طلبہ یونین… پیپلز پارٹی کے قول و عمل میں تضاد
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
پیپلز پارٹی وطن عزیز میں جمہوریت کی سب سے بڑی علم بردار اور عوامی حقوق کی سب سے بلند آہنگ دعوے دار ہے۔ اس کے چار بنیادی تاسیسی اصولوں… اسلام ہمارا دین ہے۔ جمہوریت ہماری سیاست ہے… سوشلزم ہماری معیشت ہے اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ میں سے کم از کم دو کا تعلق براہ راست جمہوریت اور عوام کے حقوق سے ہے تاہم پارٹی کی اقتدار کے ایوانوں میں آمدورفت کو نصف سے زائد صدی گزر چکی ہے جب کہ پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو قیام پاکستان کے بعد ابتدائی برسوں ہی میں مقتدر اشرافیہ کا حصہ بن گئے تھے اور وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے سے قبل بھی سول اور فوجی حکومتوں میں مختلف وزارتوں کے قلم دان سنبھالے رہے تاہم پیپلز پارٹی کے اس طویل عرصۂ اقتدار کے باوجود آج تک پاکستان کے عوام جمہوریت کے ثمرات سے بہرہ ور ہو سکے ہیں اور نہ ہی بنیادی حقوق تک ان کی رسائی ہو سکی ہے۔ 1970ء کے عام انتخابات سے قبل پارٹی نے ملک سے غربت کے خاتمہ کا نعرہ لگایا اور عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان مہیا کرنے کے وعدہ پر غریب اور مزدور طبقہ سے ووٹ لے کر اقتدار سنبھالا مگر عام پاکستانیوں کو روٹی کی دستیابی میں آسانی ہوئی نہ کپڑا اور مکان فراہم کیا جا سکا۔ غربت کے خاتمہ کا معاملہ بھی پارٹی کے طویل اقتدار میں ’’مرض بڑھتا گیا، جوں جوں دوا کی‘‘ سے مختلف نہیں البتہ اس عرصہ میں بھٹو خاندان کے آبائی محل ’’بلاول ہائوس‘‘ ملک کے کم و بیش تمام بڑے شہروں تک وسعت اختیار کر چکے ہیں… اور زرداری خاندان کا شمار ان برسوں میں ملک کے چند امیر ترین گھرانوں میں ہونے لگا ہے ۔
پیپلز پارٹی جمہوریت اور عوامی حقوق کے معاملہ میں فی الواقع کس قدر سنجیدہ ہے اس کا اندازہ ذرائع ابلاغ کی زینت بننے والی اس خبر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ’’سندھ اسمبلی کے اجلاس میں جماعت اسلامی کے رکن محمد فاروق کی طلبہ یونین کے انتخابات کرانے سے متعلق قرارداد وزیر پارلیمانی امور ضیاء الحسن کی مخالفت پر مسترد کر دی گئی، وزیر موصوف نے اسمبلی کے ایوان میں قرار داد کی مخالفت کے لیے یہ موقف اختیار کیا کہ اس حوالے سے پہلے ہی عمل درآمد ہو رہا ہے، اس لیے وہ قرار داد کی مخالفت کرتے ہیں، وزیر پارلیمانی امور نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا بھی اپنا موقف یہی ہے کہ طلبہ یونینوں کے انتخابات ہونا چاہئیں، یہ بات ہمارے منشور میں بھی شامل ہے جس پر کام ہو رہا ہے، اس لیے میری رائے میں اس قرار داد کی ضرورت نہیں۔‘‘ طلبہ یونین کے انتخابات کرانے سے متعلق جماعت اسلامی کے رکن کی پیش کردہ قرار داد سندھ اسمبلی میں مسترد کئے جانے پر حزب اختلاف کے ارکان نے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ اس مسئلے پر بھر پور احتجاج کیا جائے گا اور سندھ اسمبلی کا گھیرائو بھی ہو گا۔ وطن عزیز کے طلبہ کی نمائندہ اسلامی جمعیت طلبہ نے بھی اپنے جمہوری اور آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے حزب اختلاف کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے احتجاج کا حصہ بننے اور سندھ اسمبلی کی عمارت کا گھیرائو کرنے کا اعلان کر دیا ہے…! یوں اس احتجاج کے خاصا موثر اور زور دار ہونے کے امکانات بہت بڑھ گئے ہیں۔
