Daily Ausaf:
2025-06-09@21:02:33 GMT

چین کا پہلی صدی سے اسلام کے ساتھ تعلق

اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT

اسلام اور چین کا تعلق تاریخی اعتبار سے نہایت قدیم اور دلچسب ہے، جو پہلی صدی ہجری میں شروع ہوا۔ یہ تعلق نہ صرف روحانی اور مذہبی نوعیت کا ہے جس سے ثقافتی اور تجارتی تعلقات مضبوط ہوئے۔ اسلام کا ابتدائی تعارف چین سے اسلام کی پہلی صد ی میں ہوا۔ ساتویں صدی کے وسط میں جب تانگ خاندان (618-907عیسوی)برسر اقتدار تھا۔ اسلامی تاریخ کے مطابق 651عیسوی میں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، جو نبی کریم ﷺ کے ماموں اور صحابی تھے، خلیفہ عثمان بن عفان کی جانب سے چین کے شہنشاہ گائوزونگ کے پاس ایک سفارتی وفد لے کر پہنچے۔تانگ شہنشاہ نے نہ صرف اس وفد کا پرتپاک استقبال کیا اور اسلام کے متعلق جان کر اس نے گوانگژو میں ہواشینگ مسجد کی تعمیر کا حکم دیا، جو آج بھی چین کی سب سے قدیم مسجد سمجھی جاتی ہے۔ اس مسجد کی تعمیر اسلامی اور چینی طرزِ تعمیر کا ایک شاندار امتزاج پیش کرتی ہے۔ تاریخی روایات کے مطابق616-617 عیسوی کے دوران نبی کریم ﷺ کے چند دیگر صحابہ کرام بھی چین پہنچے۔ گوانگژو میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓکا مزار چینی مسلمانوں کے لئے نہایت مقدس مقام ہے، جہاں ہر سال ہزاروں زائرین آتے ہیں۔ یہ مزار اسلام کے چین میں ابتدائی دنوں کی ایک روشن یادگار ہے۔اور بہ اصحاب رسول اور عرب مسلمانوں کی قبور چین میں موجودہیں۔ اسلامی ثقافت کا فروغ اور تعلقات کاچین میں سب سے زیادہ یوان خاندان (1271-1368) کے دور میں پروان چڑھا، جسے منگولوں نے قائم کیا تھا۔ اس دور میں وسط ایشیاء اور مشرق وسطیٰ سے مسلمانوں کو چین میں اعلیٰ عہدوں پر تعینات کیا گیا۔
سید اجل شمس الدین، جو یوان خاندان کے ایک مشہور مسلمان گورنر تھے، نے مختلف علاقوں میں اسلامی اصولوں کے مطابق انتظامی اصلاحات متعارف کرائیں۔ ان کے خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد، جیسے ما ژو، اسلامی تعلیمات کو عام کرنے میں پیش پیش رہے۔ اسلامی مساجد کی تعمیر مختلف شہروں میں ہوئی۔ چین میں مساجد کی تعمیر کا آغاز تانگ اور یوان خاندان کے دور میں ہوا، اور یہ سلسلہ منگ خاندان (1368-1644) میں مزید فروغ تک پہنچا۔ چین میں آج تقریباً 35,000 مساجد موجود ہیں، جن میں مساجد کی سب سے زیادہ تعداد سنکیانگ (تقریباً 24,000مساجد)میں ہے۔دیگر مشہور مساجد میں شامل شیان کی عظیم مسجد 742عیسوی میں تانگ خاندان کے دور میں تعمیر کی گئی، یہ مسجد چین کی سب سے بڑی اور قدیم مساجد میں سے ایک ہے۔بیجنگ کی نیوجیہ مسجد لیائو خاندان کے دور میں 996 عیسوی میں تعمیر کی گئی۔
