بلوچستان امن اور ترقی کی راہ پر
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
صوبہ بلوچستان قدرتی ذخائر سے مالامال پاکستان کا ایک اہم صوبہ ہے۔ اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ پاکستان کی معیشت آنے والے وقتوں میں گوادر ہی سے جڑی دکھائی دیتی ہے اور پاکستان کے مستقبل کی بنیاد بلوچستان کی ترقی، خوشحالی اور سالمیت پر منحصر ہے، لیکن اس کے باوجود سماجی اور اقتصادی اشاریوں کے اعتبار سے اسے نسبتاً پسماندہ صوبہ تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم افواج پاکستان نے بلوچستان میں دہشت گردی کے خاتمے اور عوام کو قومی دھارے میں لانے کے لیے کئی عملی اقدامات اٹھائے ہیں جن سے ترقی اور خوشحالی کے ایک نئے باب کا آغاز ہوا ہے۔ ملک دشمنوں نے پاکستان خصوصاً بلوچستان کو معاشی طور پر کمزور کرنے کے لیے صوبے میں جاری ترقیاتی منصوبوں، ان پر کام کرنے والے ملکی وغیر ملکی انجینئروں، غیر مقامی مزدوروں اور ان پر استعمال ہونے والی مشینری کو مسلسل نشانہ بنایا ہے۔ تاکہ کسی نہ کسی طرح ترقیاتی عمل کی راہ میں مشکلات کھڑی کی جا سکیں، مگر بلوچستان کی خوشحالی ریاست کی اولین ترجیح ہونے کی وجہ سے صوبے نے ترقی اور امن کی جانب سفر جاری رکھا ہوا ہے اور دوران ترقی کئی منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچے ہیں جبکہ بہت سے منصوبے تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں۔ ان کامیابیوں میں پاک فوج اور دیگر اداروں جبکہ جنوبی بلوچستان میں ایف سی بلوچستان (سائوتھ) کا اہم ترین کردار ہے۔ رواں سال بلوچستان کا بجٹ 750 بلین مختص کیا گیا ہے جس میں وفاقی حکومت کی جانب سے 520 بلین حکومت بلوچستان کو دے دئیے گئے جبکہ اسے رائیلٹی کی مد میں 254 ارب روپے کا سالانہ منافع بھی ہوتا ہے۔ پاک فوج نے ایک ادارہ جاتی اقدام کے ذریعے بلوچستان کے عوام کی بہتری کے لیے تعلیم، صحت اور مواصلات اور دیگر شعبوں میں متعدد ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا ہے۔ غیر ملکی میڈیا نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ افواج پاکستان بلوچستان کے انفرا سٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے دن رات کام کر رہی ہیں، ترقیاتی منصوبے مکمل ہونے کے بعد بلوچستان کے قدرتی وسائل سے بھی بھر پور فائدہ اٹھایا جائے گا جس سے بلوچ عوام کی زندگی بدل جائے گی اور اس وقت گوادر پورٹ کی وجہ سے گوادر علاقائی اور عالمی تجارتی مرکز بن چکا ہے۔ یہی بات پاکستان دشمنوں کو ہضم نہیں ہو پا رہی ہے، راقم اس بات کا ذکر اپنے گذشتہ متعدد کالموں اور مضامین میں کر چکا ہے کہ امریکہ اور بھارت سی پیک شدید تحفظات ظاہر کرتے نظر آتے ہیں۔ امریکہ کو معلوم ہے کہ سی پیک کی تکمیل کے بعد پاکستان نہ صرف داخلی طور پر مستحکم ہو گا بلکہ وہ اس کے اثر سے نکل جائے گا اور دوسری جانب چین بڑی اقتصادی قوت بن جائے گا جبکہ بھارت کی آنکھ میں سی پیک اس لیے کھٹک رہا ہے کہ وہ ایٹمی طاقت بننے کے بعد دفاعی حوالے سے پاکستان کو چیلنج نہیں کر سکتا تو سی پیک پایہ تکمیل پر پہنچنے کے بعد پاکستان کی اہمیت و حیثیت بڑھے گی اور ترقی کی دوڑ میں وہ بھارت کو پیچھے چھوڑ دے گا اور یہ حقیقت ہے کہ دفاعی لحاظ سے پاکستان بھارت سے سو گناہ زیادہ مضبوط ہے، کیونکہ پاکستان کا دفاع ہمیشہ سے مضبوط ہاتھوں میں ہے، تھا اور ہمیشہ رہے گا۔
