WE News:
2025-07-24@21:57:26 GMT

موسم سرما کے دوران بارشوں میں 50 فیصد تک کمی کیوں؟

اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT

موسم سرما کے دوران بارشوں میں 50 فیصد تک کمی کیوں؟

ملک کے بیشتر علاقوں میں موسم سرد اور خشک جبکہ بالائی علاقوں میں شدید سرد اور مطلع ابر آلود رہنے کا امکان ہے، تاہم پنجاب کے بیشتر اضلاع ، بالا ئی سندھ اور خیبر پختونخوا کے میدانی علاقوں میں رات کے اوقات میں درمیانی سے شدید دُھند چھائے رہنے کی بھی توقع ہے۔

کم وبیش یہ ہے خلاصہ محکمہ موسمیات کی حالیہ پیشگوئی کا، مغربی ہواؤں کا سلسلہ ملک کے مغربی اور بالائی علاقوں پر اثر انداز ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے سردی کی شدت میں بھی اضافہ ہوگا، اس سے قبل محکمہ موسمیات کی جانب سے بارش کی بھی پیشگوئی کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سردیاں اپنے جوبن پر پہنچ گئیں، کہیں برفباری، کہیں بارش تو کہیں دھند کا راج، موٹروے بند

اسلام آباد کی بات کی جائے تو اسلام آباد میں اس سے قبل محکمہ موسمیات کی جانب سے 2 سے 3 بار بارشوں کی پیشگوئیاں کی گئی تھیں لیکن بارش نہیں ہوئی۔ کہا گیا تھا کہ جنوری کے دوسرے ہفتے میں بارشوں کا سلسلہ شروع ہوگا، جس میں 3 سے 4 دن تک مسسلسل بارشیں ہوں گی۔

اسی طرح 18 جنوری سے بھی بارشوں کے سلسلے کے ضمن میں پیشگوئی کی گئی  تھی، لیکن اس کے باوجود اسلام آباد میں بارشوں کا بہت ہی کم امکان نظر آ رہا ہے، کیا آنے والے دنوں میں بارش کا کوئی امکان ہے؟

مزید پڑھیں: وزیراعظم شہباز شریف کی اپیل پر نماز استسقا ادا، ملک کے مختلف علاقوں میں بارش

ڈائریکٹر جنرل محکمہ موسمیات مہر صاحبزاد خان نے وی نیوز سے کو بتایا کہ پچھلے سالوں کی نسبت اس بار دھند بھی اتنی نہیں ہوئی لیکن پنجاب اور سندھ کے بالائی میدانی علاقے آج بھی دھند کی لپیٹ میں ہیں۔

’اس کے علاوہ مری اور شمالی علاقوں کے کچھ حصوں میں آج بارش اور برفباری کا امکان ہے، کوئٹہ میں بھی کچھ دن قبل اچھی خاصی برفباری ہوئی ہے، یہ بات درست ہے کہ اسلام آباد میں گزشتہ تقریبا 2 مہینوں سے بمشکل ہلکی پھلی بارش ہی ہوئی ہے۔‘

مزید پڑھیں: ملک بھر میں سردی کی جاری لہر میں کمی کا امکان، محمکہ موسمیات

محکمہ موسمیات کے سربراہ کے مطابق مون سون کے بعد اکتوبر نومبر بھی کم بارشوں کا سیزن ہوتا ہے، اس لیے ایک وجہ یہ بھی ہے اور اس میں کوئی بڑی بات نہیں ہے، ایسا سیزن بھی آجاتا ہے، جس میں بارشیں کم ہوتی ہیں۔‘

’جنوری میں بارشیں متوقع ہیں لیکن اتنی نہیں ہو رہی ہیں جتنی ہونی چاہییں، لیکن بسا اوقات بارشوں کا سیزن ایک مہینہ ڈراپ ہونے کے بعد اگلے مہینے رونما ہو جاتا ہے، جب ہمارا جنوری اور فروری خشک رہتا ہے تو پھر مارچ اور اپریل تک بارشیں ہوتی رہتی ہیں۔‘

