Daily Ausaf:
2025-04-25@09:36:24 GMT

بنگلہ دیش اورانڈیا،سیاسی تنا ؤاور کشیدگی

اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
پہلے تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بنگلہ دیش میں اسلامی رہنما اب موجود نہیں ہیں۔ عوامی لیگ کی سابق حکومت نے ایسی تمام سیاسی جماعتوں کو ختم کر دیا تھا جو اسے طویل مدت میں نقصان پہنچا سکتی تھی۔ اس میں جماعتِ اسلامی سرِ فہرست تھی جس کے کئی رہنمائوں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا، جماعت اسلامی کے ہزاروں ارکان کو جیل کی ایسی کال کوٹھڑیوں میں قید کر دیا گیا جہاں روشنی تک نہیں جاتی اور ملک میں اس جماعت پر اب پابندی عائد ہوچکی ہے اور اس کی زیادہ تر قیادت اب ملک سے باہر ہے۔ اب ان جماعتوں کا ملک واپس آنے کا جواز اس لیے نہیں بنتا کیونکہ بنگلہ دیش میں طلبہ تحریک پرانے چہروں کو نہیں دیکھنا چاہتی اور وہ مذہبی حکومت کے حق میں بھی نہیں ہیں۔ تو اب حالات پہلے جیسے نہیں رہے۔
نئی دہلی سے صحافی جینت رائے چوہدری بھی بنگلہ دیش کے حالات کے پاکستان کے ساتھ موازنہ کو درست نہیں گردانتے۔ انہوں نے بھی حسینہ کے بیٹے کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر آج بنگلہ دیش کا موازنہ خطے کے دیگر ممالک سے کریں تو اس نے ترقی میں ناصرف پاکستان بلکہ انڈیا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ بنگلہ دیش اس وقت دنیا میں تیارہ شدہ کپڑے برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے لیکن ہم حسینہ کے اپنے مخالفین کے ساتھ مظالم اور خوفناک کرپشن کو کیوں بھول جاتے ہیں جس کا تذکرہ اب برطانیہ کے میڈیا میں ان کی بھانجی کا نام لے کر کیا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کے بعد بنگلہ دیش جنوبی ایشیاء کا غریب ترین ملک تھا جس کے معاشی حالات اتنے ابتر تھے کہ اس وقت امریکی قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر نے بنگلہ دیش کوباسکِٹ کیس کہا تھا۔ یہ حالات 1974 ء میں مزید خراب اس وقت ہوئے جب بنگلہ دیش میں سیلاب آیا اور اس کے نتیجے میں قحط سالی ہوئی اور اسی دوران امریکی صدر رچرڈ نِکسن کی حکومت نے بنگلہ دیش کو دی جانے والی امداد بھی ختم کر دی۔ مگر آج تقریبا ً52 برس بعد بنگلہ دیش جنوبی ایشیاء کی تیزی سے ترقی کرتی معیشت بن کر ابھرا ہے۔
بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ اس ترقی میں سب سے بڑا ہاتھ غیر سرکاری تنظیموں کا ہے جن میں محمد یونس کا گرامین بینک اور فضلِ حسن عابد کا شروع کیا ہوا ادارہ براک شامل ہیں۔ جینت رائے چوہدری نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اس وقت انڈیا میں یہ خدشہ ہے کہ پاکستان جیسا بننے کے بجائے بنگلہ دیش کہیں افغانستان نہ بن جائے۔ان کے مطابق اس کی مثال 1990ء کی دہائی میں افغانستان میں طالبان کی حکومت سے جا ملتی ہے۔ اس وقت کئی بنگلہ دیشی نوجوان طالبان کی سوچ سے متاثر ہو کر افغانستان منتقل ہوگئے تھے اور ان کے لئے لڑنے کو بھی تیار تھے۔ لیکن ان کی حکومت کے گِرنے کے بعد یہی نوجوان واپس بنگلہ دیش آگئے ہیں۔انھوں نے کہا کہ یہ وہ دور تھا جب شیخ حسینہ واجد کی حکومت کم عرصے کے بعد ختم ہوچکی تھی اور بنگلہ دیش نیشنل پارٹی اقتدار میں آئی تھی۔ طالبان کی حمایت کرنے والا گروہ اب پھر سے سرگرم ہوسکتا ہے۔ اسی لیے پاکستان بننے سے زیادہ بڑا خدشہ مجھے بنگلہ دیش کے افغانستان بننے کے بارے میں ہے۔
