محرابپور،عدالتی حکم پر ہالانی مندر کی اراضی پر قبضے کامقدمہ درج
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
محراب پور(جسارت نیوز)ہائی کورٹ احکامات پر ہالانی مندر کی اراضی پر قبضے کا مقدمہ پی پی پی رکن قومی اسمبلی کے کمدار پر درج، ہالانی پولیس ذرائع کے مطابق سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ کے جج جسٹس ذولفقار علی خان کے احکامات پر ایس ایس پی نوشہرو فیروز سینگار علی ملک کی تحقیقات کے بعد ہالانی سے منتخب پی پی پی ایم این اے سید علی شاہ کے کمدار مرید حسین سولنگی پر ہالانی مندر کے ٹرسٹی (Trustee) جیٹانند بجاج کی مدعیت میں مقدمہ نمبر 8 سال 2024ء درج کیا گیا ہے، مقدمہ میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ہالانی مندر کی 1 ایکٹر 32 گھونٹے زرعی اراضی پر عدالتی احکامات کے باوجود مرید سولنگی نے مندر کے مقرر کردہ کسان غلام محمد آرائیں کی لگائی گئی فصل ختم کرکے گندم کی فصل لگا کر قبضہ کرلیا ہے۔ یاد رہے کہ زمین پر قبضے کیخلاف ہالانی مندر کے ٹرسٹی (Trustee) جیٹانند بجاج کی آئینی درخواست (Petition) ہائی کورٹ سکھر میں دائر تھیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
بلوچستان: سیاسی شخصیات، افسروں اور لینڈ مافیا کا 11 ہزار ایکڑ اراضی پر قبضہ
قومی احتساب بیورو بلوچستان نے اربوں روپے کی 11 ہزار ایکڑ سرکاری اراضی پر قبضے کا سکینڈل بے نقاب کر دیا۔نیب نے زمینوں کی بندر بانٹ منجمد کرنے کے لیے احتساب عدالت کوئٹہ سے رجوع کر لیا۔ترجمان نیب کے مطابق اس سنگین سکینڈل میں بورڈ آف ریونیو کے اعلیٰ افسران، بااثر لینڈ مافیا اور بعض سیاسی شخصیات کے مابین منظم گٹھ جوڑ سامنے آیا ہے جنہوں نے ملی بھگت سے اربوں روپے مالیت کی زمین اپنے فرنٹ مینوں کے نام پر منتقل کرائی۔نیب بلوچستان نے ضلع کوئٹہ کے علاقوں کرک، سام خیل، تالہ حیدرزئی، چشمہ اچوزئی اور ضلع حب کے موالی شمالی اور چیچائی میں تفتیشی کارروائیاں تیز کر دی ہیں، ان علاقوں میں پرکشش محل وقوع کے باعث زمینوں کی مالیت اربوں روپے میں ہے۔یہ سکینڈل ایک منظم نیٹ ورک کے ذریعے چلایا جا رہا تھا، جس میں ریکارڈ میں جعل سازی، جعلی الاٹمنٹس، سرکاری احکامات میں ہیر پھیر اور زمینوں کی غیر قانونی منتقلی جیسے سنگین جرائم شامل ہیں، زمینیں اکثر من پسند افراد یا بااثر شخصیات کے فرنٹ مینوں کے نام منتقل کی گئیں، تاکہ اصل مالکان کا سراغ نہ لگایا جا سکے۔نیب حکام کے مطابق اس سکینڈل میں ملوث بعض بیوروکریٹس اور سیاسی شخصیات کو آئندہ دنوں میں شاملِ تفتیش کیا جا سکتا ہے، ادارے نے تحقیقات کے دائرہ کار کو وسعت دے دی ہے اور تمام متعلقہ ریکارڈ کی چھان بین جاری ہے۔قومی احتساب بیورو کا مؤقف ہے کہ اس بدعنوانی کا دائرہ صرف بلوچستان تک محدود نہیں، بلکہ اس کی نوعیت اتنی وسیع اور سنگین ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کے چند بڑے مالیاتی سکینڈلز میں شامل ہو سکتا ہے، نیب کی کوشش ہے کہ ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے اور قومی اثاثوں کو ناجائز قبضوں سے آزاد کرایا جائے۔