Express News:
2025-11-19@01:39:35 GMT

وسائل کی زحمت

اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT

curse of resources انگریزی زبان کی ایک اصطلاح ہے جو ایسے ممالک کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو معدنی، قدرتی وسائل سے تو مالا مال ہوتے ہیں لیکن ان کی غربت ، بددیانتی اور بد نیتی ان وسائل کو اِن کے لیے رحمت کے بجائے زحمت بنا دیتی ہے۔

یہ اسی طرح ہے کہ جیسے کسی کمزور، غریب خانماں برباد کا کروڑوں کا انعام نکل آئے تو اس کے فوائد خود اس کو نصیب نہیں ہوتے۔خیر سے ہم بھی اُن ممالک میں شامل ہیں جن کے وسائل ہی اُن کے لیے جان کا روگ بن جاتے ہیں۔

کئی دہائیوں سے اس ملک کے بدنصیب لوگ یہ سُن رہے ہیں کہ پاکستان معدنی دولت اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہے لیکن اس نعمت خداوندی کا کوئی اثر اس ملک کے غریب عوام کے چہروں پر نظر نہیں آتا۔ اب ریکو ڈیک کی مثال لے لیں،سیاست سے لے کر عدالتی کَر و فر تک ، ہر سمت سے اس منصوبے کو تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ ریکوڈیک منصوبے پر کام کرنے والی کینیڈین کمپنی کے افسر اعلیٰ کے حالیہ انٹرویو میں ہمارے لیے سیکھنے کو بہت کچھ ہے لیکن ہم نے پہلے کبھی کسی اپنے پرائے سے کچھ نہیں سیکھا تو اب کیا سیکھیں گے۔انٹرویو سے پہلے کچھ بنیادی معلومات کا ذکر ہو جائے۔ ریکوڈیک Tethyan Magmatic Arc کا حصہ ہے جو دنیا میں تانبے کے ذخائر پر مشتمل سب سے طویل پٹی ہے۔ یہ پٹی وسطی اور جنوب مشرقی یورپ سے شروع ہوکر پاکستان کے راستے پاپوانیوگنی تک پھیلی ہوئی ہے۔

 اب اس منصوبے کی کامیابی کا یقین پیدا ہوا ہے تو سعودی عرب کی فرم ’منارہ منرلز‘ نے حکومت پاکستان سے اس منصوبے کے ’ایکویٹی اسٹیکس‘ خریدے ہیں۔ اس منصوبے پر کینیڈا کی کمپنی بیرک گولڈ (Barrick Gold) کام کر رہی ہے۔

جیسے جیسے دنیا میں برقی گاڑیوں کا رجحان بڑھتا چلا جا رہا ہے ویسے ویسے تانبے کی مانگ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ قابل تجدید توانائی کے ذرایع اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں بھی ان دھاتوں کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ریکوڈیک منصوبے پر کام کرنے والی کمپنی بیرک گولڈ کے سی ای او ’مارک بریسٹو‘ کا حال ہی میں ایک معتبر مغربی جریدے نے تفصیلی انٹرویو شایع کیا ہے جسے پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ بندہ کسی دوسرے ملک کی نہیں بلکہ اپنے ملک کی بات کر رہا ہے۔ مارک بریسٹو نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ ریکوڈیک  ماضی میں سیاسی کھینچا تانی اور بے جا عدالتی مداخلت سے متاثر ہوا ہے لیکن اب تمام معاملات ٹھیک سے چل رہے ہیں۔ لہٰذا یہ کان 2028 میں پیداوار کا آغاز کر دے گی اور تانبے کی مانگ میں مزید اضافہ ہو چکا ہو گا۔ تخمینہ یہ ہے کہ ساڑھے پانچ ارب ڈالر کی لاگت سے کان کا پہلا مرحلہ مکمل ہوجائے گا۔