تاہم پاکستان کے انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز میں انڈیا سٹڈی سینٹر کے مطابق پاکستان اور بنگلہ دیش کا بنیادی ڈھانچہ بہت مختلف ہے۔ پاکستان میں فوج نے طویل عرصے تک حکمرانی کی ہے۔ جبکہ بنگلہ دیش میں تواتر سے جمہوری حکومتیں رہی ہیں۔ 2000ء کی دہائی کے بعد زیادہ عرصہ جمہوری حکومتوں کا رہا ہے۔ بنگلہ دیش میں بنیادی طور پر معیشت مضبوط ہوتی دکھائی دی ہے۔ خواتین پہلے سے زیادہ باشعور ہیں اور طلبہ یونین مضبوط رہی ہیں اور ملک کی سیاست کو بہتر طور پر سمجھتی ہیں۔ یہاں کی اپنی تہذیب، زبان ہے اور جمہوری اقدار کو تقویت دی جاتی ہے۔
بنگلہ دیش کے حالات کا پاکستان کے ساتھ موازانہ کیا جائے تو یہ ماننا پڑے گا کہ بنگلہ دیش میں فوجی آمریت یا حکومت آنے کا سوال نہیں بنتا اور اگر کسی ہائبرڈ نظام کو متعارف کیا بھی جاتا ہے تو وہ زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکے گا۔ یاد رہے کہ جب بنگلہ دیش کے ملٹری چیف نے شیخ حسینہ کی حکومت ختم ہونے کا اعلان کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ہم عبوری حکومت بنائیں گے، تب طلبہ یونین نے ناصرف اس بات کو رد کیا بلکہ نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کو بطور امیدوار سامنے لے کر آئے اور بنگلہ دیش کے تمام فوجی افسران نے اپنے چیف کو طلباء کا یہ مطالبہ ماننے کا مشورہ دیا جس کے فوری بعد انہوں نے طلبا ء کے ساتھ باہمی مذاکرات کے بعد محمد یونس کو حکومت بنانے کی دعوت دینی پڑی۔
بنگلہ دیش کی مضبوط طلبہ یونین نے اس بات کا بھی اعلان کیا کہ ان کی متحرک تحریک سیاست میں فوج کے کردار کو محدود کرے گی کیونکہ فوج میں بھی ان کے وفادار اور حامی ہیں۔ فوج میں ان کے حمایتی گروہ کی بنیادی وجہ شیخ حسینہ کی جانب سے اپنی جماعت عوامی لیگ کے ساتھ وفادار فوجیوں کو ترقی دینا ہے۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ اگر آرمی چیف وقار الزمان کو بھی دیکھیں تو ان کی وفاداری پہلے شیخ حسینہ اور عوامی لیگ کے ساتھ تھی اور حسینہ واجد کو فرار میں مدد دینے سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے خود پر ہونے والی حسینہ واجد کی مہربانیوں کا جواب دیتے ہوئے ان کے فرار میں مدد کی تاہم طلبہ یونین اب نہیں چاہیں گے کہ شیخ حسینہ یا ان کی باقیات اب آنے والی حکومت کا حصہ بنیں۔ تو پاکستان اور بنگلہ دیش ایک دوسرے سے خاصے مختلف ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اور بنگلہ دیش بنگلہ دیش کے طلبہ یونین کی حکومت کے ساتھ کے بعد

