Daily Ausaf:
2025-07-26@07:06:45 GMT

بنگلہ دیش اورانڈیا،سیاسی تنا ؤاور کشیدگی

اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
پہلے تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بنگلہ دیش میں اسلامی رہنما اب موجود نہیں ہیں۔ عوامی لیگ کی سابق حکومت نے ایسی تمام سیاسی جماعتوں کو ختم کر دیا تھا جو اسے طویل مدت میں نقصان پہنچا سکتی تھی۔ اس میں جماعتِ اسلامی سرِ فہرست تھی جس کے کئی رہنمائوں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا، جماعت اسلامی کے ہزاروں ارکان کو جیل کی ایسی کال کوٹھڑیوں میں قید کر دیا گیا جہاں روشنی تک نہیں جاتی اور ملک میں اس جماعت پر اب پابندی عائد ہوچکی ہے اور اس کی زیادہ تر قیادت اب ملک سے باہر ہے۔ اب ان جماعتوں کا ملک واپس آنے کا جواز اس لیے نہیں بنتا کیونکہ بنگلہ دیش میں طلبہ تحریک پرانے چہروں کو نہیں دیکھنا چاہتی اور وہ مذہبی حکومت کے حق میں بھی نہیں ہیں۔ تو اب حالات پہلے جیسے نہیں رہے۔
نئی دہلی سے صحافی جینت رائے چوہدری بھی بنگلہ دیش کے حالات کے پاکستان کے ساتھ موازنہ کو درست نہیں گردانتے۔ انہوں نے بھی حسینہ کے بیٹے کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر آج بنگلہ دیش کا موازنہ خطے کے دیگر ممالک سے کریں تو اس نے ترقی میں ناصرف پاکستان بلکہ انڈیا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ بنگلہ دیش اس وقت دنیا میں تیارہ شدہ کپڑے برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے لیکن ہم حسینہ کے اپنے مخالفین کے ساتھ مظالم اور خوفناک کرپشن کو کیوں بھول جاتے ہیں جس کا تذکرہ اب برطانیہ کے میڈیا میں ان کی بھانجی کا نام لے کر کیا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کے بعد بنگلہ دیش جنوبی ایشیاء کا غریب ترین ملک تھا جس کے معاشی حالات اتنے ابتر تھے کہ اس وقت امریکی قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر نے بنگلہ دیش کوباسکِٹ کیس کہا تھا۔ یہ حالات 1974 ء میں مزید خراب اس وقت ہوئے جب بنگلہ دیش میں سیلاب آیا اور اس کے نتیجے میں قحط سالی ہوئی اور اسی دوران امریکی صدر رچرڈ نِکسن کی حکومت نے بنگلہ دیش کو دی جانے والی امداد بھی ختم کر دی۔ مگر آج تقریبا ً52 برس بعد بنگلہ دیش جنوبی ایشیاء کی تیزی سے ترقی کرتی معیشت بن کر ابھرا ہے۔
بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ اس ترقی میں سب سے بڑا ہاتھ غیر سرکاری تنظیموں کا ہے جن میں محمد یونس کا گرامین بینک اور فضلِ حسن عابد کا شروع کیا ہوا ادارہ براک شامل ہیں۔ جینت رائے چوہدری نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اس وقت انڈیا میں یہ خدشہ ہے کہ پاکستان جیسا بننے کے بجائے بنگلہ دیش کہیں افغانستان نہ بن جائے۔ان کے مطابق اس کی مثال 1990ء کی دہائی میں افغانستان میں طالبان کی حکومت سے جا ملتی ہے۔ اس وقت کئی بنگلہ دیشی نوجوان طالبان کی سوچ سے متاثر ہو کر افغانستان منتقل ہوگئے تھے اور ان کے لئے لڑنے کو بھی تیار تھے۔ لیکن ان کی حکومت کے گِرنے کے بعد یہی نوجوان واپس بنگلہ دیش آگئے ہیں۔انھوں نے کہا کہ یہ وہ دور تھا جب شیخ حسینہ واجد کی حکومت کم عرصے کے بعد ختم ہوچکی تھی اور بنگلہ دیش نیشنل پارٹی اقتدار میں آئی تھی۔ طالبان کی حمایت کرنے والا گروہ اب پھر سے سرگرم ہوسکتا ہے۔ اسی لیے پاکستان بننے سے زیادہ بڑا خدشہ مجھے بنگلہ دیش کے افغانستان بننے کے بارے میں ہے۔