چینی اسلامی طرز تعمیر، یہ مساجد اسلامی اور روایتی چینی فن تعمیر کا امتزاج ہیں، جن میں چھتوں پر چینی طرز کے جھکے ہوئے کماندار ڈیزائن اور اندرونی اسلامی خطاطی شامل ہیں۔چین کے مختلف مسلم علاقوں میں اسلامی ثقافت آج بھی موجود ہے چین میں مسلمانوں کی آبادی تقریبا ً20ملین سے زائد ہے، جو مختلف نسلی گروہوں پر مشتمل ہے، جیسے ہوئی مسلمان: جو زیادہ تر ہان چینی ہیں اور ملک کے مختلف علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ایغور مسلمان، زیادہ تر سنکیانگ ایغور خودمختار علاقہ میں آباد ہیں۔قازق، قرغیز، ازبک، اور دیگر: یہ نسلی گروہ چین کے شمال مغربی علاقوں میں رہتے ہیں، خاص طور پر گانسو، نِنگشیا، اور یوننان میں۔مسلم اکثریتی شہر، گوانگژو، جہاں اسلام کی بنیاد رکھی گئی۔
کاشغر، جو سنکیانگ کا ایک تاریخی اسلامی مرکز ہے۔ہوتن، جسے اسلامی علم و ثقافت کا گہوارہ سمجھا جاتا ہے۔ لانژو اور شیننگ: گانسو اور شنگھائی صوبوں میں واقع ہیں، جہاں بڑی تعداد میں ہوئی مسلمان آباد ہیں۔ کونمِنگ، یوننان صوبے کا مشہور اسلامی مرکز ہے۔ چینی مسلمانوں کی تاریخ علم اور ثقافت خدمات سائنس، طب، ادب، فوج، اور فن تعمیر آج بھی موجودہیں،ان کی مثالی تاریخ ہے۔ تانگ اور یوان خاندان کے دور میں مسلم اسکالرز نے نیویگیشن اور فلکیات کے میدان میں چین کو ترقی دی۔گزشتہ صدی سے اور خاص کر ماوزے تنگ کے دور میں مغرب ممالک نے چین کے خلاف بڑی پروپیگنڈہ مہم چلا کر چین کو باقی دنیا سے الگ کرنے کی کوشش کی جس سے مسلمان ملک بھی چین سے دور ہو گئے تھے۔ اس طرح چین کا اسلام دشمن تاثر ابھرا،جس سے چین کی اور مسلمانوں کی تاریخی حقیقت عام مسلمانوں کے علم سے محو ہوگئی۔
حالیہ دہائیوں میں خاص طور پر سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں کے مسائل نے عالمی توجہ حاصل کی ہے۔ اسلامی ورثے کے تحفظ اور مذہبی آزادی کے معاملات پر کچھ خدشات بھی موجود ہیں،لیکن اب دوبارہ چین اور مسلمانوں کے قدیم تاریخی تعلقات آگاہی ہونی شروع ہوئی ہے۔ امید ہے کہ چین اورمسلم ممالک کے قدیم تاریخی تعلقات ابھرتے ہوئے چین کے ساتھ ایک نیا باب کھولیں گے اور دنیا کی متوقع نئی چینی سپر پاورکے ساتھ تعلقات ایک نیا موڑ بن کر نئی شاندار تاریخ کا دور شروع ہوگا۔ ساتویں صدی میں شروع ہونے والا تاریخی تعلق ثقافتی تبادلوں، مذہبی ہم آہنگی کا نیا عظیم دور چین کے مسلم ممالک کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات سے جلد حقیقت بن کر ابھرے گا۔ اس سے نہ صرف اسلام کے چینی ورثے اور چینی مسلمانوں کو تحفظ ملے گابلکہ چین اور مسلمانوں کے لیے ایک بہتر دوستانہ مستقبل ثابت ہوگا جو سب کے باہمی مفاد میں ہوگا اورچین کے مسلمان مزید آزادی اور اپنے دین وثقافت، اور شناخت کے ساتھ ترقی کریں گے اور اسلامی دنیا کے لئے ایک مثبت مثال بنیں گے۔ مسلمان حکومتوں کو چاہئے کہ وہ اس طرف زیادہ توجہ دے کر ان تعلقات کو اپنی پالیسی کا اہم حصہ بنائیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: خاندان کے دور میں مسلمانوں کے مسلمانوں کی یوان خاندان علاقوں میں اسلام کے کی تعمیر تعمیر کا کے ساتھ چین میں چین کے