یہ ابتدائی پیداواری مرحلہ ہوگا جس میں کان سے سالانہ دو لاکھ ٹن خام تانبہ اور 2 لاکھ 50 ہزار اونس سونا حاصل ہوگا۔ اگلے مرحلے میں ساڑھے تین ارب ڈالر کی مزید سرمایہ کاری سے کان کی پیداوار دو گنا ہوجائے گی اور ہر برس 4لاکھ ٹن تانبہ اور 5 لاکھ اونس سونا حاصل ہوگا۔ ’مارک بریسٹو‘ نے یہ بھی بتایا کہ ریکوڈیک میں موجود تانبے کے ذخائر اپنے معیار میں بہت اچھے ہیں جس کے خام تانبے میں خالص تانبے کی مقدار 53 فیصد ہے۔جب یہ کان مزید وسعت اختیار کرکے پوری پیداواری صلاحیت کے ساتھ کام کرے گی تو ہر برس اس سے 90 ملین ٹن خام تانبہ نکالا جائے گا جسے ریفائنری میں قابل استعمال بنایا جاتا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ریکوڈیک کا سارا خام تانبہ بیرون ملک برآمد کیا جائے گا کیونکہ پاکستان میں تانبے کی ریفائنری موجود نہیں۔ موجودہ قیمت کے مطابق عالمی مارکیٹ میں ایک ٹن خام تانبے کی قیمت 7 ہزار ڈالر ہے۔ جس کے مطابق ہر برس 2.

8 ارب ڈالر کا تانبہ برآمد کیا جاسکے گا۔اسی طرح اگر سونے کی قیمت کا اندازہ لگایا جائے تو عالمی مارکیٹ میں سونا 18 سو ڈالر فی اونس ہے، لہٰذا سونا برآمد کرنے سے اضافی 450 ملین ڈالر سالانہ حاصل ہوں گے۔جب کان پوری صلاحیت کے ساتھ کام شروع کردے گی تو اسی حساب سے ملک کے لیے فوائد بھی بڑھ جائیں گے۔انھوں نے بتایا کہ بہتر یہ ہے کہ جب کان 6 لاکھ ٹن سالانہ پیداوار شروع کر دے تو ملک کے اندر تانبے کی ریفائنریاں لگائی جائیں۔

اس طرح خالص تانبہ بیرون ملک فروخت کرنے سے آمدن میں اضافہ ہوگا۔ اس سے بھی اہم بات یہ کہ جب خالص تانبے کی پیداوار شروع ہوجائے گی تو اُن صنعتوں کو بھی فروغ ملے گا جو اپنی مصنوعات میں تانبے کا استعمال کرتی ہیں، یوں معیشت میں مزید بہتری آئے گی۔ اگر ملک تیار مصنوعات بیچتا ہے تو اُس کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں اور ہم اُن ممالک کی صف سے نکل جائیں گے جن کے لیے اپنے قدرتی وسائل مصیبت بن جاتے ہیں۔اُن کا کہنا تھا کہ ریکوڈیک ملک کے ایک دور دراز مقام پر واقع ہے لہٰذا کان کی پیداوار کو لے جانے کے لیے ریلوے لائن کی ضرورت تھی۔ یہ ریلوے لائن پاکستان ریلوے کی مدد سے مہیا کی جا رہی ہے۔ انھوں نے اس بات پر تاسف کا اظہار کیا کہ گزشتہ ایک صدی سے بھی زیادہ عرصہ سے اس علاقے میں ریلوے لائن بچھی ہوئی تھی، لیکن اسے معاشی بہتری کے لیے استعمال ہی نہیں کیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان اب کہیں جا کر اُس مرحلے کے قریب ہے جس پر دوسرے ملکوں میں ڈیڑھ سو سال قبل عمل ہوچکا ہوتا۔ اب ریل کے ذریعے ’تھر‘ کے کوئلہ کو ملک کے اندر اور بیرون ملک پہنچانا بھی ممکن ہوجائے گا۔اُن کا مزید کہنا تھا کہ بھاری ساز و سامان اور مال کو ٹرکوں کے مہنگے ذرایع کے بجائے ریل کے سستے ذریعے سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا ممکن ہو جائے گا۔مارک کریسٹو نے بتایا کہ کان پر بجلی کی ضرورت 300 میگا واٹ سے تجاوز کرجائے گی۔ ابتدائی طور پر مقامی تیل سے چلنے والا 150 میگا واٹ کا پاور پلانٹ کان کی ضروریات پوری کرے گا جب کہ شمسی توانائی بھی استعمال کی جائے گی۔

ملک میں بجلی کی پیداوار طلب سے زیادہ ہے لیکن جس قیمت پر بجلی مہیا ہے، اُسے خریدنا ممکن نہیں۔ کان کو قومی گرڈ کے ساتھ اسی وقت منسلک کیا جائے گاجب کان پوری پیداواری صلاحیت سے کام کرنے لگے گی بشرطیکہ قومی گرڈ کی صلاحیت اور کارکردگی کو قابل قبول حد تک بہتر کردیا جائے۔ متبادل طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ پاور پلانٹ کو تیل کے بجائے مقامی تھر کے کوئلے پر منتقل کردیا جائے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کی پیداوار تانبے کی جائے گا جائے گی ہے لیکن رہا ہے کام کر کے لیے ملک کے

پڑھیں:

برطانیہ میں اسائلم کے نئے قوانین متعارف، پاکستانی پناہ گزینوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

برطانوی حکومت نے ملک کے پناہ گزینی نظام میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں متعارف کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ موجودہ اسائلم نظام جو پہلے سے دباؤ کا شکار ہے، اسے مزید سخت اور مؤثر بنایا جا رہا ہے۔

حکومت کے مطابق نئے اصولوں کا مقصد غیر ضروری درخواستوں کو کم کرنا اور نظام میں شفافیت پیدا کرنا ہے۔ نئے اقدامات کے تحت اب پناہ کا درجہ مستقل نہیں رہے گا بلکہ اسے عارضی بنا دیا جائے گا۔ پناہ لینے والے افراد کو ہر ڈھائی سال بعد اپنے اسٹیٹس کی دوبارہ جانچ کرانی ہوگی تاکہ حکومت یہ طے کر سکے کہ انہیں مزید رہنے دیا جائے یا نہیں۔

یہ بھی پڑھیے: افغان مہاجرین کی وطن واپسی کا سلسلہ جاری، اب تک کتنے پناہ گزین واپس جا چکے؟

اگر ان کے ملک کے حالات بہتر ہو جائیں اور اسے محفوظ قرار دے دیا جائے، تو ان کا اسٹیٹس ختم کیا جا سکتا ہے اور انہیں اپنے وطن واپس بھیجا جا سکتا ہے۔ پناہ گزینوں کو مستقل رہائش دینے کے قوانین بھی سخت کیے گئے ہیں۔

پہلے پناہ حاصل کرنے والا شخص 5 سال بعد مستقل رہائش کے لیے درخواست دے سکتا تھا، لیکن نئے منصوبے کے مطابق یہ مدت بڑھا کر 20 سال تک کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ اس فیصلے سے مستقل طور پر برطانیہ میں بسنے کے خواہشمند پناہ گزینوں کے لیے راستہ پہلے سے کہیں زیادہ مشکل ہو جائے گا۔

سرکاری مالی مدد، جیسے مفت رہائش اور ہفتہ وار الاونس، اب خودکار طور پر ہر پناہ گزین کو نہیں ملے گی۔ حکومت صرف ان افراد کو سہولت دے گی جنہیں واقعی ضرورت ثابت ہوگی۔ جن لوگوں کے پاس قیمتی زیورات یا مہنگی اشیا ہوں، ان کا سامان ضبط کر کے انہی پیسوں سے ان کی رہائش یا خوراک کا انتظام کیا جائے گا۔ البتہ جذباتی اہمیت رکھنے والی اشیا، جیسے شادی کی انگوٹھی، بیشتر صورتوں میں ضبط نہیں کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیے: اسائلم کیسے لیا جاتا ہے، پاکستانی شہری اس کے سب سے زیادہ خواہاں کیوں؟

حکومت نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ اسائیلم کیسز اور اپیلوں کے فیصلے اب تیزی سے کیے جائیں گے۔ ایک نیا نظام متعارف کروایا جائے گا جس کے تحت کمزور اور غیر مضبوط کیسز جلد نمٹا دیے جائیں گے۔ اس اقدام کا مقصد سسٹم میں موجود ہزاروں زیرِ التوا درخواستوں کو جلد نمٹانا ہے۔