پاکستان کے امن اور ترقی کو سبوثار کرنے کے لیے بھارت نے اپنی خفیہ ایجنسی راء کے ایجنٹوں اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، سمی دین بلوچ اور ماما قدیر جیسے سہولت کاروں اور غداروں کے ذریعے بلوچستان میں بدامنی اور دہشت گردی کو فروغ دیا، اس سلسلہ میں سی پیک کو خصوصاً نشانہ بنایا گیا۔ سی پیک منصوبے کے تحت 2025 میں پاکستان کی معیشت میں تیزی آئے گی، جو قومی ترقی کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہو گی۔ اس منصوبے کے دوسرے مرحلے کے تحت خصوصی اقتصادی زونز (SEZs)، توانائی کے نئے منصوبے، صنعتی ترقی اور جدید انفرا سٹرکچر کی تعمیر پر کام جاری ہے، جن سے پاکستانی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ سی پیک (پاک چین اقتصادی راہداری) کے پہلے مرحلے کی کامیاب تکمیل، پاکستان اور چین کے درمیان گہرے تعلقات کی علامت ہے۔ سی پیک پہلے مرحلے میں 43 منصوبے، جن کی مجموعی مالیت 25 ارب امریکی ڈالر ہے، کامیابی سے مکمل کیے گئے۔ یہ منصوبے نہ صرف پاکستان کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں مدد گار ثابت ہوئے بلکہ خطے کی مجموعی خوشحالی کے لیے بھی اہم ہیں۔ سی پیک کے تحت 8,800 میگا واٹ بجلی پاکستان کے قومی گرڈ میں شامل کی گئی ہے، جس سے توانائی کے بحران پر قابو پانے میں مدد ملی ہے۔ اس کے علاوہ، سٹرکوں، پلوں اور دیگر بنیادی ڈھانچے کی تعمیر سے نہ صرف نقل و حمل کے نظام میں بہتری آئی ہے بلکہ معاشی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ افواج پاکستان کی مشترکہ کوششوں کی بدولت پندرہ سو کلو میٹر کی سڑکوں کا جال بچھا کر بلوچستان کے عوام کی بڑی منڈیوں تک رسائی یقینی بنائی گئی۔ سولہ ارب روپے کی لاگت سے گوادر ڈیپ سی پورٹ کے پہلے مرحلے کی تکمیل اور خصوصی اقتصادی زون کا قیام بھی افواج پاکستان کی کوششوں سے مکمل ہوا۔ بلوچستان کی ترقی کے لیے ویژن 2030 کے تحت صوبے میں ترقی کا سفر تیزی سے جاری ہے۔ پاک فوج اور حکومت پاکستان نے وقت کے تقاضوں کے مطابق بلوچستان میں محرومیوں کے خاتمے کے لیے مختلف شعبہ جات میں جامع حکمت عملی کے تحت تیزی سے کام کیا۔ خوشحال بلوچستان کے اس پروگرام کے تحت صوبے بھر میں ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھایا گیا جس کا مقصد صرف مستحکم بلوچستان ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان کی ترقی کی راہ میں کیا رکاوٹ ہے اور وہ کون لوگ ہیں جو اس صوبہ کی ترقی اور وہاں کے عوام کی خوشحالی نہیں دیکھنا چاہتے۔ بلوچستان کی پسماندگی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے مسائل کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن ان مسائل کے حل کے لیے کی جانے والی کوششوں اور ان میں رکاوٹیں ڈالنے والوں کا ذکر نہیں کرتے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ بلوچستان کی ترقی میں اہم ترین رکاوٹ وہاں امن و امان کی کاوشوں میں خلل ڈالنے کی کوششیں ہیں۔ دہشت گرد تنظیمیں پاکستان کے دشمنوں کی آلہ کار بن کر بلوچستان میں ترقی اور خوشحالی نہیں چاہتیں۔ دراصل ماہ رنگ بلوچ، سمی دین بلوچ جیسے عناصر بلوچستان کے عوام کے دشمن ہیں، دشمن ممالک کی مالی مدد (فارن فنڈنگ) ڈالروں کے لیے اپنے ہی گھر کو آگ لگا کر جلانے کے درپے ہیں۔ یہی عناصر ایک طرف بلوچستان کے سادہ لوح اور کچے ذہن کے نوجوانوں کو شیطان کی طرح ورغلا کر اپنے ساتھ ملاتے ہیں۔ دوسری طرف ان کو ریاستی اداروں اوردوسرے صوبوںکے خلاف جھوٹے پراپیگنڈے کے ذریعے گمراہ کر کے ریاست کے خلاف بغاوت پر اکساتے ہیں۔ معصوم بے گناہ بچوں، بوڑھوں اور خواتین کے قاتلوں کو لاپتا افراد بنا کر ایک پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے، جس کی حقیقت محض ایک ڈرامے کے سوا کچھ نہیں۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: بلوچستان کی ترقی بلوچستان میں بلوچستان کے پاکستان کے پاکستان کی ترقی اور کے عوام عوام کی سی پیک کے تحت کے بعد کے لیے
پڑھیں:
کیا پاکستان کے یہ اسٹریٹیجک منصوبے مکمل ہو سکیں گے؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 جولائی 2025ء) پاکستان نے وقتاً فوقتاً کئی بڑے اور بین الاقوامی منصوبوں پر دستخط کیے لیکن ان کا مستقبل تاحال غیر یقینی ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق اگر یہ منصوبے مکمل ہو جائیں تو نہ صرف پاکستان کی معیشت کو استحکام مل سکتا ہے بلکہ عالمی سطح پر رابطوں میں بھی بہتری آ سکتی ہے۔