پڑھیں:

مسجد الاقصیٰ پر تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر، وقت کی ریت تیزی سے ہاتھوں سے پھسل رہی ہے

اسلام ٹائمز: آج کے اسرائیل میں مسجد الاقصیٰ کو تباہ کرنے اور تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر نو کے مطالبے سامنے آنا عام ہوچکے ہیں۔ اسرائیلی افواج میں شامل سپاہی کسی تردد کے بغیر اپنی وردیوں پر تھرڈ ٹیمپل کے بیج لگاتے ہیں اور اپنی فوجی گاڑیوں پر الاقصیٰ کی فتح کا اعلان کرنے والے بینرز آویزاں کرتے ہیں۔ انہیں بہت سی دولت مند تنظیموں کی مدد بھی حاصل ہے جن میں ٹیمپل انسٹی ٹیوٹ، ٹیمپل ماؤنٹ فیتھ فل اور ایریٹز یسرائیل فیتھ فل تحریکیں شامل ہیں۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ انہیں بہت سے امریکی انجیلی مسیحیوں کی حمایت بھی حاصل ہے جو اپنے مذہبی عقائد کے مطابق مسیحا کی آمد کے پیش خیمہ کے طور پر ہیکل کی تعمیر نو کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ تحریر: ضرار کھوڑو

کچھ روز قبل 26 مئی کو اسرائیل نے یومِ یروشلم منایا۔ یہ وہ دن ہے جب اسرائیل نے 1967ء کی جنگ کے بعد مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے پر قبضہ کیا تھا۔ اس دن کی تقریبات میں انتہائی دائیں بازو کے ہزاروں اسرائیلیوں کو سڑکوں پر نکل کر عربوں کو ہراساں کرنے کی قومی تفریح میں مشغول دیکھا گیا۔ اسرائیلی قومی سلامتی کے وزیر اتامار بین گویر کی موجودگی اور ان کی حمایت سے ہجوم نے مسلم کوارٹر کی جانب مارچ کیا جہاں انہوں نے ’عربوں کو موت دو‘ جیسے نعرے لگاتے ہوئے غزہ کے باشندوں کی حالت زار کا مذاق اڑایا جبکہ اسلام اور اس کی معزز شخصیات کے خلاف گستاخانہ نعرے بلند کیے۔ یہ تمام سرگرمیاں اسرائیلی پولیس کے حفاظتی حصار میں کی گئی۔

ماضی کی روایات کے مطابق ان اسرائیلیوں نے الاقصیٰ کے احاطے پر بھی دھاوا بولا جہاں انہوں نے گانا گایا، رقص کیا اور تلمودی رسومات ادا کرتے ہوئے ایک بار پھر نئے نکبہ اور فلسطینیوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ غزہ نسل کشی کی حمایت کرنے والے ایک اہم نام اور صہیونی حکومت کے وزیرِ خزانہ بیزالیل اسموترخ نے بھی اس موقع پر تقریر کی اور ’فتح‘، قبضے’ اور ’آبادکاری‘ کو اپنے سب سے قیمتی مقاصد کے طور پر بیان کیا۔ ان کا ایک اور بیان جو ان کے سامعین کے کانوں میں شہد گھول گیا وہ ان کی جانب سے اسلام کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک، مسجد الاقصیٰ کے مقام پر ’ٹیمپل‘ کی تعمیرِ نو کا مطالبہ تھا۔

