اترپردیش میں بجرنگ دل کے تبدیلی مذہب کے الزام کے بعد پانچ مسلمان گرفتار
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
ہمیر پور کے ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس منوج کمار گپتا نے بتایا کہ موداہا میں ایک شخص کے گھر پر غیر قانونی تبدیلی مذہب کی کوشش کی اطلاع ملنے کے بعد پولیس موقع پر پہنچی اور پانچ مسلمانوں کو گرفتار کیا۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی ریاست اترپردیش کے ہمیر پور ضلع میں پولیس نے ایک دلت خاندان کے گھر پر "عرس" منانے اور "دعائیہ پروگرام" منعقد کرنے کے سلسلے میں "غیر قانونی تبدیلی مذہب" کے الزام میں پانچ مسلمانوں کو گرفتار کیا ہے۔ اس کیس کے مرکز میں ایک دلت خاندان ہے، جس میں ایک خاتون ارمیلا اور اس کے شوہر اجیت ورما نے مبینہ طور پر ملزمین کے کہنے پر ہمیر پور کے موداہا علاقے میں اپنے گھر کے اندر ایک مزار کی تعمیر کرائی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس سے ارمیلا کی بیماریاں ٹھیک ہوجائیں گی اور اس کی پریشانیاں ختم ہوجائیں گی۔ جب یہ دلت خاندان 10 جنوری کی رات اپنے گھر کے اندر عرس کا اہتمام کررہا تھا، تو ہندوتوا تنظیم بجرنگ دل کے اراکین نے اس پروگرام میں خلل ڈالا اور اس کے بارے میں پولیس کو اطلاع دی۔ اس پر الزام لگایا گیا کہ مسلمان اس دلت خاندان کو اسلام قبول کروانے کی کوشش کر رہے تھے۔
اس سلسلے میں بجرنگ دل ضلع یونٹ کے سابق کوآرڈینیٹر آشیش سنگھ نے ایک مقامی ٹیلی ویژن چینل کو بتایا کہ جب ہم رات 2.
ہمیر پور کے ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس منوج کمار گپتا نے بتایا کہ موداہا میں ایک شخص کے گھر پر غیر قانونی تبدیلی مذہب کی کوشش کی اطلاع ملنے کے بعد پولیس موقع پر پہنچی۔ موداہا پولیس اسٹیشن کے باہر ہمیر پور میں ایک مقامی یوٹیوب چینل سے بات کرتے ہوئے اجیت ورما اور ارمیلا نے اس بات سے انکار کیا کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ ارمیلا نے کہا "نور الدین نے مجھے ہر سال عرس کرنے کو کہا، مجھے نہیں معلوم کہ عرس کیا ہے، میں ہندو ہوں، مسلمانوں کی طرح پوجا کیسے کر سکتی ہوں"۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کو گرفتار کیا تبدیلی مذہب دلت خاندان ہمیر پور میں ایک کی کوشش
پڑھیں:
موسمیاتی تبدیلی سے فصلوں کو نقصان، انڈیا میں قرضوں سے تنگ کسانوں کی خودکشیاں
بھارتی ریاست مہاراشٹر کے ایک چھوٹے سے کھیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے میرابائی کھنڈکر نے کہا کہ ان کی زمین صرف قرض اگاتی ہے کیونکہ خشک سالی کے باعث فصلیں خراب ہو گئیں اور ان کے شوہر نے خودکشی کر لی۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق بھارت میں کسانوں کی خودکشی کی تاریخ طویل ہے جہاں بہت سے کسان اس تباہی سے صرف ایک فصل اچھا نہ ہونے کی دوری پر ہوتے ہیں، لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پیدا ہونے والے شدید موسم نے ان کسانوں پر مزید بوجھ ڈال دیا ۔ پانی کی قلت، سیلاب، درجہ حرارت میں اضافہ اور بے ترتیب بارشوں کے سبب فصلوں کی پیداوار میں کمی اور اس کے ساتھ ساتھ قرضوں کے بوجھ اس زرعی شعبے پر بھاری اثر ڈال رہے ہیں جو انڈیا کی ایک اعشاریہ چار ارب آبادی میں سے 45 فیصد کو روزگار فراہم کرتا ہے۔