جہاں تک زبانی جمع خرچ کا تعلق ہے، سندھ کے وزیر پارلیمانی امور ضیاء الحسن صاحب کا صوبے کے نمائندہ ایوان میں دیا گیا بیان بڑی حد تک درست ہے مگر جب عمل کی میزان میں اس بیان کا وزن کیا جائے تو یہ بہت ہلکا محسوس ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو جب ملک کے وزیر اعظم اور سیاہ و سفید کے مالک تھے تو انہوں نے ’’جمہوریت ہماری سیاست ہے‘‘ کے نعرہ کا جو حشر کیا اور ملک کے منتخب جمہوری اداروں، محنت کشوں کی ٹریڈیونینوں اور طلبہ کی نمائندہ یونینوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ پھر 1977ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی اندھیر گردی کے بعد حزب اختلاف کی زبردست احتجاجی تحریک کے سبب ملک پر جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء مسلط ہو گیا جس کے دوران جمہوری اداروں ہی نہیں طلبہ یونینوں کے انتخابات پر بھی پابندی عائد کر دی گئی جس کے خلاف اسلامی جمعیت طلبہ نے ملک گیر سطح پر زور دار احتجاج بھی کیا اور ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے رجوع کیا جس نے اس وقت کے منصف اعلیٰ جسٹس نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں طلبہ کے جمہوری حقوق کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے تعلیمی اداروں میں یونینوں کی بحالی کے حق میں فیصلہ سنایا… مگر اسے ملک و قوم کی بدقسمتی اور عدلیہ کی کھلی بے توقیری کے علاوہ کیا نام دیا جائے کہ آج تک حکمرانوں نے اس فیصلے پر عملدرآمدنہیں کیا اور تاحال کسی کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز بھی نہیں ہو سکا۔ جنرل ضیاء الحق کے طیارہ کے حادثہ کے نتیجے میں 1988ء میں ہونے والے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی ایک بار پھر اقتدار کے ایوان میں پہنچ گئی اور جنرل پرویز مشرف کی فوجی آمریت کے ملک پر مسلط ہونے سے قبل محترمہ بے نظیر بھٹو دو بار وزیر اعظم بنیں مگر انہیں جمہوریت اور جمہوری اقدار و روایات کی سر بلندی کے تمام تر نعروں کے باوجود طلبہ یونینوں کی بحالی کی توفیق نصیب نہ ہو سکی… جنرل پرویز مشرف سے نجات کے بعد اقتدار ایک بار پھر پیپلز پارٹی کی جھولی میں آ گرا اور وزارت عظمیٰ کا قرعہ سید یوسف رضا گیلانی کے نام نکلا… جنہوں نے وزیر اعظم کے منصب کا حلف اٹھانے کے بعد اپنے پہلے ہی خطاب میں قوم سے وعدہ کیا کہ محنت کشوںکی ٹریڈ یونینز اور طلبہ یونینوں کی بحالی ان کی ترجیحات میں سرفہرست ہیں وہ ان کے انتخابات ہر حال میں کروائیں گے کیونکہ یہ جمہوریت کی نرسری کی حیثیت رکھتے ہیں مگر سید یوسف رضا گیلانی تین چار برس تک وزیر اعظم رہنے کے بعد توہین عدالت کے جرم میں سبکدوش کر دیئے گئے مگر ان کے وعدے کی تکمیل مزدور اور طلبہ یونینوں کے انتخابات کی نوبت نہ آ سکی… وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا۔ سید یوسف رضا گیلانی کے بعد وزارت عظمیٰ کا منصب… راجہ رینٹل… کی شہرت رکھنے والے راجہ پرویز اشرف کے حصے میں آ گیا۔ پھر پی ڈی ایم کے دور اقتدار اور موجودہ حکومت میں بھی پیپلز پارٹی شریک اقتدار ہے سندھ کی صوبائی حکومت پر بھی گزشتہ سولہ برس سے پارٹی کا قبضہ ہے… پارٹی کے چیئرمین اور ان کی پیروی میں دیگر پارٹی رہنما بھی گاہے گاہے، خاصے اونچے آہنگ میں طلبہ کے جمہوری حقوق کے نعرے بلند کرتے رہتے ہیں مگر عمل کے میدان میں تاحال ان کی کارکردگی صفر ہے بلکہ اب سندھ اسمبلی میں طلبہ یونین کی بحالی کی قرار داد کو مسترد کر کے پیپلز پارٹی نے اپنا چہرہ خاصا داغ دار کر لیا ہے۔ شاعر مشرق… مصور پاکستان علامہ محمد اقبالؒ نے پیپلز پارٹی کی دو عملی اور قوم و فعل کے تضاد کی اسی کیفیت کی عکاسی کرتے ہوئے فرمایا تھا:
اقبال بڑا اپدیشک ہے، من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: طلبہ یونینوں پیپلز پارٹی سندھ اسمبلی کے انتخابات طلبہ یونین یونینوں کے اور عوام پارٹی کی کی بحالی پارٹی کے ملک کے کے بعد
پڑھیں:
فطری اور غیر فطری سیاسی اتحاد
پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی مرضی ہے کہ ’’ وہ ہم سے اتحاد کرتے ہیں یا نہیں، وہ خود مختار سیاسی پارٹی کے سربراہ ہیں۔ ہم کسی سے سیاسی اتحاد کے لیے زبردستی نہیں کر سکتے۔‘‘ موجودہ حکومت کی ایک اہم ترین سیاسی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ’’ خدا نہ کرے کہ ہم موجودہ حکومت کا ساتھ چھوڑ دیں، ہمارا کوئی نیا سیاسی اتحاد نہیں ہو رہا، اگر ہم نے حکومت سے علیحدگی اختیار کی تو ملک میں نیا بحران پیدا ہو جائے گا اور ملک ایسے بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ حکومت کو ہمارے تحفظات دور کرنے چاہئیں اور ایسا نہ ہونے سے ہی شکایات پیدا ہوتی ہیں اور پیپلز پارٹی کے خلاف منفی بیانیہ بنایا جاتا ہے تو ہمیں بھی بولنا پڑتا ہے۔‘‘
وفاق میں شامل دو بڑی پارٹیوں مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان پنجاب میں پاور شیئرنگ فارمولے پر عمل نہ ہونے سے پہلے سے ہی تحفظات چل رہے تھے کہ اب 6 نہریں نکالنے کے مسئلے نے سندھ میں پیپلز پارٹی کے لیے ایک اور مسئلہ پیدا کردیا ہے اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی سیاسی ساکھ داؤ پر لگ گئی ہے اور پی پی کے مخالفین نے سندھ میں نہروں کی بنیاد پر احتجاجی مہم شروع کی تھی جس کے بعد پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت نے بھی ایک سخت موقف اپنایا کہ نہریں نہیں بننے دیں گے اور سندھ کے حصے کا ایک قطرہ پانی بھی کسی کو نہیں لینے دیں گے۔ وفاق نے کینالز کے مسئلے پر یہ معاملہ مذاکرات سے حل کرنے کی کوشش شروع کی تو سندھ کی تمام قوم پرست جماعتوں نے نہریں نکالنے کے خلاف بھرپور احتجاج، پہیہ جام اور شٹرڈاؤن ہڑتال شروع کردی جب کہ سندھ میں پیر پگاڑا کی سربراہی میں قائم جی ڈی اے پہلے ہی احتجاج کررہی تھیں اور صدر زرداری پر بھی الزامات لگا رہی تھی۔
