این جی اوز، سوشل ویلفیئر کے ادارے، اوزار یا پاور پولیٹکس کے ٹُولز؟
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ این جی اوز ان لوگوں کی خدمت کر رہی ہیں یا ان مقاصد کی ایڈووکیسی کر رہی ہیں، جنکی وہ نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہیں، یا وہ آج بھی جیوپولیٹکل کھیل کی بڑی بساط کا حصہ ہیں۔؟ ہر انسان کی زندگی قیمتی ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کسی ایک ملک کی تحریک میں ایک شخص کی ہلاکت پورے عالمی میڈیا اور این جی اوز کو متحرک کر دیتی ہے، لیکن کبھی کسی اور ملک میں درجنوں افراد کی ہلاکت بھی عالمی ضمیر بیدار نہیں کرتی ہے۔ اب کہیں اسلامی شدت پسند دہشتگرد کہلاتا اور کہیں وہی لوگ مجاہدین یا حریت پسند بنا دیئے جاتے ہیں۔ تحریر: ثقلین امام
کیا آج کے نوجوان جانتے ہیں کہ سرد جنگ کے دوران انٹرنیشنل این جی اوز امریکی جیوپولیٹکل مفادات کو آگے بڑھانے کے سب سے طاقتور ٹولز میں سے ایک تھیں۔؟ جمہوریت اور فری ورلڈ کے نظریات کا “فروغ” تو سنہ 50 کی دہائی سے سرد جنگ کے دوران امریکی-قیادت والی دنیا کی خارجہ پالیسی کے ٹولز چلے آرہے تھے، مگر صدر ریگن کے دور میں نیشنل انڈاؤمنٹ فار ڈیموکریسی جیسے ادارے بنائے گئے، جن کا مقصد بظاہر جمہوریت اور انسانی حقوق کا فروغ تھا۔ لیکن ایک راز یہ بھی تھا کہ ان تنظیموں میں کئی افراد سی آئی اے جیسی انٹیلیجنس ایجنسیوں سے وابستہ یا ان کے ایجنٹوں کے تجویز کنندہ تھے، جو انھیں خفیہ طریقوں سے امریکی پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرتے تھے۔
سرد جنگ کے دوران کیا ہوا؟
• این جی اوز نے سوشلسٹ یا “آمرانہ” حکومتوں کے خلاف اپوزیشن گروپس کو مالی اور لاجسٹک مدد فراہم کی اور سوویت یونین کی اتحادی یا اس کے ساتھ جڑی حکومتوں کو کمزور کیا۔ دراصل ہر وہ ملک جہاں آزاد منڈی کا نظام نہیں ہوتا تھا، اُسے سوشلسٹ یا آمریت کہا جاتا تھا اور جو تحریکیں استعماریت (کالونی ازم) سے آزادی چاہتی تھیں، انھیں بھی سوشلسٹ یا کمیونسٹ تحریکیں کہا جاتا تھا۔
• میڈیا کیمپینز کے ذریعے امریکہ مخالف ممالک میں انسانی حقوق کی حقیقی یا گھڑی گئی مبینہ خلاف ورزیوں کی کہانیوں یا خبروں کو اُچھالا جاتا تھا، لیکن امریکی اتحادی ممالک میں ایسی ہی خلاف ورزیوں کو نظرانداز کر دیا جاتا تھا۔ پاکستان کے جنرل ایوب خان یا جنرل ضیاء الحق جب تک امریکی مفادات پورے کرتے رہے، اُن کے ہر غیر آئینی اور غیر جمہوری اقدام کو درگزر کیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق جب تک امریکی مفادات پورے کرتے رہے، اُن کے ہر غیر آئینی اور غیر جمہوری اقدام کو درگزر کیا گیا۔
• ثقافتی تبادلے اور تعلیمی پروگراموں کے ذریعے اہم خطوں میں مغرب نواز اشرافیہ کو تیار کیا گیا۔ اس کے بارے میں فرانٹز فینن کی کتاب (ریچڈ دی ارتھ) میں ژاں پال سارترے نے اپنے پیش لفظ میں تفصیل سے لکھا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی اشرافیہ کے لوگ استعماری طاقتوں کے نظریات اور خیالات کے بہترین آلۂِ کار ثابت ہوتے ہیں۔
