مسلمانوں کو انکے مذہبی طریقوں پر عمل کرنے سے روکا جا رہا ہے، اسد الدین اویسی
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ نے کہا کہ بی جے پی حکومت وقف کے حوالے سے جو قانون لا رہی ہے وہ وقف کو بچانے کیلئے نہیں ہے بلکہ وقف املاک کو تباہ کرنے کیلئے ہے۔ اسلام ٹائمز۔ دھامی حکومت نے اپنی کابینہ میں اتراکھنڈ یونیفارم سول کوڈ ایکٹ کے قوانین کو منظوری دے دی ہے، جس کے بعد امید ہے کہ جلد ہی دھامی حکومت اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈ کو نافذ کر سکتی ہے۔ وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے خود اس کا اعلان کیا ہے۔ تاہم انہوں نے ابھی تاریخ کا اعلان نہیں کیا ہے۔ دریں اثنا آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے یکساں سول کوڈ یعنی یو سی سی کو لے کر بڑا بیان دیا ہے۔ اسد الدین اویسی نے کہا کہ اسے یو سی سی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ہندو میرج ایکٹ اور ہندو جانشینی ایکٹ میں مستثنیات ہیں، اس کے علاوہ قبائلیوں پر یو سی سی لاگو نہیں ہوگا، ایسے میں اسے یونیفارم سول کوڈ کیسے کہا جا سکتا ہے۔ اسد الدین اویسی نے الزام لگایا کہ یو سی سی کے ذریعے صرف مسلمانوں کو ان کی مذہبی رسومات کے مطابق شادی، طلاق اور جائیداد کی تقسیم سے روکا جا رہا ہے، ہندو میرج ایکٹ پر یو سی سی لاگو نہیں کیا جا رہا ہے۔
اسد الدین اویسی نے یو سی سی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی شخص اپنا مذہب ہندو مذہب سے کسی دوسرے مذہب میں بدلتا ہے تو اجازت لینی پڑتی ہے، تو ایسے میں یہ یونیفارم سول کوڈ کیسے ہے۔ اس کے علاوہ اسد الدین اویسی نے کہا کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تنظیم ہے جس کا نام آل انڈیا پرسنل لاء بورڈ ہے۔ انہوں نے وقف ترمیمی بل کو بھی مسترد کر دیا ہے۔ اسد الدین اویسی کے مطابق ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ 2013ء کا پرنسپل ایکٹ درست ہے۔ اسد الدین اویسی نے الزام لگایا ہے کہ بی جے پی حکومت وقف کے حوالے سے جو قانون لا رہی ہے وہ وقف کو بچانے کے لئے نہیں ہے بلکہ وقف املاک کو تباہ کرنے کے لئے ہے۔ انہوں نے سوال کیا ہے کہ ایک غیر مسلم رکن وقف میں کیسے رہ سکتا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ یوپی میں کاشی وشوناتھ بورڈ ہے، کیا کوئی غیر ہندو بھی اس بورڈ کا ممبر نہیں بن سکتا۔ اسد الدین اویسی نے واضح کیا ہے کہ اگر اتنی خامیوں کے بعد بھی کوئی بل آتا ہے تو سی اے اے کی طرح اس قانون کی بھی مخالفت کریں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسد الدین اویسی نے انہوں نے یو سی سی رہا ہے کیا ہے کہا کہ
پڑھیں:
"ادے پور فائلز" مسلمانوں کو دہشتگرد کے طور پر پیش کرتی ہے، مولانا ارشد مدنی
جمعیۃ علماء ہند کے صدر نے اس بات پر اعتراض کیا کہ اسی سینسر بورڈ کے ارکان کو اسکریننگ کمیٹی میں شامل کیا گیا جسکے سرٹیفکیٹ کو جمعیۃ نے عدالت میں چیلنج کیا ہے، جو کہ مفادات کے ٹکراؤ کی مثال ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے فلم "ادے پور فائلز" کے خلاف سپریم کورٹ آف انڈیا میں ایک تفصیلی حلف نامہ داخل کیا ہے، جس میں انہوں نے الزام لگایا ہے کہ فلم ہندوستانی مسلمانوں کو دہشت گردوں کے ہمدرد اور ملک دشمن قوتوں کے آلہ کار کے طور پر پیش کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ فلم نہ صرف مسلمانوں کی شبیہ کو خراب کرتی ہے بلکہ ملک میں فرقہ وارانہ نفرت کو بڑھاوا دینے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ مولانا ارشد مدنی کے مطابق فلم میں جان بوجھ کر ایسا بیانیہ تخلیق کیا گیا ہے جو ہندوستانی مسلمانوں کو پاکستان کے دہشتگردوں کے ساتھ ہمدردی رکھنے والا دکھاتا ہے، جو سراسر غلط، گمراہ کن اور سماجی ہم آہنگی کے لئے خطرہ ہے۔
مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ اس فلم کے مندرجات میں تعصب اور نفرت چھپی ہوئی ہے، جو ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کو نشانہ بناتی ہے۔ انہوں نے اپنے حلف نامے میں وزارتِ اطلاعات و نشریات کی اسکریننگ کمیٹی کی رپورٹ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، جس نے فلم میں صرف چھ معمولی ترامیم کی سفارش کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلیاں بالکل ناکافی ہیں اور کمیٹی نے ان کی جانب سے اٹھائے گئے سنجیدہ اعتراضات کو نظرانداز کیا۔ مولانا ارشد مدنی نے اس بات پر اعتراض کیا کہ اسی سینسر بورڈ کے ارکان کو اسکریننگ کمیٹی میں شامل کیا گیا جس کے سرٹیفکیٹ کو جمعیۃ علماء ہند نے عدالت میں چیلنج کیا ہے، جو کہ مفادات کے ٹکراؤ کی مثال ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کے صدر نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا کہ فلم کی ایک نجی اسکریننگ کرائی جائے تاکہ معزز جج صاحبان خود اس کے مواد اور مقصد کا اندازہ لگا سکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس فلم کی ریلیز ملک کے پُرامن ماحول کے لئے نقصاندہ ثابت ہوسکتی ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل 10 جولائی کو دہلی ہائی کورٹ نے اس فلم پر عبوری پابندی عائد کی تھی، جسے فلم سازوں نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ 16 جولائی کو عدالت عظمیٰ نے پابندی ہٹانے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ مذہبی منافرت کے خدشے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور مرکز کی اسکریننگ کمیٹی کو اعتراضات پر فوری غور کرنا چاہیئے۔