ہر سال کئی ہزار ارب روپے تعلیم پر خرچ کیے جانے کے باوجود نتائج قابلِ اطمینان کیوں نہیں ہیں؟ حکومت کو تعلیم کے نظام میں بہتری کے لیے اعلانات سے زیادہ عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔
پاکستان کے نظامِ تعلیم کو اس وقت کئی بڑے چیلنجز کا سامنا ہے جس میں سب سے بڑا چیلنج نصاب کی تیاری کا ہے جس پر سب ہی متفق ہوں۔ ملک میں اس وقت 39 فی صد گھوسٹ ٹیچرز ہیں۔ یعنی وہ سرکار سے تنخواہ تو لے رہے ہیں۔ لیکن کسی سرکاری اسکول میں پڑھانے کے بجائے کوئی اور کام کر رہے ہیں۔تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں دو کروڑ 62 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں جن میں سے سب سے زیادہ تعداد پنجاب میں ہے جہاں ایک کروڑ 17 لاکھ 30 ہزار سے زائد بچے اسکول جانے کی عمر میں پہنچنے کے باوجود کسی اسکول میں داخل نہیں ہوئے۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ خیبر پختونخوا میں کروڑوں کی بےقاعدگیوں کا انکشاف
—فائل فوٹومحکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ خیبر پختونخوا میں کروڑوں روپوں کی بےقاعدگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔
آڈٹ رپورٹ 25-2024 کے مطابق محکمہ پانی بلوں کی مد میں 36 کروڑ روپے کے بقایاجات وصول کرنے میں ناکام رہا، صوبے بھر میں 49 ہزار 622 واٹر کنکشنز ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ 24-2023ء میں 2 کروڑ 72 لاکھ 44 ہزار سے زیادہ کے پانی بلز وصول کیے گئے۔
پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ہری پور میں آئیسکو کو 20 لاکھ روپے زیادہ ادائیگی کا انکشاف ہوا ہے۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق قبائلی اضلاع میں ترقیاتی اسکیموں میں ٹھیکیداروں کو 5 کروڑ 70 لاکھ روپے کی اضافی ادائیگیاں کی گئیں، مہمند میں 2 ارب 94 کروڑ 50 لاکھ کے ترقیاتی منصوبے شروع کیے گئے، ترقیاتی منصوبوں پر 3 کروڑ 79 لاکھ روپے سے زیادہ خرچ کیے گئے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ مہمند میں ترقیاتی منصوبوں میں ٹھیکیداروں کو ساڑھے 26 لاکھ روپے اضافی ادا کیے گئے۔