ممبئی میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے جہاں زیادتی کی شکار بیس سالہ لڑکی کو ریلوے اسٹیشن سے نیم بے ہوشی کی حالت میں برآمد کیا گیا۔

پولیس کے مطابق لڑکی کے جسم سے پتھر اور ایک سرجیکل بلیڈ بھی برآمد ہوا۔ تاہم، پولیس کی ابتدائی تحقیقات میں ایک حیران کن انکشاف ہوا ہے۔ پولیس کا خیال ہے کہ لڑکی نے یہ چیزیں خود اپنے جسم میں داخل کیں۔

واقعے کے بعد پولیس نے ایک آٹو رکشہ ڈرائیور کو زیادتی کے الزام میں گرفتار کرلیا ہے۔

پولیس ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ نوجوان لڑکی نالاسوپارہ میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہتی ہے۔ پولیس کے مطابق اس نے آٹو رکشہ ڈرائیور کی طرف سے زیادتی کا شکار ہونے کے بعد اپنے والدین کی ڈانٹ ڈپٹ اور مار پیٹ سے بچنے کےلیے یہ خوفناک قدم اٹھایا۔

پولیس کے مطابق لڑکی اور آٹو رکشہ ڈرائیور اکٹھے آرنالا بیچ گئے تھے۔ ان کا وہاں رات گزارنے کا منصوبہ تھا لیکن شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے انہیں ہوٹل میں کمرہ نہیں مل سکا اور انہوں نے رات ساحل سمندر پر ہی گزاری۔

پولیس کا خیال ہے کہ اسی دوران لڑکی کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ واردات کے بعد آٹو رکشہ ڈرائیور فرار ہوگیا۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ لڑکی کسی نہ کسی طرح نالاسوپارہ کے ریلوے اسٹیشن تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی، لیکن گھر واپس جانے کے خوف سے، جہاں اسے رات باہر گزارنے اور زیادتی کا اعتراف کرنا پڑتا، اس نے ایک سرجیکل چاقو خریدا اور اسے اپنے جسم میں گھونپ دیا۔ پولیس کے مطابق اس نے اپنے جسم میں پتھر بھی ڈالے۔

درد اور خون بہنے کے بعد لڑکی نے مقامی پولیس سے رابطہ کیا، جنہوں نے اسے اپنی تحویل میں لیا اور آٹو رکشہ ڈرائیور کے خلاف زیادتی کا مقدمہ درج کرلیا۔

بھارتی میڈیا کے مطابق اس سے قبل لڑکی نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ وارانسی میں ایک یتیم ہے اور اپنے چچا کی دیکھ بھال میں رہتی ہے۔ لڑکی نے بتایا کہ وہ اور رکشہ ڈرائیور دونوں اتوار کو ممبئی آئے تھے۔

پولیس کا یہ بھی خیال ہے کہ لڑکی ذہنی صحت کے مسائل کا شکار ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: آٹو رکشہ ڈرائیور پولیس کے مطابق زیادتی کا لڑکی نے کے بعد

پڑھیں:

پنجاب میں  خواتین کے قتل، زیادتی، اغوا ور تشدد کے واقعات میں نمایاں اضافہ

لاہور:

پنجاب میں خواتین کے قتل، زیادتی، اغوا  اور تشدد کے واقعات میں نمایاں اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔

سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او) نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ جنوری تا دسمبر 2024 کے دوران پنجاب میں خواتین پر ہونے والے 4 سنگین جرائم ، جنسی زیادتی، غیرت کے نام پر قتل، اغوا اور گھریلو تشدد  میں نمایاں اضافہ ہوا، لیکن نظامِ انصاف کی ناکامی نے متاثرہ خواتین کو انصاف سے دور رکھا۔

 رپورٹ کی تیاری کے لیے ایس ایس ڈی او نے رائٹ ٹو انفارمیشن (آر ٹی آئی) کے تحت دستیاب ڈیٹا اکٹھا کیا اور اسے اضلاع کی آبادی کے تناسب سے کرائم ریٹ کے فارمولے کے ذریعے تجزیہ کیا۔

رپورٹ کے مطابق لاہور میں جنسی زیادتی کے سب سے زیادہ 532 واقعات رپورٹ ہوئے، جس کے بعد فیصل آباد میں 340 اور قصور میں 271 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ اس کے باوجود سزا کے تناسب انتہائی کم رہا۔

لاہور میں صرف 2 اور قصور میں 6 ملزمان کو ہی مجرم قرار دیا گیا۔ آبادی کے لحاظ سے قصور میں فی لاکھ 25.5 اور پاکپتن میں 25 واقعات رپورٹ ہوئے، جو ظاہر کرتا ہے کہ چھوٹے اور دیہی اضلاع میں خواتین کو خطرات لاحق ہیں۔