مراٹھواڑہ کی میرابائی کے شوہر امل پر مقامی سودخوروں کا اتنا قرض چڑھ گیا تھا جو ان کی سالانہ آمدنی سے سینکڑوں گنا زیادہ تھا۔ ان کی تین ایکٹر پر مشتمل سویابین، باجرا اور کپاس کی فصل شدید گرمی کی لپیٹ میں آ کر سوکھ گئی تھی۔
30 کی میرابائی نے روتے ہوئے کہا کہ ’جب وہ ہسپتال میں تھا تو میں نے تمام دیوتاؤں سے اس کی زندگی کی بھیک مانگی۔
امل زہر کھانے کے ایک ہفتے بعد چل بسے تھے۔ وہ اپنے پیچھے میرابائی اور تین بچے چھوڑ گئے ہیں۔ ان کی آخری بات چیت قرض کے بارے میں ہی تھی۔
نئی دہلی میں قائم تحقیقاتی ادارے سینٹر فار سائنس اینڈ انوائرمنٹ کے مطابق گزشتہ برس انڈیا میں شدید موسمی حالات کی وجہ سے تین اعشاریہ دو لاکھ ہیکٹر زرعی زمین متاثر ہوئی جو کہ بیلجیئم سے بھی بڑے رقبے کی زمین ہے۔
اس متاثرہ زرعی زمین کا 60 فیصد سے زیادہ صرف مہاراشٹر میں واقع ہے۔
امل کے بھائی اور ساتھی کسان بالاجی کھنڈکر نے کہا کہ ’گرمیاں بہت شدید ہو گئی ہیں اور ہم جو کچھ بھی ضروری ہو، وہ کر لیں، پھر بھی پیداوار پوری نہیں ہوتی۔‘
انہوں نے کہا کہ کھیتوں کو سیراب کرنے کے لیے کافی پانی نہیں اور بارش بھی ٹھیک سے نہیں ہوتی۔‘
انڈیا کے وزیر زراعت شیو راج سنگھ چوہان کے مطابق 2022 سے 2024 کے درمیان صرف مراٹھواڑہ میں تین ہزار 90 کسانوں نے خودکشی کی۔ یعنی اوسطاً روزانہ تقریباً تین کسانوں نے اپنی جان لی۔
سرکاری اعدادوشمار میں یہ واضح نہیں کہ کسانوں کو خودکشی پر کس چیز نے مجبور کیا۔
ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز کے ترقیاتی امور کے پروفیسر آر راما کمار نے کہا کہ انڈیا میں کسانوں کی خودکشیاں دراصل زرعی شعبے میں آمدنی، سرمایہ کاری اور پیداوار کے بحران کا نتیجہ ہیں۔
راما کمار نے کہا کہ حکومت کسانوں کو شدید موسمی حالات سے نمٹنے کے لیے بہتر انشورنس سکیموں کے ذریعے مدد فراہم کر سکتی ہے۔ ساتھ ہی زرعی تحقیق میں سرمایہ کاری بھی ضروری ہے۔
میرابائی کے مطابق صرف کھیتی باڑی سے گزارا کرنا بہت مشکل ہے۔ ان کے شوہر پر قرضہ آٹھ ہزار ڈالر سے تجاوز کر گیا تھا جو انڈیا جیسے ملک میں ایک بہت بڑی رقم ہے جہاں ایک اوسط زرعی گھرانے کی ماہانہ آمدنی تقریباً 120 ڈالر ہوتی ہے۔
میرابائی دوسرے کھیتوں پر مزدوری کرتی ہیں لیکن اس کے باوجود وہ قرض واپس نہیں چکا سکی۔
مراٹھواڑہ کے ایک اور کھیت میں 32 برس کے کسان شیخ عمران نے گزشتہ سال اپنے بھائی کی خودکشی کے بعد خاندان کے چھوٹے سے کھیت کی ذمہ داری سنبھال لی تھی۔
وہ سویا بین کی فصل کے لیے قرض لینے کے بعد 1100 ڈالر سے زیادہ کے مقروض ہو چکے ہیں۔