Nai Baat:
2025-07-26@15:25:39 GMT

190ْؑملین کیس میں سزا

اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT

190ْؑملین کیس میں سزا

میں نیل کرایاں نیلکاں ۔ میرا تن من نیلو نیل ۔ میں سودے کیتے دلاں دے ۔ تے رکھ لے نین وکیل ۔ رب بخیلی نہ کرے ۔ تے بندہ کون بخیل ۔ رات چنے دی چاننی ۔ تے پونی ورگا کاں ۔ اڈیا دانہ باد توں ۔ انوں پیندی رات چناں ۔ جٹی دے ہیٹھ پنگوڑا رنگلا ۔تے ٹھنڈی وناں دے چھاں ۔ گن گن لاندی اٹیاں ۔ وچ لنواںجٹ دا ناں ۔ مینوں لے جا ایتھوں کڈھ کے ۔ سارے جھگڑے جانے مک ۔ باجھ تیرے او مرزیا ۔ نئیں جان میری نوں سکھ ۔ یہ پنجابی لوک داستان مرزا صاحباں پر جو شاعری ہے اس کے چند اشعار ہیں جس میں صاحباں مرزے کو دہائی دینے والے انداز میں کہہ رہی ہے کہ ’’ مینوں لے جا ایتھوں کڈ کے ‘‘ اور پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی بھی پوری دنیا کے آگے دہائیاں دے رہے ہیں کہ ’’ مینوں لے جا ایتھوں کڈ کے ۔ سارے جھگڑے جانے مک ‘‘ لیکن فیر وی یہ این آر او نہیں ہے ۔2021میںبانی پی ٹی آئی کے فین کلب کی جانب سے کہا گیا کہ ہمت ہے تو عدم اعتماد لے آئو اور پھر عدم اعتماد آ گئی۔ عدم اعتماد کے بعد جب پی ڈی ایم کی حکومت آئی اور انھوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت میں کرپشن ہوئی تھی اور اس میں عمران خان اور بشریٰ بیگم مرکزی کردار ہیں تو تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کے اسیر فین کلب نے کہنا شروع کر دیا کہ ہمت ہے تو ایف آئی آر درج کرو اور پھرحکومت نے ہمت کی اور ایک نہیں بلکہ سینکڑوں ایف آئی آرز درج ہو گئیں ۔جب ایف آئی آرز درج ہو گئیں تو اتنا اندازہ تو سب کو تھا کہ سہولت کاروں نے اپنے مورچے بڑے احسن طریقے سے سنبھالے ہوئے ہیں لہٰذا محرر تھانے کو اتنی دیر ایف آئی آر درج کرنے میں نہیں لگتی تھی کہ جتنی جلدی تھوک کے حساب سے ان کی ضمانتیں ہو جاتی تھیں اور اگر ایک بار گرفتار کیا بھی تھا تو پھر عدل و انصاف کے سب سے بڑے منصب پر فائز منصف نے جس طرح ملزم کی حیثیت سے پیش ہونے والے ایک شخص کی ’’ گڈ ٹو سی یو ‘‘ کہہ کر پذیرائی کی تو اس کے بعد کہاگیا کہ چلو ٹھیک ہے ایف آئی آر تو درج کر لی ہے لیکن اب ہمت ہے تو گرفتار کر کے دکھائو اور پھر جنھوں نے گرفتار کرنا تھا انھوں نے ایسی ہمت دکھائی کہ گرفتار بھی ہو گئے اور گرفتاری کے بعد آج تک میڈیا میں ایک تصویر کے علاوہ کوئی وڈیو یا تصویر یا کوئی آڈیو نہیں آئی۔ بانی پی ٹی آئی نے ایک بار کہا تھا کہ میری ریڈ لائن بشریٰ بیگم ہیں تو فین کلب کی عقل سمجھ اور شعور کی جس حد تک پرواز تھی اس کے تحت کہا گیا کہ ہمت ہے تو بشری بی بی کو گرفتار کر کے دکھائو اور پھر کرنے والوں نے یہ کام بھی کر دکھایا ۔

