ڈونلڈ ٹرمپ کی کھرب پتی کابینہ
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
امریکا میں دانشوروں کا ایک طبقہ مجوزہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر شدید تنقید کر رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ الیکشن جیت کر ’’نپولین کمپلیکس ‘‘کا شکار ہوئے اور دوست دشمن کی تمیز کیے بغیر ہمارے اتحادیوں کو بھی عجیب و غریب دہمکیاں دینے لگے۔ مثلاً کینیڈا کو امریکا میں ضم کرنا اور گرین لینڈ و پانامہ نہر پہ قبضہ کر لینا۔ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران ووٹروں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ حکومت سنبھال کر سرکاری اخراجات کم کریں اور محنت کش خاندانوں کے لیے معیشت کو بڑھائیں گے مگر انھوں نے ان بنیادی عوامی مسائل کے حل کے سلسلے میں کوئی ٹھوس گفتگو نہیں کی۔
منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے الیکشن جیتنے کے بعد ممتاز امریکی رسالے، ٹائم میگزین کے ساتھ ایک انٹرویو میں اعتراف کیا کہ ان کے لیے اشیائے صرف کی قیمتوں کو کم کرنا مشکل ہو گا۔یہ دعوی اس سال انتخابی مہم کے دوران ان کے بیانات کے برعکس تھا۔انھوں نے انٹرویو نگار سے کہا:’’چیزوں کے اوپر ہونے کے بعد اسے نیچے لانا مشکل ہے۔ تم جانتے ہو، یہ بہت مشکل ہے۔‘‘ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران ووٹروں سے بار بار کہا تھا کہ انہیں صدر منتخب کرنے سے قیمتیں گر جائیں گی۔
دوسری طرف مشہور امریکی اخبار، وال اسٹریٹ جرنل کے ماہرین اقتصادیات کی رپورٹوں نے خبردار کیا ہے کہ اقتدار سنبھال کر بنائے جانے والے ٹرمپ کے منصوبے صارفین کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ معاشی ترقی کو کافی حد تک سست کر سکتے ہیں۔ خبر ہے کہ ٹرمپ عام آدمی پر لگے ٹیکسوں کی شرح بڑھانا چاہتے ہیں۔ انھوں نے ایک انٹرویو میں امریکی عوام کو مخاطب کر کے کہا :’’ آپ تمام لوگوں کے پاس بہت پیسہ ہے۔ … آپ جہنم کی طرح امیر ہیں۔ … ہم آپ کے ٹیکسوں میں مذید اضافہ کرنے والے ہیں۔جبکہ مشہور امریکی رسالے ، وینٹی فیئر نے خبر دی ہے ’’ڈونلڈ ٹرمپ اپنی پسندیدہ کارپوریشنز کو دوسری مدت میں ایک اور بڑا ٹیکس کٹ دینا چاہتے ہیں۔‘‘
یاد رہے ، مسٹر ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران امریکی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ بیرون ممالک جنگیں ختم کریں گے۔ نیز عالمی سیاست سے توجہ ہٹا کر امریکا کی جانب توجہ دیں گے تاکہ عام آدمی کے مسائل حل ہو سکیں۔ لیکن انھوں نے الیکشن جیتتے ہی سنسنی خیز بیان دے کر دنیا بھر میں ہلچل مچا دی۔ ایک حیرت انگیز پیش رفت یہ ہوئی کہ عام آدمی کے حمایتی ہونے کے دعوی دار ٹرمپ نے کئی ارب وکھرب پتیوں کو اپنی کابینہ میں شامل کر لیا۔ لیفٹسٹ دانشوروں نے اس امر پر بھی انھیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