غیرت کے نام پر قتل کے جرائم میں فیصل آباد سرِ فہرست رہا جہاں 31 واقعات پیش آئے، جب کہ راجن پور اور سرگودھا میں 15-15 کیسز رپورٹ ہوئے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ان تمام مقدمات میں کسی کو سزا نہیں دی گئی، تاہم فی صد آبادی کے حساب سے راجن پور میں 2.9 اور خوشاب میں 2.5 فی صد کے تناسب نے اس رجحان کی شدت کو اجاگر کیا۔

اغوا کے حوالے سے لاہور میں 4,510 کیسز رپورٹ ہوئے، مگر صرف 5 ملزمان کو سزا ہوئی۔ فیصل آباد میں 1,610، قصور میں 1,230، شیخوپورہ میں 1,111 اور ملتان میں 970 شکایات درج ہوئیں، لیکن کسی کو بھی عدالتوں سے سزا نہیں ہوئی۔آبادی کے تناسب سے لاہور کا کرائم ریٹ فی لاکھ 128.2، قصور 115.8 اور شیخوپورہ 103.6 رہا۔

گھریلو تشدد کے کیسز میں گجرانوالہ نے سبقت لے لی جہاں 561 شکایات موصول ہوئیں، جب کہ ساہیوال میں 68 اور لاہور میں 56 مقدمات درج ہوئے۔ ان تمام واقعات میں بھی سزاؤں کا تناسب صفر رہا اور فی لاکھ آبادی کے لحاظ سے گجرانوالہ میں 34.8 اور چنیوٹ میں 11 کے اعداد و شمار نے اس نوعیت کے جرائم کی سنگینی کو واضح کر دیا۔

ایس ایس ڈی او کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیّد کوثر عباس نے کہا ہے کہ پنجاب پولیس نے رپورٹنگ کے نظام کو بہتر بنایا ہے مگر عدالتوں میں کیسز کا مؤثر تعاقب نہ ہونے کے باعث سزائیں نا ہونے کے برابر ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پولیس کے پاس وہ واقعات بھی پہنچتے ہی نہیں جو متاثرین رپورٹ نہیں کرا پاتے یا روک دیے جاتے ہیں اور اس لیے عدالتی اصلاحات کے ساتھ ساتھ عوامی آگاہی مہمات ناگزیر ہیں تاکہ خواتین بروقت ویمن سیفٹی ایپ اور ورچوئل پولیس اسٹیشن کے ذریعے اپنے کیس درج کرا سکیں۔

ایس ایس ڈی او کے سینئر ڈائریکٹر پروگرامز شاہد خان جتوئی نے بتایا کہ اغوا کے پیچھے انسانی اسمگلنگ، جبری تبدیلی مذہب، تاوان اور زیادتی جیسے سنگین جرائم چھپے ہیں جن کے لیے فوری ریاستی مداخلت درکار ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ رپورٹ میں شامل نقشہ جات اور ضلعی اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ کئی چھوٹے اضلاع بڑے شہروں سے کہیں زیادہ متاثر ہیں۔

رپورٹ کو ایک ہنگامی وارننگ قرار دیتے ہوئے ایس ایس ڈی او نے مطالبہ کیا ہے کہ پولیس، عدلیہ اور متعلقہ ادارے مشترکہ طور پر فوری اصلاحات کریں، قانونی عملدرآمد کو مؤثر بنائیں اور خواتین کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائیں۔

متعلقہ مضامین

  • دریائے راوی میں ایک ہی خاندان کے 3 بچے ڈوب کر جاں بحق
  • لاہور: بندوق کی نوک پر نوجوان لڑکی سے جنسی زیادتی، ویڈیوز بناکر بلیک میل کرنے والا رشتے دار گرفتار
  • پنجاب پولیس کے میٹرک پاس بچوں کیلئے مفت اسکلز ڈیولپمنٹ کورسز کا فیصلہ
  • شادی سے پہلے لڑکی سے اسکی تنخواہ پوچھنے والا مرد، مرد نہیں ہوتا، خلیل الرحمان قمر
  • تھانہ ڈیرہ رحیم کی حدود 141/9L میں نابالغ بچے سے زیادتی کی کوشش
  • فیصل آباد میں گھریلو ملازمہ سے اجتماعی زیادتی، متاثرہ لڑکی حاملہ ہوگئی
  • 7 سالہ بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کی کوشش کرنے والا ملزم گرفتار،
  • پنجاب میں  خواتین کے قتل، زیادتی، اغوا ور تشدد کے واقعات میں نمایاں اضافہ
  • ڈمپر ڈرائیوز کی سنگدلی، ریس لگاتے ہوئے ایک کار کو کچل دیا، کار سوار خاندان شدید زخمی
  • قتل کرنے کے بعد 7 سالہ بھانجی سے زیادتی کرنیوالے ماموں کے سنسنی خیز انکشافات