سیزن کی اوسط بارشوں میں کمی ہوئی ہے؟

ڈائریکٹر جنرل محکمہ موسمیات مہر صاحبزاد خان کا کہنا تھا کہ سیزن کی بارشیں بعض اوقات معمول سے کم ہوتی ہیں لیکن اس کا مطلب خشک سالی نہیں ہوتا، درجہ حرارت کی بات کی جائے تو درجہ حرارت بھی پہلے کی نسبت 1 سے 2 ڈگری تک کم ہو گیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ موسم سرما کی بارشوں کے سیزن کا دورانیہ اپریل کے آخر تک جاتا ہوا نظر آ رہا ہے، گزشتہ برس اگست میں پاکستان میں معمول سے 60 فیصد زائد بارشیں ریکارڈ کی گئی تھیں جبکہ مون سون کی بارشوں کی اوسط 51 فیصد سے زیادہ تھی۔

مزید پڑھیں: اسموگ سے ستائے عوام کے لیے اچھی خبر، کل سے ملک کے مختلف علاقوں میں بارش کا امکان

ماہر موسمیات محمد عثمان نے موسم میں تیبدیلیوں کے حوالے سے وی نیوز کو بتایا کہ دسمبر اور اب جنوری میں بھی بارشوں کا نہ ہونا خشک سردی میں اضافے کا باعث بن رہا ہے، جس کی وجہ سے شہری مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں، اور خاص طور پر وائرل انفیکشن کی مدت بھی طویل ہو گئی ہے۔

اسلام آباد سمیت دیگر شہروں میں موسم سرما کی بارشیں کیوں نہیں ہو رہیں؟ اس سوال کے جواب میں محمد عثمان نے بتایا کہ موسمیاتی ڈیٹا کے مطابق، گزشتہ 60 سالوں میں دسمبر کے آغاز میں ہی بارشوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا اور پنجاب میں بارشیں اکثر ہر ہفتے، یعنی ایک جمعرات سے دوسری جمعرات تک، وقفے وقفے سے ہوتی رہتی تھیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں موسم سرما کا آغاز؛ برفباری اور بارشیں کم ہونے کا امکان

’اسلام آباد اور پوٹھوہار کے علاقوں میں پہلے ہفتے میں 4 دن تک بارش ہوتی تھی، لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اب بارشوں کا دورانیہ کم ہو کر ایک دن تک محدود ہوگیا ہے، اور اس سال تو یہاں ایک دن بھی بارش نہیں ہوئی۔‘

ماہر موسمیات کے مطابق چند برسوں قبل نومبر کا مہینہ  بھی سردی کے مہینے میں شمار ہوتا تھا لیکن اس بار دسمبر میں بھی زیادہ آبادی والے علاقوں میں لوگ سردی کی روایتی شدت محسوس نہیں کررہے تھے۔

’اور بعض ایسے علاقے تھے جہاں پنکھے بھی چلتے رہے ہیں، سوسم سرما کے دوران ہونے والی بارشوں میں 50 فیصد تک کی کمی دیکھی جا رہی ہے۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسلام اباد بارش پوٹھوہار ماہر موسمیات محکمہ موسمیات محمد عثمان مہر صاحبزاد خان موسم سرما مون سون.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسلام اباد ماہر موسمیات محکمہ موسمیات محکمہ موسمیات اسلام ا باد علاقوں میں مزید پڑھیں بارشوں کا کا امکان نہیں ہو میں بھی کی گئی رہا ہے ملک کے

پڑھیں:

بارشیں اور حکومتی ذمے داری

گلگت، سوات، بونیر، جڑواں شہروں سمیت ملک کے مختلف حصوں میں موسلا دھار بارشوں سے تباہی، ندی نالوں میں طغیانی، سیلابی ریلوں میں بہہ کر 6 بچوں، باپ، بیٹی سمیت 16 افراد جان کی بازی ہار گئے جب کہ کئی زخمی ہوگئے، بابو سر ٹاپ پرکئی سیاح پانی میں بہہ چکے ہیں، جن کی تلاش کے لیے ریسکیوکارروائیاں تاحال جاری ہیں۔

سڑک 15 مقامات سے بلاک ہے اور 4 اہم رابطہ پل بھی سیلاب کی نذر ہوچکے ہیں۔ پاک فوج نے اسکردو میں ریسکیو آپریشن کرتے ہوئے 40 سے 50 گاڑیوں میں پھنسے ہوئے سیاحوں کو بحفاظت نکال لیا، لینڈ سلائیڈنگ کے باعث بند سڑکیں کھول دیں۔