ماہرین کی رو سے ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی نوزائیدہ کابینہ اور انتظامیہ میں کلیدی کردار ادا کرنے کے لیے اتنے زیادہ کھرب اور ارب پتی اکٹھے کر لیے ہیں کہ ایک فٹ بال ٹیم بنائی جا سکے۔ حالانکہ ٹرمپ کو نچلے متوسط طبقوں کے امریکیوں نے زیادہ ووٹ دئیے تاکہ وہ امریکا کو ’’دوبارہ عظیم تر‘‘ بنا سکیں۔ مگر ٹرمپ نے کھرب پتیوں پر مشتمل کابینہ بنا کر گویا ایک طرح سے عوام کو شرمندہ بلکہ ذلیل و خوار کر دیا۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ یہ کھرب پتی کابینہ ایسے عوامی سرکاری منصوبوں کی رقوم کم کر سکتی ہے جو غریب و ضرورت مند عوام کو سستے داموں علاج و تعلیم کی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔
ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس واپسی کے بعد اسٹریٹجک عہدوں کے لیے کم از کم گیارہ چنے جانے والے یا تو خودکھرب پتی ہیں یا ان کی شریک حیات میگا امیر ہیں یا وہ کھرب پتی ہونے سے کچھ ہی دور ہیں۔ اس باعث یہ ٹرمپ کابینہ امریکی تاریخ کی امیر ترین انتظامیہ بن جائے گی۔ اس کابینہ کے وزیر ومشیر مجموعی طور پہ 350 ارب ڈالر کی دولت رکھتے ہیں۔یہ اجتماعی دولت آسانی سے ٹرمپ کی پہلی کابینہ کے افراد سے زیادہ ہے، جو انھوں نے الیکشن 2016ء میں کامیابی کے بعد بنائی تھی۔وہ تب سب سے امیر امریکی کابینہ تھی، جس میں ریکس ٹلرسن جیسے انتہائی امیر ارکان شامل تھے، جو ایکسون موبل ( ExxonMobil )کا سابق چیف ایگزیکٹو تھا۔ماہرین کی رو سے 350 ارب ڈالر کی دولت دنیا کے 177 ممالک کے جی ڈی پی سے زیادہ ہے۔
اس کے مقابلے میں جو بائیڈن کی موجودہ کابینہ کے ارکان کافی غریب دکھائی دیتے ہیں جن کی مجموعی دولت محض گیارہ کروڑ اسّی لاکھ ڈالر ہے۔ اس کے باوجود حالیہ انتخابی مہم میں ٹرمپ کی طرف سے بار بار طنز کیا گیا کہ امریکا پر ایک بدعنوان اشرافیہ حکومت کر رہی ہے جو عام محنت کش امریکیوں کو دھوکہ دے رہی تھی۔
ٹرمپ کی حالیہ کابینہ میں امیر ترین اور سب سے نمایاں ایلن مسک ہے، ٹیسلا اور اسپیس ایکس کا مالک جو دنیا میں امیر ترین آدمی بھی ہے۔مسک کو ایک اور ٹیک انٹرپرینیور، بھارتی نژاد وویک رامسوامی کے ساتھ حکومتی کارکردگی جانچنے والے ایک نئے غیر سرکاری ادارے کی سربراہی سونپی گئی ہے جو مخفف ’’ڈوج‘‘(Doge) سے جانا جاتا ہے اور جس کا مشن بیوروکریسی سے ’’فضلہ ‘‘ کم کرنا ہے۔ وویک رامسوامی بھی 1 ارب ڈالر کی جائداد رکھتا ہے۔
