ہفتے میں 70 گھنٹے کام ہی حقیقی کامیابی کی شاہ کلید ہے: نارائن مُورتی
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
بھارت کے ٹیکنو آجر نارائن مُورتی نے کہا ہے کہ ہفتے میں کم از کم 70 گھنٹے کام کرنا ہی حقیقی کامیابی، ترقی اور خوش حالی کی شاہ کلید ہے۔ کوئی بھی قوم اگر باقی دنیا سے ممتاز ہونا چاہتی ہے، ترقی یقینی بنانا چاہتی ہے تو اُسے زیادہ سے زیادہ کام کرنا ہی پڑے گا۔ دنیا بھر میں وہی اقوام ترقی سے ہم کنار ہوئی ہیں جنہوں نے کام کو حرزِ جاں بنایا ہے۔
آئی ایم سی کے کِلاچند میموریل لیکچر میں اِنفوسِز کے شریک بانی نارائن مُورتی نے کہا کہ دو سال قبل جب میں نے قوم کو مشورہ دیا تھا کہ سب کو ہفتے میں 70 گھنٹے کام کرنا چاہیے تاکہ ملک ترقی کرے تب ایک ہنگامہ برپا ہوگیا تھا۔ جنہیں زیادہ کام کرنے کی عادت نہیں ہے اور جو زیادہ کام کرنے کے قائل ہی نہیں ہیں وہ بدحواس ہوگئے تھے۔ اُنہوں نے شور مچایا تھا کہ اگر انسان اتنا کام کرے گا تو آرام کب کرے گا، گھر والوں کو وقت کب دے گا اور سماجی رابطوں کی نوعیت کیا ہوگی۔
ناران مُورتی کا کہنا ہے کہ ہفتے میں 70 گھنٹے کام کرنا کسی بھی اعتبار سے کوئی غلط مشورہ نہیں ہے بلکہ یہ معقول ترین آپشن ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پورے چالیس سال تک انہوں نے روزانہ 14 گھنٹے کام کیا ہے۔ صبح 6 بج کر 20 منٹ پر دفتر پہنچنا اور وہاں سے رات کے ساڑھے آٹھ بجے گھر روانہ ہونا اُن کا معمول رہا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے اور کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ یہ غلط تھا یا غلط ہے۔ زیادہ کام کرنے سے ترقی ممکن ہوئی اور یہ بھی ثابت ہوا کہ زیادہ کام کرنے سے کوئی مرتا نہیں۔
نارائن مُورتی کا کہنا تھا کہ جس انسان میں کام کرنے کی لگن ہوتی ہے وہی زیادہ کام رکھتا ہے۔ زیادہ کام کرنے کی لگن بھرپور تربیت اور مخصوص ذہنی کیفیت کا نتیجہ ہوا کرتی ہے۔ کسی بھی شخص کو زیادہ کام کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ تحریک بھی اُسی وقت دی جاسکتی ہے جب وہ شخص خود زیادہ کام کرنے کا شوقین ہو، عادی ہو۔ کوئی بھی شخص آپ سے نہیں کہہ سکتا کہ آپ کو کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔ یہ تو خود آپ کو طے کرنا ہے کہ زندگی کو کس طور برتنا ہے۔
نارائن مُورتی کہا کہ زیادہ کام کرنا ذات پسند و ناپسند کا معاملہ ہے۔ اِس پر سرِعام بحث نہیں کی جاسکتی۔ دنیا بھر میں کچھ ہی لوگ ہوتے ہیں جو یومیہ بارہ تا پندرہ گھنٹے کام کرتے ہیں۔ عمومی سطح پر لوگ ہفتے میں پانچ دن کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور وہ بھی یومیہ سات تا آٹھ گھنٹے۔ اور اس کا نتیجہ بھی ہم دیکھتے ہیں۔ جو لوگ عمومی نوعیت کا کام کرتے ہیں اُن کی زندگی بھی عمومی ہوتی ہے اور کامیابی بھی عمومی سطح سے بلند نہیں ہو پاتی۔
نارائن مُورتی کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں وہی لوگ ترقی سے ہم کنار ہوتے ہیں جو دوسروں کی بہ نسبت بہت زیادہ کام کرتے ہیں اور اپنے کام کا معیار بھی بلند کرتے جاتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ دوسروں سے ممتاز ہو پاتے ہیں۔ یہ معاملہ اپنے گریبان میں جھانکنے، اپنی صلاحیت و سکت کا جائزہ لینے، خود کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنے اور زیادہ کام کرنے کی لگن پیدا کرنے کا ہے۔
نارائن مُورتی نے تو ہفتے میں 70 گھنٹے کام کرنے کی بات کہی تھی جبکہ بھارتی ادارے لارسن اینڈ ٹربو کے چیئرمین ایس این سُبرامنین نے اِس سے کئی قدم آگے جاکر قوم کو مشورہ دیا ہے کہ اگر باقی دنیا سے الگ دکھائی دینا ہے، ترقی و خوش حالی کو یقینی بنانا ہے تو ہفتے میں 90 گھنٹے کام کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔
بجاج آٹو کے مینیجنگ ڈائریکٹر راجیو بجاج کا کہنا ہے کہ زیادہ کام کرنے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ سوال یہ ہے کہ کام کا معیار کیا ہے۔ اگر کوئی شخص روزانہ 16 گھنٹے بھی کام کرے لیکن کام کا معیار تسلی بخش نہ ہو تو اِتنا کام کرنے کا حاصل کچھ بھی نہیں۔ کام کے معیار کو بنیاد بناکر کام کیا جانا چاہیے۔
بھارت کے دوسرے امیر ترین شخص ارب پتی صنعت کار گوتم اڈانی نے کہا ہے کہ کام اور نجی زندگی میں توازن پیدا کرنا خالص نجی یا انفرادی معاملہ ہے۔ کوئی کسی کو زیادہ کام کرنے پر مجبور نہیں کرسکتا۔ جسے زیادہ کام کرنا ہو اُسے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ ایسے لوگ خوب کام کرتے ہیں اور اچھی زندگی بسر کرتے ہیں۔ میرا کام کرنے کا تصور کسی پر تھوپا نہیں جاسکتا اور میں بھی کسی اور کے طریق کے مطابق کام نہیں کرسکتا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: زیادہ کام کرنے نارائن م ورتی کام کرتے ہیں کام کرنے کی کام کرنا کرنے کا کا کہنا تھا کہ
پڑھیں:
ایک بھیانک جنگ کا سامنا
اسلام ٹائمز: رہبر انقلاب اسلامی نے قوم کے دلوں سے ہر طرح کے خوف کو نکال باہر کرنے اور انہیں خود اعتمادی کی دولت سے آشنا کرنے کو امام خمینی (رح) کا عظیم کارنامہ قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ ہماری قوم نے محسوس کیا کہ وہ اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرکے عظیم کام انجام دینے کی طاقت رکھتی ہے اور دشمن جس طرح اپنے آپ کو ظاہر کر رہا ہے، حقیقت میں اتنا طاقتور نہیں ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عسکری میدان میں خوف پیدا کرنے اور پسپائی پر مجبور کرنے کو دشمن کی نفسیاتی جنگ کا اہم ہدف قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ قرآن کریم کی تعبیر کے مطابق کسی بھی میدان میں حکمت عملی کے بغیر عقب نشینی اختیار کرنا، چاہے وہ عسکری میدان ہو یا سیاسی اور معاشی میدان، خدا کے غضب کا باعث بنتا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
دنیا میں ایک خاموش اور بے رحم جنگ جاری ہے۔ سوچ پر غلبہ حاصل کرنے کی جنگ۔ یہ جنگ دماغ کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے کی جنگ ہے اور اس جنگ کا آخری نتیجہ ذہنی سرحدوں پر قبضہ کرنے کے بعد جغرافیائی سرحدوں پر بلاچون و چرا اور بغیر کسی فوجی کارروائی کے قبضہ کرنا ہے۔ اس جنگ میں دشمن ہماری سرزمین کو فتح کرنے کے لیے پہلے ہمارے قلب و ذہن کے دروازے کو عبور کرتا ہے اور اس کے لئے نت نئے ہتھیار استعمال کرتا ہے۔ آج کی جنگ معلومات، افواہوں اور ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے سے شروع ہوتی ہے۔ آج کے اس نئے دور میں قوموں کے ذہنوں اور ادراک کی سرحدوں پر موجود مورچوں کو فتح کرنے کے لیے نظریاتی میزائل اور ڈرونز استعمال کئے جاتے ہیں۔ اگر دشمن کے دل و دماغ کے مورچے فتح ہو جائیں تو ایک بھی گولی چلائے بغیر وہ ہتھیار ڈال دیتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے اپنے ایک خطاب میں فرمایا تھا۔ منصوبہ یہ ہے کہ انگلستان اور امریکہ کے لیڈروں کی رائے تمام دنیا کی رائے بن جائے۔۔۔۔ یہ سوچ اور دماغوں پر غلبہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر کسی قوم کے دماغ پر قبضہ ہو جائے تو وہ قوم اپنی سرزمین کو دونوں ہاتھوں سے پلیٹ میں رکھ کر دشمن کے حوالے کر دیتی ہے۔ سوچ و فکر پر غلبے کے لئے نوجوانوں کے قلب و ذہن کو سب سے پہلے نشانہ پر لیا جاتا ہے۔ تحریف اور بہتان اسی کے لیے بہترین ہتھیار ہیں۔ یہ انداز جنگ دشمن کی نفسیاتی کارروائیوں کے خطرے کو اجاگر کرتا ہے۔ ایک خفیہ جنگ جس کا مقصد علاقوں پر فوجی قبضہ کرنے کے بجائے لوگوں کے ذہنوں اور دلوں کو فتح کرنا ہے۔ علمی جنگ، سادہ الفاظ میں، انسانی ادراک، عقیدہ اور فیصلہ سازی کو متاثر کرتی ہے اور متاثر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس قسم کی جنگ میں انسانی دماغ اہم میدان جنگ ہوتا ہے۔
