قدرت کی بقا اور انسانیت کی ذمے داری: کیا ہم سدھار سکتے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
اللہ کی سب سے ممتاز مخلوق ہونے کے ناتے، انسان کو زمین پر نائب کے طور پر بھیجا گیا۔ اسے وہ عقل و شعور عطا کیا گیا جو اسے دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتا ہے، اور اسے یہ صلاحیت دی گئی کہ وہ زمین پر امن، انصاف اور توازن قائم رکھے اور قدرت کی عطا کردہ نعمتوں کی حفاظت کرے۔ لیکن افسوس، انسان نے اپنی خودغرضی، لالچ اور غیر ذمے دارانہ رویوں کے باعث نہ صرف اپنی ذمے داریوں سے غفلت برتی بلکہ زمین کے قدرتی توازن کو بھی بری طرح متاثر کیا۔
زمین کی تباہی کا آغاز قدرتی وسائل کے بے دریغ استعمال سے ہوا۔ جنگلات کی کٹائی، آلودگی کا بڑھنا اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے زمین کو ماحولیاتی تبدیلی جیسے سنگین مسئلے سے دوچار کردیا ہے۔ قدرتی آفات، جیسے سیلاب، خشک سالی اور طوفان، ان تباہیوں کی ایک جھلک ہیں جو انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں سامنے آئیں۔ اس کے ساتھ ہی، جنگ و جدل، طاقت کی ہوس اور عالمی تنازعات نے نہ صرف لاکھوں انسانوں کی زندگیاں تباہ کیں بلکہ زمین کو خونریزی اور تباہی کے گہوارے میں بدل دیا۔ بے روزگاری، غربت، اور غذائی قلت جیسے مسائل نے انسانی زندگی کو مزید مشکلات سے دوچار کردیا ہے، جبکہ صحت عامہ کے بحران اور تعلیم تک محدود رسائی نے دنیا میں عدم مساوات کو مزید گہرا کردیا ہے۔
یہ حالات دیکھ کر فرشتوں کا وہ خدشہ یاد آتا ہے جو انہوں نے اللہ سے انسان کی تخلیق کے وقت ظاہر کیا تھا
’’کیا تو زمین پر ایسے کو پیدا کرے گا جو اس میں فساد کرے اور خون بہائے؟‘‘
آج کی صورتحال اس خدشے کی سچائی کو ظاہر کرتی ہے۔ انسان کو زمین کی حفاظت، امن کے قیام، اور تمام مخلوقات کےلیے رحمت بننا چاہیے تھا، لیکن اس نے اپنی خودغرضی کی وجہ سے زمین کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔
آج کی دنیا میں انسانیت لالچ اور حرص کی ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں الجھی ہوئی ہے۔ ترقی اور خوشحالی کےلیے مقابلہ ضروری ہے، مگر افسوس کہ ہماری ترجیحات میں مثبت اور تعمیری پہلوؤں کی کمی ہے۔ انسان نے اپنی ذاتی خواہشات کو اجتماعی مفادات پر ترجیح دی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا میں مسائل مزید پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں۔ زمین کے قدرتی وسائل کا بے جا استعمال اور ان کی غیر منصفانہ تقسیم ان مسائل کو مزید بڑھا رہا ہے، جو آج ہمارے سامنے ہیں۔
زمین اس وقت غیر معمولی اور سنگین چیلنجز سے دوچار ہے جو اس کی بقا اور خوبصورتی دونوں کےلیے خطرہ بن چکے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں نے قدرتی توازن کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ گلیشیئرز کا پگھلنا، سمندروں کی سطح کا بلند ہونا اور غیر متوقع موسمی حالات نے زندگی کو مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور نئی بیماریوں کا پھیلاؤ ان مسائل کو مزید پیچیدہ بنا رہا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ زمین پر موجود ہر جاندار بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر متاثر ہو رہا ہے۔