اپنی فضول خرچی کے لیے مشہور مسک نے قومی بجٹ سے 2 ٹریلین ڈالر کم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اس نے وضاحت نہیں کی کہ یہ خرچ کس طرح اور کب گھٹایا جا ئے گا۔ گو اس نے خبردار کر دیا ہے کہ اس سے عوام کو "عارضی معاشی مشکلات" کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔نہ تو مسک اور نہ ہی رامسوامی کو سینیٹ کی تصدیق کی ضرورت ہوگی، کیونکہ ڈوج کوئی سرکاری محکمہ یا ایجنسی نہیں ۔تاہم ٹرمپ کابینہ میں کھرب پتیوں کو نامزد کرنے سے باز نہیں آئے جنہیں سینیٹ کی عوامی سماعتوں سے گزرنا پڑے گا اور جہاں ان کی دولت مسئلہ بن سکتا ہے۔ یاد رہے، خود ٹرمپ بھی چھ ارب ڈالر سے زائد کی دولت رکھتے ہیں۔اس لحاظ سے وہ مسک کے بعد دوسرے امیر شخص ہیں۔
ان میں ورلڈ ریسلنگ انٹرٹینمنٹ کی ایک سابقہ ایگزیکیٹو لنڈا میکموہن شامل ہے جو سیکرٹری تعلیم کے لیے نامزد کی گئی۔ اس کے شوہر، ونس میک موہن کی مالیت کا تخمینہ 3 ارب ڈالر ہے۔ ریاست نارتھ ڈکوٹا کے گورنر اور سابق بزنس مین ڈوگ برگم سیکرٹری داخلہ کے لیے نامزد ہوئے۔مالیاتی کمپنی،کینٹور فٹزجیرالڈ کے سربراہ اور چیف ایگزیکٹو ہاورڈ لوٹنک کوکامرس سیکرٹری کے طور پر نامزد کیا گیا ۔ ہیج فنڈ مینیجر اور سوروس انویسٹمنٹ مینجمنٹ کمپنی کا سابق پارٹنر،سکاٹ بیسنٹ سیکرٹری خزانہ کے طور پر نامزد ہے۔صرف ان تینوں شخصیات کی مجموعی دولت 10 ارب 70 کروڑ ڈالر ہے جو ٹرمپ کی پہلی کابینہ کے ارکان کی دولت سے ساڑھے چار ارب ڈالر زیادہ ہے۔
امریکی سینیٹ کی توثیق سے مشروط دیگر وزرا میں چارلس کشنر شامل ہیں ، ایک پراپرٹی ٹائیکون اور ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر کا باپ جو پیرس میں متوقع سفیر ہے۔ وارن سٹیفنز ایک سرمایہ کاری بینک کے سربراہ ہیں جنھیں برطانیہ میں سفیر بننا ہے۔ یہ ٹرمپ کابینہ میں مسک اور خود صدر کے بعد تیسری امیر ترین شخصیت ہیں۔ جیرڈ آئزک مین ایک خلاباز اور کاروباری ہے جسے خلائی ادارے، ’’ناسا‘‘ کے سربراہ کے لیے نامزد کیا گیا۔یہ چوتھی امیر ترین شخصیت ہے۔ایک اور کاروباری، کیلی لوفلر کو سمال بزنس ایڈمنسٹریشن کی سربراہی دینا مقصود ہے۔فوربس کے مطابق یہ سبھی خود یا ساتھی کے لحاظ سے کھرب و ارب پتی ہیں۔
اسی طرح ٹرمپ نے ایک پراپرٹی ٹائیکون اور گالف میں اپنے پارٹنر ، اسٹیو وِٹکوف کو مشرقِ وسطیٰ کے لیے اپنا سفیر منتخب کیا ہے۔وِٹکوف کی مجموعی مالیت کا تخمینہ ۱ ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔اس کے بعد سوشل سیکورٹی ایڈمنسٹریشن کے سربراہ کے طور پر نامزد فرینک بیسگنانو ہیں۔ وہ ریٹائر ہونے والوں کی پنشن اور فوائد کے انتظام کے ذمہ دار ہوں گے۔فرینک مالیاتی ٹیکنالوجی فرم،فیسرو (Fiserv Inc) کا صدر ہے۔ اس کی موجودہ دولت کا تخمینہ تقریباً 97 کروڑ ڈالر لگایا گیا ہے۔نو منتخب صدر نے مبینہ طور پر ایک اور ارب پتی، اسٹیفن فینبرگ کونائب وزیر دفاع بننے کی پیش کش کی ہے جو ایک نجی ایکویٹی سرمایہ کار اور سیربیرس کیپیٹل مینجمنٹ کا شریک چیئرمین ہے۔ جس کی ذاتی دولت کی مالیت کا اندازہ اس سال جولائی تک 4 ارب 70 کروڑ ڈالر لگایا گیا تھا۔