تاہم گیس پائپ لائنوں، بجلی کی ترسیل اور ریلوے لائنوں جیسے یہ بڑے منصوبے مختلف وجوہات کی بنا پر التوا کا شکار ہیں۔
ان میں سے چند اہم منصوبوں کا جائزہ درج ذیل ہے۔ ازبکستان-افغانستان-پاکستان ریل منصوبہسن 2023 میں طے پانے والے اس منصوبے کا مقصد وسطی ایشیا کو پاکستان کے ذریعے یورپ سے جوڑنا ہے۔ فزیبلٹی اسٹڈی کے معاہدے پر دستخط ہو چکے ہیں لیکن اس کی تکمیل کے بارے میں ماہرین کی رائے منقسم ہے۔
(جاری ہے)
سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''یہ ایک حد سے زیادہ پُرعزم منصوبہ ہے اور بظاہر یہ عملی طور پر ممکن نظر نہیں آتا۔
اس منصوبے کے حوالے سے کئی سوالات ہیں، جیسے کہ اس کی لاگت کون برداشت کرے گا اور افغانستان کی سکیورٹی صورتحال کا کیا ہوگا، جو پہلے سے طے شدہ کئی منصوبوں کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔‘‘دوسری جانب معروف معاشی تجزیہ کار عابد قیوم سلہری کہتے ہیں، ''ازبکستان-افغانستان-پاکستان ریلوے منصوبہ پاکستان کو یورپ سے جوڑ سکتا ہے اور کاروباری طبقہ وسطی ایشیائی ممالک کو یورپ کے ساتھ تجارت کے لیے ایک اسٹاپ اوور کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔
‘‘وہ مزید کہتے ہیں کہ سکیورٹی خدشات کو رکاوٹ بنانے کے بجائے کام شروع کر دینا چاہیے کیونکہ حالات وقت کے ساتھ بہتر ہو سکتے ہیں۔
ترکمانستان-افغانستان-پاکستان-بھارت (تاپی) گیس پائپ لائنسن 2010 میں شروع ہونے والا یہ منصوبہ ترکمانستان سے پاکستان تک گیس کی فراہمی کے لیے تھا لیکن بھارت کے الگ ہونے اور افغانستان کی سکیورٹی صورتحال کی وجہ سے یہ تعطل کا شکار ہے۔
عابد قیوم سلہری کے مطابق سکیورٹی مسائل اس کی ناکامی کی بنیادی وجہ ہیں۔ ایران-پاکستان گیس پائپ لائنسن 2010 کے معاہدے کے تحت ایران نے اپنی سرزمین پر پائپ لائن مکمل کر لی ہے لیکن پاکستان بین الاقوامی پابندیوں کے خوف سے اپنا حصہ مکمل نہیں کر سکا۔ اس تناظر میں مفتاح اسماعیل کہتے ہیں، ''ہماری حکومت بغیر مکمل تیاری اور مناسب ہوم ورک کے جلد بازی میں معاہدے کر لیتی ہے اور یہی ان کے ناکام ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے۔
‘‘ کاسا-1000 منصوبہسن 2015 میں شروع ہونے والا یہ منصوبہ کرغزستان اور تاجکستان سے پن بجلی کی ترسیل کے لیے تھا لیکن اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ مفتاح اسماعیل کے مطابق پاکستان کی بڑھتی ہوئی توانائی صلاحیت کے پیش نظر یہ منصوبہ اب غیر اہم ہو سکتا ہے۔
سی پیک - ایم ایل-1 ریلوے منصوبہسن 2013 میں طے پانے والا یہ منصوبہ فنڈنگ مسائل کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہے تاہم سن 2024 میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔
ماہر اقتصادیات ڈاکٹر خاقان نجیب کہتے ہیں، ''پاکستان میں میگا پراجیکٹس کی تکمیل میں چیلنجز ضرور ہیں، جن میں کمزور طرزِ حکمرانی، مالیاتی پیچیدگیاں، علاقائی سلامتی کے خدشات اور سیاسی عدم استحکام شامل ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ اگر عمل درآمد کے نظام کو مؤثر بنایا جائے تو بروقت تکمیل ممکن ہے۔ کیا یہ منصوبے مکمل ہو سکتے ہیں؟ماہرین کا خیال ہے کہ یہ منصوبے پاکستان کی معیشت اور عالمی رابطوں کے لیے نہایت اہم ہیں لیکن ان کی تکمیل کے لیے مستقل پالیسیوں اور عزم کے ساتھ کام جاری رکھنا ہو گا۔
ڈاکٹر خاقان نجیب کے مطابق حالیہ برسوں میں ایم ایل-1 جیسے منصوبوں پر پیش رفت امید کی کرن ہے۔وہ کہتے ہیں کہ کمزور حکمرانی اور مالیاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے شفاف اور مربوط نظام کی ضرورت ہے جبکہ علاقائی تعاون بھی ضروری ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق سکیورٹی چیلنجز کو کم کرنے کے لیے افغانستان اور دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعاون بڑھانا ہو گا۔
ادارت: امتیاز احمد