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے بھی مسجد اقصیٰ کے زیرِزمین بڑی سرنگ پر ٹہلتے ہوئے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے یہ سرنگیں آثارِ قدیمہ کی تحقیقات کے لیے بنائی ہیں لیکن وسیع پیمانے پر یہ تصور پایا جاتا ہے کہ زیرِزمین کھدائی کا مقصد مسجد الاقصیٰ کی بنیادوں کو کمزور کرنا ہے اور ایسا کوئی آثارِ قدیمہ کا ثبوت تلاش کرنا ہے جو انہیں ٹیمپل ماؤنٹ (جسے عرب حرم الشریف کہتے ہیں) پر اپنے مکمل قبضے کا جواز فراہم کرسکے۔ یوں وہ آخرکار نام نہاد تھرڈ ٹیمپل (ہیکلِ سلیمانی) کی تعمیر کرسکیں۔

اس سے ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہلے اور دوسرے ہیکل کیا تھے؟ تو پہلا ہیکل تقریباً 957 قبلِ مسیح میں تعمیر ہوا تھا جسے چند صدیوں بعد یروشلم کے محاصرے کے دوران سلطنت بابل نے تباہ کر دیا تھا۔ دوسرا ہیکل 538 قبل مسیح میں تعمیر کیا گیا تھا لیکن اسے بھی 70ء میں سلطنت روم کے خلاف یہودیوں کی خونریز اور بدقسمت بغاوت کے نتیجے میں رومی حکمرانوں نے تباہ کردیا تھا۔ دوسرے ہیکل کی باقیات میں سے صرف اس کی مغربی دیوار باقی رہ گئی ہے جو آج ’ویلنگ وال‘ کہلاتی ہے جہاں تقریباً ہر امریکی سیاستدان کو جانا پڑتا ہے اور یہاں ان کے لیے اسرائیل کے جھنڈے کے ساتھ وفاداری کا عہد کرنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ اسی طرح طاقتور اسرائیلی لابیز کے فنڈز اور حمایت کے دروازے ان کے لیے کھلتے ہیں۔

تو نئے ہیکل کی تعمیر کیوں؟ تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر کیوں ضروری ہے؟ بعض یہود مذہبی دھڑوں میں یہ غالب سوچ پائی جاتی ہے کہ مسیحا کی آمد کو یقینی بنانے کے لیے تھرڈ ٹیمپل تعمیر کیا جانا چاہیے۔ یہ مسیحا ممکنہ طور پر یہودی بالادستی کے ایک نہ ختم ہونے والے سنہری دور کا آغاز کرے گا جس میں دیگر تمام قومیں ان کی مرضی کی تابع ہوجائیں گی لیکن اس کے لیے پہلے مسجد الاقصیٰ کو منہدم کرنا ہوگا۔ اس کے حق میں سب سے پہلی حقیقی آواز شلومو گورین نے اٹھائی جو اسرائیلی ’دفاعی‘ افواج کے سابق چیف ربی تھے۔ 1967ء میں وہ 50 یہودیوں کو مسجد الاقصیٰ کے احاطے میں دعاؤں کی غرض سے لے گئے اور وہاں ہیکل کی تعمیرِنو کا مطالبہ کیا۔

یہ وہ دور تھا جب اسرائیل مقبوضہ علاقوں میں عرب آبادی کو قطعی طور پر ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا یا یہ کہہ لیں کہ اسرائیل 1967ء کی جنگ میں شاندار فتح کے باوجود اپنے عرب ہمسایوں کو ایک اور جنگ کا جواز فراہم کرنے کے معاملے میں کسی حد تک احتیاط سے کام لے رہا تھا۔ اسی اثنا میں ربی شلومو گورین کی مذمت کی گئی اور اسرائیل کے چیف ربیوں نے حکم دیا کہ یہودیوں کے لیے رسمی ناپاکی کی وجوہات کی بنا پر ماؤنٹ ٹیمپل میں داخل ہونا ممنوع ہے۔ ان رسمی ناپاکی کی وجوہات کو اس کالم میں بتانا انتہائی مشکل ہے۔