سندھ بار ایسوسی ایشن بھی اب شہروں کے خلاف احتجاج میں شریک ہو چکی ہے اور سندھ بار نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نہروں کے خلاف ہونے والے دھرنے کو سنجیدہ لے اور نہروں کی تقسیم کا نوٹیفکیشن فی الفور واپس لے ورنہ احتجاج جاری رہے گا۔ پی پی کے چیئرمین بلاول زرداری نے پہلے بھی حیدرآباد کے جلسے میں سخت موقف اپنایا ہے جس کے بعد وفاق نے یہ مسئلہ پی پی کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے رابطے شروع کیے مگر اب یہ مسئلہ پیپلز پارٹی کا نہیں رہا سندھ کی تمام جماعتیں اور وکلا بھی احتجاج میں شامل ہو چکے ہیں۔ ایم کیو ایم بھی اس مسئلے پر سندھ میں ہونے والے احتجاج کی حمایت کر رہی ہے مگر ساتھ میں پیپلز پارٹی پر بھی کڑی تنقید کر رہی ہے جو سندھ میں پیپلز پارٹی کی اپوزیشن اور وفاق میں (ن) لیگ کی اتحادی اور وفاقی حکومت میں شامل ہے مگر وفاقی حکومت سے اسے بھی شکایات ہیں کہ ان کے ساتھ جو وعدے ہوئے تھے وہ پورے نہیں کیے جا رہے۔
اس لیے ہمارے تحفظات دور نہ ہوئے تو حکومت سے اتحاد ختم کر دیں گے۔وفاق میں پیپلز پارٹی کا مسلم لیگ (ن) کے ساتھ یہ تیسرا اتحاد ہے۔ 2008 میں یہ اتحاد ٹوٹ گیا تھا اور پی پی حکومت نے ایم کیو ایم اور (ق) لیگ کو اپنا نیا اتحادی بنا کر اپنی مدت پوری کر لی تھی۔ ایم کیو ایم مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جنرل پرویز کے باعث (ق) لیگ کی اتحادی رہی ہے مگر وہ (ن) لیگ اور پی پی حکومت کا اتحاد ختم بھی کرتی رہی ہے۔ پی پی نے 2008 کے الیکشن کے بعد سندھ میں اپنی حکومت میں ایم کیو ایم کو شامل نہیں کیا اور سولہ برسوں میں پی پی حکومت کی سندھ میں اپوزیشن پی ٹی آئی 2018 میں رہی اور زیادہ تر ایم کیو ایم ہی سندھ میں حکومت سے باہر رہ کر سندھ حکومت کے خلاف اپوزیشن کا کردار ادا کرتی رہی اور اب بھی کر رہی ہے۔
ایم کیو ایم پہلی بار 1988 میں بے نظیر دور میں وفاق اور سندھ میں پی پی حکومت کی اتحادی بنی تھی۔ پی پی اور ایم کیو ایم سندھ کی دو اہم پارٹیاں ہیں اور دونوں کا اتحاد فطری بھی ہے، سندھ میں پیپلز پارٹی دیہی سندھ اور ایم کیو ایم شہری سندھ کی نمایندگی کرتی ہیں۔ دونوں کے حامیوں نے سندھ میں ہی رہنا ہے اور دونوں کا سیاسی اتحاد سندھ کے وسیع مفاد میں ہے مگر پی پی اپنی دیہی سیاست کے باعث ایم کیو ایم کے ساتھ چلنے پر رکاوٹ محسوس کرتی ہے جس کی وجہ سندھ میں 50 سال سے نافذ کوٹہ سسٹم ہے جو دس سال کے لیے بھٹو دور میں نافذ ہوا تھا جسے پیپلز پارٹی ختم نہیں ہونے دے رہی جب کہ ایم کیو ایم اس کا خاتمہ چاہتی ہے کیونکہ اس پر مکمل عمل نہیں ہو رہا اور ایم کیو ایم کے مطابق سندھ میں پی پی کی حکومت شہری علاقوں کی حق تلفی کر رہی ہے۔
شہری علاقوں میں لوگوں کو بسا کر صرف انھیں ہی سرکاری ملازمتیں دی جاتی ہیں۔ سندھ میں ان دونوں پارٹیوں کا اتحاد فطری ہو سکتا ہے مگر نہیں ہو رہا اور اب بھی دونوں ایک دوسرے کے خلاف سخت بیان بازی جاری رکھے ہوئے ہیں اور پی پی، ایم کیو ایم کا موجودہ مینڈیٹ تسلیم بھی نہیں کرتی اور صدر آصف زرداری کے لیے یہ ووٹ لے بھی چکی ہے۔
وفاق میں (ن) لیگ اور پی پی کا سیاسی اتحاد ہے جو مجبوری کا اتحاد ہے۔ پی پی (ن) لیگ کو آڑے ہاتھوں لیتی ہے جس کا جواب مسلم لیگ موثر طور نہ دینے پر مجبور ہے۔ کے پی کے میں تحریک انصاف اور جے یو آئی میں سیاسی اتحاد ہونا بالکل غیر فطری ہے کیونکہ دونوں متضاد خیالات کی حامل ہیں جب کہ پی ٹی آئی تو (ن) لیگ اور پی پی کو اپنا سیاسی مخالف نہیں بلکہ اپنا دشمن قرار دیتی ہے جو ملک کی بدقسمتی اور ملکی سیاست اور جمہوریت کے خلاف ہے اور ملک میں فطری اتحاد برائے نام ہے۔