مغربی فوجی ماہرین کے الفاظ میں، ’’انسانی دماغ اکیسویں صدی کا اصلی میدان جنگ ہے۔‘‘ مہلک ہتھیاروں کے استعمال کے بجائے، دشمن طاقتیں ٹارگٹ معاشرے کے خیالات کو اپنی مرضی کی ہدایت دینے کے لیے معلومات، میڈیا اور سائنسی آلات کا استعمال کرتی ہیں۔ نیٹو کے محققین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ نیورو سائنس، نفسیات، ڈیٹا مائننگ اور مصنوعی ذہانت میں پیشرفت نہ صرف انسانی ادراک کو فوراً متاثر کرتی ہے بلکہ اس کے نظریاتی ہتھیاروں کو بھی بے کار بنا سکتی ہے۔ اس کے خیالات، یادوں اور فیصلوں کو اس طرح بنا کر پیش کیا جاتا ہے کہ اسے خود یقین ہونے لگتا ہے کہ وہ یہ سب فیصلے خود کر رہا ہے۔ اس وجہ سے اس جنگ کو کلاسیکل نفسیاتی جنگ (پروپیگنڈا) سے الگ سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اس میں پیغام کے مواد میں براہ راست ہیرا پھیری کرنے کے بجائے مخاطب کے ذہن میں معلومات کو اس طرح منتقل کیا جاتا ہے کہ پیغام موصول کرنے والا اس میں باہر کی مداخلت کو محسوس ہی نہیں کر پاتا۔
دوسرے لفظوں میں، دشمن کے ذہن پر اس کے علم کے بغیر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اگلے مرحلے میں اسے ریموٹ کنٹرول کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ تزویراتی نقطہ نظر سے، کسی قوم کے ذہن پر قبضہ اس کی سرزمین پر قبضے کا متبادل بھی ہوسکتا ہے۔ نیٹو نے اپنی دستاویزات میں اس علمی جنگ کی تعریف اس طرح کی ہے: "رویوں اور طرز عمل کو متاثر کرنے والی سرگرمیوں کے ذریعے حقیقت کے ادراک کو تبدیل کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر معاشرے کے حقائق میں ہیرا پھیری کرنا۔ درحقیقت علمی جنگ میں حقیقت کو مسخ کرنا اور مخالف کو کمزور کرنے کے لیے سچائیوں کو الٹ پلٹ کر بیان کرنا ہے۔ یہ ترقی یافتہ نرم جنگ کسی ملک کے لوگوں کو صحیح اور غلط کی تمیز سے روکتی ہے اور وہ اپنی مرضی سے یا نہ چاہتے ہوئے بھی دشمن کے خیالات اور خواہشات کی پیروی کرنے لگتا ہے۔
روایتی جنگوں کے برعکس جس کا دائرہ کار محدود اور صرف فوجی مقاصد تک محدود ہوتا ہے، اس جنگ کا دائرہ کار زیادہ وسیع، پائیدار اور پورے معاشرے کو اپنے گھیرے میں لے سکتا ہے۔ یہ پورے معاشرے کو گھیرے ہوئے ہے۔ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ 1990ء کی دہائی کے اوائل سے یہ تصور فوجی میدان سے آگے سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور سماجی شعبوں تک پھیلا ہوا ہے۔ نئی انفارمیشن ٹیکنالوجیز کا ہر صارف علمی جنگ میں ممکنہ ہدف ہے اور یہ جنگ کسی قوم کے تمام انسانی سرمائے کو نشانہ بناتی ہے۔ سیدھے الفاظ میں، آبادی کے تمام افراد، خاص طور پر نوجوان، اس چھپی ہوئی جنگ کی فائر لائن میں ہیں۔ دشمن اپنی علمی جنگ کو آگے بڑھانے کے لیے کلاسک نفسیاتی آپریشنز اور نئی میڈیا ٹیکنالوجیز کے امتزاج کا استعمال کرتا ہے۔ ان تمام تکنیکوں کا مشترکہ مقصد براہ راست فوجی تصادم کے بغیر لوگوں کے جذبات اور عقائد کو متاثر کرنا ہے۔