امریکا میں یہ امر پوشیدہ نہیں رہا کہ ٹرمپ دولت مندوں کے قرب کی خواہش رکھتے ہیں حالانکہ وہ خود عوامی راہنما ہونے کے دعوی دار ہیں۔ گویا ان کے قول وفعل میں تصادم آشکارا ہو گیا۔ ٹرمپ انتخابی مہم میں اکثر دعوی کرتے ہیں کہ انھوں نے اپنی محنت سے دولت کمائی اور وہ ایک سیلف میڈ آدمی ہیں (گو ان کے فراڈ اور دھوکا دہی کی داستانیں بھی عام ہیں)ان کا کہنا ہے کہ امریکی کمپنیوں نے رفتہ رفتہ اپنے کارخانے بیرون ممالک میں قائم کر لیے ، اس لیے امریکا میں زیادہ ملازمتیں نہیں رہیں اور عوام کی آمدن گھٹ گئی جس سے معیار زندگی بھی متاثر ہوا۔
چناں چہ ٹرمپ نے عوام سے وعدہ کیا کہ وہ امریکی کمپنیوں پر زور دیں گے کہ وہ اپنی فیکٹریاں واپس امریکا میں لے آئیں۔ یوں عام آدمی کو زیادہ اچھی ملازمتیں ملیں گی اور زیادہ آمدن سے اس کا معیار زندگی بلند ہو گا۔ اسی وعدے کے باعث عوام کی کثیر تعداد نے ٹرمپ کو ووٹ دئیے۔ بعض ماہرین یہ دلیل دیتے ہیں کہ ٹرمپ ان لوگوں کے جذبات سے بھی کھیلے جو خدا، ملک وقوم اور خاندان کو اہمیت دیتے ہیں۔ ان کی مخالف امیدوار نے امریکی عوام کو جذباتی طور پہ متحرک نہیں کیا، اس لیے وہ ہار گئیں۔
تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ٹرمپ نے انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ وہ ’’سُپر امرا ‘‘پر مذید ٹیکس لگائیں گے۔ مگر اب ان کی کھرب پتی کابینہ کو دیکھتے ہوئے یہ عمل دور کے ڈھول سہانے جیسا لگتا ہے۔ اس کے برعکس عین ممکن ہے، سرکاری اخراجات کم کرنے کے لیے تعلیم ، صحت اورسوشل سیکورٹی کے شعبوں کو دی جانے والی رقوم گھٹا دی جائیں جن سے عوام براہ راست مستفید ہوتے ہیں۔ جبکہ ایلن مسک جیسے کھرب پتیوں کو کسی نہ کسی طور مراعات دی جائیں تاکہ وہ پھلتے پھولتے رہیں۔ امریکی عوام کو جب بھی یہ عمل سمجھ میں آیا تو وہ یقیناً ٹرمپ کے مخالف بن جائیں گے جسے وہ ابھی اپنا مسیحا اور اوتار سمجھ رہے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انتخابی مہم کے دوران امریکی عوام امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کابینہ میں کابینہ کے کے سربراہ ارب ڈالر وعدہ کیا انھوں نے کی دولت سے عوام عوام کو کہ ٹرمپ ٹرمپ کی ایک اور کے لیے کے بعد ہیں کہ تھا کہ
پڑھیں:
غزہ میں امن فوج یا اسرائیلی تحفظ
غزہ جنگ بندی معاہدے کے بعد جہاں ایک طرف غاصب صیہونی ریاست اسرائیل مسلسل معاہدے کی خلاف ورزیاں کر رہی ہے، وہاں ساتھ ساتھ دنیا بھر میں امریکی اور اسرائیلی دلال، فلسطینی عوام اور فلسطین کی مزاحمت یعنی حماس کے خلاف منفی پراپیگنڈا کرنے میں مصروف عمل ہیں۔
اسی طرح امریکی صدر ٹرمپ مسلسل حماس کو دھمکیاں دے رہے ہیں لیکن اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کو ہتھیانے سمیت متعدد خلاف ورزیوں پرکسی قسم کا کوئی رد عمل نہیں دیا جا رہا ہے۔
