چین کا پہلی صدی سے اسلام کے ساتھ تعلق
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
اسلام اور چین کا تعلق تاریخی اعتبار سے نہایت قدیم اور دلچسب ہے، جو پہلی صدی ہجری میں شروع ہوا۔ یہ تعلق نہ صرف روحانی اور مذہبی نوعیت کا ہے جس سے ثقافتی اور تجارتی تعلقات مضبوط ہوئے۔ اسلام کا ابتدائی تعارف چین سے اسلام کی پہلی صد ی میں ہوا۔ ساتویں صدی کے وسط میں جب تانگ خاندان (618-907عیسوی)برسر اقتدار تھا۔ اسلامی تاریخ کے مطابق 651عیسوی میں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، جو نبی کریم ﷺ کے ماموں اور صحابی تھے، خلیفہ عثمان بن عفان کی جانب سے چین کے شہنشاہ گائوزونگ کے پاس ایک سفارتی وفد لے کر پہنچے۔تانگ شہنشاہ نے نہ صرف اس وفد کا پرتپاک استقبال کیا اور اسلام کے متعلق جان کر اس نے گوانگژو میں ہواشینگ مسجد کی تعمیر کا حکم دیا، جو آج بھی چین کی سب سے قدیم مسجد سمجھی جاتی ہے۔ اس مسجد کی تعمیر اسلامی اور چینی طرزِ تعمیر کا ایک شاندار امتزاج پیش کرتی ہے۔ تاریخی روایات کے مطابق616-617 عیسوی کے دوران نبی کریم ﷺ کے چند دیگر صحابہ کرام بھی چین پہنچے۔ گوانگژو میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓکا مزار چینی مسلمانوں کے لئے نہایت مقدس مقام ہے، جہاں ہر سال ہزاروں زائرین آتے ہیں۔ یہ مزار اسلام کے چین میں ابتدائی دنوں کی ایک روشن یادگار ہے۔اور بہ اصحاب رسول اور عرب مسلمانوں کی قبور چین میں موجودہیں۔ اسلامی ثقافت کا فروغ اور تعلقات کاچین میں سب سے زیادہ یوان خاندان (1271-1368) کے دور میں پروان چڑھا، جسے منگولوں نے قائم کیا تھا۔ اس دور میں وسط ایشیاء اور مشرق وسطیٰ سے مسلمانوں کو چین میں اعلیٰ عہدوں پر تعینات کیا گیا۔
سید اجل شمس الدین، جو یوان خاندان کے ایک مشہور مسلمان گورنر تھے، نے مختلف علاقوں میں اسلامی اصولوں کے مطابق انتظامی اصلاحات متعارف کرائیں۔ ان کے خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد، جیسے ما ژو، اسلامی تعلیمات کو عام کرنے میں پیش پیش رہے۔ اسلامی مساجد کی تعمیر مختلف شہروں میں ہوئی۔ چین میں مساجد کی تعمیر کا آغاز تانگ اور یوان خاندان کے دور میں ہوا، اور یہ سلسلہ منگ خاندان (1368-1644) میں مزید فروغ تک پہنچا۔ چین میں آج تقریباً 35,000 مساجد موجود ہیں، جن میں مساجد کی سب سے زیادہ تعداد سنکیانگ (تقریباً 24,000مساجد)میں ہے۔دیگر مشہور مساجد میں شامل شیان کی عظیم مسجد 742عیسوی میں تانگ خاندان کے دور میں تعمیر کی گئی، یہ مسجد چین کی سب سے بڑی اور قدیم مساجد میں سے ایک ہے۔بیجنگ کی نیوجیہ مسجد لیائو خاندان کے دور میں 996 عیسوی میں تعمیر کی گئی۔
چینی اسلامی طرز تعمیر، یہ مساجد اسلامی اور روایتی چینی فن تعمیر کا امتزاج ہیں، جن میں چھتوں پر چینی طرز کے جھکے ہوئے کماندار ڈیزائن اور اندرونی اسلامی خطاطی شامل ہیں۔چین کے مختلف مسلم علاقوں میں اسلامی ثقافت آج بھی موجود ہے چین میں مسلمانوں کی آبادی تقریبا ً20ملین سے زائد ہے، جو مختلف نسلی گروہوں پر مشتمل ہے، جیسے ہوئی مسلمان: جو زیادہ تر ہان چینی ہیں اور ملک کے مختلف علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ایغور مسلمان، زیادہ تر سنکیانگ ایغور خودمختار علاقہ میں آباد ہیں۔قازق، قرغیز، ازبک، اور دیگر: یہ نسلی گروہ چین کے شمال مغربی علاقوں میں رہتے ہیں، خاص طور پر گانسو، نِنگشیا، اور یوننان میں۔مسلم اکثریتی شہر، گوانگژو، جہاں اسلام کی بنیاد رکھی گئی۔