اس کے بعد کیا ہوا کہ مختلف کیسز چلنے شروع ہوئے تو ابھی وہ فیصلے تک بھی نہیں پہنچتے تھے کہ ان میں ریلیف ملنا شروع ہو گیا ۔ ٹیریان کا کیس ایک ایسا کیس تھاکہ جس میں امریکا کی عدالت نے بانی پی ٹی آئی کے موقف کو رد کرتے ہوئے ٹیریان کی والدہ سیتا وائٹ کو سچا قرار دیا تھا لیکن پاکستان میں اس کیس کو چلنے سے پہلے ہی نا قابلِ سماعت قرار دے کر خارج کر دیا گیا ۔ سائفر ایک ایسا کیس کہ جس میں بانی پی ٹی آئی نے راولپنڈی کے جلسے میں اسے لہرایا اور پھر ایک سے زائد بار ٹی وی انٹرویوز میں ببانگ دہل اس بات کا اقرار بھی کیا کہ ہاں سائفر کی ایک کاپی میرے پاس تھی لیکن وہ مجھ سے گم گئی اور پھر اسی سائفر کی تمام تر تفصیلات ایک غیر ملکی اخبار میں شائع بھی ہو گئیں لیکن عدالت کو اس میں سائفر کہیں نظر نہیں آیا ۔ جب ایسی صورت حال ہو تو پھر فین کلب کا حق بنتا تھا کہ وہ کہے کہ ہمت ہے تو سزا دے کر دیکھائو اور انھوں نے کہابھی اور بار بار کہا کہ ہمت ہے تو سزادے کر دکھائو اور پھر یہ کام بھی ہو گیا اور 190ملین پونڈ کیس میں عمران خان کو14سال قید اور10لاکھ جرمانہ اور ادا نہ کرنے پر مزید چھ ماہ قید اور بشریٰ بیگم کو 7سال قید اور 5لاکھ جرمانہ ۔یہ سزا تو ہونی ہی تھی اور بہت سے لوگوں نے اور خود ہم نے اپنی گذشتہ تحریروں میں یہی کہا تھا کہ سزا کے امکانات زیادہ ہیں لیکن یہاں بھی فضول قسم کی بڑھکیں ماری گئیں کہ ہمت ہے تو سزا دیں تو اب سکون ہو گیا ہو گاکہ سزا ہو گئی ہے اور سزا بھی اس طرح ہوئی ہے کہ فوری طور پر ہائی کورٹ سے ضمانت نہیں ہو سکتی اس لئے کہ قانون کے تحت دس سال تک سزا میں ہائی کورٹ سے ضمانت ہو سکتی ہے لیکن اگر دس سال سے زیادہ سزا ہو تو پھر باقاعدہ کیس چلتا ہے اور وہی سماعت پر سماعت اور پھر کہیں جا کر فیصلہ ہوتا ہے لیکن بشری بی بی کی ضمانت ہو سکتی ہے کیونکہ ان کی سزا دس سال سے کم یعنی سات سال ہے ۔ یہ تو صورت حال ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا اور خود تحریک انصاف اس کیس کو کس طرح عوام میں پیش کرتی رہی ۔