 مون سون سیزن پاکستان کے لیے ایک اور تلخ حقیقت بن کر سامنے آیا ہے۔ جہاں ایک طرف بے رحم بارشیں برسیں، وہیں دوسری طرف انسانی غفلت، حکومتی لاپرواہی اور ادارہ جاتی کمزوری نے اس آفت کو ناقابلِ تلافی سانحے میں بدل دیا۔ خیبر پختون خوا،گلگت بلتستان، راولپنڈی اور اسلام آباد سمیت کئی علاقوں میں طوفانی بارشوں، لینڈ سلائیڈنگ اور سیلابی ریلوں نے جو تباہی مچائی، وہ صرف موسمی یا فطری آفت نہیں، بلکہ ایک منظم حکومتی و انتظامی ناکامی کی داستان ہے۔

 گزشتہ چند برسوں میں مون سون سیزن اب ایک قدرتی معمول سے بڑھ کر ایک انسانی بحران کی شکل اختیارکرچکا ہے۔ اس بار جولائی میں ہونے والی ہلاکتیں، جن کی تعداد درجنوں سے بڑھ کر سیکڑوں تک جا پہنچی، صرف بارش یا سیلاب کا نتیجہ نہیں، بلکہ ناقص انفرا اسٹرکچر، سیاحتی علاقوں میں انتظامی غفلت اور قبل از وقت انتباہی نظام کی غیر فعالیت کی علامت ہے۔

سیاح، جن میں مرد ، خواتین اور بچے شامل تھے، اپنی چھٹیوں کو خوشگوار بنانے کی امید لیے شمالی علاقہ جات کا رخ کرتے ہیں، مگر کمزور پُل، ندی نالوں کے قریب غیر محفوظ کیمپنگ اور مسلسل بارشوں کے باوجود حکومتی خاموشی ان کی زندگیوں کا چراغ بجھا دیتی ہے۔یہ المیہ فقط چند علاقوں تک محدود نہیں۔ اسلام آباد جیسے دارالحکومت میں بھی نکاسیِ آب کا ناقص نظام عوامی زندگی کو مفلوج کردیتا ہے۔

راولپنڈی کا نالہ لئی ایک بار پھر خبروں میں ہے جہاں بارش کے بعد پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہو جاتی ہے اور حکومتی ادارے فقط ’’ الرٹ جاری‘‘ کرنے تک محدود رہتے ہیں۔ خیبر پختون خوا کے سیاحتی مقامات، جنھیں ملکی معیشت کے لیے اہم قرار دیا جاتا ہے، بدترین انفرا اسٹرکچر، بغیر پلاننگ کی تعمیرات اور غیر تربیت یافتہ مقامی انتظامیہ کی وجہ سے انسانی جانوں کے لیے خطرناک بن چکے ہیں۔

اگر ہم ان حادثات کا غیر جذباتی، حقیقت پسندانہ تجزیہ کریں تو سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سیاحتی علاقوں میں مون سون کے دوران بغیر کسی نگرانی کے عوام کو جانے کی اجازت دینا دانشمندی ہے؟ جب متعلقہ اداروں کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور طوفانی بارشوں کی پیش گوئی کئی دن پہلے موصول ہو جاتی ہے، توکیا یہ اداروں کی ذمے داری نہیں کہ وہ متاثرہ علاقوں میں سیاحت پر وقتی پابندی عائد کریں؟ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری پالیسی ہمیشہ ردعمل پر مبنی ہوتی ہے، پیشگی حکمتِ عملی کا فقدان ہمیں ہر بار انسانی جانوں کے ضیاع کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔

یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ گلیشیئرز کے پگھلنے سے سیلاب کا خطرہ بڑھ رہا ہے، بارشوں کا نظام غیر متوازن ہو چکا ہے، اور فلیش فلڈز اب ایک معمول بن چکے ہیں۔ برساتی جھیلوں اور تالاب کا رجحان بھی ہمارے ہاں نہ ہونے کے برابر ہے، حالانکہ یہ اگر ہوں تو ان سے زیر زمین سطح آب، جو ہمارے شہری علاقوں میں تیزی سے نیچے جارہی ہے، اسے بڑھانے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔

ہمیں اپنے موسمیاتی پیٹرن کا عمیق مطالعہ کر کے ضرورت کے مطابق منصوبے بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہر سال مون سون میں سیکڑوں جانوں اور اربوں روپے کے نقصانات کا سلسلہ رک سکے اور اربن فلڈنگ کا مستقل اور دیر پا حل تلاش کیا جائے۔ بارش سے ہونے والے حادثات کو دیکھا جائے تو ان میں انتظامی سے زیادہ انسانی غفلت نمایاں نظر آتی ہے۔ ہر سال حکومت کی جانب سے مون سون سے قبل احتیاطی تدابیر اختیارکرنے کی ترغیب دی جاتی ہے مگر شہریوں کی جانب سے حکومتی ہدایات کو نظر اندازکیا جاتا ہے، اگر عوام سب کچھ حکومت پر چھوڑنے کے بجائے اپنے تئیں بھی برسات کے موسم میں تھوڑی سی احتیاط کریں تو بارشوں سے ہونیوالے جانی نقصان کی شرح کو بہت کم کیا جا سکتا ہے۔

ملک میں حالیہ اموات صرف قدرتی آفات کی وجہ سے نہیں ہوئیں، بلکہ یہ ریاستی نااہلی، ناقص شہری منصوبہ بندی اور ماحولیاتی بے حسی کا نتیجہ تھیں۔ ہم نے اپنے قدرتی نالوں پر تجاوزات قائم کیں، درخت کاٹ کر عمارتیں بنائیں، کھلی زمینوں کو سیمنٹ اور تارکول میں بدل دیا اور بارش کے پانی کے قدرتی بہاؤ کو بند کردیا۔ جب پانی کا راستہ بند ہوتا ہے تو وہ اپنا راستہ خود بناتا ہے، اور پھر اس کی راہ میں جو بھی آئے، وہ تباہی کی زد میں آ جاتا ہے۔اس المیے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ حکومتوں نے عوام کو موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی خطرات کے بارے میں شعور دینے کی کوئی کوشش نہیں کی۔

پارلیمان کو چاہیے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی پر باقاعدہ قانون سازی کرے، صوبائی اسمبلیاں اس کی توثیق کریں اور ہر سطح پر اس پر عملدرآمد کی نگرانی کی جائے۔ مزید دکھ کی بات یہ ہے کہ ان سانحات کے بعد بھی کوئی بڑی پالیسی تبدیلی یا سنجیدہ تجزیہ دیکھنے کو نہیں ملتا۔ حادثات کے بعد چند روزہ اخباری بیانات، کچھ دکھاوے کی میٹنگز اور پھر حسبِ معمول خاموشی طاری ہو جاتی ہے۔ نہ ہی کوئی باقاعدہ انکوائری کی جاتی ہے، نہ ہی ذمے داران کا تعین ہوتا ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، نئے موضوعات زیرِ بحث آجاتے ہیں اور پچھلے حادثات محض یاد داشت کا حصہ بن جاتے ہیں۔

شدید بارشیں بڑے پیمانے پر ماحولیاتی تبدیلی کا نتیجہ سمجھی جا رہی ہیں، جو آنے والے وقت میں پاکستانیوں کی طرز زندگی کو بدل کر کے رکھ دے گی، اس بگڑتی ہوئی صورت حال کی ایک بڑی وجہ شمالی علاقوں، خاص طور پر گلگت بلتستان میں گلیشیئرزکے تیزی سے پگھلنے کو قرار دیا جا رہا ہے، ایک وقت میں ان گلیشیئرزکی تعداد سات ہزار سے زیادہ بتائی جاتی تھی، لیکن ان کا غیر متوقع طور پر تیزی سے ختم ہونا پاکستان بھر میں بدلتے موسموں کا واضح ثبوت ہے۔ درختوں کی تیزی سے کٹائی اور ان کی جگہ نئے درخت نہ لگانے سے ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو مزید سنگین بنا دیا ہے، ایک غیر یقینی مستقبل کی جھلک 2010 میں ہنزہ وادی میں عطا آباد جھیل کے قیام کے ساتھ دیکھی گئی۔سیاحت کو اگر محفوظ بنایا جانا ہے تو اس کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔

سب سے پہلے تو مون سون سیزن کے دوران حساس علاقوں میں سیاحتی سرگرمیوں پر مکمل یا جزوی پابندی عائد کی جائے۔ اس حوالے سے ایک جامع منصوبہ بندی درکار ہے جس میں مقامی حکومت، پولیس، محکمہ موسمیات، اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ ادارے باہم مربوط ہو کر فیصلے کریں۔ دوسرا، مقامی کمیونٹیز کو اس حوالے سے تربیت دی جائے کہ وہ خود بھی قدرتی آفات میں بروقت ردعمل دے سکیں، اور باہر سے آنے والے سیاحوں کی حفاظت کر سکیں۔