پڑھیں:

یمن، بنگلہ دیش، کینیڈا، پاکستان سمیت ساری دنیا بھارتی دہشتگردی سے واقف ہے، میجر جنرل (ر) زاہد محمود

معروف دفاعی تجزیہ کار میجر جنرل ریٹائرڈ زاہد محمود کا کہنا ہے کہ  انڈیا نے فالس فلیگ آپریشن میں معصوم شہریوں کے خون کو استعمال کیا۔

وی نیوز ایکسکلوسیو میں میجر جنرل ریٹائرڈ زاہد محمود نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت ٹیشن پیدا کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے، انڈیا امریکا کو چین کے خلاف اپنی خدمات پیش کرنے کی بھی ناکام کوشش کر رہا ہے۔

جنرل ریٹایر زاہد محمود نے کہا کہ انڈیا بار بار دو قومی نظریے کو حقیقت ثابت کر رہا ہے، انڈیا ہندوتوا کے نظریے پر عمل پیرا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی قوم انڈیا کے مذموم مقاصد کو کامیاب نہیں ہونے دے گی۔

انہوں نے کہا کہ وہ پہلگام واقعہ کی مذمت کرتے ہیں، انڈیا نے فالس فلیگ آپریشن میں معصوم شہریوں کے خون کو استعمال کیا، انڈیا انسانوں کا سودگر ہے۔

جنرل ریٹائرڈ زاہد محمود نے کہا کہ انڈیا اور افغانستان کے خلاف پاکستان کے پاس مضبوط ترین ثبوت موجود ہیں، جبکہ یہی ثبوت ہم نے دنیا کے سامنے رکھے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انڈیا بلوچستان میں پاکستان مخالف مسلح تحریکوں کو فنڈ دے  رہا ہے، انڈیا کے وزرا  خود اس کا اعتراف کر چکے ہیں۔

جنرل ریٹائرڈ زاہد محمود نے کہا کہ انڈیا پوری دنیا میں دہشتگردی کے حوالے سے بدنام ہے۔ پاکستان، قطر، یمن، بنگلہ دیش، کنیڈا اور پاکستان نے انڈیا کے خلاف دہشتگردی کے شواہد دنیا کے سامنے رکھے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نریندر مودی کی مقبولیت انڈیا میں روز بروز کم ہو رہی ہے، سکھ، مسلمان، عیسائی اور دوسرے مذاہب کے لوگ انڈیا میں غیر محفوظ ہیں، اور وہ سب مودی کے خلاف کھل کر بولتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • بھارت کیخلاف پاکستان کی سیاسی جماعتیں متحد، جارحیت کا بھرپور جواب دینے پر اتفاق
  • پاک بھارت کشیدگی؛ جنگ ہوئی تو کسی کا کچھ نہیں بچے گا: خواجہ سعد رفیق
  • پاک بھارت کشیدگی؛ جنگ ہوئی تو کسی کا کچھ نہیں بچے گا، خواجہ سعد رفیق
  • یمن، بنگلہ دیش، کینیڈا، پاکستان سمیت ساری دنیا بھارتی دہشتگردی سے واقف ہے، میجر جنرل (ر) زاہد محمود
  • فطری اور غیر فطری سیاسی اتحاد
  •  سندھ طاس معاہدے کی منسوخی کے اعلان کیخلاف سیاسی رہنما اور قانونی ماہرین یک زبان
  • بنگلہ دیش میں پہلی بار پاکستان لائیو اسٹائل ایگزیبیشن
  • بانی پی ٹی آئی سیاسی داؤ پیچ میں صفر بٹا صفر ہیں، حفیظ اللہ نیازی
  • تعلیمی خودمختاری کیلئے ہارورڈ کی جدوجہد
  • ڈھاکا یونیورسٹی کے ہاسٹل کا نام علامہ اقبال کے نام پر رکھنے کا مطالبہ