انسان اسلحے اور جنگی ساز و سامان کی دوڑ میں مگن ہے، جو صرف تباہی اور بربادی کی طرف لے جاتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جنگوں نے بڑی تہذیبوں کو زوال پذیر کیا۔ رومی، فارسی، منگول، مغل، عثمانی اور برطانوی سلطنتوں کا زوال انہی جنگی تنازعات کا نتیجہ تھا۔ موجودہ دور میں بھی یہی سلسلہ جاری ہے۔ چین اور امریکا کی سرد جنگ، روس اور یوکرین کا تنازع، غزہ میں اسرائیلی جارحیت، اور کشمیر میں بھارتی مظالم اور مشرق وسطیٰ کی تباہی یہ سب موجودہ مسائل کی جھلکیاں ہیں جو انسانیت کو مزید مشکلات میں مبتلا کر رہی ہیں۔ جوہری ہتھیاروں کا خطرہ انسانیت کےلیے ایک سنگین چیلنج بن چکا ہے، کیونکہ ان ہتھیاروں کی تباہی کی طاقت ناقابل تصور ہے۔ جوہری جنگ کی صورت میں نہ صرف لاکھوں انسانوں کی جانیں متاثر ہوں گی بلکہ اس کا اثر ماحول، معیشت، اور عالمی امن پر بھی گہرے اور طویل المدتی اثرات مرتب کرے گا۔
اگر ہم نے فوری طور پر سنجیدہ اقدامات نہیں کیے تو زمین کی بقا کےلیے خطرہ مزید بڑھ جائے گا۔ پائیدار طرزِ زندگی کو اپنانا، قدرتی وسائل کا ذمے دارانہ استعمال اور عالمی سطح پر تعاون کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ نہ صرف موجودہ نسل بلکہ آنے والی نسلیں بھی ان نتائج سے بچنے کےلیے ایک مضبوط حکمتِ عملی کی متقاضی ہیں۔ عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو روکنے کےلیے جامع اور مربوط اقدامات ضروری ہیں تاکہ زمین کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔
سب سے پہلے، قدرتی وسائل کے دانشمندانہ اور پائیدار استعمال کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ عوام میں شعور اجاگر کیا جائے کہ وہ وسائل کا ضیاع روکیں اور ان کا تحفظ کریں۔ حکومتیں اور ادارے اس حوالے سے مؤثر پالیسیاں مرتب کریں تاکہ قدرتی وسائل کو بچایا جاسکے۔
دوسری جانب، جنگلات کی حفاظت اور ان میں اضافے کو ترجیح دی جائے۔ جنگلات نہ صرف ماحول کی بہتری کےلیے ضروری ہیں بلکہ یہ زمین کی جمالیات اور قدرتی توازن کےلیے بھی اہم ہیں۔ حکومتوں اور نجی اداروں کو شجرکاری مہمات کو فروغ دینا چاہیے تاکہ زمین کی سبز کوریج میں اضافہ ہو۔
تیسری تجویز صنعتی آلودگی کو کم کرنے کی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسی پالیسیاں مرتب کرے جو صنعتوں کو ماحولیاتی آلودگی کو محدود کرنے کی پابند کریں۔ صاف توانائی کے ذرائع، جیسے کہ شمسی توانائی اور ہوا سے توانائی حاصل کرنے کو فروغ دیا جائے تاکہ زمین پر کاربن کے اخراج کو کم کیا جا سکے۔
چوتھی تجویز یہ ہے کہ عالمی سطح پر تعاون کو فروغ دیا جائے۔ ماحولیاتی تبدیلی جیسے چیلنجز کو حل کرنے کےلیے دنیا کے ممالک کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ عالمی معاہدے، جیسے کہ پیرس معاہدہ، پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے تاکہ زمین کی حفاظت کے لیے عالمی سطح پر ایک مؤثر حکمتِ عملی اپنائی جا سکے۔
یہ تمام اقدامات نہ صرف زمین کی بقا کےلیے اہم ہیں بلکہ انسانیت کے بہتر مستقبل کی ضمانت بھی ہیں۔ ہمیں ایک بہتر، محفوظ اور خوشحال دنیا کی تعمیر کےلیے ان مسائل کو حل کرنے کےلیے مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ زمین کی حفاظت اور انسانیت کےلیے امن کا قیام ہمارا مشترکہ مقصد ہونا چاہیے، کیونکہ صرف اسی صورت میں ہم ایک محفوظ اور کامیاب مستقبل کی ضمانت دے سکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: عالمی سطح پر قدرتی وسائل تاکہ زمین کی حفاظت کردیا ہے سے دوچار کہ زمین کو مزید زمین کی اور ان کی بقا دیا ہے
پڑھیں:
آئی فون 17 کی قیمت میں پاکستان میں کونسے منافع بخش کاروبار کیے جا سکتے ہیں؟