• انسانی ہمدردی کی امداد بعض اوقات اینٹی کمیونسٹ باغیوں کی مدد کا ایک بہانہ ہوتی تھی، جس کی مثالیں خاص طور پر لاطینی امریکہ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ چلی میں آلیندے کی حکومت کے بعد سوشلسٹوں کے قتل عام کی خبریں بہت بعد میں سامنے آئیں۔ ارجنٹائین میں جمہوری عناصر کی گمشدگی اور ہلاکتوں کی تفصیلات بھی بعد میں سامنے آئیں۔ مشرق وسطیٰ میں وہ ممالک جو امریکہ کے حامی ہیں، وہاں کی بدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نظر ہی نہیں آتیں، لیکن امریکہ مخالف حکومتوں کو ہٹلر سے بھی زیادہ انسان دشمن بنا کر پیش کیا جاتا تھا۔ اسی طرح مشرق بعید کے ممالک میں کسی مبینہ سوشلسٹ ملک میں معمولی سا واقعہ بھی مغربی پریس کی ہیڈ لائین بن جاتا تھا، مگر انڈونیشیا میں جنرل سوہارتو کے کُو کے بعد پانچ لاکھ مبینہ “کمیونسٹوں” کے قتل عام کو فرنٹ پیج پر جگہ نہیں ملی تھی۔
• خفیہ ایجنسیوں سے منسلک این جی اوز آزاد اور خود مختار ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتی تھیں۔ اس قسم کی مداخلتوں کو سوویت اثر و رسوخ کے خلاف ضروری کارروائی کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ این جی اوز کے اس طرح کے استعمال سے حقیقی ویلفیئر آرگنائزیشن کے کام اور خفیہ آپریشنز کے درمیان فرق دھندلا ہو جاتا ہے۔ مثلاً تقریباً تیرہ برس پہلے پولیو ویکسینیشن کی ایک کیمپین کو اسامہ بن لادن کا سراخ لگانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس کے بعد پولیو ویکسین کا عملہ انتہاء پسندوں کا جائز ہدف بن گیا۔
آج کے دور میں کیا ہو رہا ہے؟
سرد جنگ کے دوران تیار کیے گئے طریقے آج بھی استعمال ہو رہے ہیں: وینزویلا، ایران اور اس طرح کے دیگر ممالک جنھیں امریکہ کا مخالف سمجھا جاتا ہے، اُن کے خلاف امریکی فنڈڈ این جی اوز اب بھی جمہوریت کے فروغ کے نام پر وہاں کی حکومتوں کے خلاف گروپس کی حمایت کرتی ہیں اور دیگر اقسام کی معاونت بھی مہیا کرتی ہیں۔
سوشل میڈیا پروپیگنڈہ:
جدید دور کی کیمپینز سرد جنگ کے میڈیا حربوں کی طرح مغربی مفادات کے حق میں بیانیے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہیں۔ کلر ریولوشنز اور عرب اسپرنگ کے دوران بیرونی فنڈنگ نے ان تحریکوں کو تقویت دی، جس سے ان کی حقیقی حیثیت پر سوالات اٹھے۔ ان مبینہ ریولوشنز کو سوشل میڈیا کی سہولت کا خاص طور پر اہتمام کیا گیا۔ ان کے “کلسٹرز” بنانے سے لے کر ان کا بیانیہ تشکیل دینے تک مدد دی گئی۔
ہائبرڈ جنگ:
آج کے دور میں این جی اوز اقتصادی پابندیوں اور سائبر آپریشنز کے ساتھ مل کر امریکہ مخالف ریاستوں کو غیر مستحکم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ جعلی یا سچی کہانیوں پر مشتمل امریکہ مخالف حکومتوں کے خلاف بیانیہ تشکیل دیتی ہیں، تاکہ اُنھیں ظالم، انسان دشمن، عورت دشمن یا آزادی دشمن ثابت کیا جا سکے۔ تاہم روس اور چین جیسے ممالک ایسی غیر ملکی این جی اوز کی سرگرمیوں پر سخت کنٹرول کرتے ہیں، انھیں “غیر ملکی ایجنٹ” قرار دے کر ان کی سرگرمیوں پر پابندیاں لگاتے ہیں۔
بیرونی چیریٹی فنڈنگ ویلفیئر کیلئے ہے یا جیوپولیٹکل کنٹرول کا ٹول؟