ان تبدیلیوں سے بنیادی طور پر وہ لوگ متاثر ہوں گے جو پناہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں یا جنہوں نے پناہ لے رکھی ہے مگر ابھی مستقل رہائش حاصل نہیں کی۔ دوسری جانب وہ افراد جو اسٹوڈنٹ، ورک یا فیملی ویزا پر برطانیہ میں مقیم ہیں، یا جن کے پاس پہلے سے مستقل رہائش یا برطانوی شہریت ہے، ان پر ان قوانین کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ اقدامات عوامی مفاد، ٹیکس دہندگان کے تحفظ اور امیگریشن نظام کو مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہیں۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان پالیسیوں پر تشویش اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدامات پناہ گزینوں کے لیے مزید مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: پوپ لیو کی صدر ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں پر تنقید، تارکین وطن سے سلوک کو غیرانسانی قرار دیدیا

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے دو سال قبل برطانیہ میں پناہ حاصل کرنے والے پاکستانی نوجوان محمد علی کا کہنا تھا کہ ئے سخت اسائیلم قوانین یقینا جو شخص اسائیلم لے چکے ہیں یا لینے کا سوچ رہے ہیں، بری طرح متاثر ہوں گے۔

علی کے مطابق، اب ہر 2 سال بعد میرا اسٹیٹس دوبارہ چیک ہوگا، اور اگر حکومت میرے ملک کو محفوظ قرار دے دے تو مجھے واپس بھیجا جا سکتا ہے۔ ٹھیک ہے کہ اسائیلم بہت سی بنیادوں پر لوگ لیتے ہیں۔ لیکن یہاں ایک عرصہ گزارنے کے بعد اس ماحول میں ایڈجسٹ ہو جانے، اور یہاں مستقبل کی پلاننگ کرنے کے بعد اب یہ سوچ کر میں بہت پریشان ہوں کیوں کہ میری زندگی، تعلیم اور دوست سب کچھ غیر یقینی کا شکار ہوچکے ہیں، میں یہاں بہت مشکل سے بس گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے: اٹلی: کشتی کے ڈوبنے سے کم از کم 26 غیر قانونی تارکین وطن ہلاک، مزید کی تلاش جاری

انہوں نے مزید کہا، مستقل رہائش کے لیے انتظار کی مدت بھی 20 سال ہو گئی ہے، اس کا مطلب ہے کہ میں اپنے مستقبل کے بارے میں نہیں سوچ سکتا۔ سرکاری مدد اور رہائش بھی اب لازمی نہیں، اس سے روزمرہ زندگی مزید مشکل ہو جائے گی۔ 2 سال اتنی مشکل سے گزارے تھے،  اب آکر یہاں کی عادت بھی ہو گئی تھی، اب سوچنے لگا تجا کہ 3 سال بعد پی آر بھی مل جائے گی، لیکن بدقسمتی سے اب ایسا نہیںہو سکتا۔ واپس اپنے وطن آکر بھی اب سب کچھ صفر سے شروع کرنا پڑے گا۔

ایک اور سوال پر ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ عرصے دراز سے رہنے والے تارکین وطن کو بھی خاصہ متاثر کرے گا اور وہ افراد جو ابھی برطانیہ کے اسائیلم کے حوالے سے سوچ۔رہے ہیں انہیں بالکل بھی نہیں سوچنا چاہیے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسائلم برطانیہ پناہ گزین تارکین وطن

متعلقہ مضامین

  • عمران خان اپنی منصوبہ بندی پارٹی کو دے چکے،اب پارٹی نے فیصلہ کرنا ہے؛ علیمہ خان
  • برطانیہ میں اسائلم کے نئے قوانین متعارف، پاکستانی پناہ گزینوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
  • عوام کے مسائل کو وسائل کے اندر رہ کر حل کرنا ہے: فیصل راٹھور
  • سندھ کوئی کیک نہیں ہےکہ اس کو  بانٹ  دیا  جائے، شرجیل میمن
  • کانگو میں تانبے کی کان دھنسنے سے 32 افراد ہلاک
  • افریقی ملک کانگو میں تانبے کی کان میں لینڈ سلائیڈنگ سے 70فراد ہلاک
  • غیر قانونی امیگریشن ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی، وزیرداخلہ
  • آدھار کارڈ کو شہریت کا ثبوت نہیں مانا جا سکتا ہے، الیکشن کمیشن
  • سرحد پار سے دہشت گردی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، وزیر داخلہ
  • جعلی نمبر پلیٹ والی گاڑی بھی یہ نیا سسٹم پکڑے گا، ڈی جی آئی جی ٹریفک کراچی