اسٹوڈنٹس پالیٹکس میں ہلکا پھلکا کام کرتی ہیں۔
دونوں کے آپسی تعارف دوستی میں بدل جاتی ہے اور روزمرہ کی قربت باہمی محبت میں۔ یہاں سے راجہ انور اور کنول ایک دوسرے کو خطوط لکھنا شروع کر دیتے ہیں، جس کا مجموعہ یہی کتاب ‘جھوٹے روپ کے درشن’ ہیں۔
راجہ صاحب کا مطالعہ وسیع ہے، مذہب، سیاست، ریاست، معاشرت، محبت وغیرہ ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔
راجہ انور آزاد خیال اور فکری طور پہ زرا ایڈوانس منش ہیں۔ معاشرتی اقدار و روایات وغیرہ کو فضول سمجھتے ہیں، اپنے ایک خط میں کنول کو اس حوالے سے لکھتے ہیں،
‘ہم بھی کیا لوگ ہیں، بے جان روایتوں کے قبرستان میں دفن۔تہذیب، شرم اور حجاب ایسے بانجھ الفاظ کے سحر میں گرفتار… زندہ لاشیں’
راجہ صاحب اسی سوچ کے ساتھ اپنے خطوط میں آراء کا بے ساختہ اظہار کرتے ہیں، وہ پرائیویٹ اور انتہائی ذاتی نوعیت کی باتیں آسانی سے اور نارملی کہہ دیتے ہیں، جیسے وہ گرل فرینڈ بوائے فرینڈ نہیں میاں بیوی ہوں یا اس سے بھی آگے اور کچھ۔
راجہ صاحب جس لڑکی سے محبت کرتے ہیں، وہ پہلے ہی اپنے کزن خرم نامی لڑکے کی منہ بولی منگیتر ہے، خرم اچھے خاصے مالدار گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اور بڑی کار کوٹھی رکھتا ہے۔ خرم بھی کنول کی محبت میں گرفتار ہوتا ہے اور وقتاً فوقتاً کنول سے میل ملاقات کرتا ہے۔ خرم اور کنول کے تعلق سے راجہ صاحب بخوبی واقف ہیں، البتہ خرم راجہ صاحب کو نہیں جانتے۔ ایک خط میں راجہ صاحب کنول کو اپنے رقیب یعنی خرم کے حوالے سے لکھتے ہیں۔
‘لوگ خوش فہمیوں کی دنیا بسائے بیٹھے ہیں۔ اندازہ کرو، تم مجھ سے چھپ چھپ کر ملتی ہو مگر وہ شخص تمہیں حور سمجھتا ہے، تم اسے فرشتہ کہتی ہو حالانکہ وہ بھی حور ہی کی مانند فرشتہ ہوگا۔ میں حقیر سا انسان تم فرشتوں اور حوروں کے درمیان پس کر رہ گیا ہوں۔ تم میرے سامنے ایک اور مرد سے ملتی ہو، میں تمہیں پھر بھی دیوی کہتا ہوں، وہ نہیں جانتا تم کسی اور سے ملتی ہو، اس لیے تمہیں حور جانتا ہے۔ تم سے کون زیادہ پیار کرتا ہے؟ تم ہی فیصلہ کر لو’۔
آپ اندازہ لگائیں راجہ صاحب کتنی کمال مہارت سے کنول کو اپنی جانب متوجہ کرا رہے ہیں، کیسی جسٹیفیکیشن اور زبردست دلیل دے رہے ہیں۔
راجہ صاحب کی معاشرے پہ گہری نظر ہے، وہ انسانی نفسیات و مسائل جانتے ہیں، وہ عام لوگوں سے بہت الگ سوچتے اور سمجھتے ہیں۔ ایک خط میں راقم ہیں کہ ‘محبت اور جنس (Sex and Love) درحقیقت ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں؛ جنس کے بغیر محبت کی حیثیت دیوانے کے خواب کی سی ہے اور محبت کے بغیر جنس محض خود لذتی ہے۔ ہمارے یہاں شادی کو جنس سے وابستہ کردیا گیا ہے، حالانکہ شادی تو 2 انسانوں کے درمیان محض ایک سماجی معاہدے کا نام ہے، ایک طرح کا معاشی تحفظ ہے’۔
راجہ صاحب خط میں روزمرہ حالات بتاتے ہوئے اپنی دل کی بات بھی رکھ دیتے، وہ ہر حال میں کنول کو اپنے قریب لانے کی کوشش کرتے؛ لکھتے ہیں، ‘جان لو، بچوں سے لے کر بڑوں تک….. افراد سے لے کر اقوام تک…. سبھی جھگڑے ‘میرے اور تیرے’ کے پیدا کردہ ہیں، یہ میرا تیرا اگر ‘ہمارے’ میں بدل جائے تو شاید فساد ختم ہو پائیں’۔