فیصلے سے ایک دن پہلے تک تحریک انصاف کا طرز سیاست دیکھیں کہ پارٹی کے چیئر مین سر راہ دو ڈھائی منٹ کی آرمی چیف سے ملاقات کو علیحدگی میں تفصیلی ملاقات کا تاثر دے کر سب ہرا ہرا کا منظر نامہ پیش کرتے رہے اور جس دن یہ ملاقات ہوئی اسی دن لندن میں ذلفی بخاری اور شہزاد اکبر برطانیہ میں ایک بریفنگ میں افواج پاکستان اور آرمی چیف کے خلاف دل کے پھپھولے پھوڑ رہے تھے اور تیسری جانب تحریک انصاف کا سوشل میڈیا ریاست پاکستان اور عسکری قیادت کے خلاف زہر اگلنے میں مصروف تھا تو ایسے لگتا ہے کہ تحریک انصاف والے اپنے علاوہ سب کو بیوقوف سمجھتے ہیں کہ ایک جانب وہ عسکری قیادت کے خلاف منظم تحریک چلا رہے ہیں اور دوسری جانب وہ اسی عسکری قیادت سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ انھیں پھولوں کے ہار پہنا کر این آر او دے تو ایسا اس دنیا میں نہیں ہوتا اور ابھی 9مئی کا کیس باقی ہے اور اس میں اس سے بھی سخت سزا کے امکانات ہیں ۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: بانی پی ٹی ا ئی کہ ہمت ہے تو تحریک انصاف ایف ا ئی ا ر ہے لیکن اور پھر فین کلب تھا کہ کے بعد ہے اور

پڑھیں:

کیا پاکستان کے یہ اسٹریٹیجک منصوبے مکمل ہو سکیں گے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 جولائی 2025ء) پاکستان نے وقتاً فوقتاً کئی بڑے اور بین الاقوامی منصوبوں پر دستخط کیے لیکن ان کا مستقبل تاحال غیر یقینی ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق اگر یہ منصوبے مکمل ہو جائیں تو نہ صرف پاکستان کی معیشت کو استحکام مل سکتا ہے بلکہ عالمی سطح پر رابطوں میں بھی بہتری آ سکتی ہے۔

تاہم گیس پائپ لائنوں، بجلی کی ترسیل اور ریلوے لائنوں جیسے یہ بڑے منصوبے مختلف وجوہات کی بنا پر التوا کا شکار ہیں۔

ان میں سے چند اہم منصوبوں کا جائزہ درج ذیل ہے۔ ازبکستان-افغانستان-پاکستان ریل منصوبہ

سن 2023 میں طے پانے والے اس منصوبے کا مقصد وسطی ایشیا کو پاکستان کے ذریعے یورپ سے جوڑنا ہے۔ فزیبلٹی اسٹڈی کے معاہدے پر دستخط ہو چکے ہیں لیکن اس کی تکمیل کے بارے میں ماہرین کی رائے منقسم ہے۔

(جاری ہے)

سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''یہ ایک حد سے زیادہ پُرعزم منصوبہ ہے اور بظاہر یہ عملی طور پر ممکن نظر نہیں آتا۔

اس منصوبے کے حوالے سے کئی سوالات ہیں، جیسے کہ اس کی لاگت کون برداشت کرے گا اور افغانستان کی سکیورٹی صورتحال کا کیا ہوگا، جو پہلے سے طے شدہ کئی منصوبوں کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔‘‘

دوسری جانب معروف معاشی تجزیہ کار عابد قیوم سلہری کہتے ہیں، ''ازبکستان-افغانستان-پاکستان ریلوے منصوبہ پاکستان کو یورپ سے جوڑ سکتا ہے اور کاروباری طبقہ وسطی ایشیائی ممالک کو یورپ کے ساتھ تجارت کے لیے ایک اسٹاپ اوور کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔

‘‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ سکیورٹی خدشات کو رکاوٹ بنانے کے بجائے کام شروع کر دینا چاہیے کیونکہ حالات وقت کے ساتھ بہتر ہو سکتے ہیں۔

ترکمانستان-افغانستان-پاکستان-بھارت (تاپی) گیس پائپ لائن

سن 2010 میں شروع ہونے والا یہ منصوبہ ترکمانستان سے پاکستان تک گیس کی فراہمی کے لیے تھا لیکن بھارت کے الگ ہونے اور افغانستان کی سکیورٹی صورتحال کی وجہ سے یہ تعطل کا شکار ہے۔

عابد قیوم سلہری کے مطابق سکیورٹی مسائل اس کی ناکامی کی بنیادی وجہ ہیں۔ ایران-پاکستان گیس پائپ لائن