تاہم پاکستان کے انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز میں انڈیا سٹڈی سینٹر کے مطابق پاکستان اور بنگلہ دیش کا بنیادی ڈھانچہ بہت مختلف ہے۔ پاکستان میں فوج نے طویل عرصے تک حکمرانی کی ہے۔ جبکہ بنگلہ دیش میں تواتر سے جمہوری حکومتیں رہی ہیں۔ 2000ء کی دہائی کے بعد زیادہ عرصہ جمہوری حکومتوں کا رہا ہے۔ بنگلہ دیش میں بنیادی طور پر معیشت مضبوط ہوتی دکھائی دی ہے۔ خواتین پہلے سے زیادہ باشعور ہیں اور طلبہ یونین مضبوط رہی ہیں اور ملک کی سیاست کو بہتر طور پر سمجھتی ہیں۔ یہاں کی اپنی تہذیب، زبان ہے اور جمہوری اقدار کو تقویت دی جاتی ہے۔
بنگلہ دیش کے حالات کا پاکستان کے ساتھ موازانہ کیا جائے تو یہ ماننا پڑے گا کہ بنگلہ دیش میں فوجی آمریت یا حکومت آنے کا سوال نہیں بنتا اور اگر کسی ہائبرڈ نظام کو متعارف کیا بھی جاتا ہے تو وہ زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکے گا۔ یاد رہے کہ جب بنگلہ دیش کے ملٹری چیف نے شیخ حسینہ کی حکومت ختم ہونے کا اعلان کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ہم عبوری حکومت بنائیں گے، تب طلبہ یونین نے ناصرف اس بات کو رد کیا بلکہ نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کو بطور امیدوار سامنے لے کر آئے اور بنگلہ دیش کے تمام فوجی افسران نے اپنے چیف کو طلباء کا یہ مطالبہ ماننے کا مشورہ دیا جس کے فوری بعد انہوں نے طلبا ء کے ساتھ باہمی مذاکرات کے بعد محمد یونس کو حکومت بنانے کی دعوت دینی پڑی۔
بنگلہ دیش کی مضبوط طلبہ یونین نے اس بات کا بھی اعلان کیا کہ ان کی متحرک تحریک سیاست میں فوج کے کردار کو محدود کرے گی کیونکہ فوج میں بھی ان کے وفادار اور حامی ہیں۔ فوج میں ان کے حمایتی گروہ کی بنیادی وجہ شیخ حسینہ کی جانب سے اپنی جماعت عوامی لیگ کے ساتھ وفادار فوجیوں کو ترقی دینا ہے۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ اگر آرمی چیف وقار الزمان کو بھی دیکھیں تو ان کی وفاداری پہلے شیخ حسینہ اور عوامی لیگ کے ساتھ تھی اور حسینہ واجد کو فرار میں مدد دینے سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے خود پر ہونے والی حسینہ واجد کی مہربانیوں کا جواب دیتے ہوئے ان کے فرار میں مدد کی تاہم طلبہ یونین اب نہیں چاہیں گے کہ شیخ حسینہ یا ان کی باقیات اب آنے والی حکومت کا حصہ بنیں۔ تو پاکستان اور بنگلہ دیش ایک دوسرے سے خاصے مختلف ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اور بنگلہ دیش بنگلہ دیش کے طلبہ یونین کی حکومت کے ساتھ کے بعد