جمہوریت اور انسانی حقوق کے فروغ کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن سرد جنگ کے دوران مداخلتوں کے حربوں کے واقعات کی کہانیاں آج بھی این جی اوز کے جیوپولیٹکل مقاصد کے لیے استعمال ہونے کی تاریک حقیقت کو بے نقاب کرتی ہے۔ اس وجہ سے شام اور یمن جیسی آج کی جنگوں والے علاقوں میں این جی اوز اکثر ضرورت مند لوگوں کی خدمت اور عالمی طاقتوں کے جیوپولیٹکل مفادات کے درمیان فٹ بال بن کر رہ جاتی ہیں۔
سرد جنگ کے اختتام کے دنوں ہی سے این جی اوز کی روایتی سرکاری فنڈنگ میں ایک نئے سورس کا بھی اضافہ ہوا: کارپوریٹ فنڈنگ اور بہت باوسائل تھنک ٹینکس جو عالمی دنیا کے امور کو چلانے کے لیے ایک اپنا ویژن رکھتے ہیں، جن میں سرِفہرست اوپن ڈیموکریسی فاؤنڈیشن، بل اینڈ میلنڈا فاونڈیشن، فورڈ فاؤنڈیشن، کارنیگی فاؤنڈیشن، راک گیلر فاؤنڈیشن، بلومبرگ فاؤنڈیشن جیسے اربہا ڈالر کے وسائل رکھنے والے ادارے ہیں، جو دنیا کو اپنے تصورات کے مطابق ڈھالنے کی کیمپینز چلاتے ہیں۔ ایل جی بی ٹی کیؤ کی تحریک بھی اسی قسم کی ایک تحریک ہے، جس کی نہ صرف امریکی حکومت سرپرستی کرتی ہے بلکہ یہ نجی ادارے بھی اس کی فنڈنگ کرتے ہیں۔
ہمارے لیے اسکا کیا مطلب ہے؟
اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ این جی اوز ان لوگوں کی خدمت کر رہی ہیں یا ان مقاصد کی ایڈووکیسی کر رہی ہیں، جن کی وہ نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہیں، یا وہ آج بھی جیوپولیٹکل کھیل کی بڑی بساط کا حصہ ہیں۔؟ ہر انسان کی زندگی قیمتی ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کسی ایک ملک کی تحریک میں ایک شخص کی ہلاکت پورے عالمی میڈیا اور این جی اوز کو متحرک کر دیتی ہے، لیکن کبھی کسی اور ملک میں درجنوں افراد کی ہلاکت بھی عالمی ضمیر بیدار نہیں کرتی ہے۔ اب کہیں اسلامی شدت پسند دہشت گرد کہلاتا اور کہیں وہی لوگ مجاہدین یا حریت پسند بنا دیئے جاتے ہیں اور یہ وہاں کا “آزاد میڈیا” اور این جی اوز اپنی ریاستوں کی پالیسیوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر کرتے ہیں! بہرحال سرد جنگ ختم ہوچکی ہے، لیکن اس کے متعارف کردہ حربے آج بھی پوری قوت سے جاری ہیں۔ یعنی عملی طور پر سرد جنگ جاری ہے اور شاید این جو اوز کا استعمال بھی!
(معروف صحافی ثقلین امام لاہور پریس کلب کے صدر رہے ہیں، آج کل ثقلین بی بی سی لندن سے وابستہ ہیں، کہنہ مشق صحافی اور تجزیہ نگار ہیں۔ امریکہ کے استعماری ایجنڈے کی تکمیل کے لئے دُنیا بھر اور خصوصاً تیسری دنیا میں غیر سرکاری تنظیموں کے نام پر سول سوسائٹی کی تنظیمیں، جو ہمارے ہاں این جی اوز کے نام سے معروف ہیں، اس بارے میں ثقلین امام کی چشم کشا تحریر قارئین کے ذوقِ مطالعہ کی نذر)
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: سرد جنگ کے دوران جی اوز کر رہی ہیں جاتا تھا کرتی ہیں کی ہلاکت کرتی ہے کے خلاف کیا گیا کے لیے آج بھی
پڑھیں:
کون ہارا کون جیتا
انسانی تاریخ میں محکمہ پولیس پہلی بار حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں شروع کیا تھا۔ اس وقت پولیس کی ذمے داری اپنے علاقے میں امن و امان برقرار رکھنا، راتوں کو گشت کرنا، جرائم روکنا اور شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کرنا تھا۔ کتابی طور پر آج بھی پوری دنیا میں پولیس اس ذمے داری کو نبھاتی ہے۔ ہماری پولیس کا سلوگن "پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی" بھی اس ذمے داری کی عکاسی کرتی ہے۔