راجہ صاحب اعلیٰ ظرف رکھتے ہیں، باوجود کنول کا عاشق ہونے کے، وہ اپنے محبوب کے محب، اپنے رقیب یعنی خرم کو برا بھلا نہیں کہتے، راجہ صاحب خرم سے خوف زدہ ضرور ہیں مگر ان کے خلاف سازشی کردار ادا نہیں کیا، خرم کے بارے کنول سے شکوہ کناہ ہیں، خط میں لکھتے ہیں۔
‘مجھے اس سے صرف یہ گلہ ہے کہ وہ مجھے تمہاری قربت سے محروم کر دیتا ہے۔ جب تک وہ یہاں رہتا ہے تنہائیاں سر پر بازو رکھے میرے اردگرد بین کرتی رہتی ہیں۔ ان دِنوں مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے تم ایک ایسی ماں ہو جس نے ایک بیٹا تو دنیا کے رواج کے مطابق جنم دیا، اسے تم اٹھائے پھرتی ہو، اس کے ماتھے پر سیاہ نشان لگاتی ہو کہ وہ نظربد سے بچا رہے، لوگوں سے اسے ملواتی ہو، گھنٹوں اسے ساتھ لیے رہتی ہو۔ مگر مجھے ایک ایسا بچہ بنا دیتی ہو، جسے تم نے بن باپ کے پیدا کیا تھا۔ مجھے دنیا کے سامنے اپنا کہنے سے شرماتی ہو، اس کی موجودگی میں تم مجھے روتا دھوتا چھوڑ کر چل دیتی ہو، پھر دنیا کی نظروں سے بچ بچا کر اندھیرے میں منہ لپٹے پل دو پل کے لیے مجھے بہلانے کے لیے آجاتی ہو۔ خرم میرے وجود کو ناجائز بنا دیتا ہے’۔
دلیل دیکھیں، مثال و مزاج دیکھیں۔ لیکن یہاں راجہ صاحب کا کا عشق اور ظریف بھی دیکھیں، وہ کنول سے کہتے ہیں کہ ‘اگر تم خرم سے پوچھ کے مجھے یقین دلا دو کہ تم خرم سے شادی کے بعد بھی مجھے ملو گی تو مجھے منظور ہے، اگر وہ یہ اجازت نہیں دیتا تو مجھ سے شادی کر لو، میں تمہیں شادی کے بعد خرم سے ملنے کی اجازت دونگا’۔ راجہ صاحب کی ہمت، عظمت اور اعتبار دیکھیں۔
راجہ صاحب کنول کے حقیقی عاشق ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، اور یہ بات فلسفیانہ انداز میں کنول کو بھی سمجھاتے ہیں، خط میں کنول سے مخاطب ہیں،تم بہت خوبصورت ہو۔ یقین کرو اگر خوبصورت نہ ہوتیں، تب بھی میں تمہیں اتنا ہی چاہتا۔ حُسن تو ایک اضافی اور بے معنی شے ہے، میری آنکھ میں ہے نہ تمہارے جسم میں، بلکہ ان دونوں کے درمیان پیدا ہونے والے رشتے کے احساس کا نام ہے۔
تم نے کہا تھا کہ مستقبل کے متعلق ابھی بات نہیں کریں گے؛ ٹھیک ہے، بات نہ کرنا اور ہے مگر سوچنا، اس سے قطعی علیحدہ شے ہے۔ اظہارِ بیان پر تو پابندی لگ سکتی ہے مگر میرے ذہین پر بھی قُفل لگا جاؤ، وہ ہر لمحہ تمہارے سوا کچھ سوچتا ہی نہیں۔ میں کیا کروں؟ تم ہی کچھ سوچو اور کوئی طریقہ بتاؤ۔
راجہ صاحب میل ملاقاتوں میں کنول سے مستقبل کے بارے اصرار کرتے ہیں، شادی کی گنجائش نکالنے پہ گفتگو کرتے ہیں، کنول بھی کسی حد تک یہی چاہتی ہے کہ راجہ صاحب سے اس کی شادی ہو لیکن کنول کے گھر بار اور فیملی اسٹیٹس راجہ صاحب کی قسمت کے آگے دیوار بنی رہتی ہے۔
دن اور مہینے تیزی سے گزرتے ہیں، دونوں مستقلاً یکجاں ہونے کا سوچتے ہیں کہ یونیوسٹی کے امتحانات سر پر آجاتے ہیں اور ان دونوں کو جدائی کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ امتحان ہوتے ہی کنول کالج سے گھر چلی جاتی ہے۔ اب خط و کتابت محدود مگر محبت شدت اختیار کر جاتی ہے۔ ادھر خاندان میں کنول کی شادی کی سرگوشیاں شروع ہوتی ہیں، جبکہ گھریلو پریشانیوں اور سخت روایات کے سبب کنول راجہ صاحب کا نام لینے سے کتراتی ہے۔ اسی لیے کنول فلحال کچھ عرصہ آرام کا بہانہ کرکے شادی روکنے کی کوشش کرتی ہیں۔