سرکاری حکم نامے کے باوجود زیرِزمین کھدائی (اسرائیل کی مذہبی وزارت کے زیرِاہتمام) کا کام اسی سال شروع ہوا اور مسلم کوارٹر کی کئی عمارتوں کو شدید نقصان پہنچانے کے بعد بھی یہ کام جاری ہے۔ لیکن 2025ء کا اسرائیل 1967ء کے اسرائیل سے انتہائی مختلف ہے کیونکہ یہ ایک قابض بالادست طاقت بن چکی ہے جو فلسطینیوں کی قومیت کو ختم کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔ وہ اس وقت تو انتہائی مذہبی منافرت اور تشدد سے متاثر نہیں ہوا تھا لیکن اب وہ اس کے رنگ میں ڈوبا نظر آتا ہے اور ممکنہ طور پر مستقبل میں بھی اسرائیل ایسا ہی کرتا رہے گا۔

آج کے اسرائیل میں مسجد الاقصیٰ کو تباہ کرنے اور تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر نو کے مطالبے سامنے آنا عام ہوچکے ہیں۔ اسرائیلی افواج میں شامل سپاہی کسی تردد کے بغیر اپنی وردیوں پر تھرڈ ٹیمپل کے بیج لگاتے ہیں اور اپنی فوجی گاڑیوں پر الاقصیٰ کی فتح کا اعلان کرنے والے بینرز آویزاں کرتے ہیں۔ انہیں بہت سی دولت مند تنظیموں کی مدد بھی حاصل ہے جن میں ٹیمپل انسٹی ٹیوٹ، ٹیمپل ماؤنٹ فیتھ فل اور ایریٹز یسرائیل فیتھ فل تحریکیں شامل ہیں۔

مزید اہم بات یہ ہے کہ انہیں بہت سے امریکی انجیلی مسیحیوں کی حمایت بھی حاصل ہے جو اپنے مذہبی عقائد کے مطابق مسیحا کی آمد کے پیش خیمہ کے طور پر ہیکل کی تعمیر نو کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ اگرچہ انجیلی مسیحیوں کے مطابق وہ یہودیوں سمیت پوری دنیا کو تبدیل کردیں گے (پھر چاہے وہ تبدیلی آگ اور تلوار سے ہی کیوں نہ لائی جائے) لیکن فی الحال دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ البتہ وقت کی ریت تیزی سے ہاتھوں سے پھسل رہی ہے۔

اصل تحریر کا لنک:
https://www.dawn.com/news/1914867/the-third-temple

متعلقہ مضامین

  • حج آپریشن 2024: حجاج کرام کی وطن واپسی کا آغاز، پہلی پرواز آج آئے گی
  • بھارت میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں اور عیسائیوں کو تعصب اور ظلم کا سامنا ہے: آصف علی زرداری
  • کراچی سے واپس جانیوالے جانوروں کے بیوپاری حادثے کا شکار، 3 جاں بحق
  • کراچی سے واپس جانے والے قربانی کے جانوروں کے بیوپاری حادثے کا شکار، 3 جاں بحق
  • محکمہ موسمیات نے شدید موسمی صورتحال کی وارننگ جاری کردی
  • ملک میں ڈیمز کی تعمیر کیلئے اجلاس، منصوبہ بندی کیلئے سفارشات پیش
  • عیدالاضحیٰ کے دوسرے دن بھی سی ڈی اے سولڈ ویسٹ مینجمنٹ ڈائریکٹوریٹ کی انتھک محنت جاری
  • اسلام آباد میں پہلی بار ڈرون کیمروں، عرق گلاب اور فنائل سے صفائی آپریشن، 2500 سے زائد عملہ سرگرم
  • مسجد الاقصیٰ پر تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر، وقت کی ریت تیزی سے ہاتھوں سے پھسل رہی ہے
  • مودی انتظامیہ نے کشمیری مسلمانوں کو تاریخی جامع مسجد اور عید گاہ میں نماز عید سے روک دیا