معصوم مرادآبادی
سپریم کورٹ نے اترپردیش اور اتراکھنڈ کی بی جے پی سرکاروں کو نوٹس جاری کرکے پوچھا ہے کہ آخر کس قانون کے تحت کانوڑ یاترا کے راستوں پر دکانداروں کو اپنی مذہبی شناخت ظاہر کرنے کے لیے کہا گیا ہے ۔واضح رہے کہ ساون کے اس موسم میں اترپردیش اور اتراکھنڈ میں ان دنوں کانوڑ یاترا چل ہی ہے ، جس میں ہزاروں شیوبھکت گنگاجل لے کر سڑکوں پر رواں دواں ہیں۔ راستوں میں آنے والے ہوٹلوں اور ڈھابوں کے مالکان و ملازمین سے ان کی مذہبی شناخت پوچھی جارہی ہے اور اگر ان میں کوئی مسلمان ہے تو اسے اس حد تک ہراساں کیا جارہا ہے کہ وہ اپنا بوریا بستر گول کرکے کہیں اور چلاجائے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت یوپی اور اتراکھنڈ کے مسلمان دکانداروں میں زبردست خوف وہراس ہے ۔ اتنا ہی نہیں دونوں ریاستوں میں کسی بھی قسم کے گوشت کی فروخت اور نان ویج ہوٹلوں پر پابندی ہے اور وہاں تالے پڑے ہوئے ہیں۔ گزشتہ روز دہلی سے متصل غازی آباد کے اندرا پورم علاقہ میں ‘کے ایف سی’ اور ایک مشہور مسلم ہوٹل پر ہڑدنگ مچاکر بند کرادیا گیا، حالانکہ یہ ہوٹل کانوڑیاترا کے روٹ پر نہیں ہے ۔ خود پولیس کا کہنا ہے کہ اس علاقہ میں نان ویج کھانوں کی فروخت پر بھی کوئی پابندی نہیں ہے ۔اس وقت اترپردیش اور اتراکھنڈ میں کانوڑیوں کی جو دہشت ہے اس کا سراغ سرکاری مشنری اور صوبائی حکمرانوں کے بیانوں میں بھی تلاش کیا جاسکتا ہے ۔ گزشتہ روز اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے وارانسی میں ایک عوامی جلسہ کے دوران کانوڑ یاترا کو اتحاد کا جشن اور محرم کو تشدد کا تیوہار قراردیا ہے ۔ انھوں نے محرم کے جلوسوں کو تشدد، توڑپھوڑ اور آگ زنی سے تعبیر کیا جبکہ ساون کے دوران ہونے والی کانوڑ یاترا کو اتحاد اور عقیدت کا سنگم قراردیا۔ انھوں نے جونپور کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہاں تعزیہ اتنا اونچا بنایا گیا تھاکہ وہ ہائی ٹینشن لائن سے ٹکراگیااور تین افراد ہلاک ہوگئے ۔ پھر سڑک جام کرکے ہنگامہ کیا گیا۔ پولیس نے پوچھا تو میں نے کہا کہ لاٹھی مارکر نکالو، یہ لاتوں کے بھوت ہیں، باتوں سے نہیں مانیں گے ۔
وزیراعلیٰ کے اس بیان میں ان کی اصل ذہنیت چھپی ہوئی ہے اور ا س سے ان کا تعصب صاف جھلکتا ہے ۔ اسی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ کانوڑ لے کر چلنے والے خود کو ہرقسم کے قانون سیبالاتر سمجھتے ہیں اور انھوں نے اپنی متوازی حکومت قائم کررکھی ہے ۔حکومت نے خود کانوڑ یاترا کے روٹ پر دکانداروں کو اپنی مذہبی شناخت ظاہر کرنے کے لیے کیوآر کوڈ لگانے کا حکم دیا ہے جس کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا ہے ۔ اس سلسلے میں دہلی یونیورسٹی کے پروفیسراپوروا نند اورسماجی کارکن آکار پٹیل کی طرف سے دائر کی گئی عرضی میں کہا گیا ہے کہ یوپی اور اتراکھنڈ سرکار کا یہ آرڈرسپریم کورٹ کے اس حکم کی خلاف ورزی ہے جس میں گزشتہ سال یہ کہا گیا تھا کہ دکانداروں کوصرف یہ بتانا ہوگا کہ وہ کیا کھانا فروخت کررہے ہیں، ان کے لیے اپنا اور اپنے ملازمین کا نام اجاگر کرنا ضروری نہیں ہے ۔فرقہ پرست اور متعصب عناصر کا کہنا ہے کہ کانوڑ یاترا ایک مذہبی سرگرمی ہے اور اس کی راہ میں کسی غیر مذہب کے فرد کو نہیں آنا چاہئے خواہ وہ دکاندار ہو یااس میں کام کرنے والا کوئی ملازم۔ سب سے زیادہ حیرت اس بات پر ہے کہ فرقہ پرستوں کے اس غیرقانونی اور غیرآئینی مطالبے کی حمایت وہ حکومت بھی کرتیہے جو پوری طرح قانون ودستور کے دائرے میں بندھی ہوئی ہے ۔اس بار بھی جب کانوڑ یاترا شروع ہوئی تو وہی تماشے دوبارہ شروع ہوگئے جو گزشتہ سال بھی ہوئے تھے اور جن کے خلاف سپریم کورٹ نے واضح احکامات جاری کررکھے ہیں۔ اس مرتبہ ایک قدم آگے بڑھ کر بعض دکانداروں کی مذہبی شناخت جاننے کے لیے ان کی پینٹ بھی اتروائی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ عرضی گزاروں نے سپریم کورٹ پر زوردیا کہ وہ ریاستی حکومت کے اس فرمان پر پابندی لگانے کے لیے مداخلت کرے جس کا مقصد مذہبی بنیادپر شناخت کے ذریعہ اقلیتی فرقہ کے دکانداروں کو نشانہ بنانا ہے ۔ عرضی میں کانوڑ کے راستوں پر دکانداروں کی پینٹ اتارکر اپنی شناخت ظاہر کرنے پر مجبور کرنے اور آدھار کی جانچ کرانے جیسے سنگین واقعات کا حوالہ بھی دیا گیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال ان ہی دنوں میں کانوڑ کے راستوں پر دکانداروں کو مذہبی بنیاد پر اپنے نام کی تختی لگانے کے لیے اترپردیش، اتراکھنڈ اور مدھیہ پردیش کی حکومتوں نے فرمان جاری کئے تھے جس پر سپریم کورٹ نے پابندی لگادی تھی۔ اتنا ہی نہیں فوڈ اینڈ سیفٹی اسٹینڈرڈ ایکٹ کے تحت ڈھابہ اور ہوٹل مالکان کو اپنا نام ظاہر کرنے کی یوپی حکومت کی دلیل پر بھی سپریم کورٹ نے ناراضگی ظاہر کی تھی۔ اس کے بعد یہ امیدبندھی تھی کہ آئندہ یہ حکومتیں اس طرح کی غیرقانونی اور غیرآئینی ہدایات جاری نہیں کریں گی، لیکن سپریم کورٹ کی واضح ہدایات کے باوجود اس بار بھی کانوڑ یاترا شروع ہونے سے پہلے ہی اس قسم کے فرمان جاری ہونے لگے ۔ ان کا واحد مقصدیہ تھا کہ کانوڑ یاترا کے راستے پر موجود مسلم دکاندار اپنا کاروبار سمیٹ کر کہیں اور چلے جائیں۔ ہندوستان کا آئین اور قانون اس ملک کے ہرشہری کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ جہاں چاہے اپنی مرضی کے مطابق کوئی بھی کاروبارکرے ۔ قانونی دائروں میں رہ کر اس قسم کا کاروبار کہیں بھی کیا جاسکتا اور کسی کو یہ اختیارنہیں ہے کہ وہ مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر کسی کو اپنا کاروبار کرنے سے روکے ، مگر جب سے اس ملک میں بی جے پی کو اقتدار حاصل ہوا ہے تب سے مسلمانوں پر طرح طرح کی پابندیاں اور بندشیں لگائی جارہی ہیں۔ ان کے کھان پان، رہن سہن، بودوباش اور کاروبار پر ایسی پابندیاں لگائی جارہی ہیں گویا وہ اس ملک کے باشندے نہ ہوکر کسی اور خطے کی مخلوق ہوں۔سب سے زیادہ شرمناک بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ حکومتوں کی سرپرستی اور ان کی شہ پر ہورہا ہے ۔
ہم ایک سیکولر جمہوری ملک کے باشندے ہیں جہاں کسی بھی شہری کو مذہب، ذات پات اور رنگ ونسل کی بنیادپر کوئی برتری حاصل نہیں ہے ۔ آئین کی نگاہ میں سبھی شہری برابر ہیں اور ان کے حقوق بھی یکساں ہیں۔لیکن قانونی مشنری کے طرزعمل کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کھلم کھلا تعصب اور جانبداری کا رویہ اختیار کررہی ہے ۔اس کا سب سے تلخ تجربہ ہرسال کانوڑ یاترا کے دوران ہوتا ہے ۔ تقریبا ً ایک ماہ تک جاری رہنے والی اس یاترا کے دوران عام راستے ہیں نہیں قومی شاہراہیں بھی بندکردی جاتی ہیں اور بھاری ٹریفک کو متبادل راستوں پرموڑدیا جاتا ہے ۔کانوڑ لے کر چلنے والوں کے ساتھ انتظامیہ اور پولیس کا رویہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ چاہے جتنی لاقانونیت پھیلائیں ان کے خلاف قانون حرکت میں نہیں آتا۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کانوڑ لے کر چلنے والے تمام لوگ شرپسند نہیں ہوتے مگر ان میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہوتی جو ذرا سی بات پر ہنگامہ کھڑا کردیتے ہیں۔آئے دن کسی گاڑی سے کسی کانوڑ کے ٹکراجانے یا کوئی حادثہ ہوجانے کے بعد کانوڑ لے کر چلنے والوں کا ردعمل دیکھ کر اندازہ ہوتاہے کہ گویا یہ کوئی مذہبی سرگرمی نہ ہو بلکہ کوئی مسلسل ہڑدنگ ہو۔
