شارجہ (سپورٹس ڈیسک)ایم آئی ایمریٹس نے ٹام بینٹن کی 55 گیندوں پر ناقابل شکست 102 رنز کی شاندار اننگز کی بدولت شارجہ واریئرز کو 9 وکٹوں سے شکست دیدی۔
ایم آئی ایمریٹس کی جانب سے اپنی پہلی مہم کو خاص بناتے ہوئے ٹام بینٹن ٹورنامنٹ کی تاریخ میں چوتھی اور ایک ہفتہ قبل شائی ہوپ کی شاندار سنچری کے بعد اس سیزن میں صرف دوسرے سنچری بنانے والے کھلاڑی بن گئے ہیں۔
ہوپ کی سنچری رائیگاں گئی تاہم بینٹن کی سنچری خاص تھی کیونکہ اس سے نہ صرف ان کی ٹیم کو پوائنٹس ٹیبل پر دوسری پوزیشن پر پہنچنے میں مدد ملی بلکہ یہ آئی ایل ٹی 20 کی تاریخ میں شارجہ کرکٹ اسٹیڈیم میں بنائی گئی صرف پہلی سنچری تھی۔
کوشل پریرا نے 42 گیندوں پر ناقابل شکست 56 رنز کی اننگز کھیل کر 17.

4 اوورز میں 177 رنز بنائے۔
بینٹن نے بڑی طاقت کے ساتھ اپنی سنچری بنائی اور دلشان مدوشنکا کی شارٹ بال پر چھکا لگایا ان کی ناقابل یقین اننگز میں 10 چوکے اور 6 چھکے شامل تھے۔ جبکہ پریرا نے اپنی ناقابل شکست اننگز میں 6 چوکے لگائے۔
واریئرز نے دلشان مدوشنکا کے ذریعے دوسرے اوور میں محمد وسیم کو 12 رنز پر آؤٹ کیا لیکن ان کے بولرز نے بینٹن اور پریرا کی 157 رنز کی مضبوط شراکت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں کیا۔ 12 ویں اوور میں ڈراپ کیچ پکڑنا واریئرز کے لئے مہنگا ثابت ہوا جب کریم جنت 50 رنز بنانے سے قبل ایک وکٹ کو برقرار نہ رکھ سکے۔
پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے شارجہ واریئرز نے مقررہ 20 اوورز میں 9 وکٹوں کے نقصان پر 176 رنز بنائے۔ ایم آئی ایمریٹس کے بائیں ہاتھ کے فاسٹ بولر فضل الحق فاروقی نے 24 رنز دیکر چار وکٹیں حاصل کیں جبکہ الزاری جوزف نے 39 رنز دیکر دو وکٹیں حاصل کیں جبکہ روماریو شیپرڈ اور وقار سلام خیل نے ایک، ایک وکٹ حاصل کی۔
اس دوران جانسن نے واریئرز کی اننگز کو مستحکم کیا تاہم روہان مصطفیٰ کو چھ رنز پر کھو دیا اس وقت وارئرز نے 3 وکٹوں کے نقصان پر 71 رنز بنائے۔ جانسن اور لیوک ویلز کے درمیان 32 رنز کی شراکت نے میزبان ٹیم کی اننگز میں کچھ جھلک پیدا کی جب تک کہ ویلز الزاری جوزف کے ہاتھوں 18 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئے۔

