حریت کانفرنس کا بھارتی قبضے کے خاتمے تک جدوجہد جاری رکھنے کے کشمیریوں کے عزم کا اعادہ
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
عبدالرشید منہاس نے سرینگر میں ایک بیان میں کہا کہ بھارت جموں کشمیر پر گزشتہ 77برس سے کشمیریوں کی مرضی کے منافی محض فوجی طاقت کے بل پر قابض ہے اور علاقے میں اس کی حیثیت ایک جارح کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اسلام ٹائمز۔ کل جماعتی حریت کانفرنس نے جموں و کشمیر پر بھارت کے ناجائز قبضے کے مکمل خاتمے تک جدوجہد جاری رکھنے کے کشمیریوں کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق کل جماعتی حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈووکیٹ عبدالرشید منہاس نے سرینگر میں ایک بیان میں کہا کہ بھارت جموں کشمیر پر گزشتہ 77برس سے کشمیریوں کی مرضی کے منافی محض فوجی طاقت کے بل پر قابض ہے اور علاقے میں اس کی حیثیت ایک جارح کے سوا کچھ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری غیر قانونی بھارتی تسلط سے آزادی کیلئے لازوال قربانیاں دے ہیں اور بھارتی مظالم ان کے جذبہ آزادی کو دبانے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ بیش بہا قربانیاں تحریک آزادی کا ایک قیمتی اثاثہ ہیں جنہیں ہرگز رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کو چاہیے کہ وہ کشمیریوں کو طاقت کے بل پر دبانے کی پالسی اور غیر حقیقت پسندانہ طرز عمل ترک کر کے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ماحول کو سازگار بنائے۔ انہوں نے کہا کہ تنازعہ کشمیر کو حل کیے بغیر خطے میں پائیدار ترقی اور امن و سلامتی کا خواب ہرگز شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ دریں اثنا کل جماعتی حریت کانفرنس کے ترجمان نے 26جنوری کو بھارتی یوم جمہوریہ سے قبل مقبوضہ علاقے میں پابندیوں، محاصروں اور تلاشی کی کارروائیوں اور گھروں پر چھاپوں میں تیزی پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قابض بھارتی فورسز نے نام نہاد سکیورٹی اقدامات کی آڑ میں کشمیریوں کو ہراساں کرنے کا ایک نیا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت عالمی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ خطے میں اپنے یوم جمہوریہ کی تقریبات کے انعقاد کا کوئی حق نہیں رکھتا۔ ترجمان نے انسانی حقوق کے عالمی اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیریوں پر بڑھتے ہوئے بھارتی مظالم کا نوٹس لیں۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ حریت کانفرنس
پڑھیں:
بھارت کو 4 گھنٹے میں ہرا دیا، دہشتگردی کو 40 سال میں شکست کیوں نہیں دی جا سکی؟ مولانا فضل الرحمن
اسلام آباد میں ملی یکجہتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے دہشتگردی، کشمیر، فاٹا کے انضمام اور سود کے خاتمے سے متعلق حکومت کی پالیسیوں پر اپنے تحفظات اور تشویش کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کا مسئلہ 11 ستمبر کے بعد نہیں بلکہ 40 سال سے پاکستان کا مسئلہ ہے۔ علما کی جانب سے امریکا کے افغانستان پر قبضے کے باوجود پاکستان میں مسلح جدوجہد کو ناجائز قرار دیا گیا تھا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فوج نے مسلح جدوجہد کرنے والوں کے خلاف کئی آپریشن کیے، جن کی وجہ سے آج بھی لاکھوں لوگ بے گھر ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اب دوبارہ لوگوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ شہر خالی کر دیے جائیں، اور سوال اٹھایا کہ جو لوگ افغانستان گئے تھے، وہ واپس کیسے آئیں گے۔ انہوں نے دہشتگردی کے خاتمے میں سیاسی ارادے کی کمی پر بھی شدید تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ بھارت کو 4 گھنٹے میں شکست دے دی گئی لیکن دہشتگردی کو 40 سال سے شکست کیوں نہیں دی جا سکی۔
مزید پڑھیں: مولانا فضل الرحمن نے بھی 28 اگست کی ملک گیر ہڑتال کی حمایت کردی
کشمیر کے حوالے سے انہوں نے پاکستان کی پالیسی پر نکتہ چینی کی۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ کشمیر پر پاکستان مسلسل پیچھے ہٹتا جا رہا ہے۔ انہوں نے اپنے کردار اور کشمیر کمیٹی کی صدارت کے حوالے سے کہا کہ انہیں کہا جاتا تھا کہ انہوں نے کشمیر کمیٹی کے لیے کیا کچھ کیا، لیکن اب کئی برس سے وہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین نہیں، تو سوال اٹھتا ہے کہ اب کیا کیا گیا؟
انہوں نے کشمیر کی 3 حصوں میں تقسیم، جنرل پرویز مشرف کے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے پیچھے ہٹنے کے فیصلے اور 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کے خاتمے پر قرارداد میں اس کا ذکر شامل نہ ہونے پر سوالات اٹھائے۔ فاٹا کے انضمام پر بھی حکومت کی حالیہ پالیسی پر تنقید کی اور کہا کہ فاٹا کے لوگوں پر فوج اور طالبان دونوں کے ڈرون حملے ہو رہے ہیں۔
فلسطینی حماس کے رہنما خالد مشعل کے فون کال کا ذکر کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اگر پاکستان جنگ میں مدد نہیں کر سکتا تو کم از کم انسانی امداد میں کردار ادا کرے۔
مزید پڑھیں: پیپلز پارٹی وعدے سے نہ پھرتی تو الیکشن بروقت ہو جاتے، مولانا فضل الرحمن
سود کے خاتمے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جمیعت علمائے اسلام نے 26ویں آئینی ترمیم کے 35 نکات سے حکومت کو دستبردار کرایا اور مزید 22 نکات پر مزید تجاویز دیں۔ وفاقی شرعی عدالت نے 31 دسمبر 2027 کو سود ختم کرنے کی آخری تاریخ دی ہے اور آئندہ یکم جنوری 2028 تک سود کا مکمل خاتمہ دستور میں شامل کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے حکومت کو خبردار کیا کہ اگر وہ اپنے وعدے پر عمل نہ کرے تو عدالت جانے کے لیے تیار رہیں کیونکہ آئندہ عدالت میں حکومت کا دفاع مشکل ہوگا۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں کوئی اپیل معطل ہو جائے گی، اور آئینی ترمیم کے تحت یکم جنوری 2028 کو سود کے خاتمے پر عمل درآمد لازمی ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارت جمیعت علمائے اسلام سود فلسطینی حماس کشمیر کشمیرکمیٹی ملی یکجہتی کونسل مولانا فضل الرحمن