دنیا کے بعض صحافیوں اور دانشوروں کو اس کام پر لگا دیا گیا ہے کہ وہ یہ تاثر پیدا کریں کہ معاہدے کی خلاف ورزی حماس کی طرف سے ہوئی تو پھر حالات کی ذمے داری حماس اور فلسطینیوں پر آن پڑے گی لیکن یہ سارے لوگ اسرائیل کی خلاف ورزیوں کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔
یہ رویہ خود اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ ان کو کسی خاص مقصد کے لیے اس کام پر لگایا گیا ہے تاکہ مسئلہ فلسطین کو کمزورکیا جائے اور اسے فراموش کرنے کے لیے جو ممکن ہتھکنڈے استعمال ہو سکتے ہیں، وہ کیے جائیں۔
حال ہی میں ٹائمز آف اسرائیل نامی اخبار نے یہ خبر شایع کی ہے کہ غزہ میں امن فوج کے نام پر انڈونیشیا، آذربائیجان اور ترکیہ کی افواج کو بھیجا جا رہا ہے۔ تشویش، اس لیے بھی پائی جا رہی ہے کیونکہ ایک تو امن معاہدے کی سرپرستی امریکی صدر ٹرمپ کر رہے ہیں۔
جن پر دنیا کے عوام بالکل بھی اعتماد نہیں کرتے اور انھوں نے آج تک غزہ میں نسل کشی کے ذریعے قتل ہونے والے ستر ہزار فلسطینیوں کے قتل پر اسرائیل کی مذمت تک نہیں کی ہے، لٰہذا اب ٹرمپ کی خواہشات کے مطابق مسلم ممالک کی افواج کو غزہ میں تعینات کرنے کے اعلان پر دنیا بھر کے عوام کو اس لیے تشویش ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ مسلمان افواج کو حماس اور فلسطینی مزاحمتی گروہوں کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں اور فلسطینی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کے لیے مسلمان افواج کی خدمت لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اگر یہ خدشات درست ہیں تو یقینا اس سے بڑی پریشانی مسلمانوں کے لیے اور کچھ نہیں ہو سکتی ہے۔اگر تاریخی اعتبار سے بھی اس معاملے پر غورکیا جائے تو ہم جانتے ہیں کہ امریکا اور اسرائیل کی پالیسی ہمیشہ سے فلسطین کے مکمل کنٹرول اور مزاحمتی قوتوں کی سرکوبی پر مرکوز رہی ہے۔
ٹرمپ کے سابقہ دورِحکومت صدی کی ڈیل یعنی Deal of the Century کے نام پر فلسطین کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی، تاہم ٹرمپ ناکام رہے۔ اسی طرح سابقہ دور میں ہی ٹرمپ نے یروشلم (القدس) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر کے امتِ مسلمہ کے دل پر وارکیا تھا، لیکن پوری دنیا میں اس عمل کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اسی تسلسل میں اگر ٹرمپ یا اس کے حمایتی حلقے مسلمان ممالک کی افواج کو امن یا نگرانی کے نام پر غزہ بھیجنے کا حکم دیں، تو اس کا مقصد مزاحمتی قوتوں کو غیر مسلح اور فلسطینی عزم کو توڑنا ہوگا۔ ماضی میں بھی عراق، افغانستان، شام اور لیبیا میں اتحادی افواج کے نام پر مسلمان ممالک کے فوجی استعمال کیے گئے جس کے نتیجے میں استعماری ایجنڈے کو تقویت ملی۔