کانوڑیاترا کا ایک اور تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ جتنے دن یہ یاترا سڑکوں پر نکلتی ہے اتنے دنوں کے لیے نہ صرف عام شاہراؤں پر ٹریفک کی نقل وحمل روک دی جاتی ہے بلکہ مصروف ترین قومی شاہراؤں پر بھی ٹریفک یاتو بالکل بند کردیا جاتا ہے یا پھر اسے ڈائیورٹ کردیا جاتا ہے جس سے مسافروں کو بے حد پریشانی ہوتی ہے مگر مجال ہے کہ کوئی اس کے خلاف لب کشائی کی جرات کرسکے اور یہ کہہ سکے کہ آخر مصروف ترین سڑکوں کو بند کیوں کیا جارہا ہے ۔ ہاں عید الفطر اور عیدالاضحی کی نماز سڑکوں پر ادا کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دی جاتی کہ اس سے آمد ورفت میں خلل پڑتا ہے ۔ جبکہ سبھی جانتے ہیں کہ عیدین کی نماز میں آدھے گھنٹے سے زیادہ کا وقت نہیں لگتا۔ لیکن جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے عیدین کی نماز عیدگاہ سے متصل سڑکوں پر ادا کرنے پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے ۔جس کے نتیجے میں عید کی نماز دومرتبہ اداکی جارہی ہے ۔ایک ایسے ملک میں جہاں سب کے لیے قانون برابر ہے وہاں اکثریتی طبقہ کو ہرقسم کی من مانی کرنے کی چھوٹ ملی ہوئی ہے اور اقلیتی طبقہ پر پہرے بٹھادئیے گئے ہیں۔یہاں تک کہ کانوڑ یاترا کے دوران ان کے کاروبار اور روزی روٹی پر بھی شب خون مارا جارہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اسی تفریق اور تنگ نظری کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی گئی ہے ۔سب سے بڑا سوال کیو آرکوڈ سے متعلق ہے جس سے دکاندار کی شناخت ظاہر ہوتی ہے ۔سینئر وکیل شاداں فراست نے یوپی اور اتراکھنڈ حکومتوں کے ذریعہ گزشتہ سال کھانے کے اسٹال اور ہوٹل مالکان کو اپنے نام کی تختی لگانے اور اس سال کیوآرکوڈ لگانے کے فرمان کو یکساں قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا۔عرضی گزاروں کے وکیلوں نے استدلال کیا کہ ریسٹورینٹ کے مالکان کو اس طرح کی ذاتی تفصیلات ظاہر کرنے پر مجبور کرنے کے خلاف سپریم کورٹ پہلے ہی حکم امتناعی جاری کرچکا ہے ۔ عدالت نے حکم دیا تھا کہ کھانے پینے والوں کو ایسی معلومات ظاہر کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔عرضی میں کہا گیا ہے کہ اس کے باوجود یوپی اور اتراکھنڈ حکومتوں نے اس سال تازہ ہدایات جاری کی ہیں جس میں مالکان کی تفصیل کے ساتھ کیوآرکوڈ لگانے کو لازمی قرار دیا گیا ہے ۔انتظامیہ قانونی لائسنس کی ضروریات کے بہانے مذہب او ر ذات پات کی شناخت ظاہر کرنے پر مجبور کررہی ہے جوکسی بھی فردکی راز داری کے حق کی خلاف ورزی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: ظاہر کرنے پر مجبور کے خلاف سپریم کورٹ شناخت ظاہر کرنے کانوڑ یاترا کے سپریم کورٹ نے پر دکانداروں دکانداروں کو راستوں پر میں کانوڑ گزشتہ سال کے دوران کہ کانوڑ سڑکوں پر ہے کہ وہ ہے کہ اس ہیں اور کہا گیا نہیں ہے کی نماز ہے اور کے لیے گیا ہے پر بھی
پڑھیں:
ضمانت قبل ازگرفتاری مسترد ہونے کے بعد فوری گرفتاری ضروری ہے،چیف جسٹس پاکستان نے فیصلہ جاری کردیا
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ ہونے کے حوالے سے سپریم کورٹ نے فیصلہ جاری کردیا،چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے تحریر کردہ 4صفحات کا فیصلہ جاری کردیا۔
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ضمانت قبل ازگرفتاری مسترد ہونے کے بعد فوری گرفتاری ضروری ہے، صرف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرناگرفتاری کو نہیں روک سکتا، سپریم کورٹ نے کہاکہ عبوری تحفظ خودکار نہیں، عدالت سے واضح اجازت لینالازم ہے۔
مزید :