سن 2010 کے معاہدے کے تحت ایران نے اپنی سرزمین پر پائپ لائن مکمل کر لی ہے لیکن پاکستان بین الاقوامی پابندیوں کے خوف سے اپنا حصہ مکمل نہیں کر سکا۔ اس تناظر میں مفتاح اسماعیل کہتے ہیں، ''ہماری حکومت بغیر مکمل تیاری اور مناسب ہوم ورک کے جلد بازی میں معاہدے کر لیتی ہے اور یہی ان کے ناکام ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے۔

‘‘ کاسا-1000 منصوبہ

سن 2015 میں شروع ہونے والا یہ منصوبہ کرغزستان اور تاجکستان سے پن بجلی کی ترسیل کے لیے تھا لیکن اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ مفتاح اسماعیل کے مطابق پاکستان کی بڑھتی ہوئی توانائی صلاحیت کے پیش نظر یہ منصوبہ اب غیر اہم ہو سکتا ہے۔

سی پیک - ایم ایل-1 ریلوے منصوبہ

سن 2013 میں طے پانے والا یہ منصوبہ فنڈنگ مسائل کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہے تاہم سن 2024 میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔

ماہر اقتصادیات ڈاکٹر خاقان نجیب کہتے ہیں، ''پاکستان میں میگا پراجیکٹس کی تکمیل میں چیلنجز ضرور ہیں، جن میں کمزور طرزِ حکمرانی، مالیاتی پیچیدگیاں، علاقائی سلامتی کے خدشات اور سیاسی عدم استحکام شامل ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ اگر عمل درآمد کے نظام کو مؤثر بنایا جائے تو بروقت تکمیل ممکن ہے۔ کیا یہ منصوبے مکمل ہو سکتے ہیں؟

ماہرین کا خیال ہے کہ یہ منصوبے پاکستان کی معیشت اور عالمی رابطوں کے لیے نہایت اہم ہیں لیکن ان کی تکمیل کے لیے مستقل پالیسیوں اور عزم کے ساتھ کام جاری رکھنا ہو گا۔

ڈاکٹر خاقان نجیب کے مطابق حالیہ برسوں میں ایم ایل-1 جیسے منصوبوں پر پیش رفت امید کی کرن ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ کمزور حکمرانی اور مالیاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے شفاف اور مربوط نظام کی ضرورت ہے جبکہ علاقائی تعاون بھی ضروری ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق سکیورٹی چیلنجز کو کم کرنے کے لیے افغانستان اور دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعاون بڑھانا ہو گا۔

ادارت: امتیاز احمد

متعلقہ مضامین

  • پاکستانی فارما برآمدات 457 ملین ڈالر کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئیں
  • کیا پاکستان کے یہ اسٹریٹیجک منصوبے مکمل ہو سکیں گے؟
  • مہم چلانا بانی کے بیٹوں کا حق، دنیا کو بتائیں والد کو کرپشن پر سزا ہوئی: عطا تارڑ
  • شاہ محمود قریشی کی رہائی ‘مفاہمت یا پھر …
  • میوزیم آئے شخص نے 6 ملین ڈالرز مالیت کا فن پارہ محض کیلا سمجھ کر کھالیا
  • بانی پی ٹی آئی نے 190 ملین پاؤنڈ کیس میں اپنے حق میں کوئی شواہد پیش نہیں کیے۔ وفاقی وزیر اطلاعات
  • نیل کٹر میں موجود اس سوراخ کی وجہ جانتے ہیں؟
  • مہم چلانا بانی کے بیٹوں کا حق ہے، لوگوں کو بتائیں عمران خان کو کرپشن کیس میں سزا ہوئی، عطا تارڑ
  • کولمبیا یونیورسٹی نے غزہ مظالم پر غیرت بیچ دی، ٹرمپ انتظامیہ سے 200 ملین ڈالر کا مک مُکا
  • کولمبیا یونیورسٹی کا ٹرمپ انتظامیہ سے 221 ملین ڈالر کے تصفیے پر اتفاق