جھوٹ پھیلانا اور حقائق کو مسخ کرنا نفسیاتی آپریشن کے سب سے اہم ہتھیار ہیں۔ جیسا کہ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے ایک خطاب میں اشارہ کیا ہے کہ افواہوں، جعلی خبروں اور بہتانوں کا ایک سیلاب معاشرے کے فعال ذہنوں بالخصوص نوجوانوں پر اثر انداز ہونے کی نیت سے پیدا کیا اور پھیلایا جاتا ہے۔ سائنسی تحقیق اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ سائبر اسپیس میں جھوٹی معلومات اور افواہیں سچ سے کہیں زیادہ تیزی سے اور وسیع پیمانے پر پھیلتی ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک تازہ ریسرچ سے پتہ چلتا ہے کہ "جھوٹ سچائی سے کافی دور، تیز اور گہرا سفر کرتا ہے۔" اس بات کو افسوس کے ساتھ قبول کرنا پڑتا ہے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے دور میں، غلط معلومات کا تیزی سے پھیلاؤ سچائی کے سامنے آنے سے پہلے رائے عامہ کو متاثر کرچکا ہوتا ہے۔ مغربی تجزیہ کاروں کے الفاظ میں، جب غلط معلومات زور پکڑ لیتی ہیں تو اس سے پہلے کہ سچائی مخاطب تک پہنچنے جھوٹ عوام پر اپنا اثر مرتب کرچکا ہوتا ہے۔
کیا اس جنگ کا مقابلہ ممکن ہے۔؟ اس سوال کا جواب رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے اس خطاب کے اقتباس میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ رہبر معظم انقلاب نے نفسیاتی جنگ کے حوالے سے ایران کے بدخواہوں کی چالوں کا ذکر کرتے ہوئے ایرانی قوم کو مختلف میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کو پہچاننے اور دشمن کی طاقت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے بچنے کو اس جنگ کے مقابلے کا اہم ذریعہ قرار دیا اور کہا: شہداء اپنی قربانیوں اور جدوجہد سے اس نفسیاتی جنگ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور اسے ناکام بنا دیا۔ لہذا شہداء کے ایام مناتے وقت اس سچائی کو اجاگر کیا جائے اور اسے زندہ رکھا جائے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے دشمن کی صلاحیتوں کے بارے میں مبالغہ آمیزی کو ایران کے خلاف نفسیاتی جنگ کے بنیادی اصولوں میں سے ایک قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کے آغاز سے ہی وہ ہماری قوم کو مختلف طریقوں سے امریکہ، برطانیہ اور صیہونیوں سے ڈرانے کے حربے استعمال کرتے آرہے ہیں۔
انہوں نے قوم کے دلوں سے ہر طرح کے خوف کو نکال باہر کرنے اور انہیں خود اعتمادی کی دولت سے آشنا کرنے کو امام خمینی (رح) کا عظیم کارنامہ قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ ہماری قوم نے محسوس کیا کہ وہ اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرکے عظیم کام انجام دینے کی طاقت رکھتی ہے اور دشمن جس طرح اپنے آپ کو ظاہر کر رہا ہے، حقیقت میں اتنا طاقتور نہیں ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عسکری میدان میں خوف پیدا کرنے اور پسپائی پر مجبور کرنے کو دشمن کی نفسیاتی جنگ کا اہم ہدف قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ قرآن کریم کی تعبیر کے مطابق کسی بھی میدان میں حکمت عملی کے بغیر عقب نشینی اختیار کرنا، چاہے وہ عسکری میدان ہو یا سیاسی اور معاشی میدان، خدا کے غضب کا باعث بنتا ہے۔
انہوں نے کمزوری اور تنہائی کے احساس اور دشمن کے مطالبات کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کو سیاسی میدان میں اس کی طاقت کی وسعت کے اثرات قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ وہ حکومتیں جو آج بڑی اور چھوٹی قوموں کے ساتھ مل کر استکبار کے مطالبات کے سامنے سرتسلیم خم کرتی ہیں۔ وہ اپنی قوموں کی صلاحیتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے اور دشمن کے کھوکھلی طاقت کا ادراک حاصل کر لیں تو وہ دشمن کو ”آنکھیں“ دکھا سکتی ہیں اور اس کے مطالبات کو ردی کی ٹوکری میں پھینک سکتی ہیں۔ حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے دشمن کی ثقافت سے مرعوب ہونے اور اپنی ثقافت کو حقیر سمجھنے کو ثقافتی میدان میں دشمن کی برتری تسلیم کرنے کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اس طرح کی کمزوری کا نتیجہ دوسرے فریق کے طرز زندگی کو قبول کرنے اور یہاں تک کہ اغیار کی زبان کو استعمال کرنے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