پاکستان میں آئی فون 17 کے نئے ماڈلز کی قیمتیں 6 سے 8 لاکھ روپے تک متوقع کی جا رہی ہیں۔ جو عام شہری کے لیے حیرت انگیز حقیقت ہے۔ ایک طرف یہ رقم صرف ایک موبائل فون پر خرچ ہو رہی ہے، تو دوسری جانب اسی رقم سے نہ صرف ایک قابلِ استعمال گاڑی خریدی جا سکتی ہے بلکہ ایک چھوٹا کاروبار بھی شروع کیا جا سکتا ہے۔
مارکیٹ میں دستیاب پرانی گاڑیوں جیسے سوزوکی مہران، دایہ تسو کورے، ہنڈا سٹی یا کلٹس کے پرانے ماڈلز 6 سے 8 لاکھ کے درمیان دستیاب ہیں، جو ذاتی سواری کے لیے کافی بہتر آپشن ہیں۔
ماہرین کے مطابق یہ قیمت اوسط تنخواہ لینے والے پاکستانی کی کئی برس کی جمع پونجی کے برابر ہے، اسی لیے یہ سوال شدت سے اٹھ رہا ہے کہ کیا واقعی ایک موبائل فون اتنی خطیر رقم کا مستحق ہے یا یہ پیسہ کسی زیادہ فائدہ مند مقصد کے لیے بھی کافی ہو سکتا ہے؟
مزید پڑھیں: آئی فون 17 لانچ کرتے ہی ایپل کو بڑا مالی نقصان، وجہ کیا بنی؟
اسی رقم سے اگر سیکنڈ ہینڈ رکشے خریدے جائیں تو مارکیٹ ریٹ کے حساب سے 8 لاکھ میں 2 سے 3 رکشے آرام سے لیے جا سکتے ہیں، جو روزانہ اوسطاً 2,500 سے 3,500 روپے تک کما سکتے ہیں۔ اس طرح ماہانہ آمدنی 1.5 لاکھ سے 2 لاکھ روپے تک پہنچ سکتی ہے۔ واضح رہے کہ یہ ایک رکشے کی آمدن ہے۔
اسی طرح اگر سیکنڈ ہینڈ 70 سی سی بائیکس خریدی جائیں تو اوسطاً 8 لاکھ میں تقریباً 8 بائیکس لی جا سکتی ہیں۔ ان کو اگر آن لائن بائیک رائیڈ سروسز جیسے بائیکیا یا ان ڈرائیور پر لگایا جائے تو ہر بائیک سے 30 سے 40 ہزار روپے تک ماہانہ کمائی ممکن ہے، جس کا مطلب ہے کہ مجموعی آمدنی 3 سے 4 لاکھ روپے ماہانہ تک ہو سکتی ہے۔ یہ وہ آمدنی ہے جو نہ صرف اصل سرمایہ چند مہینوں میں واپس دلا سکتی ہے بلکہ ایک مستحکم روزگار کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔
کاروباری حلقوں کا کہنا ہے کہ یہی رقم چھوٹے پیمانے پر دیگر شعبوں میں بھی لگائی جا سکتی ہے، مثلاً ایک جنرل اسٹور کھولنے، فوڈ کارٹ یا فاسٹ فوڈ کا کاروبار کرنے، کار واش یا لانڈری سروس شروع کرنے یا پھر آن لائن بزنس کے لیے کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی کا سیٹ اپ بنانے میں۔
مزید پڑھیں: ایپل کے آئی فون 17 سیریز لانچ پر سام سنگ کا طنزیہ وار
دیہی علاقوں میں یہی سرمایہ ڈیری فارمنگ، پولٹری یا زرعی مشینری میں لگایا جائے تو نہ صرف سرمایہ جلد واپس آ سکتا ہے بلکہ اضافی منافع بھی ممکن ہے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے بزنس مین علی رضا کے مطابق پاکستان میں 6 سے 8 لاکھ روپے میں کوئی بھی شخص اچھے اور منافع بخش کاروبار شروع کر سکتا ہے۔ اس رقم سے ایک چھوٹا جنرل اسٹور کھولا جا سکتا ہے، فوڈ کارٹ یا فاسٹ فوڈ کا کاروبار شروع کیا جا سکتا ہے، یا پھر کار واش اور بائیک رائیڈنگ سروس میں لگایا جا سکتا ہے۔
دیہی علاقوں میں یہی سرمایہ ڈیری فارمنگ یا پولٹری کے کام میں بھی لگایا جا سکتا ہے، جو جلد منافع دیتا ہے۔ میرے خیال میں یہ پیسہ اگر کاروبار میں لگایا جائے تو اس سے روزگار بھی پیدا ہوتا ہے اور مستقل آمدنی بھی ملتی ہے، جبکہ ایک موبائل فون پر خرچ کرنے سے صرف وقتی فائدہ ہوتا ہے۔ اور شوق ہی پورا کیا جا سکتا ہے۔
کہتے ہیں کہ خاص طور پر نوجوانوں کو چاہیے کہ آئی فون خریدنے کے بجائے کسی بزنس میں انوسٹمنٹ کریں۔ جس سے نہ صرف انہیں فائدہ ہوگا۔ بلکہ مستقبل میں کیا پتا وہ دوسرے نوجوانوں کے لیے روزگار کا ذریعہ بھی بن جائے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئی فون 17 پاکستان منافع بخش کاروبار