لاہور ہائیکورٹ، ضلعی عدلیہ نے 2024ء میں 38 لاکھ مقدمات کے فیصلے کیے، رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
لاہور ہائیکورٹ اور ضلعی عدلیہ میں 2024ءمیں 38 لاکھ سے زائد مقدمات کے فیصلے ہوئے ہیں۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مس عالیہ نیلم کی سربراہی میں فل کورٹ اجلاس ہوا، جس میں 2024ء کے مقدمات کے حوالے سے رپورٹ پیش کی گئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2024ء میں لاہور ہائیکورٹ اور ضلعی عدلیہ میں 38 لاکھ سے زائد مقدمات کے فیصلے ہوئے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ 2024ء کے دوران لاہور ہائیکورٹ میں 1 لاکھ 44 ہزار 122 مقدمات کے فیصلے کئے گئے جبکہ پنجاب کی ضلعی عدلیہ میں 36 لاکھ57 ہزار 102 مقدمات کے فیصلے ہوئے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ 2024ء میں لاہور ہائیکورٹ پرنسپل سیٹ اور بنچز میں 1 لاکھ 48 ہزار 453 کیس دائر کئے گئے جبکہ پنجاب کی ضلعی عدلیہ میں 37 لاکھ 89 ہزار 639 نئے مقدمات دائر ہوئے۔
دوران اجلاس چیف جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ جلد اور معیاری انصاف کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائیں جائیں گے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: مقدمات کے فیصلے لاہور ہائیکورٹ ضلعی عدلیہ میں
پڑھیں:
ہائیکورٹ جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا، ناانصافی پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ
اسلام آباد(خصوصی رپورٹر) صنم جاوید کی 9 مئی مقدمے سے بریت کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا ہے کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔ پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت جسٹس ہاشم خان کاکڑ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کی۔ حکومتی وکیل نے کہا صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔ ریمانڈ کے خلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کر دیا۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دئیے کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہو چکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے۔ اب آپ یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بری کیا۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہو رہی تو وہ اختیارات استعمال کر سکتی ہے۔ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔ وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کر سکتی، جس پر جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دئیے کہ کریمنل ریویژن میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔ صنم جاوید کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔ جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ آپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے؟ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے۔ اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے غصے میں فیصلہ دیا۔ بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر دی۔