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

موسمیاتی تبدیلی سے فصلوں کو نقصان، انڈیا میں قرضوں سے تنگ کسانوں کی خودکشیاں

بھارتی ریاست مہاراشٹر کے ایک چھوٹے سے کھیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے میرابائی کھنڈکر نے کہا کہ ان کی زمین صرف قرض اگاتی ہے کیونکہ خشک سالی کے باعث فصلیں خراب ہو گئیں اور ان کے شوہر نے خودکشی کر لی۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق بھارت میں کسانوں کی خودکشی کی تاریخ طویل ہے جہاں بہت سے کسان اس تباہی سے صرف ایک فصل اچھا نہ ہونے کی دوری پر ہوتے ہیں، لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پیدا ہونے والے شدید موسم نے ان کسانوں پر مزید بوجھ ڈال دیا ۔ پانی کی قلت، سیلاب، درجہ حرارت میں اضافہ اور بے ترتیب بارشوں کے سبب فصلوں کی پیداوار میں کمی اور اس کے ساتھ ساتھ قرضوں کے بوجھ اس زرعی شعبے پر بھاری اثر ڈال رہے ہیں جو انڈیا کی ایک اعشاریہ چار ارب آبادی میں سے 45 فیصد کو روزگار فراہم کرتا ہے۔
مراٹھواڑہ کی میرابائی کے شوہر امل پر مقامی سودخوروں کا اتنا قرض چڑھ گیا تھا جو ان کی سالانہ آمدنی سے سینکڑوں گنا زیادہ تھا۔ ان کی تین ایکٹر پر مشتمل سویابین، باجرا اور کپاس کی فصل شدید گرمی کی لپیٹ میں آ کر سوکھ گئی تھی۔
30 کی میرابائی نے روتے ہوئے کہا کہ ’جب وہ ہسپتال میں تھا تو میں نے تمام دیوتاؤں سے اس کی زندگی کی بھیک مانگی۔
امل زہر کھانے کے ایک ہفتے بعد چل بسے تھے۔ وہ اپنے پیچھے میرابائی اور تین بچے چھوڑ گئے ہیں۔ ان کی آخری بات چیت قرض کے بارے میں ہی تھی۔
نئی دہلی میں قائم تحقیقاتی ادارے سینٹر فار سائنس اینڈ انوائرمنٹ کے مطابق گزشتہ برس انڈیا میں شدید موسمی حالات کی وجہ سے تین اعشاریہ دو لاکھ ہیکٹر زرعی زمین متاثر ہوئی جو کہ بیلجیئم سے بھی بڑے رقبے کی زمین ہے۔
اس متاثرہ زرعی زمین کا 60 فیصد سے زیادہ صرف مہاراشٹر میں واقع ہے۔
امل کے بھائی اور ساتھی کسان بالاجی کھنڈکر نے کہا کہ ’گرمیاں بہت شدید ہو گئی ہیں اور ہم جو کچھ بھی ضروری ہو، وہ کر لیں، پھر بھی پیداوار پوری نہیں ہوتی۔‘
انہوں نے کہا کہ کھیتوں کو سیراب کرنے کے لیے کافی پانی نہیں اور بارش بھی ٹھیک سے نہیں ہوتی۔‘
انڈیا کے وزیر زراعت شیو راج سنگھ چوہان کے مطابق 2022 سے 2024 کے درمیان صرف مراٹھواڑہ میں تین ہزار 90 کسانوں نے خودکشی کی۔ یعنی اوسطاً روزانہ تقریباً تین کسانوں نے اپنی جان لی۔
سرکاری اعدادوشمار میں یہ واضح نہیں کہ کسانوں کو خودکشی پر کس چیز نے مجبور کیا۔
ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز کے ترقیاتی امور کے پروفیسر آر راما کمار نے کہا کہ انڈیا میں کسانوں کی خودکشیاں دراصل زرعی شعبے میں آمدنی، سرمایہ کاری اور پیداوار کے بحران کا نتیجہ ہیں۔
راما کمار نے کہا کہ حکومت کسانوں کو شدید موسمی حالات سے نمٹنے کے لیے بہتر انشورنس سکیموں کے ذریعے مدد فراہم کر سکتی ہے۔ ساتھ ہی زرعی تحقیق میں سرمایہ کاری بھی ضروری ہے۔
میرابائی کے مطابق صرف کھیتی باڑی سے گزارا کرنا بہت مشکل ہے۔ ان کے شوہر پر قرضہ آٹھ ہزار ڈالر سے تجاوز کر گیا تھا جو انڈیا جیسے ملک میں ایک بہت بڑی رقم ہے جہاں ایک اوسط زرعی گھرانے کی ماہانہ آمدنی تقریباً 120 ڈالر ہوتی ہے۔
میرابائی دوسرے کھیتوں پر مزدوری کرتی ہیں لیکن اس کے باوجود وہ قرض واپس نہیں چکا سکی۔
مراٹھواڑہ کے ایک اور کھیت میں 32 برس کے کسان شیخ عمران نے گزشتہ سال اپنے بھائی کی خودکشی کے بعد خاندان کے چھوٹے سے کھیت کی ذمہ داری سنبھال لی تھی۔
وہ سویا بین کی فصل کے لیے قرض لینے کے بعد 1100 ڈالر سے زیادہ کے مقروض ہو چکے ہیں۔

Post Views: 4

متعلقہ مضامین