پولیس اہلکاروں کو اپنے فرائض منصبی بجا لانے کے لیے بے پناہ اختیارات حاصل ہیں تاکہ معاشرے کو جرائم سے پاک، دنگا فساد اور لڑائی جھگڑوں سے محفوظ رکھ کر شہریوں کے لیے پر امن ماحول کو یقینی بنائیں۔ پولیس جرائم کی روک تھام کے لیے تمام ممکنہ مختلف اقدامات کرتی ہے، شہریوں کو قانون کی پاسداری کرنے اور اس پر عمل کرنے کی ترغیب دینا، ان کی جان و مال کا تحفظ اور ہر قسم کی ہنگامی صورتحال میں ان کی مدد کرنا، سرزد جرائم کے واقعات کی تحقیقات اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا، سرکاری اور نجی املاک کی حفاظت اور اسے نقصان پہنچانے والوں کے خلاف کارروائی کرنا ان کے فرائض منصبی میں شامل ہیں۔
پولیس افسران اور جوان اگر اپنی ڈیوٹی ایمانداری سے ادا کریں تو معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کی ضامن ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں پولیس عام شہری کی نظر میں خوف کی علامت بن چکی ہے، سیاسی مداخلت اور رشوت کے ناسور نے قومی سلامتی کے ادارے کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے اور جو کسر رہ گئی تھی اسے اقربا پروری اور ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھانے کے علاوہ نہ تو آج تک مناسب وسائل کی فراہمی ممکن ہو سکی اور نہ ہی میرٹ کی بالا دستی، قوانین کی تبدیلی، تربیت کی مناسب سہولتیں اور نہ ہی ٹرانسفر، پوسٹنگ میں اشرافیہ سمیت حکومتی و سیاسی طبقے کے شکنجے سے نجات مل سکی۔ جس کی وجہ سے پولیس عوام کی مدد گار نہیں اشرافیہ، جرائم پیشہ عناصر کی مدد گار بن کر رہ گئی ہے۔
بغیر پولیس ٹاؤٹ کے کوئی شریف آدمی رپورٹ درج کرانے تھانے نہیں جاسکتا۔ اس محکمے سے جڑی کرپشن، رشوت ستانی، تشدد کی بریکنگ نیوز روز ہم اخبارات اور ٹی وی اسکرین پر دیکھتے ہیں۔ پولیس کی اس بگڑی چال نے پورے معاشرے کے سسٹم کو ہلا کے رکھ دیا ہے، سزا کے خوف سے آزاد ظالم دندناتے پھرتے ہیں اور مظلوم انصاف کے حصول کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں۔ پولیس درحقیقت معاشرے کی عکاس ہوتی ہے آپ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا پولیس کا موازنہ کریں تو میری یہ بات سمجھ میں آجائے گی۔
بحیثیت مجموعی خیبرپختونخوا پولیس دوسرے صوبوں کی پولیس سے بہتر ہے اگر چہ تبدیلی سرکار کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے خیبرپختونخوا پولیس وہ پولیس نہیں رہی جن پر پختون معاشرے اور اقدار کی چھاپ نمایاں نظر آتی تھی مگر دہشتگردی کے خلاف فرنٹ فٹ پر لڑنے اور لازوال قربانیوں کی وجہ سے ملکی سطح پر خیبرپختونخوا پولیس کا امیج کافی بہتر ہوا۔ اگرچہ سیاسی مداخلت نے محکمہ پولیس کا بیڑا دوبارہ غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مگر اس کے باوجود کچھ دبنگ اور ایماندار پولیس آفیسر ایسے ہوتے ہیں جو اپنے علاقے میں سیاسی مداخلت، مجرموں اور منشیات فروشوں کی سرپرستی برداشت نہیں کرتے، اس قبیل کے ایک نامور پولیس آفیسر عبدالعلی خان ہیں جو کچھ عرصہ قبل ہمارے علاقے کے تھانہ کالوخان میں ایس ایچ او تعینات تھے تو بلامبالغہ منشیات فروشوں، چوروں اور بدمعاشوں نے علاقہ چھوڑا تھا، میری پہلی ملاقات ان سے رات کے وقت گشت کے دوران ہوئی۔