تیسرا، سیاحوں کے لیے ضابطہ اخلاق ترتیب دیا جائے جس میں سفر سے پہلے رجسٹریشن، راستوں کی معلومات اور خطرناک علاقوں سے اجتناب جیسی ہدایات لازمی ہوں۔ انفرا اسٹرکچرکی تعمیر میں پائیداری اور موسمی حالات کو مدنظر رکھنا ازحد ضروری ہے۔ یہ بات اب بار بار ثابت ہو چکی ہے کہ کمزور پل، ناقص سڑکیں اور غیر محفوظ ہوٹل یا کیمپنگ ایریاز حادثات کا سبب بنتے ہیں۔ اگر حکومت سیاحت کو معیشت کا انجن بنانا چاہتی ہے، تو اسے انفرا اسٹرکچر پر فوری توجہ دینا ہوگی۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے بھی ان علاقوں میں ترقیاتی منصوبے شروع کیے جا سکتے ہیں، بشرطیکہ ان میں شفافیت اور پائیداری کو یقینی بنایا جائے۔موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں بھی ہمیں اپنی ترجیحات پر نظرثانی کرنا ہوگی۔

درختوں کی بے دریغ کٹائی، جنگلات کی تباہی اور بغیر منصوبہ بندی کے تعمیرات نے لینڈ سلائیڈنگ اور زمین کی کمزوری میں اضافہ کیا ہے۔ اس وقت پاکستان کو نہ صرف ایک جامع نیشنل کلائمیٹ ایڈاپٹیشن پالیسی کی ضرورت ہے بلکہ اس پالیسی کو ضلعی سطح تک نافذ کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ مقامی سطح پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہو سکیں۔یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انسانی جان صرف ایک عدد نہیں، بلکہ ایک خاندان، ایک نسل اور ایک خواب کا نام ہوتی ہے۔

جب ایک سیاح کسی حادثے کا شکار ہوتا ہے، تو اس کے پیچھے رہ جانے والے افراد عمر بھر کے دکھ میں مبتلا ہو جاتے ہیں اگر ایک جان بھی محفوظ کی جا سکتی ہو تو اس کے لیے اقدامات کرنا حکومت اور معاشرے دونوں کی اخلاقی ذمے داری ہے۔آخر میں، ہمیں بحیثیتِ قوم یہ طے کرنا ہوگا کہ کیا ہم ہر سال مون سون میں سانحات کا سامنا کرنے کو اپنی تقدیر سمجھ چکے ہیں، یا ہم اس دائرے کو توڑ کر ایک ذمے دار، محفوظ اور منصوبہ بند معاشرہ بننے کے لیے تیار ہیں؟ اگر ہم واقعی تبدیلی چاہتے ہیں تو اس کا آغاز آج، ابھی اور یہیں سے ہونا چاہیے۔ قدرتی آفات کو ہم نہیں روک سکتے، مگر اپنے رویوں، پالیسیوں اور ترجیحات کو ضرور بدل سکتے ہیں تاکہ قدرتی آفات سے جنم لینے والے مسائل پر جلد از جلد قابو پا سکیں۔

متعلقہ مضامین

  • لاہور سمیت ملک کے مختلف حصوں میں موسلادھار بارشیں، ہلاکتوں کی تعداد 252 تک جا پہنچی
  • کراچی میں ہلکی بارش اور بوندا باندی کا امکان
  • بارشیں اور حکومتی ذمے داری
  • آئندہ 24 گھنٹوں میں کہاں کہاں موسلادھار بارشیں ہوں گی؟بڑی پیشگوئی
  • پنجاب اور خیبرپختونخوا میں تیزہواؤں کے ساتھ موسلادھار بارش کی پیشگوئی
  • پنجاب میں مون سون کی شدت برقرار، مختلف شہروں میں موسلا دھار بارشیں، انتظامیہ الرٹ
  • موسلا دھار بارش کا خطرہ: بالائی علاقوں میں اربن فلڈنگ اور لینڈ سلائیڈنگ کا خدشہ
  • بارشیں کب تک رہیں گی؟کہاں سیلاب کا خطرہ ہے؟محکمہ موسمیات نے آگاہ کردیا
  • صدر آصف زرداری کی بارش و سیلاب متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں تیز کرنے کی ہدایت
  • شدید بارشیں اور سیلاب؛ عوام کو غیر ضروری سفر سے گریز کا الرٹ جاری