کاشغر، جو سنکیانگ کا ایک تاریخی اسلامی مرکز ہے۔ہوتن، جسے اسلامی علم و ثقافت کا گہوارہ سمجھا جاتا ہے۔ لانژو اور شیننگ: گانسو اور شنگھائی صوبوں میں واقع ہیں، جہاں بڑی تعداد میں ہوئی مسلمان آباد ہیں۔ کونمِنگ، یوننان صوبے کا مشہور اسلامی مرکز ہے۔ چینی مسلمانوں کی تاریخ علم اور ثقافت خدمات سائنس، طب، ادب، فوج، اور فن تعمیر آج بھی موجودہیں،ان کی مثالی تاریخ ہے۔ تانگ اور یوان خاندان کے دور میں مسلم اسکالرز نے نیویگیشن اور فلکیات کے میدان میں چین کو ترقی دی۔گزشتہ صدی سے اور خاص کر ماوزے تنگ کے دور میں مغرب ممالک نے چین کے خلاف بڑی پروپیگنڈہ مہم چلا کر چین کو باقی دنیا سے الگ کرنے کی کوشش کی جس سے مسلمان ملک بھی چین سے دور ہو گئے تھے۔ اس طرح چین کا اسلام دشمن تاثر ابھرا،جس سے چین کی اور مسلمانوں کی تاریخی حقیقت عام مسلمانوں کے علم سے محو ہوگئی۔
حالیہ دہائیوں میں خاص طور پر سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں کے مسائل نے عالمی توجہ حاصل کی ہے۔ اسلامی ورثے کے تحفظ اور مذہبی آزادی کے معاملات پر کچھ خدشات بھی موجود ہیں،لیکن اب دوبارہ چین اور مسلمانوں کے قدیم تاریخی تعلقات آگاہی ہونی شروع ہوئی ہے۔ امید ہے کہ چین اورمسلم ممالک کے قدیم تاریخی تعلقات ابھرتے ہوئے چین کے ساتھ ایک نیا باب کھولیں گے اور دنیا کی متوقع نئی چینی سپر پاورکے ساتھ تعلقات ایک نیا موڑ بن کر نئی شاندار تاریخ کا دور شروع ہوگا۔ ساتویں صدی میں شروع ہونے والا تاریخی تعلق ثقافتی تبادلوں، مذہبی ہم آہنگی کا نیا عظیم دور چین کے مسلم ممالک کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات سے جلد حقیقت بن کر ابھرے گا۔ اس سے نہ صرف اسلام کے چینی ورثے اور چینی مسلمانوں کو تحفظ ملے گابلکہ چین اور مسلمانوں کے لیے ایک بہتر دوستانہ مستقبل ثابت ہوگا جو سب کے باہمی مفاد میں ہوگا اورچین کے مسلمان مزید آزادی اور اپنے دین وثقافت، اور شناخت کے ساتھ ترقی کریں گے اور اسلامی دنیا کے لئے ایک مثبت مثال بنیں گے۔ مسلمان حکومتوں کو چاہئے کہ وہ اس طرف زیادہ توجہ دے کر ان تعلقات کو اپنی پالیسی کا اہم حصہ بنائیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: خاندان کے دور میں مسلمانوں کے مسلمانوں کی یوان خاندان علاقوں میں اسلام کے کی تعمیر تعمیر کا کے ساتھ چین میں چین کے
پڑھیں:
اسحاق ڈار کا دورہ امریکہ
اسلام ٹائمز: 5 مارچ 2017ء کو، امریکی کانگریس سے خطاب کے دوران، ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ انکا ملک پاکستان کیساتھ ملکر کابل ہوائی اڈے پر ہونیوالے مہلک حملے کے مرکزی مجرم کو تلاش کرنے کیلئے کام کر رہا ہے۔ اسوقت انکا کہنا تھا کہ داعش کے رکن کو پاکستان نے امریکا کے حوالے کیا تھا اور اس پر امریکا میں مقدمہ چلایا جانا تھا۔ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور حکومت میں اسلام آباد پر سنگین الزامات لگانے اور امریکہ کیساتھ قابل قبول تعاون نہ کرنے پر پاکستانی حکام کو تنقید کا نشانہ بنانے کے باوجود خاص طور پر پاکستانی حکومت کا شکریہ ادا کیا۔ اسلام آباد، جسے کبھی واشنگٹن کا "نان نیٹو اتحادی" کہا جاتا تھا، ٹرمپ کے پہلے دور حکومت میں امریکہ کیساتھ انتہائی کشیدہ اور غیر واضح تعلقات کا حامل رہا۔ ترتیب و تنظیم: علی واحدی
پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار، نیویارک کے چار روزہ دورے کے بعد ایک روزہ سرکاری دورے پر واشنگٹن پہنچے ہیں۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق اسحاق ڈار کی اس دورے کے دوران امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے باضابطہ ملاقات ہوگی۔ پاکستانی وزیر خارجہ اس کے بعد اٹلانٹک کونسل امریکن تھنک ٹینک میں تقریر کریں گے، جہاں وہ علاقائی اور عالمی مسائل پر پاکستان کے نقطہ نظر کے ساتھ ساتھ امریکہ کے ساتھ اپنے ملک کے تعلقات کے مستقبل کی وضاحت کریں گے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی ملاقات میں پاکستان امریکہ تعلقات کے اہم پہلوؤں اور تجارت، سرمایہ کاری اور اقتصادی تعاون کے فروغ پر خصوصی توجہ کے ساتھ ان رابطوں کو مضبوط بنانے کے طریقوں اور ذرائع کا جائزہ لیا جائے گا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دور اقتدار کے آغاز کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کی پاکستانی حکومت کے وزیر خارجہ کا یہ پہلا دورہ امریکہ ہے۔ اس سے قبل پاکستانی فوج کے کمانڈر فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے رواں سال 18 جون کو امریکہ کے سرکاری دورے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی تھی۔ اسلام آباد حکومت کے اعلیٰ ترین سفارت کار کا دورہ امریکہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے، جب امریکہ کی حمایت اور مغربی ممالک کی ملی بھگت سے فلسطینیوں کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم جاری ہیں اور پاکستان نے غزہ میں نسل کشی اور اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف صیہونی جارحیت کی متعدد بار مذمت کی ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کل اسلام آباد میں اپنی ہفتہ وار پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ملک کے وزیر خارجہ اپنے امریکی ہم منصب کے ساتھ اہم علاقائی اور عالمی مسائل بالخصوص ایران کے خلاف اسرائیل کی جارحیت کے بعد کی حالیہ پیش رفت پر بات کریں گے۔
امریکہ اور اس کے یورپی شراکت داروں کے برعکس (جنہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے پرامن جوہری پروگرام کے حوالے سے اشتعال انگیز اور جارحانہ رویہ اپنایا ہے)، اسلام آباد، کسی بھی زبردستی کی مخالفت کرتے ہوئے، تہران کے جوہری مسئلے کے پرامن اور سفارتی حل پر زور دیتا ہے۔ اس سال جولائی کے اوائل میں پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے سفارت کاری کے ذریعے تنازعات کے حل کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران کی حکمت اور تعمیری طرز عمل کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ حالیہ جنگ میں امریکہ اور اسرائیلی حکومت کے رویئے نے خطے کو ناقابل تصور نتائج سے دوچار کیا ہے اور اسے تباہی کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے۔ اسلام آباد نے صیہونی حکومت کی 12 روزہ جنگ کے بعد سے اسرائیل اور امریکہ کے حملوں کی بھی مذمت کی ہے اور جارحین کے خلاف اپنے دفاع کے اسلامی جمہوریہ ایران کے جائز حق کی حمایت بھی کی ہے۔
ٹرمپ کی طرف سے پاک ہند کارڈ کے استعمال کی کوشش
اسحاق ڈار کے دورہ واشنگٹن کے مقاصد کے حوالے سے پاکستانی سیاسی اور میڈیا کے حلقوں میں ایک اور موضوع جو خصوصی طور پر زیر بحث ہے، وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ 4 روزہ جنگ میں ٹرمپ کی طرف سے دو ایٹمی ہمسایوں کے درمیان جنگ بندی قائم کرنے کا دعویٰ ہے۔ اسلام آباد نے تو ٹرمپ کی نام نہاد کوششوں کو سراہا ہے، لیکن نئی دہلی اپنے مغربی پڑوسی کے ساتھ تنازع کے حل میں امریکی صدر کے کردار کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کے بعد ٹرمپ نے کئی بار ملکی اور غیر ملکی حلقوں میں خود کو فاتح قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اپنے تجارتی اقدامات سے اسلام آباد اور نئی دہلی کو جنگ کے پھیلاؤ سے دور رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان، بھارت کے ساتھ امریکی تعلقات کی نوعیت پر سوال اٹھاتا ہے اور واشنگٹن کی جانب سے چین کے ساتھ پاکستان کے اسٹریٹجک تعلقات پر اعتراض کیا جاتا ہے۔ پاکستانیوں کے مطابق چین کے ساتھ سرد جنگ کو بڑھاوا دے کر امریکہ بیجنگ کے ساتھ دوسرے ممالک کے آزاد اور مستحکم تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور چین مخالف مقاصد کے حصول کے لیے نئی دہلی کے ساتھ بڑے سکیورٹی اور فوجی تعاون کو بڑھا رہا ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ سے توقع ہے کہ وہ ہندوستان کے ساتھ موجودہ کشیدگی کے بارے میں اپنے ملک کے تحفظات کا اظہار کریں گے، جس میں ہندوستان کی جانب سے "سندھ طاس معاہدہ" کے نام سے موجود مشترکہ آبی معاہدے کو معطل کرنے کا فیصلہ بھی شامل ہے۔ کیا امریکی نئی دہلی کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ وہ دو جنوبی ایشیائی ہمسایوں کے درمیان کشیدگی کو دوبارہ بڑھنے سے روکے۔
ٹرمپ کے کئی ممالک کے خلاف ٹیرف اقدامات کے بعد پاکستان نے بھی واشنگٹن سے مذاکرات کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کے وزیر خزانہ نے حال ہی میں واشنگٹن کا دورہ کیا اور وزیر خزانہ اور ٹرمپ کے نمائندہ خصوصی برائے تجارت سے ملاقاتیں کیں۔ اسلام آباد نے اعلان کیا ہے کہ ان مشاورت کے جلد مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ افغانستان کی صورتحال اور افغانستان کے ساتھ مشترکہ سرحدوں پر دہشت گردی کا چیلنج بھی اسحاق ڈار اور مارکو روبیو کے درمیان بات چیت کے دیگر شعبوں میں متوقع موضوع ہے۔ غور طلب ہے کہ پاکستان میں آئی ایس آئی ایس کے ایک کارکن کی گرفتاری پر مارچ کے وسط میں امریکی صدر کی بات چیت انسداد دہشت گردی کے شعبے میں دو طرفہ تعاون میں نسبتاً بہتری کی نشاندہی کرتی ہے۔
5 مارچ 2017ء کو، امریکی کانگریس سے خطاب کے دوران، ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ان کا ملک پاکستان کے ساتھ مل کر کابل ہوائی اڈے پر ہونے والے مہلک حملے کے مرکزی مجرم کو تلاش کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ اس وقت ان کا کہنا تھا کہ داعش کے رکن کو پاکستان نے امریکا کے حوالے کیا تھا اور اس پر امریکا میں مقدمہ چلایا جانا تھا۔ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور حکومت میں اسلام آباد پر سنگین الزامات لگانے اور امریکہ کے ساتھ قابل قبول تعاون نہ کرنے پر پاکستانی حکام کو تنقید کا نشانہ بنانے کے باوجود خاص طور پر پاکستانی حکومت کا شکریہ ادا کیا۔ اسلام آباد، جسے کبھی واشنگٹن کا "نان نیٹو اتحادی" کہا جاتا تھا، ٹرمپ کے پہلے دور حکومت میں امریکہ کے ساتھ انتہائی کشیدہ اور غیر واضح تعلقات کا حامل رہا۔
جب امریکی صدر نے بیانات میں پاکستان پر جھوٹ اور فریب کا الزام لگایا تو انہوں نے دعویٰ تک کیا کہ ان کے ملک نے پاکستان کو دسیوں ارب ڈالر دینے کے باوجود انسداد دہشت گردی کے تعاون میں کوئی نتیجہ حاصل نہیں کیا۔ ٹرمپ کے ان ریمارکس پر پاکستان میں امریکہ کے خلاف مذمت کی لہر دوڑ گئی اور اسلام آباد میں اس وقت کی حکومت نے دونوں ممالک کے درمیان بداعتمادی کی مسلسل فضا کو تسلیم کرتے ہوئے واشنگٹن سے مطالبہ کیا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا احترام کرے۔