پڑھیں:

شاہینوں کا پلٹ کا وار، بنگلہ دیش کو 74 رنز سے شکست دیدی

 

شیر بنگلہ نیشنل اسٹیڈیم ڈھاکہ میں کھیلے گئے ٹی 20 سیریز کے آخری مقابلے میں پاکستان نے میزبان بنگہ دیش کو 74 رنز کے بھاری مارجن سے شکست دیدی تاہم سیریز بنگال ٹائیگر نے 1-2 سے اپنے نام کر لی ۔

پاکستان کی جانب سے 178 رنز کے تعاقب میں بنگلہ دیشی کی پوری ٹیم 104 رنز بنا کر آل آؤٹ ہوگئی، میزبان ٹیم کی بیٹنگ لائن ابتدا میں ہی لڑکھڑا گئی تھی اور صرف 41 رنز کے مجموعے پر اس کے 7 کھلاڑی پویلین لوٹ چکے تھے۔
بعد میں آنیوالے بلے بازوں نے کچھ مزاحمت ضرور کی تاہم وہ پاکستانی بولرز کا زیادہ دیر تک سامنے نہ کر سکے، آٹھویں نمبر پر بیٹنگ کیلئے آنے والے سیف الدین 35 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ رہے جب کہ بنگلہ دیش کے 9 بیٹرز ڈبل فگر میں داخل ہونے میں بھی ناکام رہے۔
پاکستان کی جانب سے فاسٹ بولر سلمان مرزا نے 3 وکٹیں اپنے نام کیں، محمد نواز اور فہیم اشرف 2-2 وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے، جبکہ سلمان علی آغا، حسین طلعت اور احمد دانیال کے حصے میں ایک، ایک وکٹ آئی۔
قبل ازیں پاکستان نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے میزبان بنگلہ دیش کو 179 رنز کا ہدف دیا تھا۔
سیریز کے آخری مقابلے میں پاکستان نے مقررہ 20 اوورز میں 7 وکٹوں کے نقصان پر 178 رنز بنائے، پاکستان کی جانب سے اوپنر بیٹر صاحب زادہ فرحان کو موقع دینے کا فیصلہ درست ثابت ہوا، دائیں ہاتھ سے بلے بازی کرنے والے بیٹر نے 5 چھکوں اور 6 چوکوں کی مدد سے 41 گیندوں پر شاندار 63 رنز کی اننگز کھیلی۔
نوجوان بیٹر حسن نواز نے 17 گیندوں پر برق رفتار 33 رنز بنا کر ٹیم کے مجموعے میں اضافہ کیا، محمد نواز 16 گیندوں پر 27 رنز بنانے میں کامیاب رہے جبکہ کپتان سلمان علی آغا 12 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ رہے۔
اوپنر بلے باز صائم ایوب 21، وکٹ کیپر بیٹر محمد حارث 5 اور حسین طلعت ایک رن بنا کر آؤٹ ہوئے۔
بنگلہ دیش کی جانب سے تسکین احمد 3 اور نسیم احمد 2 وکٹیں حاصل کر کے نمایاں رہے۔
پاکستان کی پلیئنگ الیون میں 2 تبدیلیاں کی گئیں، فخر زمان کی جگہ اوپنر بلے باز صاحب زادہ فرحان کو اسکواڈ کا حصہ بنایا گیا جبکہ خوش دل شاہ کو آرام دے کر حسین طلعت کو حتمی الیون میں شامل کیا گیا۔

Post Views: 6

متعلقہ مضامین

  • بنگلادیش میں شیخ حسینہ کے رفیقِ خاص سابق چیف جسٹس خیر الحق گرفتار
  • مودی سرکار کا ہندوتوا ایجنڈا؛ آسام اور ناگا لینڈ میں نسلی کشیدگی میں اضافہ
  • ملک ترقی نہیں کررہا، سیاسی ڈائیلاگ میں فوج اور عدلیہ کو بھی شامل کریں: شاہد خاقان
  • شاہینوں کا پلٹ کا وار، بنگلہ دیش کو 74 رنز سے شکست دیدی
  • شیخ حسینہ کی 2024 میں فورسز کو مظاہرین پر گولی چلانے کا حکم دینے کی آڈیو کال پکڑی گئی
  • تمام سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر ہمیں ایک ٹیم کے طور پر کام کرنا ہے؛ محسن نقوی
  • تحریک تحفظ آئین پاکستان اور پی ٹی آئی کا ملک میں آئین و قانون کی بحالی، منصفانہ انتخابات کیلئے نئی سیاسی تحریک شروع کرنے کااعلان
  • خیبرپختونخوا حکومت کے زیرِ اہتمام آل پارٹیز کانفرنس میں کن سیاسی جماعتوں نے آنے سے انکار کیا؟
  • خیبرپختونخوا میں قیام امن کیلئے بلائی گئی اے پی سی، اپوزیشن جماعتوں کا بائیکاٹ
  • تین اہم سیاسی جماعتوں کا خیبرپختونخوا حکومت کی اے پی سی میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