یہاں تک حالات تقریباً ٹھیک رہتے ہیں، مگر ایک دن راجہ صاحب کے خط کنول کے گھر والوں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں، وہ کنول کو ڈانٹ ڈپٹ کرکے معاملہ رفع دفعہ کر لیتے ہیں مگر کچھ دن بعد مزید خطوط گھر والوں کے سامنے آتے ہیں، جس سے تشویش بڑھ جاتی ہے اور صورتحال نازک ہو جاتی ہے جبکہ کنول کی شادی خرم سے کرنے کی تیاری زور پکڑ لیتی ہے۔
کنول راجہ صاحب کو سارے واقعات بتاتی ہے اور ایک دن خط میں خرم سے اپنی منگنی کی خبر دے دیتی ہے۔
بس پھر کیا تھا، کنول کی منگنی کی خبر دیکھتے ہی راجہ صاحب کا تمام غیض و غضب ایک طویل خط میں جمع ہو جاتا ہے۔ راجہ صاحب شکوے شکایتوں کے انبار لگا دیتے ہیں۔ بلکہ کنول کو نیچا دیکھنے کی خاطر اسے اک طوائف سے بھی کمتر ثابت کرتے ہیں، الزامات اور طنعوں کی بھرمار کرتے ہیں۔ اس ایک خط میں راجہ صاحب کا تمام فلسفہ، محبت، زمانہ شناسی، ضبط اور بھرم سب آشکار ہوجاتے ہیں۔
راجہ صاحب جو تمام صورتحال سے واقف ہیں، زمانے کے روایت اور لوگوں کے مسائل جانتے ہیں، باوجود اس کے وہ کنول کو مال و دولت اور کار کوٹھی کا لالچی کہہ دیتے ہیں، حالانکہ پوری کہانی میں کہیں بھی کنول نے راجہ صاحب کو شادی کے لیے مکمل طور پہ گرین سگنل نہیں دیا، بلکہ ہر جا یہ خدشہ پیش کیا کہ گھر والوں نے اس کا رشتہ خرم سے طے کر رکھا ہے۔
راجہ صاحب نے آخری خط کے آخری جملے میں لکھا ہے کہ ‘باقی حساب ہماری نسلیں آپس میں طے کر لیں گے’۔
محبت کرنے والے لوگ اور خاص کر ناکام عاشق راجہ صاحب اور کنول کی فکری نسل سے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو میں راجہ صاحب کے سیکنڈ لاسٹ خط اور ان کے طرزِ عمل سے شدید اختلاف کرونگا، یہ کیا بات ہوئی جب تک محبوب میرا تھا، میرے پاس تھا، میرے مطابق تھا تو سب کچھ ٹھیک اور جائز، اور جب محبوب مجبوری کے مارے نہ رہا تو ساری محبت نفرت میں بدل جائے، اخلاص کے دعوے غلیظ انتقامی جملے بن جائیں، وعدوں اور دعووں کو خاک الود ہو جائے، کم از کم یہ اک سچے عاشق کا ظریف تو نہ ہو سکتا۔
میں سمجھتا ہوں حقیقی محبت تو یہ ہے کہ محبوب نہ بھی ملے تب بھی اس سے محبت باقی رہے، عزت، احترام و احساس کا رشتہ باقی رہے، نیک تمنائیں اور پرخلوص ادائیں قائم رہیں۔ عاشق کا کام ہے عشق کرنا، معشوق کو اختیار حاصل ہے وہ وفا کرے کہ جفا۔ محبت کا دعویٰ کرنے سے پہلے ظرف اتنا وسیع ضرور ہو کہ وصال و فراق اور ہر حال میں میں محبوب و معشوق کی مال، جان اور عزت محفوظ رہے۔
مجھے راجہ انور صاحب کے ردعمل سے اختلاف ہے۔ یہ محبت کے امتحان میں ناکامی کا ثبوت ہے۔
یہ کتاب ‘جھوٹے روپ کے درشن’ پڑھنے لائق ہے۔ بذات خود میں 2 دن کے وقفہ سے پڑھتا رہا ہوں، کیونکہ یہ کتاب ذہن پہ سحر طاری کرتی ہے، راجہ صاحب کا اسلوبِ بیان منفرد اور دلچسپ ہے، راجہ صاحب کے خطوط میں قاری کو اپنا آپ نظر آتا ہے۔ وہ روزمرہ گفتگو میں شاندار جملے کہتے ہیں۔ اگر آپ نے کبھی عشق کیا ہے تو یہ کتاب ضرور پڑھیے اور اپنی ماضی، حال اور مستقبل کی محبتوں کو سنہری جِلا بخشیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں