ملک میں قتل وغارت ہو رہی ہے، حکومت اسکو ختم کرے،آئینی بنچ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
اسلام آباد(آن لائن )سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے ممنوعہ بور اسلحہ لائسنسوں کے اجراء سے متعلق صوبوں اور وفاق کی رپورٹس پر از خود نوٹس نمٹا دیا۔بدھ کوجسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں چھ رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے ہیں کہ ،ہر شخص اسلحہ لے کر چل رہا ہے ملک میں قتل وغارت ہو رہی ہے، حکومت اسکو ختم کرے ،جسٹس رضوی نے کہاکہ اسلحہ لائسنس جاری کرنے سے پہلے کیا سائیکولوجی ٹیسٹ ہوتا ہے ؟دہشتگردوں کے پاس بڑے ہتھیار ہیں تو شہریوں نے بھی اپنی حفاظت کرنی ہے۔ انھوں نے یہ ریمارکس بدھ گزشتہ روزدیے ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل پیش ہوئے اور کہاکہ سپریم کی جانب سے اسلحہ لائسنس جاری کرنے کیلیے چھ سوالات پوچھے گئے تھے ،عدالتی سوالات کے جوابات جمع کروا دیے گئے ہیں ،ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے نے بتایاکہ ممنوعہ بور لائسنس جاری کرنے کا اختیار صوبوں کے پاس نہیں، صرف عام اسلحہ کیلیے لائسنس جاری کر سکتے ہیں، جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ کے پی میں کوئی لائسنس لیتا ہی نہیں اسلحہ سب کے پاس ہے ،جسٹس محمدعلی مظہرنے کہاکہ ممنوعہ بور کا قانون کیا ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ ممنوعہ بور پاکستان آرمز ایکٹ 2023 کے تحت جاری کیا جاتا ہے جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ ،ہر شخص اسلحہ لے کر چل رہا ہے، ملک میں قتل وغارت ہو رہی ہے، حکومت اسکو ختم کرے ،جسٹس رضوی نے کہاکہ اسلحہ لائسنس جاری کرنے سے پہلے کیا سائیکولوجی ٹیسٹ ہوتا ہے ؟دہشتگردوں کے پاس بڑے ہتھیار ہیں تو شہریوں نے بھی اپنی حفاظت کرنی ہے ،ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل کے پی کے نے کہاکہ قبائل علاقوں میں تو راکٹ لانچر بھی ہیں بعدازاں عدالت نے صوبوں اور وفاق کی رپورٹس پر از خود نوٹس نمٹا دیا۔
.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کھیل لائسنس جاری کرنے اسلحہ لائسنس نے کہاکہ کے پاس
پڑھیں:
عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ ہونے سے متعلق چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا فیصلہ جاری
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد نہ ہونے سے متعلق فیصلہ جاری کردیا۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے 4 صفحات پر مشتمل حکمنامہ جاری کیا ہے۔ ملزم زاہد خان نے درخواست ضمانت کے حوالے سے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہے کہ قبل از گرفتاری درخواست ضمانت مسترد ہونے کے بعد فوری گرفتاری ضروری ہے، صرف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنا گرفتاری کو نہیں روک سکتا، عبوری تحفظ خودکار نہیں، عدالت سے واضح اجازت لینا ضروری ہے۔
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ ملزم زاہد خان و دیگر کی ضمانت لاہور ہائیکورٹ سے مسترد ہوئیں، ضمانت مسترد ہونے کے بعد بھی 6 ماہ تک پولیس نے گرفتاری کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا، عدالتی احکامات پر فوری عملدرآمد انصاف کی بنیاد ہے۔
عدالت کا کہنا ہے کہ آئی جی پنجاب نے غفلت کا اعتراف کرتے ہوئے عدالتی احکامات پر عملدرآمد کا سرکلر جاری کرنے کی یقین دہانی کرائی، غیر قانونی تاخیر سے نظامِ انصاف اور عوام کا اعتماد مجروح ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اپیل زیرِ التوا ہو تو بھی گرفتاری سے بچاؤ ممکن نہیں، جب تک کوئی حکم نہ ہو۔