لہٰذا امریکی صدرکے عزائم کو سمجھتے ہوئے مسلم دنیا کے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ کوئی بھی ایسا فیصلہ نہ کریں جس کے سبب نہ صرف فلسطین کاز کو نقصان پہنچتا ہو بلکہ مسلمانوں کی باہمی وحدت اور یکجہتی بھی متاثر ہوتی ہو۔
امریکی حکومت کا یہی ایجنڈا ہے کہ وہ مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا چاہتی ہے۔کسی غیر مسلم یا استعماری قوت کے سیاسی ایجنڈے کے مطابق مسلمان افواج کا استعمال اسلامی وقار کے بھی منافی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ علماء اور مفتیان کرام اس عنوان سے کیا ارشاد فرمائیں گے؟
کیونکہ ترکیہ سمیت آذربائیجان اور انڈونیشیا تو پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں ہیں، لٰہذا ان سے امید کم ہی نظر آتی ہے لیکن دیگر مسلم ممالک کو کیوں اس دلدل میں گھسیٹا جا رہا ہے؟ اگر مقصد فلسطینی عوام کی تحفظ و حمایت کے بجائے امریکی پالیسیوں کی تکمیل ہے، تو یہ عمل غلامی کے مترادف ہے، اگر مسلمان افواج کو غزہ اس نیت سے بھیجا جائے کہ وہ حماس یا فلسطینی مزاحمت کو کمزورکریں، تو یہ امتِ مسلمہ کی اخلاقی شکست ہوگی۔
ایسے فیصلے اسلام کے سیاسی استقلال، جہادی فلسفے اور امتِ واحدہ کے اصول کی نفی ہیں۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمان افواج کا مقصد طاغوت کے حکم پر مظلوموں کو دبانا ہے یا ظالموں کو روکنا؟خلاصہ یہ ہے کہ دو سال تک غزہ میں مسلسل نسل کشی کی جاتی رہی لیکن مسلم و عرب دنیا کی افواج خاموش تماشائی بنی رہیں اور اب امریکی صدر ٹرمپ کے احکامات کو بجا لانے کے لیے غزہ میں پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک کی افواج کی تعیناتی کی بات کی جا رہی ہے اور جس کا مقصد بھی اسرائیلی غاصب افواج سے لڑنا نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس اسرائیلی اور امریکی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔
انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اگر مسلمان حکمران اپنے عوام کے احساسات اور فلسطین کی حمایت کے بجائے امریکی دباؤ پر فیصلے کریں، تو یہ سیاسی غلامی کی علامت ہے، اگرکسی بھی فوجی اقدام میں سیاسی وفاداری کا مرکز واشنگٹن ہے، تو یہ امت کے لیے ذلت کا باعث ہے۔
امت کے علما، دانشوروں اور عوام کو ایسے’’ فریبِ امن‘‘ منصوبوں کو علمی و عوامی سطح پر بے نقاب کرنا چاہیے۔اگر واقعی مسلمان ممالک غزہ کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو پھر حقیقی مدد تب ہے جب مسلمان ممالک فلسطین کو اسلحہ، سفارتی حمایت، انسانی امداد اور سیاسی پشت پناہی فراہم کریں نہ کہ ان کے خلاف امن فوج کے نام پر جائیں۔
سعادت اُس میں ہے کہ مسلمان طاغوت کے سامنے جھکنے کے بجائے ظلم کے نظام کو بدلنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، یہی قرآن کا پیغام، یہی محمد ﷺ کی سنت اور یہی فلسطین کی مزاحمت کا سبق ہے۔