میں حیران تھا لوگ ان کے ساتھ سلفیاں بنا رہے تھے، ان کے چاہنے والے ان کو پیار سے "گبر" کے نام سے پکارتے ہیں۔کیونکہ وہ اپنے علاقے میں مظلوموں اور علاقے کے حقیقی سفید پوشوں (شریف) کے محافظ و مدد گار رہتے ہیں جب کہ منشیات فروشوں، اجرتی قاتلوں اور چوروں ڈکیتوں کے ساتھ ان کے سرپرستوں کی بھی شامت آجاتی ہے، چاہے سرپرست سیاسی ہو یا غیرسیاسی گبر ان کو خاطر میں نہیں لاتا اور یہی وجہ ہے کہ عوام گبر کے سحر میں ایسے گرفتار ہوتے ہیں کہ جب ضرورت پڑے ان کے حق میں سڑکوں پر آجاتے ہیں۔
آج کل عبدالعلی خان "گبر" تھانہ بڈھ بیر کے ایس ایچ او تعینات ہیں۔ جہاں سابقہ علاقوں کی طرح ان کے چرچے زبان زد عام ہیں۔
پی ٹی آئی کی رکن قومی اسمبلی شاندانہ گلزار صاحبہ کو اپنے علاقے کے مذکورہ ایس ایچ او کے حوالے سے شدید تحفظات ہیں، جس بنا پر انھوں نے صرف احتجاج ہی نہیں کیا بلکہ پریس کانفرنس بھی کی ہے۔اس پریس کانفرنس میں انھوں نے مذکورہ پولیس افسر پر سنگین نوعیت کے الزامات لگائے ہیں اورایس ایچ او کو عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ بھی کیا ہے تاہم ان کا یہ مطالبہ تا حال پورا نہیں ہوا ہے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ جب بھی کوئی باضابطہ شکایت آئی تو اس پر کارروائی کے لیے طریقہ کار موجود ہے، مگر کسی افسر کو زبانی شکایت پر معطل یا تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ادھر پولیس افسر بھی خاصا با اثر لگتا ہے کیونکہ اس کے حق میں مقامی افراد نے کوہاٹ روڈ پر مظاہرہ کیاہے‘مظاہرین پولیس افسر کو ایک فرض شناس شخص قرار دے رہے ہیں‘یوں یہ معاملہ برابر کی چوٹ پر نظرآ رہا ہے۔یہ تنازعہ جتنا میدان پر گرم ہے اس سے زیادہ سوشل میڈیا پر گرم ہے۔ پولیس افسر صاحب ہمیشہ سوشل میڈیا پر اپنے دبنگ اسٹائل، بزرگوں کے ساتھ زمین پر بیٹھنے کی وجہ سے مکمل طور پر چھائے رہتے ہیں۔
آج کل سوشل میڈیا (فیس بک، ایکس اور واٹس ایپس گروپس)میں یہ ڈیجیٹل جنگ جاری ہے۔ سوشل میڈیا رپورٹس کے مطابق تاحال پولیس افسر پولیس ڈیپارٹمنٹ اور سوشل میڈیا یوزرکی نظروں میں کسی ہیرو سے کم نہیں، سوشل میڈیا پر پولیس افسر اور ایک سیاستدان کے مابین ووٹنگ کی گئی تو بہت بڑی اکثریت پولیس افسر کے حق میں ہے۔سوشل میڈیاپر کمنٹس دیکھ کر ہر پولیس آفیسر کو ایس ایچ او موصوف کی مقبولیت پر رشک آتا ہوگا۔ الزامات درست ثابت ہونے پر کارروائی کے کمنٹس بھی دیکھنے میں آئے۔سوشل میڈیا کے علاوہ گراؤنڈ پر یہ صورتحال ہے کہ کوہاٹ روڈ پر دو مظاہرے کیے گئے ایک مظاہرہ رکن پارلیمنٹ کی جانب سے جب کہ دوسرا ایس ایچ او کے حق میں کیا گیا ۔
ایم این اے شاندانہ گلزار کی پریس کانفرنس کے بعد پختونخوا پولیس چیف نے سی سی پی او کو انکوائری کی ہدایت کی، جس میں قانون کے مطابق الزامات کا جائزہ لینے کے لیے پشاور کے ایس ایس پی ٹریفک ہارون الرشید کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی بنائی گئی جو کہ دو دنوں میں انکوائری مکمل کرکے بھیجے گی۔ گو کہ انکوائری کا وقت پورا ہوگیا۔تاہم عقلمند اور ہوشیار لوگ سمجھ چکے ہیں کہ اس لڑائی میں کون جیتا کون ہارا۔